Home » برِِصغیر کا خاندانی نظام اور زوجین : ایک اہم مسئلہ
سماجیات / فنون وثقافت

برِِصغیر کا خاندانی نظام اور زوجین : ایک اہم مسئلہ

ڈاکٹر حسن الامین

ہمارے برصغیر میں، بالخصوص پاکستان میں، شادی کے بعد بھی شوہر اور بیوی کی توجہ کا اصل مرکز گردوپیش کے رشتہ دار اور دونوں طرف کے والدین اور پھر ان سے جڑے رشتے دار ہوتے ہیں۔ یہ قریبی رشتے داریوں کا ایک پیچیدہ ہئیت عنکبوت ہوتا ہے جس میں میاں اور بیوی ایسے پھنسے ہوتے ہیں کہ جب ان کو اپنے اصل تعلق کا شعوری احساس ہونے لگتا ہے تو بالوں میں سفیدی لگ چکی ہوتی ہے، بچے ایسی حالت میں جوان ہوچکے ہوتے ہیں کہ گھریلو لڑائیوں اور رشتے داروں کے ساتھ مقابلوں میں ان کی نفسیاتی صحت تباہ ہوچکی ہوتی ہے اور اس درمیان میں زیادہ امکان یہی ہوتا ہے کہ میاں بیوی کے درمیان یا تو ازدواجی رشتہ ختم ہوجائے یا پھر مسلسل تناو کے ماحول میں رشتہ ایک عذاب مسلسل کی طرح قائم رہے۔

جو بات سب نئے شادی شدہ جوڑوں کو سمجھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ والدین بنیادی طور پر ان کے خاندان کا لازمی حصہ نہیں ہیں۔ والدین کے حقوق ہیں جو بچوں کو ادا کرنے ہیں لیکن خاندان کے ادارے میں اصل رشتہ میاں اور بیوی کا ہے۔ دونوں طرف کے والدین یا دونوں طرف کے بہن بھایئوں کی حیثیت اس میں بنیادی ستونوں کی نہیں ہے۔ ان کے حقوق کے دائرے الگ الگ ہیں۔ میاں اور بیوی ایک دوسرے کا اس بات پر مجبور نہیں کرسکتے اور ایک دوسرے کی زدوکوب نہیں کرسکتے کہ ان کی طرف کے رشتے داروں کا خیال نہیں رکھا گیا۔

شوہروں کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان کی بیویاں اس لئے نہیں ہیں کہ ان کے والدین کی خدمت کریں گی تو ہی اچھی بیویاں کہلائی جائیں گی ورنہ ان کی زندگی عذاب بنا دی جائے گی۔ میاں اور بیوی کو ایک دوسرے کے والدین کا اچھا خیال رکھنا چاہیے اور ایک دوسرے کے رشتے داروں کی بھی عزت و تکریم کرنی چاہیے لیکن ایسا کرنا کوئی قانونی اور شرعی تقاضا نہیں ہے اور نہ ہی رشتہ داروں کی اس طویل فہرست سے خاندان اور کنبہ وجود میں اتا ہے۔

میاں بیوی کو جو بات اصل میں سمجھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ وہ شادی کرکے ایک نئے خاندان کی بنیاد رکھ رہے ہیں اور صرف اور صرف وہ دونوں اور ان کے تعلق سے پیدا ہونے والے بچے جب تک بالغ نہیں ہوجاتے، ہی اس خاندان کے بنیادی ارکان اور اساس ہیں۔ باقی رشتے داریاں اسی نسبت سے وجود میں اتی ہیں اور اسی نسبت سے ان کے حقوق متعین ہوتے ہیں۔

اس لئے سب دوستوں سے دخواست یہ ہے کہ والدین کی خدمت کی اڑ میں اپنے بیوی اور بچوں کی زندگی کو عذاب اور اپنے گھر کو جہنم نہ بنائیں۔ والدین اور دیگر رشتے داروں کے حقوق کا اگر خیال ہے تو یہ ذمہ داری بیوں پر ڈال کر خود مونچھوں کو تاو نہ دیں اور اس کا ڈھنڈورا نہ پیٹیں کہ اپ والدین کی بڑی خدمت کررہے ہیں۔

اگر خرچہ اٹھا سکتے ہیں تو والدین کو قریب ہی الگ گھر میں رکھیں اور ان کی ضروریات کا خیال رکھیں۔ اگر وہ خود اپنا خیال رکھ سکتے ہیں تو ان کو اپنا خیال خود کرنے دیں۔ اپ کو بیوی کے بل بوتے پر پنے خاں بننے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر بیوی ان کی خدمت کرنے سے انکار کردیتی ہے تو یہ اس کا حق ہے اور اپ کو گنڈاسا اٹھا کر سلطان راہی بننے کی ضرورت نہیں۔ خود اٹھیں اور کمر کس کر ان کی خدمت کریں ، دو چار دنوں میں خود ہی اندازہ ہوجائے کتنے پانی میں ہیں۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں