ذیل کی شکل میں اصول فقہ کے لسانیاتی تفسیری (hermeneutical) فریم ورک کا خاکہ (skeleton) پیش کیا گیا ہے۔ یہ خاکہ ہم نے نہیں بلکہ امام بزدوی (م 482 ھ / 1089 ء) نے اصول فقہ پر اپنی مشہور کتاب اصول البزدوی کی ابتدا میں کھینچا ہے۔ امام بزدوی کی عبارت کا مطلب وہی ہے جو اس خاکے میں دکھایا گیا ہے، اس کے لئے بھی آج کسی کو ان کے الفاظ کی شرح کرنے کی ضرورت نہیں، اس کے لئے ان کی کتاب کے مشہور زمانہ شارح علامہ عبد العزیز بخاری (م 730 ھ / 1330 ء) کی شرح ملاحظہ کرلینا چاہئے (اس فریم ورک میں حنفی اصطلاحات کی چھاپ کا مطلب یہ نہیں کہ دیگر کے ہاں یہ مباحث نہیں اور نہ ہی امام بزدوی نے ان اصطلاحات کو پہلی مرتبہ استعمال کیا)۔
امام صاحب کہتے ہیں کہ الفاظ و معنی کے ربط کا مطالعہ چار جہات کا حامل ہے:
• چونکہ لغت وضعی دلالت سے عبارت ہے، اس لئے سب سے مقدم بحث یہ جاننا ہے کہ لفظ اپنی وضع کے لحاظ کسی حقیقت یا معنی (یعنی موضوع لہ) کے ساتھ کیسی نسبت رکھتا ہے۔ یہ نسبت چار میں بند ہے: خاص، عام، مؤول اور مشترک (درج ذیل تصویر میں انہیں اوپر کی جہت میں دکھایا گیا ہے)۔ یہاں ان کی تعریفات بیان کرنا مقصود نہیں، تاہم وجہ حصر یوں ہے کہ لفظ یا کسی ایک حقیقت کے لئے وضع ہوگا اور یا متعدد۔ اگر ایک کے لئے وضع ہو تو اس کا اطلاق ایک وقت میں اس حقیقت میں شامل صرف کسی ایک معین فرد پر درست ہوگا اور یا متعدد افراد پر۔ پہلی صورت میں اسے خاص کہتے ہیں اور دوسری میں عام۔ اگر لفظ متعدد حقائق کے لئے وضع ہوا تو یا کسی ایک جانب اس کا رجحان اولی ہوگا اور یا ہر جانب مساوی۔ پہلی صورت کو مؤول اور دوسری کو مشترک کہتے ہیں۔ لفظ و معنی کا یہ تعلق لفظ کے انفرادی پہلو کے اعتبار سے ہے اور یہاں متکلم و مخاطب کے اعتبارات زیر بحث نہیں ہوتے۔
• وضعی دلالت کے بعد دوسری جہت کلام میں متکلم کے لحاظ سے لفظ کے استعمال کو دیکھنا ہے (اسے تصویر میں دائیں جانب دکھایا گیا ہے)۔ یہاں دو پہلو ہیں: ایک یہ کہ متکلم لفظ کو لغوی معنی میں برتے گا، یا عرفی میں اور یا پھر شرعی میں (عرفی و شرعی دونوں کو اصطلاحی معنی بھی کہا جاسکتا ہے)۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ کسی حقیقت کے لیے وضع کردہ لفظ کو یا حقیقی معنی میں استعمال کیا جائے گا اور یا مجازی، اسی طرح یا اس کا استعمال صریح ہوگا اور یا بطور کنایۃ۔ ان دونوں پہلووں میں اوور لیپنگ بھی ہے۔ متکلم کے اعتبار سے یہ دوسری جہت الفاظ کی ترکیب میں وقوع پزیر ہوتی ہے۔
• تیسری جہت مخاطب یا سامع کا اعتبار ہے (جسے بائیں جانب دکھایا گیا ہے) اور مخاطب کے لحاظ سے کسی کلام کا وضوح آٹھ درجوں میں ہے: محکم، مفسر، نص، ظاہر، خفی، مشکل، مجمل و متشابہ۔ انہیں وجوہ بیان کہتے ہیں۔ یہ آٹھ درجے دراصل مخاطب کے لئے کلام کے ظاہری معنی سے پیدا ہونے والے ابہام دور کرنے والی بیان کی مختلف سطحیں ہیں جو نسخ، تخصیص، تفسیر وغیرہ سے متعلق ہیں۔ یہ بیان مخاطب کی حاجت ہوتی ہے نہ کہ متکلم کی (بالخصوص جبکہ متکلم قادر، علیم و حکیم ہو)۔ چونکہ لینگویج پبلک ذریعے یا آلے سے عبارت ہے اور خطاب کا مقصد مخاطب کے لئے ما فی الضمیر کا بیان و القاء (communication) ہے، لہذا کمیونیکیشن کا امکان تبھی ہے جب متکلم اپنی مراد کو بیان کرتے ہوئے اس کی اس نوعیت کا لحاظ رکھے اور جب کبھی لفظ کو اس کے حقیقی معنی و لغوی استعمال کے سوا کسی دوسرے پیرائے میں استعمال کرے تو اس کے ساتھ کوئی ایسا قرینہ بھی بیان کردے جس سے مخاطب اس کے ارادے کو بھانپ سکے۔ چنانچہ مخاطب کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ لغوی نظائر اور متکلم کے خطاب میں موجود نظائر کے پیش نظر حتی الامکان ان ابہامات و تضادات کو دور کرے جو ظاھر کلام سے جنم لیتے دکھائی دیتے ہیں۔
• چوتھا پہلو وہ طرق استدلال ہیں جن کے ذریعے الفاظ سے احکام (judgements) اخذ ہوتے ہیں، یعنی وہ طرق جن کے ذریعے استنباط کرکے مخاطب کسی مفہوم و حکم کی نسبت متکلم کی جانب کرکے اس پر ٹھہر سکتا ہے نیز وہ یہ کہنے میں حق بجانب ہوتا ہے کہ الفاظ سے جو مفہوم اس نے اخذ کیا وہ متکلم ہی کی مراد ہے۔ احناف انہیں چار میں بیان کرتے ہیں: عبارت النص، اشارۃ النص، دلالت النص اور اقتضاء النص (انہیں نیچے کی جہت میں دکھایا گیا ہے)۔
درج بالا میں ہم نے اصول فقہ میں زیر بحث آنے والے لسانیاتی فریم ورک کا صرف ایک عمومی خاکہ کھینچا ہے، ہر ہر باب متعدد ابحاث و مسائل سے عبارت ہے۔
لسانیات کو اپروچ کرنے کا یہ ایک منطقی و جامع (holistic) طریقہ ہے جو اصولیین نے اختیار کیا۔ ہمیں یہ ماننے میں کوئی حجاب نہیں کہ ممکن ہے جدید لسانیاتی ابحاث نے لفظ و معنی کے تعلق کی تفہیم میں چند نئے زاویوں کا اضافہ کردیا ہو، لیکن کیا جدید لسانیاتی ابحاث نے کچھ ایسا پیش کردیا ہے جس نے اصول فقہ کے اس لسانیاتی تفسیری فریم ورک (جس کی رو سے اہل اسلام مذھبی متون سے راھنمائی لیتے آئے ہیں اسے) غلط یا بے سود ثابت کردیا ہے؟ جدید فلسفے کے واقفین اس سوال پر بامعنی گفتگو کرنے کے بجائے طنز کرتے ہیں کہ ہم ماضی کی تراث کے بارے میں خوش گمانی کا شکار ہیں نیز جدید فلسفیانہ بحثوں پر ماضی کے مسلم مفکرین کے گویا دقیانوسی خیالات سے حکم لگانا چاہتے ہیں۔ ہمارے یہ دوست جدید فلسفیانہ مباحث کی بنا پر جس احساس کمتری کا شکار ہیں اس کی بنیادی وجہ اپنی تراث سے یا لاعلمی ہے اور یا سرسری واقفیت۔ ہم کہتے ہیں کہ آپ جدید فلسفے سے شغف ضرور رکھئے، اگر اس میں کوئی نیا پہلو بیان ھوگیا ہے اس سے بھی استفادہ کیجئے لیکن یہ بھی جاننے کی کوشش کیجئے کہ ہماری روایت میں مسائل کو اپروچ کرنے کا علمی طریقہ کیا ہے تاکہ آپ جدید مباحث کے اضافوں نیز اس کے پیدا کردہ سوالات کا درست طور پر تعین کرسکیں۔ بصورت دیگر غیر مفید سوالات پوچھ کر نیز تجزیہ کاری کرکے آپ اپنا وقت بھی ضائع کریں گے اور دوسروں کا بھی۔
یہ بھی واضح رہنا چاھئے کہ جو محققین “نظم قرآن” یا ان جیسی دیگر عامیانہ باتوں کو بنیاد بنا کر اصول فقہ کے لسانیاتی ابحاث کو غیر ضروری قرار دیتے ہیں یا اسے اصول فقہ کا متبادل سمجھتے ہیں، انہیں لسانیاتی مباحث کا درک نہیں اور نہ ہی ان کے لسانیاتی تفسیری ڈسکورس میں کوئی ایسی راھنمائی موجود ہے جو جدید لسانیاتی مباحث کا جواب دے سکے۔ جو لسانیاتی ڈسکورس زبان کی اوریجن سے بحث کا آغاز کرتے ہوئے متکلم و مخاطب کے اعتبارات کو زیر بحث نہ لائے، وہ کسی تفسیری فریم ورک کی توجیہہ کا حوالہ نہیں بن سکتا۔
کمنت کیجے