ایجے تملکران Ece Temelkuran ترکیہ کی صحافی ہیں۔ ان کی کتاب How to lose a country کو کافی شہرت ملی۔ اس کتاب میں کسی ریاست کے جمہوریت سے آمریت کی جانب مرحلہ وار سفر کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ اس کے ساتھ Right Wing Populism کے بارے میں بات کی ہے۔ تملکران نے گوکہ بات ترکیہ کے تناظر میں کی ہے لیکن ترکیہ کے علاوہ دیگر ممالک سے بھی انہوں نے مثالیں پیش کی ہیں۔ تملکران سیکولر نظریات کی حامل ہیں اور وہ ترکیہ کے موجودہ صدر طیب اردوان کی شدید ناقد ہیں۔ ان کو اردوان حکومت کی جانب سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور بعد میں خود بھی اردوان حکومت کے خلاف احتجاج کا حصہ بھی رہی ہیں۔ لہٰذا اردوان کے اوپر ان کی تنقید صرف ایک سیاسی مبصر کے نہیں بلکہ سیاسی حریف کی طور پر بھی ہے۔ لہٰذا تملکران کی اس تنقید کے پیچھے یہ باتیں ذہن نشین رکھنا ضروری ہیں.
تملکران نے بتایا ہے کہ ترکیہ میں اتاترک کے بعد بھی مجموعی طور پر فوج کے بارے میں ایک اچھا تاثر پایا جاتا رہا۔اس میں بڑی تبدیلی ۱۹۸۰ کے مارشل لاء کے بعد آئی۔ اس وقت جمہوریت کی بحالی کے لیے سب سے زیادہ موثر جدوجہد ترکیہ کی لیفٹسٹ سیاسی جماعتوں نے کی۔ لہٰذا ترکیہ میں جمہوریت کی بحالی میں ان کا کردار سب سے زیادہ اہم ہے۔ جہاں تک ۲۰۱۶ کے ناکام ملٹری ٹیک اور کی بات ہے اس بارے میں تملکران کا کہنا ہے کہ جس طریقے سے یہ عمل میں لایا گیا اس پر ہی کافی شکوک پائے جاتے ہیں۔ کیونکہ ماضی میں فوج نے جب بھی قبضہ کرنا ہوتا تو وہ سیاستدانوں کو حراست میں لیتے تھے ، پھر یہ کاروائی صبح کے وقت عمل میں لائی جاتی تھی جبکہ یہ کوشش رات کے پرائم ٹائم میں ہوئی۔ اس اٹیک میں حکومتی سیاست دان ٹی وی چینلز پر آ کر لوگوں سے باہر نکلنے کی اپیل کرتے رہے۔ اس دوران انٹرنیٹ کی سروس بھی سلو نہیں ہوئی۔ یہ سب باتیں اس حوالے سے شک پیدا کرتی ہیں کہ رجیم چینج کی یہ کوشش واقعی ہوئی تھی بھی یا نہیں۔ پھر جو فوجی باسفورس پل پر ملٹری ٹیک اور کا اعلان کر رہے تھے۔ ان کے چہروں پر خوف نمایاں تھا۔ اس لیے بہت سے لوگوں نے سوال اٹھایا آیا اردوان کو ہٹانے کی کوشش ہوئی بھی تھا یا یہ سب پلان تھا۔ گو کہ تملکران نے کوئی خاص نتیجہ اخذ نہیں کیا۔ مگر ان کا کہنا ہے کہ اس کے بعد اردوان نے اپنی آمرانہ اقدامات کو مزید تیز کر دیا۔ تملکران کہتی ہیں کہ اردوان کے لمبے اقتدار کے باعث اب ان کے حامیوں کی ان سے وابستگی فقط سیاسی نہیں بلکہ وہ اس کو مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں۔
تملکران کا کہنا ہے کہ کچھ عرصہ سے ترکیہ سمیت باقی دنیا کے ممالک میں بھی Right Wing Populism بڑھ رہا ہے۔ یہ جمہوریت کے لیے نیک شگون نہیں کیونکہ اس سے جمہوری آزادیوں پر قدغن لگے گی اور جمہوری ریاست کا سفر ایک آمریت کی جانب ہوگا۔
ایک جمہوری ریاست ایک آمریت میں کیسے بدلتی ہے۔ اس کو سات مراحل میں تملکران نے پیش کیا ہے۔
اس سے پہلے کہ ہم سات مراحل کی جانب بڑھیں میں پاپولزم کے اوپر کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ پاپولزم کیا ہے؟ اس بارے میں تملکران نے کوئی گفتگو نہیں کی۔ پھر کیا پاپولزم ہر دفعہ منفی ہی ہوتا ہے؟ اس پر بھی کوئی گفتگو نہیں کی گئی۔ پھر پاپولزم اور جمہوریت کے درمیان تعلق پر بھی کوئی گفتگو نہیں کی گئی۔ جس طرح پاپولزم کو ہمارے ہاں منفی معانی میں لیا جاتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عوام کے اجتماعی شعور کے اوپر انٹلیجنشا کا عدم اعتماد ہے۔ کیا کوئی لیڈر یا جماعت پاپولر ہوئے بغیر جمہوری سیاست میں اکثریت حاصل کر سکتی ہے؟ یقیناً نہیں۔ ہاں اگر پاپولزم کی بنیاد ایک ایسا بیانیہ ترتیب دینا ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں اور اس کی بنیاد پر کوئی جماعت اقتدار میں آ جاتی ہے تو وہ زیادہ دیر اپنے بیانیے کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی جب تک وہ کوئی ڈیلیور نہ کرے۔ اگر ہم ترکیہ کی بات کریں تو ممکن ہے کہ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کسی پاپولسٹ بیانیے پر اقتدار میں آئی ہو مگر اپنے اقتدار کے بعد اس کا انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا اس کی کارکردگی کی وجہ سے ہے۔ اس کو محض پاپولزم کہنا ترکیہ کے عوام کی اکثریت کی رائے سے اظہار نفرت ہے۔ ایسا نہیں کہ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی یا اس کی قیادت پر تنقید کرنا غیر منصفانہ ہے۔ بطور ترکیہ کی شہری اور سیاسی تجزیہ کار ہونے کے تملکران کو پورا حق حاصل ہے کہ وہ اس پر تنقید کریں۔ لیکن محض پاپولزم کی بنیاد پر طیب اردوان کا اپنے اقتدار کو تسلسل دینے والی بات درست نہیں ہے۔ اگر طیب اردوان کو ترکیہ عوام نے اقتدار سے رخصت کیا تو اس کی وجہ ان کی کارکردگی ہوگی بالخصوص ان کی معاشی پالیسیاں یا پھر کچھ لوگ جو کہ ان کی خارجہ پالیسی سے اتفاق نہ کریں تو وہ اس کے خلاف ووٹ کریں۔ یا پھر موجودہ اپوزیشن کوئی متبادل اچھا پلان پیش کرے۔ وہ پلان اگر ترکیہ عوام میں مقبولیت حاصل کرتا ہے تو اس کو پاپولزم ہی کہا جائے گا۔
ترکیہ میں دائیں بازو کی جماعتوں کو مشکلات کا سامنا رہا ہے وہ حکومتی جبر کا شکار ہوئی ہیں لہٰذا ان کے بارے میں ہمدردی کا تاثر پایا جانا کوئی تعجب کی بات نہیں۔ جب بھی کوئی توازن برقرار نہیں رہتا تو اس کے امکانات پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ ایسے ہی جہاں پر دائیں بازو والوں کا زور رہا ہے وہاں پر لیفٹ کی سیاست کے لیے جدوجہد زیادہ کرنی پڑتی ہے تو ساتھ ہی ہمدردی کا عنصر بھی قدرتی طور پر ان کے حق میں جاتا ہے۔ اس بات کو تملکران نے بھی ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ یہاں پر رائٹ ونگ اور مذہبی عناصر کو سیکولر طاقتوں اور اسٹبلشمنٹ کے ذریعے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ گوکہ تملکران کا خیال ہے کہ اردوان اور ان کی جماعت اور حامیوں نے اس جبر کو کچھ زیادہ بڑھا چڑھا کر بیان کیا۔
تملکران نے کتاب میں جہاں اردوان پر تنقید کی ہے تو اس کے ساتھ روسی صدر پوٹن اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ذکر کیا ہے۔ اس کے ساتھ برطانیہ کا یورپی یونین سے الگ ہونے کو بھی ذکر کیا ہے۔ یہ کتاب ۲۰۱۹ میں لکھی گئی تھی تو اس وقت ٹرمپ اپنی پہلی صدارت کا تیسرا سال گزار رہے تھے ، برطانیہ نے بریکسٹ پول کے ذریعے خود کو یورپی یونین سے الگ کیا تھا۔ تملکران کے نزدیک یہ سب پاپولزم کی جیت تھی۔ جس سے ان اقوام کو جمہوری اقدار کو نقصان پہنچا۔
جہاں تک پاکستان کی بات کی جائے تو عمران خان کے اوپر ان کے مخالفین پاپولسٹ ہونے کی پھبتی بالعموم کستے ہیں۔ عمران خان پاپولسٹ ہے اس پر تو مجھے کوئی اعتراض نہیں مگر اصل سوال یہ بنتا ہے کہ کیا پاپولزم ہر وقت منفی ہوتا ہے یا پھر یہ اس کا تعلق ہر ملک اور خطے کی صورتحال سے ہے اور پھر سٹیٹس کو کو شکست دینے کے لیے ضروری ہے کہ کوئی شخص یا جماعت ایک پاپولسٹ بیانیے کو پروموٹ کرے ورنہ طاقتور اشرافیہ اور ایلیٹ کو شکست دینا ناممکن ہے۔ پھر پاکستان کی سیاسی تاریخ میں دیکھا جائے تو یہاں پر پہلے سیاسی لیڈر جو مقبول ہوئے وہ ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ ان کی مقبولیت بھی پاپولزم ہی کی وجہ سے تھی۔ ان کے کچھ دلفریب نعرے ان کی کامیابی کے پیچھے تھے۔ بھٹو صاحب کے بعد دوسری شخصیت جو مقبول ہوئی وہ عمران خان ہیں ان کی بھی اٹھان کچھ پاپولر نعروں پر تھی۔ میاں نواز شریف صاحب کو گوکہ اس طرح سیاسی جدوجہد نہیں کرنی پڑی مگر ان کی سیاسی تاریخ کو پاپولزم سے جدا نہیں کیا جاسکتا جب وہ شریعت اور اسلام کی بات کرتے تھے اور پاکستان میں یہ نعرہ اس وقت بہت بکتا تھا۔۔لہذا عمران خان کو سنگل آؤٹ کرنا غلط ہے۔ ہاں عمران خان کے کیس میں کچھ اور عوامل ضروری شامل تھے جس کی وجہ سے ہماری دانشور ایلیٹ یا انٹلیجنشا سے اس کی کامیابی ہضم نہیں ہوئی کہ عمران خان نے ان کی اکثریت کو نظر انداز کیا اس میں بڑا کردار میڈیا کے بدلتے میڈیم کا تھا جس کی وجہ سے وہ اس طبقے کے محتاج نہیں تھے۔
پہلے باب میں جو کہ پہلا قدم بھی ہے میں تملکران نے بتایا ہے کہ پاپولسٹ لیڈر اپنے جگہ بنانے کے لیے ایک تحریک شروع کرتے ہیں۔یہ عوام کو استعمال کرکے اپنی تحریک کا حصہ بناتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ یہ ان سب کی تحریک ہے جس کو انہوں نے کامیاب بنانا ہے۔ اس طرح یہ معاشرے میں ایک تقسیم بھی پیدا کرتے ہیں اور اپنے مفادات کے مخالف آنے والے عناصر کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ پاپولسٹ لیڈر اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں حالانکہ یہ بات فقط پاپولسٹ سیاستدانوں کے لیے نہیں بلکہ باقی آمروں کے حق میں بھی صادق آتی ہے۔ پاکستان میں آمر اور اشرافیہ اپنی آپ کو قانون سے بالاتر سمجھتی ہے۔ مگر جہاں قانون ان کے مفادات کا تحفظ کرے تو یہ قانون کے احترام کا درس دیتے ہیں پاکستان میں بھی اس کے مظاہر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ تملکران نے اردوان کی مثال دیتے ہوئے لکھا کہ جب وہ انتخابات میں کامیابی حاصل کریں جن کی کریڈیبلٹی پر سوالیہ نشان بھی ہوتا ہے تو اس وقت وہ۔جمہوریت کا درس دیتے ہیں مگر جب عدالتوں نے ان کے مخالف صحافیوں اور سیاسی کارکنوں کو رہا کرنے کا حکم دیا تو اس وقت ان کو قانون کی حکمرانی بری نظر آئی۔ پاکستان میں زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ، جب سپریم کورٹ نے اسپیکر کی رولنگ مسترد کی تو کیونکہ وہ اشرافیہ اور اس کے پروردہ قوتوں کے مفادات کے حق میں تھی تو اس فیصلے کو نافذ کرنے کے لیے اسمبلی کے باہر قیدیوں والی بسیں آ گئیں ،رات بارہ بجے عدالت کھل گئی مگر جب ان ہی ججز نے دو صوبوں میں انتخابات کرانے کا حکم دیا تو اس فیصلے کو نہیں مانا گیا اور وہ چیف جسٹس جو رات کو عدالت لگا کر بیٹھ گئے تھے کی اتنی ہمت نہیں ہو سکی کہ وہ کسی سے پوچھ سکیں کہ ان کے فیصلے پر عمل کیوں نہیں ہوا۔ لہٰذا یہ مسئلہ اردوان کا نہیں بلکہ برسر اقتدار اشرافیہ کا ہے جو فقط اس قانون اور عدالتی حکم کو اہمیت دیتے ہیں جو ان کے مفادات کے حق میں ہو۔
تملکران نے اس باب میں یہ بھی ذکر کیا کہ پاپولسٹ لیڈروں کے حامیوں کا کسی کے حق یا مخالفت میں ہونا بھی اپنے مفادات کے اوپر ہوتا ہے۔ ترکیہ میں اردوان اور اس کی جماعت کو شروع میں گولن موومنٹ کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔جب تک شیخ گولن اردوان کے حامی رہے تو جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے لیے بھی وہ محترم تھے حتی کہ اس مبینہ ملٹری ٹیک اور سے پہلے کی صبح تک وہ شیخ گولن کے لیے نیک خواہشات رکھتے تھے مگر اگلے چوبیس گھنٹوں میں ان کے خیالات مکمل بدل گئے۔ پاکستان میں یہ صورتحال بھی تقریباً ہر جماعت کے بارے میں پائی جاتی ہے مگر تحریک انصاف میں اس کی ریشو زیادہ ہے کیونکہ جتنے نشیب و فراز پچھلے دس بارہ سالوں میں اس جماعت کے ہاں آئے ہیں اس کا تجربہ کسی اور سیاسی جماعت کو نہیں ہوا۔باقی سیاسی جماعتوں پر بھی جب امتحان آیا تو اس کا نتیجہ تحریک انصاف سے مختلف نہیں رہا۔
تملکران نے اس باب میں یہ بھی لکھا کہ پاپولسٹ لیڈروں کے ووٹر اور سپورٹرز ایک بات کہتے ہیں کہ ان کا لیڈر غلط ہو سکتا ہے مگر ان کی رائے کا احترام کیا جائے۔ ٹرمپ کے حامیوں کا بھی یہ ہی رویہ تھا اور اردوان کے حامیوں کا بھی یہ ہی طریقہ ہے۔ دراصل یہ ان لوگوں کا طریقہ ہوتا ہے جس میں اپنے لیے یہ لوگ سپیس پیدا کرتے ہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آئی کہ اس میں غلط کیا ہے۔ یہ جمہوریت کا حصہ ہوتا ہے جہاں مختلف نکتہ نظر رکھنے والے لوگوں کو ان کی رائے رکھنے کی آزادی ہونی چاہیے۔
دوسرا قدم معقول و سنجیدہ باتوں کی جگہ سطحی پن کا آ جانا ہے۔ جو لوگ معقول گفتگو کریں اور اختلاف کریں پاپولسٹ لیڈروں کے حامیوں کی جانب سے ان کو دھمکایا جاتا ہے۔ اگر ان کے لیڈر تاریخ کو جھٹلا دیں اور جھوٹ بولیں تو ناصرف یہ اس کو سچ ثابت کرنے پر تل جاتے ہیں بلکہ جو اس کو جھوٹ بھی کہہ دیں اس کو ان کے حامیوں کا ان کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تملکران نے اردوان کی ایک بات کی مثال دی ہے کہ انہوں نے کہا کہ کولمبس سے تین سو سال پہلے مسلمانوں نے امریکہ کو دریافت کیا۔ اردوان کی اس بات کو درست ثابت کرنے کے لیے ان کے حامیوں نے زمین وآسمان کے قلابے ملائے۔
پاکستان میں عمران خان کے حامیوں کے بارے میں ایسا کہا گیا۔ ممکن ہے یہ بات کسی حد تک درست بھی ہو لیکن عمران خان کی بابت یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان کے اوپر تنقید علم و عقل کی بنیاد پر کم ہوئی ہے جو بھی تنقید ہوئی ہے اس میں ذاتی بغض اور عناد نمایاں تھا۔ پھر جان بوجھ کر غلط بات عمران خان سے منسوب کرکے اس پر تنقید کی گئی۔ ٹرمپ کو بھی میڈیا کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا مگر اس نے بھی ان کی پرواہ نہیں کی اور ان کا مقابلہ کیا۔ لہذا دوسرے زاویے سے ہم کو یہ بھی نظر آتا ہے کہ جہاں پر کچھ عقل و دانش کی مخالفت کا الزام ہے تو وہاں دوسری طرف دانش کی کرپشن یا جانبداری بھی ایک مسئلہ تھا جس کا کچھ لوگوں نے مقابلہ کیا جس میں ہم عمران خان اور ڈونلڈ ٹرمپ کی مثال لے سکتے ہیں۔ ٹرمپ کے پاس مالی وسائل اتنے تھے کہ وہ ان کا بآسانی مقابلہ کر سکتے تھے جبکہ عمران خان کے پاس بے لوث کارکنوں کی شکل میں ایک اثاثہ موجود ہے جس نے اس پروپیگنڈہ کا بھرپور مقابلہ کیا اور اس کے آگے جھکنے سے انکار کر دیا۔
تیسرا قدم ڈھٹائی کا مظاہرہ کرنے میں کسی قسم ہچکچاہٹ محسوس نہ کرنا۔ یہ پچھلے باب سے ملتا جلتا ہے۔ تملکران نے ایک مثال دی ہے ترک حکمران جماعت کی ایک تنظیم نے کہا کہ زمین گول نہیں بلکہ چیٹی ہے۔ زمین کے گول ہونے کا نظریہ فری میسن اور دیگر شیطانی طاقتوں کا ہے۔اگلے روز کئی حکومت کے حامی اخبارات میں اس بات کے حق میں آرٹیکلز لکھے گئے اور اس میں کہا گیا کہ سائنس بس ایک نظریہ ہے جو کہ غلط بھی ہو سکتا ہے۔ اس مثال کو بیان کرکے تملکران نے یہ کہا کہ ایک جمہوری نظام میں ایسی بچگانہ اور بے بنیاد باتوں کو جب حکومتی کمک مل جائے تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس حکومت نے شرم کا لبادہ اتار دیا ہے۔ اب وہاں سے معقولیت کی رخصتی اگلے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ اردوان نے نظریہ ارتقاء کے بارے میں کہا کہ یہ محض ایک نظریہ ہے جس کو سنجیدہ لینے کی ضرورت نہیں۔ اس پر تملکران نے اردوان پر تنقید کی ہے جو کہ میں سمجھتا ہوں کہ نامناسب ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ تملکران نظریہ ارتقاء پر یقین رکھتی ہیں۔ ٹھیک ہے وہ کریں لیکن نظریہ ارتقاء ایک سائنسی حقیقت نہیں ہے یہ ایک مفروضہ ہی ہے۔ اس کا انکار کرنے والوں کو زمین کے چیٹی ہونے کا خیال کرنے والوں کے ساتھ ملانا بھی مناسب نہیں ہے۔ نظریہ ارتقاء کوئی یقینی نظریہ نہیں ہے۔ اس باب میں تملکران نے پوسٹ ٹروتھ کی بھی بات کی ہے جس میں سچائی سے زیادہ جذباتیت پائی جاتی ہے اور پاپولسٹ لیڈروں کا یہ ایک ہتھیار ہوتا ہے جس سے وہ عوامی جذبات سے کھیل کر اپنے مقاصد کی تکمیل کرتے ہیں۔
چوتھا قدم سیاسی اور عدالتی نظام میں تبدیلی ہوتی ہے۔ اس باب میں تملکران نے بتایا ہے کہ کس طرح اردوان اور ان کی جماعت نے مقتدرہ کے کچھ دھڑے جو کہ اچھوت سمجھے جاتے کو ٹارگٹ گیا۔ اس کے علاوہ اردوان کی جماعت نے کچھ سوشل ورکس بھی کیے جیسے خیرات وغیرہ سے لوگوں کی مدد کی مگر آگے جا کر انہوں نے بغیر کسی ابہام سے یہ بات کہنا شروع کر دی کہ اس سماجی خدمت کا اصل محرک سیاسی تھا۔ وہ غریب طبقات میں اپنے لیے حمایت حاصل کرنے کے لیے یہ کام کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ترقیاتی منصوبوں کے بارے میں بھی بتایا کہ ان علاقوں کو ترجیح دی گئی جو کہ حکمران جماعت کے مضبوط گڑھ تھے۔ وہاں زور وشور سے کام کروایا گیا۔ پھر اردوان نے اپنے اردگرد کچھ دولت مند جمع کیے جن کی دولت سے اس نے اپنی جماعت اور سیاسی پوزیشن کے لیے بھرپور مدد لی۔ بعد میں ان میں سے اگر کسی کے ساتھ تعلقات میں پہلے جیسا جوش نہیں رہا تو ان کو بھی دھمکی دی گئی کہ ایک حکم سے ان کی دولت پر سرکاری قبضہ کر لیا جائے گا۔ اس کے نتیجے میں کئی لوگ اپنا سرمایہ ترکیہ سے لیکر باہر چلے گئے۔وقت کے ساتھ اردوان نے اپنے اردگرد کچھ زیادہ وفادار دولتمندوں کو اکٹھا کر لیا ہے۔ اب ان کو پہلے والے لوگوں کی ضرورت نہیں رہی۔ لہذا ایک نئی پولٹیکل کلاس جنم لے چکی ہے جس نے کئی سالوں سے چلتے ترکیہ کے سیاسی ڈھانچے کو بدل کر رکھ دیا ہے۔
سیاسی ڈھانچے میں تبدیلی کے ساتھ ہی عدالتی نظام کو بھی اردوان حکومت نے متاثر کیا ہے۔ جیسے جیسے اردوان کا رویہ آمرانہ ہوتا گیا اس نے اپنے سے اختلاف کرنے والی آوازوں پر سختیاں شروع کر دیں۔ اس نے ان کو قومی مفادات کے خلاف کرنے والا کہا۔ قومی مفادات کے نام پر عدلیہ کو بھی کہا گیا کہ وہ نارمل صورتحال کے برعکس ایسے لوگوں سے سختی سے نمٹے۔
پاکستان میں دیکھیں تو یہاں پر مقتدرہ بہت مضبوط ہے وہ ہی نئی پولٹیکل کلاس کو کھڑا کرتی ہے اور جب وہ کام کی نہ رہے تو ان کی جگہ ایک اور کلاس کو لے آتی ہے۔ پھر ان کے ذریعے سے میڈیا اور عدلیہ کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔ ابھی حال ہی میں کی جانے والی چھبیسویں ترمیم اس کی مثال ہے جہاں عدلیہ کو اپنے ماتحت کر دیا گیا اور یہ کام ان لوگوں سے کروایا گیا جو کہ عوامی نمائندگی سے محروم تھے۔ پھر میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے پیکا ایکٹ لایا گیا۔ دولت مندوں کی مثال میں عمران خان کے تناظر میں جہانگیر ترین اور عبدالعلیم خان کی دی جا سکتی ہے مگر بعد یہ دونوں عمران خان کے خلاف استعمال ہوئے اور مقتدرہ نے ایک نئی جماعت کھڑی کرنے کی کوشش کی جو زیادہ تر عمران خان کے سابقہ ساتھیوں پر مشتمل تھی۔
پانچویں باب میں بتایا ہے کہ آمریت پسند لیڈر اپنے لیے شہری بھی خود ڈئزائن کرتے ہیں۔ اس کے لیے اردوان کی ایک مثال دی ہے کہ ترکیہ میں ۲۳ اپریل کو قومی یکجہتی اور چلڈرن ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ایک روایت ہے کہ اس دن ریاستی ادارے بچوں کے سپرد کیے جاتے ہیں اور باقی لوگ ان کے ماتحت کام کرتے ہیں۔ ۲۰۱۰ میں ایک ایسے موقع پر ایک بچی جو کہ وزیر اعظم بنی ہوئی تھی سے کسی صحافی نے سوال کیا کہ وزیراعظم اردوان ملک میں صدارتی نظام لانا چاہتے ہیں تو بچی نے جواب دیا کہ مجھے جناب وزیراعظم کی بات سے اتفاق نہیں ترکیہ کو پارلیمانی نظام ہی سوٹ کرتا ہے۔ اردوان اس بات پر ہلکا سا مسکرائے مگر یہ مسکراہٹ اپنے اندر تلخی لیے ہوئے تھی۔ انہوں نے اپنے وزیر تعلیم کو دیکھا جس میں واضح پیغام تھا۔ اس کے بعد تملکران نے ۲۰۱۸ کی ایک ایسی تقریب ہوئی جس میں ایسے بچوں کا انتخاب کیا گیا جن کو سوالات پہلے سے رٹائے گئے تھے۔ ہمارے ہاں ایسی مثال آمروں اور ان کے ترجمانوں کے ہاں ملتی ہیں۔ بلکہ کچھ سیاستدانوں نے تو صحافی بھی رکھے ہوتے ہیں جو مخالفین سے مخصوص قسم کے سوالات کرتے ہیں اور حامیوں سے بھی مخصوص سوال کرتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں فوجی ترجمانوں کی پریس کانفرنس کے احوال ہوں یا پھر یونیورسٹیوں میں ان کا جانا ان سب کو مینج کیا جاتا ہے۔ بلکہ نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کے انٹرویوز میں سوالات بھی پہلے سے معلوم ہوتے ہیں۔ عمران خان کے بارے میں ایسی مثال نہیں ملتی ان کے مخالف صحافی بھی اس کی گواہی دے چکے ہیں۔
تملکران نے اس باب میں ایک اور بات کی ہے کہ اب ترکیہ میں ایک بڑی تبدیلی آ رہی ہے کہ خواتین کی بہت سی پوزیشنز جن پر پہلے سیکولر سوچ والی خواتین تھیں اب وہاں پر سکارف پہننے والی عورتیں جگہ لے رہی ہیں۔ یہ سب کچھ حکومت کی چھتری تلے ہو رہا ہے۔ گو کہ حکومت کے اس طرز عمل پر تنقید کی گنجائش موجود ہے مگر اردوان حکومت کی پالیسی اس لحاظ سے ماضی کی سیکولر حکومتوں سے مختلف ہرگز نہیں ہے۔ تملکران نے یہ بھی لکھا ہے کہ ترکیہ میں اگر تو آپ اردوان اور ان کی پالیسیوں کے بارے میں اچھے خیالات کا اظہار کریں تو بھلے آپ کسی بھی کردار کے حامل ہوں۔وہ خاتون سکرٹ پہنے یا پھر وہ کوئی واہیات سرگرمیوں میں ملوث کیوں نہ ہو اس سے اردوان کے حامیوں کو کوئی شکایت نہیں لیکن اگر آپ اردوان کے ناقد ہیں تو یہ لوگ آپ پر عرصہ حیات تنگ کر دیں گے۔
اس باب میں ایک اور بڑی اہم بات تملکران نے ان سرکاری افسروں اور ملازموں کے بارے میں کی ہے جو دوران ملازمت کسی پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑتے ہیں تو ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے اس سفاکانہ کارروائیوں پر اگر کوئی سوال کرے تو ان کے دو ہی جواب ہوتے ہیں کہ وہ تو حکم کے پابند تھے یا پھر جن کے خلاف کارروائی ہوئی وہ اس کے حقدار تھے۔ لیکن بعد میں جب سیاسی فضا تبدیل ہوتی ہے اور ماضی کی یہ پالیسی اپنی وقعت کھو دیتی ہے تو اس وقت یہ اپنے کیے پر کچھ نادم ہوتے نظر آ رہے ہوتے ہیں اور ان کی خواہش ہوتی ہے کہ جن لوگوں پر انہوں نے مظالم ڈھائے وہ اس کو بھول جائیں۔
پاکستان کے اندر بھی کچھ معاملات ایسے ہی ہیں۔ جو ظلم وزیادتی کا بازار پچھلے تین سال سے گرم ہے فی الحال ظلم ڈھانے والے کسی افسر یا سپاہی کو احساس ندامت نہیں مگر جب بعد میں اوپر پالیسی تبدیل ہوگی تو یہ لوگ اپنے کیے کو ایسی تاویلیں دے کر ہی صاف کرتے ہیں بدقسمتی سے پچیس مئی دو ہزار بائیس کو جن پولیس والوں نے تحریک انصاف کے کارکنوں پر ظلم کا بازار گرم کیا بعد میں تحریک انصاف صوبائی حکومت حاصل کرنے کے بعد ان کے خلاف کاروائی نہیں کرسکی۔ یہ نظام کی خرابی کے ساتھ تحریک انصاف کی ایک بڑی ناکامی ہے۔
جب ظلم و جبر کا بازار گرم ہو تو مقابلہ کرنے کے لیے ایک حکمت عملی یہ اختیار کی جاتی ہے کہ مظلوم عوام ظالم حکمرانوں کے مظالم اور ان کی باتوں پر ہنستے ہیں۔ یہ اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ اب ہمیں تمہاری کوئی پرواہ نہیں۔ یہ ظالم و جابر حکومت کو مزید اشتعال دلاتا ہے لیکن ساتھ ہی ایک طرح سے اس کی شکست کا اعتراف بھی ہوتا ہے۔ تملکران کہتی ہیں کہ یہ بطور حکمت عملی کے تو ٹھیک ہے لیکن جب قوم اس کو مسلسل عادت بنا لے تو یہ کوئی نیک شگون نہیں بلکہ یہ اجتماعی لاپرواہی اور جدوجہد سے فرار کی علامت ہے۔ چھٹے مرحلے میں تملکران نے اس کو ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ جب عوام اپنے اوپر ڈھائے مظالم سے بے پرواہ ہو جائے تو اس کے جواب میں آمر مزید دلیر ہو جاتے ہیں اور وہ اپنے قبضے کو برقرار رکھنے کے لیے ظلم کا نیا باب کھول دیتے ہیں جس سے پچھلے مظالم نارمل اور معمولی نظر آتے ہیں۔ تملکران کا ماننا ہے کہ آمروں کے اقدامات پر ہنسنا یا ان کا مذاق اڑانے سے ان کا خوف ختم ہو جاتا ہے اور عوام میں اطمینان اور کانفیڈنس آتا ہے یہ امید کی ایک کرن بھی ہے کہ معاشرہ ابھی تک مایوس نہیں ہوا لیکن اس حکمت عملی کو مسلسل اپنانے سے آمر مزید نڈر ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا حساسیت کو برقرار رکھنے کے لیے ان مظالم کو ہنس کر برداشت کرنا ہر وقت خطرے سے خالی نہیں ہے۔ تملکران نے اپنی ایک ایرانی دوست کے بارے میں بتایا جس کو ایرانی حکومت پر تنقید کی وجہ سے ملک چھوڑنا پڑا۔ اس کو ایران کے حکومتی میڈیا نے بیرونی اہلکار کہا وہ کہتی ہیں کہ ہم ان باتوں پر پہلے ہنستی تھیں مگر اس کا کہنا تھا کہ ہمارا ان باتوں پر ہنسنا کہیں ان کو مزید دلیر نہ کردے اور یہ کسی نئے اور مزید گھناؤنے الزام کے ساتھ ہم پر حملہ آور نہ ہوں۔
اس باب میں تملکران نے اردوان کے کچھ ساتھیوں پر نام لیے بغیر الزام لگایا ہے کہ وہ بچوں کے ساتھ زیادتی جیسے گھناؤنے جرائم میں ملوث تھے مگر ان کو حکومت کا تحفظ حاصل تھا۔وہ علاقہ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کا مضبوط علاقہ تھا جس کے ہوسٹل میں یہ واقعہ ہوا۔ لیکن جب وہاں کے صحافیوں نے اس پر شور مچایا تو بجائے اس کے خلاف کاروائی کرنے کہ اردوان حکومت نے ان صحافیوں کو گرفتار کیا جنہوں نے اس المناک واقعے کی خبر دی تھی۔ بعد میں اس ہی ادارے جس میں بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا کو حکومتی ارکان نے سراہا تو ایسی باتوں پر ہم ہنسیں یا پھر روئیں۔ ایسی باتوں پر آپ لاجواب ہو جاتے ہیں۔ ایسی بے ہودگی ہمارے لیے امتحان ہوتی ہے اور یہ ہمارے پیمانہ صبر کے لیے کڑا وقت ہوتا ہے کہ ایسی صورتحال میں کسی طرح کا ردعمل دیا جائے۔
جب یہ آمر اپنے سے مختلف خیال رکھنے والے شہریوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیتے ہیں تو بہت سے لوگ اپنی بھلائی اس ملک سے فرار میں ہی سمجھتے ہیں اور یہ ان آمروں کا آخری وار ہوتا ہے۔ مطلب ملک میں Equation ان کے حق میں چلی جاتی ہے۔ جب آپ کے بیشتر مخالفین کو ملک چھوڑنا پڑے تو یہ ملک ان کے لیے مزید محفوظ پناہ گاہ بنتے ہیں اور ان کو اپنا حکم جاری کرنے میں رکاوٹوں میں کمی آتی ہے۔ یوں یہ اپنا الگ ملک بناتے ہیں یہی اس سفر کا ساتواں مرحلہ ہے۔ تملکران کہتی ہیں کہ جب آپ کے بچوں کا مستقبل داؤ پر لگنے کا خدشہ ہو، خود آپ کی اپنی جان بھی محفوظ نہ ہو تو اس وقت آپ یہ ہی فیصلہ کرتے ہیں کہ یہ ملک میرا نہیں ہے اور آپ ملک سے نکل جاتے ہیں۔ تملکران کہتی ہیں کہ آمروں کے خلاف جدوجہد کرنے والے لوگ موت یا ریپ کی دھمکیوں سے اتنا نہیں ڈرتے جتنا اس تمسخر سے ڈرتے ہیں جن کا ان کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس پر مجھے یاد آ گیا کہ جب چھبیس نومبر کو اسلام آباد میں خون کی ہولی کھیلی گئی تو چند لوگ بے ضمیر لوگ اس پر احتجاج کرنے والوں کا تمسخر اڑا رہے تھے کہ وہ بھاگ گئے حالانکہ وہ کوئی مسلح جنگ لڑنے نہیں گئے ہوئے تھے۔ ایسا ہی صورتحال کا تملکران نے ذکر کیا اور بتایا ہے کہ جب آمر ہر اصول پامال کرکے آپ کو کچل رہا ہو تو پھر اس کا مقابلہ کرنے کے لیے آپ کو بھی کچھ غیر روایتی طریقوں کو اپنانا پڑتا ہے، اگر فقط زبانی جمع خرچ اور اصولوں کی پاسداری کا نعرہ لگا کر آپ اچھے بچے بننے کی کوشش کریں تو یہ آمر اس کو اپنے لیے کوئی خطرہ محسوس نہیں کرتے۔
پاکستان میں جس طرح سے لوگ ملک چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں اور یہاں جس طرح اس جبر کا مقابلہ کرنے والوں کے ساتھ تضحیک آمیز رویہ اختیار کیا جاتا ہے اس صورتحال کا تملکران نے بہت زبردست نقشہ کھینچا ہے۔
تملکران نے درست کہا ہے کہ آپ کی اپنے ملک سے وفاداری کچھ عوامل پر ہوتی ہے۔ لیکن جب ملک کی مقتدر اشرافیہ آپ سے سہولیات چھین لے اور آپ کا اور آپ کے بچوں اور گھر والوں کا مستقبل خطرے میں ڈال دے تو اس ملک کو اپنا ملک نہیں کہا جا سکتا بھلے اس میں آپ پلے بڑھے ہوں۔ ایسے لوگ اگر سہولت موجود ہونے کے بعد وہاں سے نکل جاتے ہیں تو وہ بہت اچھا فیصلہ کرتے ہیں۔
اس باب میں تملکران نے سیاسی اسلام کے اوپر بھی ناقدانہ تبصرہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ ایک اسلامی ریاست کا خواب دکھانے والے ان لوگوں کو جب بھی موقع ملا یہ ناکام ہوئے اس نظریے کو عملی شکل دینے کو جس کا یہ پرچار کرتے ہیں۔ بلکہ الٹا ان کی سخت گیر پالیسیوں سے اس ملک کے لوگوں نے ملک میں رہنے کی بجائے چھوڑنے کو ترجیح دی۔
تملکران کی اس کتاب میں بہت سی باتوں سے اختلاف بھی ہے۔ اس میں کچھ کمی بھی پائی جاتی ہے۔ جیسا کہ انہوں نے رائٹ ونگ پاپولزم پر تو بات کی مگر لیفٹ کے پاپولزم پر کوئی بات نہیں کی۔ انہوں نے طیب اردوان کے علاوہ پیوٹن اور ٹرمپ کو بھی رائٹ ونگ پاپولسٹ لیڈر کے طور پر تنقید کا نشانہ بنایا مگر نریندر مودی جو کہ رائٹسٹ بھی ہیں اور پاپولسٹ بھی پر کوئی بات نہیں کی۔ حالانکہ انہوں نے ایک جگہ ارون دھتی رائے کا ذکر کیا ہے کہ ان کو ارون دھتی رائے کے ساتھ اچھی ملاقات بھی ہوئی تو اپنی اس کتاب کو لکھتے ہوئے ارون دھتی رائے سے بھی کچھ مشاورت کر لیتیں تو ان کو مزید مواد بھارت کے حوالے سے مل جاتا اور وہاں نریندر مودی کی شکل میں جو پاپولزم نے لیفٹ اور سینٹر کی قوتوں کے ساتھ جو کچھ کیا ہے اس پر ان کو زیادہ اچھا لکھنے کو مل جاتا۔ لیکن کچھ اختلافی نکات کے ساتھ تملکران کی بہت سی باتیں درست بھی ہیں اور جب پاکستان کے تناظر میں دیکھیں تو ایک شخصیت تو ان نکات پر اترتی نظر نہیں آتی البتہ کچھ غیر سیاسی اداروں پر اس کا اطلاق کر کے ان کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے اور اس کتاب کا پاکستانی ورژن بھی سامنے لایا جا سکتا ہے۔ اس کتاب میں تملکران نے جس طرح مرحلہ وار سفر کو ذکر کیا ہے اس پر بحث کی گنجائش موجود ہے ممکن ہے کہ کسی جگہ انہوں نے ضرورت سے زیادہ حساسیت اور مبالغہ آرائی کا مظاہرہ کیا ہو۔ ایک ریاست کا جمہوریت سے آمریت کی طرف سفر ایک دم نہیں ہوتا بعد میں تجزیہ کرنے پر کچھ واقعات ہمیں بہت اہم نظر آتے ہیں مگر جب وہ رونما ہوتے ہیں تو ان کی اہمیت اتنی زیادہ محسوس نہیں ہوتی۔ اس لیے یہ موضوع مسلسل گفتگو اور تجزیے کا متقاضی ہے۔ مجموعی طور پر کئی کمیوں کے باوجود کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
اس کتاب پر لکھنے سے پہلے استاد محترم ملک آفتاب احمد اعوان ، برادر عاصم رضا، عماد عاشق اور ندیم سرور سے کچھ راہنمائی لی۔ جس کے بعد اس موضوع پر لکھنے میں مشکل پیش نہیں ائی۔ ان سب کا بہت بہت شکریہ
کمنت کیجے