عمران شاہد بھنڈر
ہم جب کبھی اسلام کے کسی پہلو پر تنقید کرتے ہیں، یا اسلام کا آغاز چودہ سو برس قبل سے کرتے ہوئے کوئی مقدمہ پیش کرتے ہیں تو اسلامی ’علما‘ ہمیں قرآن کے حوالے دے کر فوراََ یہ یاد دلاتے ہیں کہ اسلام کا آغاز چودہ سو برس قبل نہیں ہوا تھا، بلکہ تمام انبیا کا ”دین“ ایک ہی تھا اور وہ اسلام ہے۔ اس کے بعد یہ لوگ حضرت آدم سے شروع کرتے ہیں اور حضرت ابراہیم تک پہنچتے ہوئے چودہ سو برس قبل کے مکی اسلام پر پہنچ کر رُک جاتے ہیں۔ ثابت یہ کرتے ہیں کہ تمام انبیا کا ”دین“ ایک ہی تھا، اختلافات بعد میں شروع ہوئے۔ ان ’علما‘ کے اس دعوے کو سچ تسلیم کرتے ہوئے ہمارا یہ فرض ہے کہ زیادہ دور نہ جاتے ہوئے حضرت ابراہیم کو یہودیت، مسیحیت اور مکی اسلام کے ایک اہم پیغمبر کی حیثیت سے تسلیم کریں۔ اس طرح ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا کہ غلامی کا مسئلہ چودہ سو برس قبل کے مکی اسلام کا نہیں ہے، بلکہ حضرت ابراہیم کے اسلام سے چلا آ رہا ہے۔ یعنی غلامی کو ختم کرنے کے ”بتدریج“ عمل کا آغاز حضرت ابراہیم سے ہونا چاہیے تھا، جو نہ ہوا۔ اور اگر خدا نے غلامی کے خاتمے کے “بتدریج” عمل کا آغاز حضرت ابراہیم سے کر دیا ہوتا تو عین ممکن تھا کہ مکی اسلام تک پہنچتے ہوئے غلامی ختم ہو چکی ہوتی ۔تاہم تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ حضرت ابراہیم نے غلامی کے خاتمے کے لیے کسی بھی ”بتدریج“ عمل کا آغاز نہیں کیا تھا۔ مستزاد یہ کہ حضرت ابراہیم نے خود بھی غلام اور لونڈیاں رکھے تھے۔ ان کی اس روایت کو ان کے بیٹے حضرت اسحاق نے قائم رکھا اور بعد ازاں حضرت ابراہیم کی اس روایت کو حضرت اسحاق کے بیٹے حضرت یعقوب نے مزید مستحکم کیا۔ اس ضمن میں بائبل کہتی ہے،
”فرعون نے ساری کی خاطر ابرام کے ساتھ نیک سلوک کیا اور ابرام کو بھیڑ بکریاں، گائے بیل، گدھے گدھیاں، غلام اور کنیزیں اور اونٹ حاصل ہوئے۔“ (کتاب پیدائش، 16:12 (
بائبل میں یہ تفصیل بھی موجود ہے کہ حضرت ابراہیم کی بیوی سارا نے بھی حاجرہ نامی ایک مصری خاتون غلام کے طور پر رکھی ہوئی تھی جو انہوں نے حضرت ابراہیم کو تحفے میں پیش کی تھی۔ ان کے بیٹے حضرت اسحاق کے پاس بھی غلام موجود تھے۔ بائبل کہتی ہے،
”جب اسحاق کے غلام وادی میں پانی کی جستجو میں کنواں کھودنے لگے تو انہیں وہاں ایک پانی کا چشمہ ملا۔“ (کتاب پیدائش، 26: 19)۔
مقصود ان آیات سے یہ واضح کرنا ہے کہ انبیا نے نہ صرف یہ کہ خود غلام اور لونڈیاں رکھیں، بلکہ ان کی اولادوں نے بھی انبیا کی روایت کو استحکام بخشا۔ جن لوگوں نے غلامی جیسی غیر انسانی اور غیر اخلاقی روایت کو ختم کرنا تھا، وہ خود اس میں تسلسل قائم کرتے رہے۔ یہ سلسلہ کبھی رُکا نہیں۔ یہ ایسے ہی ہے کہ ایک شخص چوری کو غلط کہے لیکن خود بھی چوری کرتا رہے۔ وہ زنا کو بُرا سمجھے لیکن خود زنا سے اجتناب نہ کرے۔ چوری کرنے، زنا کرنے اور غلام رکھنے سے ہی چوری، زنا اور غلامی مستحکم ہوتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ غلامی کا یہ سلسلہ کبھی نہیں رُکا بلکہ حضرت محمد تک جاری رہا۔ آنحضرت نے بھی حضرت ابراہیم کے اسلام کو جاری رکھا اور غلامی کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس کی سب سے مضبوط دلیل یہ کہ آنحضرت نے غلام بھی رکھے اور لونڈیاں بھی رکھیں۔ اس عمل کو “بتدریج” ختم کرنا نہیں، بلکہ انبیا کی روایت کو مستحکم کرنا کہتے ہیں۔ ہم یہ بات اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ جب لوگ کسی روایت کو اپناتے ہوئے اس پر عمل کرتے ہیں تو وہی لوگ ہوتے ہیں جو اس روایت کو مستحکم کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر کسی روایت کو ختم کرنا مقصود ہو اور اس کے لیے حالات سازگار نہ ہوں تو پہلا قدم یہ اٹھانا ہوتا ہے کہ خود وہ ’غلط‘ کام کرنے سے اجتناب کیا جائے۔ جو اسلامی “علما” اسلام کا آغاز حضرت ابراہیم سے کرتے ہیں انہیں کئی سوالات کے جوابات فراہم کرنے ہوں گے۔ بالخصوص وہ علما جن کا یہ دعویٰ ہے کہ چودہ سو برس قبل کے اسلام نے غلامی کو ”بتدریج“ ختم کرنا تھا۔ انہیں یہ جواب دینا ہے کہ ”بتدریج“ کا یہ عمل حضرت ابراہیم سے شروع نہ کرنے کی کیا وجوہات ہیں؟جب حضرت ابراہیم نے خود غلام رکھے تھے تو ختم کرنے کا مطلب یہی ہے کہ پہلے اپنے عمل کو غلط مانتے ہوئے اس کو ترک کر دیا جائے۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔
یہاں یہ اہم نکتہ واضح رہے کہ بائبل کے مطابق حضرت ابراہیم اور حضرت مسیح تک بیالیس نسلوں کا فاصلہ ہے جو تقریباََ دو ہزار برس بنتے ہیں۔ مکہ کے اسلام اور حضرت مسیح کے درمیان چھ سو برس کا فاصلہ ہے۔ واضح یہ ہوا کہ حضرت ابراہیم اور حضرت محمد کے درمیان چھبیس سو برس کا فرق ہے۔ ان چھبیس سو برس میں غلامی کو ”بتدریج“ ختم کرنا تو دور، مذہب اس میں انتہا درجے کا اضافہ کرتا رہا۔ وجہ یہ کہ جتنے بھی پیغمبر آئے انہوں نے غلامی کی حمایت کی۔ بائبل میں موجود بیسیوں آیات ہیں جن میں غلامی کی واشگاف الفاظ میں حمایت کی گئی ہے۔ بائبل میں حضرت نوح سے متعلق ایک بہت دلچسپ واقعہ لکھا ہے۔ ملاحظہ ہو،
”نوح نے کاشتکاری شروع کی اور انگور کا ایک باغ لگایا۔ جب اس نے اس کی کچھ شراب پی تو متوالا ہو گیا اور اپنے خیمہ میں ننگا ہی جا پڑا۔ کنعان کے باپ حام نے اپنے باپ کو ننگا دیکھا اور باہر آکر اپنے دونوں بھائیوں کو بتایا۔ تب سِم اور یافت نے ایک کپڑا لیا اور اسے اپنے کندھوں پر رکھ کر پچھلے پاؤں اندر گئے اور اپنے باپ کے ننگے جسم کو ڈھانک دیا۔۔۔۔ جب مَے کا نشہ اترا اور نوح ہوش میں آیا اور اسے پتا چلا کہ اس کے چھوٹے بیٹے نے اس کے ساتھ کیا کیا تو اس نے کہا: کنعان ملعون ہوا! اور وہ اپنے بھائیوں کے غلاموں کا غلام ہو۔“ (کتاب پیدائش، 25-20: 9)۔
یہ ”دین اسلام“ کو سمجھنے کے حوالے سے انتہائی اہم آیات ہیں۔ ان آیات سے یہ واضح ہو گیا کہ حضرت نوح نے اپنے بیٹے کو غلام ہونے کی بد دعا دی تھی۔ اس آیت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جناب نوح چاہتے تھے کہ ان کا بیٹا اپنے ”بھائیوں کے غلاموں کا غلام ہو۔“ یعنی جناب نوح کے بیٹے بھی غلام رکھیں گے اور ان کے غلام بھی غلام رکھیں گے۔ اس آیت سے یہ بھی منکشف ہو رہا ہے کہ حضرت نوح غلامی کو بُرا سمجھتے تھے، اس کے باوجود اس کو اپنے بیٹوں کے لیے قبول کرتے تھے۔ اس سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ غلامی کا خاتمہ انبیا کی ترجیح نہیں تھی، بلکہ غلامی کا تسلسل ان کے پیشِ نظر رہا ہے۔ یہ نکتہ بھی ذہن میں رہے کہ بائبل کے مطابق حضرت نوح اور حضرت ابراہیم کے درمیان تین سو باون برس کا فرق ہے اور حضرت نوح اور حضرت آدم کے درمیان ساڑھے سولہ سو برس کا فاصلہ ہے۔ یہودی روایت میں ہر نبی اپنے قبیلے کا سردار ہوتا تھا اور اس قبیلے کے لیے غیر یہودیوں کو غلام بنانا قابل تحسین عمل تھا۔ یہودیت کے سب سے اہم پیغمبر حضرت موسیٰ نے بھی بنی اسرائیل کو حکم دیا کہ وہ کنواری عورتوں کو لونڈیاں بنائیں اور مَردوں اور دیگر عورتوں کو قتل کر ڈالیں۔ موسیٰ سپہ سالاروں سے مخاطب ہوئے،
”سب لڑکوں کو مار ڈالو اور ہر اس عورت کو بھی مار ڈالو جو کسی مرد کے ساتھ ہم بستر ہو چکی ہے لیکن ہر اس عورت کو اپنے لیے بچائے رکھو جو کبھی کسی مردکے ساتھ ہم بستر نہ ہوئی ہو۔“ (کتاب گنتی، 31: 18)۔
اس طرح موسیٰ نے بھی غلامی کے فروغ میں اپنا حصہ ڈالا۔یہی یہودی روایت مسیحیت میں برقرار رہی۔”نئے عہد نامہ“ میں لکھا ہے،
”خادمو اپنے دنیاوی مالکوں کی صدقِ دل سے ڈرتے اور کانپتے ہوئے فرمانبرداری کرو جیسی مسیح کی کرتے ہو۔“ (افسیوں کے نام خط، 5:6)۔
یہی صورتحال قرآن میں دکھائی دیتی ہے۔ قرآن کہتا ہے،
”اے نبی! ہم نے حلال رکھیں تجھ کو تمہاری عورتیں جن کے مہر تو دے چکا، اور جو مال ہو تیرے ہاتھ کا (لونڈیاں) اور جو ہاتھ لگا دے تجھ کو اللہ۔“ (احزاب، 50 )۔ ترجمہ، شاہ قادر دہلوی۔
جس طرح بنی اسرائیل کے انبیا کو خدا نے لونڈیاں دی تھیں، بالکل ویسے ہی حضرت محمد پر بھی لونڈیاں حلال کر دی گئی تھیں۔ اس سے اسلامی ’علما‘ کی اس بات کو بھی تقویت ملتی ہے کہ یہ (اسلام) ایک ہی دین ہے۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ جن انبیا نے ایک مکروہ رسم کا خاتمہ کرنا تھا وہ اسی روایت پر مسلسل عمل کرتے رہے۔ ہم یہ بات اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ اگر ہم کسی غیر انسانی فعل کا خاتمہ نہ کر سکیں تو کم از کم ہمیں اس کا ارتکاب کر کے اسے مضبوط بنیادیں فراہم نہیں کرنی چاہییں۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ خدا نے غلامی کی رسم کو مضبوط کرنے کے لیے احکامات جاری کیے۔ انبیا کو کُھلی چھوٹ دی کہ وہ اس غلط کام کا ارتکاب کریں۔ کیا غلامی کے اس مکروہ عمل کے ارتکاب سے غلامی کا”بتدریج“ خاتمہ ممکن تھا؟ جب خدا خود ایک عمل کا ارتکاب کر رہا ہے تو وہ عمل ’غلط‘ کیسے ہو سکتا ہے؟ عظیم لوگ جس کام کو بُرا سمجھتے ہوں اور اس کا خاتمہ کرنے کی اہلیت نہ رکھتے ہوں تو وہ کم از کم خود اس بُرے عمل سے دور رہتے ہیں۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ انبیا نے غلامی کی رسم کو اپنے عمل سے دوام بخشا۔ آنحضرت کے صحابہ نے غلاموں اور لونڈیوں کی قطاریں لگا دیں۔ یہی انسانیت کے خلاف سب سے بڑا جرم تھا جس کی بنیادیں “دین” میں پیوست ہیں۔
غلامی کا مطلب ہے کہ انسان کو اس کی انسانی حیثیت سے محروم کر دیا جائے۔ غلام صرف ایک اوزار (Tool) ہوتا ہے، جس کا واحد کام اپنے مالک کے احکامات کی تعمیل کرنا ہوتا ہے۔ اس عمل کا اس کو کوئی صلہ نہیں دیا جاتا۔ ارسطو نے غلاموں کی حالت دیکھنے کے بعد کہا تھا کہ غلام اور حیوان ایک ہی سطح پر ہوتے ہیں۔ اگر کسی غریب سے کہا جائے کہ وہ غلام رکھنا پسند کرے گا یا مویشی؟ تو وہ غریب مویشی کو ترجیح دے گا، وجہ یہ کہ جو جسمانی محنت غلام کرتا ہے وہ غریب انسان خود بھی کر سکتا ہے، لیکن مویشی اس کے دیگر طریقوں سے بھی کام آ سکتا ہے۔جس طرح انسان مویشیوں کے کھانے پینے کی ذمہ داری اٹھاتا ہے، اسی طرح مالک اپنے غلام کے کھانے پینے کی ذمہ داری لیتا ہے۔ مویشی اور غلام دونوں ہی ”اوزار“ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انبیا نے انسان کو ”اوزار“ بنائے رکھنے کی روایت کو مستحکم کیا، اس کو خدائی جواز فراہم کیا۔
مذہبی لوگ جب یہ کہتے ہیں کہ غلامی کی رسم پہلے سے چلی آ رہی تھی تو اس وقت یہ لوگ اس اہم بات کو فراموش کر دیتے ہیں کہ ہزاروں برس سے اسلامی انبیا (حضرت ابراہیم سے حضرت محمد تک) اس رسم کو مضبوط کرنے میں فیصلہ کُن کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ دنیا میں جہاں کہیں ابراہیمی مذہب کی اشاعت ہوئی، وہاں نہ صرف یہ کہ غلامی کی بنیادیں استوار ہوئیں بلکہ غلامی کو الہامی جواز بھی دے دیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ غلامی کے خاتمے کا تصور ہی ختم ہو گیا۔ مکہ کے اسلام کے ٹھیک چودہ سو برس تک غلامی کو قانونی حیثیت سے قبول کیے رکھا اور حضرت ابراہیم کے اسلام کی پیروی میں غلامی تقریباََ ساڑھے چار ہزار برس تک نہ صرف جاری رہی، بلکہ مذہبی حکومتوں نے اسے مزید مستحکم کیا۔المیہ یہ ہوا کہ وہ ”بتدریج“ کبھی نہ آیا جس سے غلامی کو ختم کیا جا سکتا۔ البتہ ابراہیمی اسلام سے مکہ کے اسلام تک غلامی بتدریج مستحکم ہوتی گئی۔
بھنڈرصاحب کی مدلل تحریروں سے ہمیشہ کچھ نیاسیکھنے کوملتاہے٠بہت شکریہ