عہدنامۂ قدیم (یہودی بائبل) کے صحیح عبرانی متن کی دریافت کی کوشش نے متن پر غور و فکر کرکے اس کے اندر مختلف روایات کو الگ کرنے کےلیے بنیاد فراہم کی۔ اس کام کو’’تنقید عالی‘‘ کہا جاتا ہے۔
نقدِ بائبل کا دوسرا مرحلہ: تنقید عالی (Higher Criticism)
تنقید عالی کے دو پہلو ہیں:’’تاریخی ‘‘ یا ’’ادبی‘‘ تنقید (Historical or Literary Criticism) اور ’’نوعی‘‘ یا ’’روایتی‘‘ تنقید ( Form or Traditional Criticism)۔
تاریخی تنقید کے ماہرین یہ جانچنے کی کوشش کرتے ہیں کہ بائبل کے صحائف کب لکھے گئے؟ کیا کوئی صحیفہ ایک ہی شخص کی تحریر ہے یا اسے مختلف ادوار میں مختلف اشخاص نے مرتب کیا ہے؟ یہ شخص یا اشخاص کس قسم کے نظریات اور عقائد کے حامل تھے؟ اس صحیفے کی تحریر کے پیچھے مقاصد کیا تھے؟ یہ اور اس طرح کے دیگر سوالات قائم کرکے یہ ماہرین متن کا جائزہ لیتے ہیں اور تاریخ، آثارِ قدیمہ اور دیگر بیرونی مآخذ سے بھی مدد لیتے ہیں تاکہ متن کی تحریر کے وقت کے معروضی حالات کا بھی جائزہ لیاجائے اور متن کے پیغام کو بھی اس کے مخصوص تاریخی پس منظر میں سمجھا جائے۔ اس تاریخی تنقید نے یہ بات قطعی طور پر متعین کردی ہے کہ اسفار خمسہ، جنھیں یہود و نصاریٰ ”تورات“ کہتے ہیں، ایک مصنف کی تحریر نہیں ہے، بلکہ اسے مختلف ادوار میں مختلف افراد نے مرتب کیا ہے، اور اسے آخری شکل کئی ’’مدونین“ (Redactors)نے دی ۔ پہلے ایک ہی واقعے کے متعلق کئی روایات پائی جاتی تھیں، پھر مدونین نے ان روایات کو جمع کرکے ایک روایت کی شکل دینے کی کوشش کی، اور کئی صورتیں تبدیل کرنے کے بعد بالآخر اسے موجودہ شکل مل گئی اور اس عمل میں کئی صدیاں لگیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسفارِ خمسہ کے اندر روایات میں بہت زیادہ اختلافات اور تضادات پائے جاتے ہیں۔
روایتی تنقید اس سے ایک قدم آگے بڑھاکر یہ کہتی ہے کہ تحریری شکل میں آنے سے پہلے یہ مواد زبانی روایات پر مبنی تھا۔ چنانچہ ان زبانی روایات ہی سے مختلف مآخذ وجود میں آئے اور پھر رفتہ رفتہ یہ صحائف لکھے گئے۔ ان زبانی روایات میں بعض ابتدا میں تحریری شکل میں نہ آسکیں اور بدستور سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی رہیں۔ ان میں کئی روایات جو اسفارِ خمسہ میں جگہ نہیں پاسکیں، وہ تلمود اور دیگر روایتی کتابوں میں شامل کی گئیں۔ ضروری نہیں کہ زبانی روایت ہی قدیم ہو۔ بعض واقعات کے متعلق تحریری روایت زبانی روایت سے زیادہ قدیم ہے۔ اکثر ایک ہی واقعے کے متعلق کچھ زبانی روایات اور کچھ تحریری روایات پائی جاتی تھیں جن میں مدونین نے کچھ ترک کیں اور کچھ لے کر ان میں اپنے طور پر تطبیق پیدا کرنے کی کوشش کی۔ نتیجتاً موجودہ اسفار خمسہ وجود میں آگئے ۔ اس عمل کی تکمیل میں کئی صدیاں بیت گئیں ۔ عام طور پر مغرب کی علمی دنیا میں یہ بات تسلیم کی گئی ہے کہ تیسری صدی قبل از مسیح میں اسفار خمسہ موجودہ شکل میں پائے جاتے تھے۔ (کوئی ہمارے نام نہاد ادیب کو بتائے کہ جسے یہود و نصاریٰ کی پیروی میں وہ تورات کہتے ہیں، سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا دور اس سے ایک ہزار سال پہلے تھا! ایک ہزار سال کی یہ چھلانگ کیسے لگائی جائے؟)
اسفار خمسہ میں ایک ہی واقعے کے متعلق دو یا تین روایات کی بہت ساری مثالیں ہیں۔ ایک مثال ملاحظہ کیجیے۔
سفرِ پیدائش میں سیدنا نوح علیہ السلام کے ساتھ کشتی میں موجود جانوروں کی تعداد کے متعلق تین مختلف روایات ہیں۔ ایک روایت کے مطابق حضرت نوح علیہ السلام کو ہر جانور کا ایک ایک جوڑا لینے کا حکم دیا گیا؛ دوسری روایت کے مطابق ان کو ’’پاک جانوروں ‘‘کے سات سات جوڑوں، اور ’’ناپاک جانوروں‘‘ کے دو دو جوڑے لینے کا حکم ملا؛ جبکہ تیسری روایت کے مطابق آپ نے بحکم خداوندی ہر پاک و ناپاک جانور کے دو دو جوڑے لیے۔ اس اختلاف کی توجیہ یہ کی گئی کہ یہ ایک ہی واقعے کے متعلق تین مختلف مآخذ سے روایت لینے کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے ۔ (شاہ ولی اللہ نے فرمایا تھا کہ ان اسفار کو حدیث کی کتابوں کی طرح دیکھنا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ ان کی مراد یہ نہیں تھی کہ سند اور راویوں کے متعلق علوم الحدیث کا اطلاق ان اسفار پر کیا جائے کیونکہ ان کا اطلاق کیا جائے، تو ان اسفار کی تو سرے سے سند ہی نہیں پائی جاتی۔ البتہ متن کے اختلافات دور کرنے کےلیے تاویل مختلف الحدیث کے اصول یقیناً مفید ہیں۔ ایک الگ مقالے میں میں نے اس کی کچھ تفصیل دی ہے۔)
اس قسم کے اختلافات سے بڑھ کر وہ اختلافات ہیں جو عقائد اور الٰہیات کے متعلق ہیں۔ مثلاً بعض مقامات پر خدا کے متعلق بالکل ہی انسانوں کی مانند صفات ذکر کی گئی ہیں اور ان میں تجسیم کا تصور پایا جاتا ہے، جبکہ بعض دوسرے مقامات پر تنزیہہ کا تصور انتہائی اعلی سطح پر پایا جاتا ہے ۔ مثال کے طور پر تجسیم کے متعلق سفرِ خروج کا یہ بیان دیکھیے:
”تب موسی اور ہارون اور ندب اور ابیہو اور بنی اسرائیل کے ستر بزرگ اوپر گئے ۔ اور انھوں نے اسرائیل کے خدا کو دیکھا اور اس کے پاؤں کے نیچے نیلم کے پتھر کا چبوترا سا تھا جو آسمان کی مانند شفاف تھا ۔ اور اس نے بنی اسرائیل کے شرفا پر اپنا ہاتھ نہ بڑھایا سو انھوں نے خدا کو دیکھا اور کھایا اور پیا۔‘‘
اس کے بالکل ہی برعکس سفرِ خروج ہی کا بیان ملاحظہ ہو: ’’اور یہ بھی کہا کہ تو میرا چہرہ نہیں دیکھ سکتا کیونکہ انسان مجھے دیکھ کر زندہ نہیں رہے گا۔“
امام ابن حزم (م 1064ء) اور امام ابن تیمیہ (م 1328ء) سے لے کر علامہ رحمت اللہ کیرانوی (م 1891ء) اور جناب احمد دیدات (م 2005ء) تک بہت سے مسلمان محققین نے بھی ان اختلافات اور تضادات کی نشاندہی کی ہے، اور انھیں تورات میں تحریف کے ثبوت کے طور پر پیش کیا ہے۔
علامہ رحمت اللہ کیرانوی نے ایک طرف اسفارِ خمسہ اور دیگر اسفار میں تضادات اور اختلافات کی بہت سی مثالیں جمع کیں؛ دوسری طرف اسفارِ خمسہ کے مختلف عبرانی، یونانی اور عربی تراجم میں موازنہ کرکے اختلاف روایت، الفاظ کی تبدیلی، الفاظ کے اضافے اورحذفِ الفاظ کے کئی شواہد نقل کیے؛ تیسری طرف اسفارِ خمسہ میں کئی تاریخی اور علمی غلطیاں واضح کرکے یہ ثابت کیا کہ یہ وحی پر مبنی نہیں ہیں؛ اور چوتھی طرف اسفارِ خمسہ میں سیدنا موسی علیہ السلام کے زمانے کے بہت بعد کے واقعات اور اسما کی نشاندہی کرکے یہ ثابت کیا کہ موجودہ شکل میں اسفارِ خمسہ کو سیدنا موسی علیہ السلام کی طرف منسوب کرنا قطعاً غلط ہے۔
اب ہم دیکھیں گے کہ مغربی محققین نے ان امور کی بنا پر اسفارِ خمسہ کے متعلق کیا نظریات قائم کیے ہیں؟
تورات یا اسفارِ خمسہ کے مآخذ کی تلاش
اٹھارھویں صدی عیسوی میں مغربی محققین نے اسفار خمسہ میں موجود مختلف روایات کو الگ کرنے کے کام کی طرف بھر پور توجہ دی۔
غالباً اس کام کی بنیاد جرمن عالم ایچ بی وِٹر نے رکھی جب انھوں نے 1711ء میں دعوی کیا کہ سِفر پیدائش میں تخلیقِ کائنات اور تخلیقِ انسان کی روایت درحقیقت دو مختلف روایات کو ملا کر بنائی گئی ہے۔ ان روایات کی نشاندہی کےلیے اس نے یہ علامت استعمال کی کہ ایک روایت میں خدا کو ’’یہوہ‘‘ کے نام سے، اور دوسری روایت میں’’الوہیم‘‘ کے نام سے یاد کیاگیا ہے۔
1753ء میں فرانسیسی طبیب جین آسٹرک بھی اسی نتیجے پر پہنچا۔ اس نے دعوی کیا کہ خدا کے ان ناموں کی بنیاد پر پوری سِفر پیدائش کو دو روایات – ”یہوی‘‘ اور ’’الوہی‘‘ – پر مبنی دکھایا جاسکتا ہے۔اس کے بعد سے سِفر پیدائش کے دو مآخذ پر مزید تحقیق کی جانے لگی ۔
1780ء میں جے جی اکہارن نے سِفر پیدائش میں ایک ہی واقعے کے متعلق ایک سے زائد روایات اور الفاظ اور اسالیب کے تنوع کو بھی دلیل کے طور پر استعمال کیا جس کے نتیجے میں دو مآخذ کی پہچان اور بھی آسان ہوگئی۔
1798ء میں کے ڈی الگن نے ’’الوہی ماخذ‘‘کو مزید دو حصوں میں تقسیم کیا اور قرار دیا کہ سِفر پیدائش کی تشکیل میں تین روایات یا مآخذ سے مدد لی گئی ہے۔
1805ء میں ڈے ویٹ نے دعوی کیا کہ سِفر استثنا ہی دراصل وہ کتاب ہے جو ساتویں قبل از مسیح میں بادشاہ یوسیاہ کے عہد میں یروشلم کے ہیکل میں ملی تھی جس کے بعد یوسیاہ نے بنی اسرائیل میں اصلاحی مہم شروع کی تھی۔ اس نے یہ بھی دعوی کیا کہ استثنا میں بہت سے ایسے قوانین ہیں جو سیدنا موسی علیہ السلام کے بہت بعد کے دور سے تعلق رکھتے ہیں ۔ اس کا خیال تھا کہ استثنا ساتویں صدی قبل از مسیح ہی میں لکھی گئی تھی۔
1853ء میں ہرمین ہپفیلد نے مآخذ کے اس نظریے کو اسفار خمسہ کے دیگر حصوں پر بھی منطبق کیا اور یہ دعوی کیا کہ پہلی چار کتابیں – پیدائش، خروج، احبار اور گنتی – تین مآخذ سے لی گئی ہیں:
(1) یہوی ماخذ (J) جو خدا کو ’’یہوہ‘‘ کے نام سے ذکر کرتا ہے؛
(2) الوہی ماخذ (E) جو خدا کو ’’الوہیم‘‘ کے نام سے یاد کرتا ہے؛ اور
(3) ایک اور الوہی ماخذ جو خدا کو ’’الوہیم ‘‘ ہی کے نام سے یاد کرتا ہے لیکن اس میں مذہبی رسومات اور لوگوں کے شجرہائے نسب کے متعلق زیادہ معلومات ہوتی ہیں؛ اس لیے اسے Priestly یا مختصراً P کہاگیا ۔
پانچویں کتاب – استثنا – کے متعلق کہا گیا کہ یہ اسلوبِ بیان، ذخیرۂ الفاظ، قوانین اور تصورات سب کچھ میں باقی چار کتابوں سے مختلف ہے ۔ اس لیے قرار دیا گیا کہ یہ ایک بالکل ہی الگ ماخذ سے لی گئی ہے جسے Deuteronomic یا D کہا گیا۔
انیسویں صدی کے اواخر میں دو جرمن محققین کارل ایچ گراف اور جولیس ولہاسن نے ان ابتدائی تحقیقات پر مزید اضافہ کرکے ان مآخذ کے انضمام سے وجود میں آنے والی دستاویزات کے لیے تاریخیں بھی متعین کردیں۔ ان کا خیال تھا کہ استثنا کا مصنف روایت Jاور روایت E سے واقف تھا لیکن وہ روایت P سے واقف نہیں تھا۔ گویا روایت P تاریخی لحاظ سے روایت D کے بعد ہے۔
ان مآخذ کے متعلق بعض دیگر دلچسپ امور بھی ہیں۔
مثلاً یہوی ماخذ کی آیات میں سیدنا یعقوب علیہ السلام کےبیٹوں میں جناب یہوداہ کا تذکرہ زیادہ ہوتا ہے۔ مثلاً کہا گیا ہے کہ سیدنا یوسف علیہ السلام کو ان کے بھائی جناب یہوداہ نے بچایا تھا۔جناب یہوداہ کی اولاد بنی اسرائیل کی سلطنت کی تقسیم کے بعد جنوبی حصے پر حکمران رہی ۔اس ماخذ کی آیات میں جنوبی سلطنت سے متعلق مقامات، قربان گاہوں اور شخصیات کا بھی تذکرہ ہوتا ہے۔ اس سے یہ اندازہ لگایا گیا کہ اس ماخذ کے راویوں کا تعلق جنوبی سلطنت سے ہے۔ گراف اور ولہاسن کے نزدیک یہ روایت نویں صدی قبل از مسیح (تقریباً ۸۵۰ ق م ) سے تعلق رکھتی ہے۔
الوہی ماخذ سے منسوب آیات میں یہ پہلو بھی واضح نظر آتا ہے کہ ان میں بزرگ شخصیات کے افعال کی اخلاقی توجیہات پیش کی گئی ہیں۔ ایک ہی واقعہ اگر J اور Eدونوں میں روایت ہو تو اول الذکر روایت اخلاقیات سے لاتعلق (Indifferent) ہوگی اور ثانی الذکر روایت میں وہ واقعہ یوں بیان ہوا ہوگا کہ اس پر اخلاقی پہلو سے کوئی اعتراض نہ ہوسکے۔ اس ماخذ سے منسوب آیات میں بنی اسرائیل کی شمالی سلطنت کی شخصیات کا تذکرہ غالب ہوتا ہے۔ مثلاً کہا گیا ہے کہ سیدنا یوسف علیہ السلام کو ان کے بھائی جناب روبن نے بچایا تھا۔ اسی طرح شمالی سلطنت کے مقامات مثلاً بیت ایل اور سکم کا تذکرہ بھی ان آیات میں بکثرت ملتا ہے۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس روایت کا تعلق شمالی سلطنت سے تھا۔ اس روایت کی تاریخ کے متعلق گراف اور ولہاسن کا اندازہ 700 ق م کا تھا۔
کتاب استثناء کا اسلوب، ذخیرۂ الفاظ، احکامِ شرع کے بیان کا طرز، غرض سبھی کچھ باقی چار کتابوں سے مختلف نظر آتا ہے۔ یہ اسلوب بائبل کے بعض دیگر صحائف،بالخصوص ”اسفارِ انبیائے سابقین“، میں بھی نظر آتا ہے۔ ”سن اے اسرائیل‘‘، ’’اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان‘‘، ’’تاکہ تیری عمر دراز ہو‘‘ اور اس جیسے دوسرے جملے اور تراکیب صرف سِفر استثنا میں ہی ملتے ہیں ۔گراف اور ولہاسن نے اس روایت کی تاریخ کے لیے 650 ق م کا اندازہ لگایا ۔
اسفارِ خمسہ میں بہت سی آیات ایسی ہیں جن میں عبادات، قربانیوں، کفارات، نذور، مواثیق، پاکی و ناپاکی کے مسائل اور اس طرح کی دیگر تفصیلات اور فقہی جزئیات بیان ہوئی ہیں۔ اسی طرح بعض مقامات پر لوگوں کے لمبے لمبے شجرہائے نسب بیان ہوئے ہیں یا عمروں کی تفصیلات بیان ہوئی ہیں۔ اس طرح کے موضوعات کو ایک خاص طرح کے ’’خشک‘‘ اسلوب میں بیان کیاگیا ہے ۔ ان کے متعلق کہاجاتا ہے کہ یہ اضافے کاہنوں اور احبار نے کیے ہیں اور اس مناسبت سے ان آیات کے ماخذ کو Priestly کہا جاتا ہے جسے مختصرا P سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ گراف اور ولہاسن کے اندازے کے مطابق اسفارِ خمسہ میں اس ماخذ سے اضافے 500 اور 450 ق م کے درمیانی عرصے میں کیے گئے ۔
اسفار خمسہ کی آیات کے ان مآخذ کی طرف نسبت کے متعلق عام طور پر درج ذیل تقسیم کو تسلیم کیا جاتا ہے:
سِفر پیدائش ابواب 1 تا 11: یہ P اور J سے لیے گئے ہیں ۔
سِفر پیدائش ابواب 12 تا سِفر خروج باب 34: یہ P، J اور E سے لیے گئے ہیں ۔
سِفر خروج باب 35 تا اختتام، پورا سِفر احبار اور سِفر گنتی باب 10 کے پہلے حصے تک صرف P سے لیے گئے ہیں ۔
سِفر گنتی باب 10 کے دوسرے حصے سے اختتام تک پھر تین مآخذP،J اورE سے لیے گئے ہیں ۔
سِفر استثنا پورا کا پورا D سے لیاگیا ہے۔
گراف اور ولہاسن کے بعد اس نظریے میں کئی بنیادی تبدیلیاں لائی گئی ہیں۔ ان میں غالباً سب سے اہم یہ ہے کہ اب یہ مفروضہ ترک کردیا گیا ہے کہ یہ مآخذ کسی ’’دستاویز‘‘ کی صورت میں کسی ایک مصنف نے کسی ایک موقع پر تحریر کیے۔ اب مفروضہ یہ ہے کہ کافی عرصے میں زبانی اور تحریری روایتوں نے بتدریج ایک ماخذ کی تشکیل کی اور اس کے ساتھ متوازی دوسرے ماخذ کی تشکیل کا سلسلہ بھی جاری رہتا۔ پھر دو کے انضمام کا مرحلہ بھی بتدریج طے ہوتا اور ساتھ ہی تیسرے اور چوتھے مآخذ کی تشکیل اور انضمام کا سلسلہ بھی مسلسل جاری رہتا۔ گویا ہر ماخذ میں کچھ مواد نہایت قدیم ہے جواصلاً زبانی روایت کی صورت میں ہی نقل ہواتھا ۔ پس ہوسکتا ہے کہ D اور P کا کچھ حصہ E اور J سے زیادہ قدیم ہو۔
اس تفصیل کا خلاصہ یہ ہے کہ بائبل کے جن پانچ صحیفوں کو یہود و نصاریٰ تورات کہتے ہیں، وہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے صدیوں بعد وجود میں آئے اور وہ ایسی روایات کا مجموعہ ہیں جن کو نامعلوم مدونین نے مختلف اوقات میں مختلف انداز میں اکٹھا کیا۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے تقریباً ایک ہزار سال بعد ان پانچ صحیفوں کو ایک نوع کی قبولیت مل گئی، لیکن اس کے بعد بھی ان کا اصل متن مختلف قسم کے ترجموں کے پردے میں چھپ گیا۔
اس بحث کے اختتام پر چند اہم امور کی نشاندہی ضروری ہے جو نام نہاد ادیب کےلیے تو شاید ناقابلِ التفات یا ناقابلِ فہم ہوں، لیکن عام مسلمانوں کےلیے ان کی وضاحت ضروری ہے۔
اس ساری بحث کی روشنی میں بتائیے کہ نام نہاد ادیب کے اس دعوے کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے:
”مسلمان جس کتاب میں تحریف کا دعوی کرتے ہیں، یعنی توریت، اس کے ہزاروں سال پرانے دریافت شدہ نسخوں اور موجودہ نسخے میں کوئی فرق نہیں۔ یہودیوں کے تمام فرقے جس کتاب کو پڑھتے ہیں، اس کا متن ہی نہیں، الفاظ تک یکساں ہیں۔ واضح رہے کہ میں پورے عہدنامہ قدیم کی بات نہیں کررہا، صرف اس کی اولین پانچ کتابوں کا ذکر کررہا ہوں، جنھیں توریت کہتے ہیں۔“
اس لغو دعوے کو رکھیے ایک طرف، لیکن چند اہم پہلوؤں کی نشاندہی ضروری ہے:
”اصلی تورات“ کہاں ہے؟
اسفارِ خمسہ پر تحقیق سے معلوم ہوگیا کہ ان کی تدوین سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے صدیوں بعد شروع ہوئی اور تقریباً ہزار سال بعد پوری ہوئی، اور یہ کہ بعد میں بھی اصل متن کے بجاے توجہ اس کے ارامی، سریانی، یونانی، لاطینی اور دیگر زبانوں میں تراجم پر رہی۔ سوال یہ ہے کہ وہ تورات کہاں گئی مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق سیدنا موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی، یا یہود ونصاریٰ کے روایتی عقیدے کے مطابق جس کے مصنف سیدنا موسیٰ علیہ السلام تھے؟
نقدِ بائبل کی مغربی روایت کے سامنے یہود و نصاریٰ کا روایتی عقیدہ تو نہیں ٹھہر سکا۔ اس کے بعد ان کے مذہبی علماء نے ڈے ویٹ کی یہ راے قبول کی ہے کہ سِفر استثنا ہی دراصل وہ کتاب ہے جو ساتویں قبل از مسیح میں بادشاہ یوسیاہ کے عہد میں یروشلم کے ہیکل میں ملی تھی جس کے بعد یوسیاہ نے بنی اسرائیل میں اصلاحی مہم شروع کی تھی۔ ان علماء کے خیال میں یہی صحیفہ موسیٰ علیہ السلام کی تورات ہے۔ تاہم ڈے ویٹ اور دیگر مغربی محققین کی راے یہ ہے اس صحیفے میں بہت سے ایسے قوانین ہیں جو سیدنا موسی علیہ السلام کے بہت بعد کے دور سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ کہ یہ صحیفہ ساتویں صدی قبل از مسیح ہی میں لکھا گیا تھا۔
مولانا مودودی نے سورۃ آل عمران کی تفسیر میں یہ راے ذکر کی ہے کہ موسیٰ علیہ السلام پر نازل کی جانے والی تورات کے کچھ ٹکڑے تو یہود نے اپنی نالائقی سے ضائع کردیے ہیں، اور کچھ ٹکڑے اسفارِ خمسہ میں بکھرے ہوئے ملتے ہیں؛ بالخصوص ایسے مقامات پر جہاں لکھا گیا ہے کہ خدا نے کہا، یا موسیٰ نے کہا کہ خدا نے یوں کہا۔
میرے نزدیک یہ راے درست ہے۔ البتہ اس میں دو نکات کا اضافہ ضروری ہے:
ایک یہ کہ ایسے بعض مقامات میں متن میں تغیر، تحریف، حذف یا اضافہ کیا گیا ہے، ان پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے؛ اور
دوسرا یہ کہ اس ”اصلی تورات“ کے بعض ٹکڑے اسفارِ خمسہ کے بجاے یہود کی زبانی روایات میں باقی رہے اور بعد میں تلمود اور دیگر کتب میں، اصلی یا محرف شکل میں، جمع کیے گئے۔
حفظِ متن کی اہمیت
تورات، یا اسفارِ خمسہ، کی اس کہانی سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ تورات کے اصل متن کے ضائع ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ یہود کے ہاں متن کے حفظ کی روایت نہیں تھی۔ چند دعائیہ جملے یا عبادات یا تہواروں پر پڑھے جانے والے اقتباسات کی بات الگ ہے، لیکن پورے متن کا حفظ کبھی یہود کے ہاں رائج نہیں رہا۔ یہی معاملہ بعد میں مسیحیوں کے ساتھ بھی ہوا۔ انھوں نے بھی انجیل کے متن کے حفظ کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ آج بھی یہود و نصاریٰ میں تورات و انجیل کے چند اقتباسات کے سوا متن یاد رکھنے کا کوئی رجحان نہیں پایا جاتا۔ اس کے برعکس قرآن کریم کے حفاظ ہر دور میں، ہر قوم میں، ہرجگہ کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ یہ امتیازی خصوصیت مسلمانوں کو بھی حاصل ہے یہود اور نصاریٰ کے خلاف، اور یہ درحقیقت قرآن کا معجزہ بھی ہے، ایسا معجزہ جس کا دعویٰ تورات، انجیل یا کسی اور مذہبی صحیفے کےلیے نہیں کیا جاسکتا۔ نام نہاد ادیب، یا الموردی دانشوروں، کی سمجھ میں حفظ کی اہمیت نہ آئے، تو اس میں حیران ہونے کی کوئی بات نہیں ہے۔ عقل پر پتھر پڑ جائیں، تو ایسا ہی ہوتا ہے۔
ترتیب کا سوال
نام نہاد ادیب نے اسفارِ خمسہ کی ترتیب کی بھی تحسین کی ہے اور اس ضمن میں کئی بنیادی حقائق نظر انداز کیے ہیں۔
مثلاً اسفارِ خمسہ کی تدوین کئی صدیوں میں مکمل ہوئی ہے اور اس میں بہت زیادہ لوگوں نے حصہ ڈالا ہے۔ اس وجہ سے ہمارے نام نہاد ادیب کو ان میں جو ترتیب نظر آتی ہے، وہ اصل میں انسانی کاوش اور انسانی تصرف کی نشانی ہے۔ ادیب صاحب کو تھوڑی توفیق ہو، تو پہاڑوں میں کسی ”قدرتی غار“ اور انسانوں کے بنائے ہوئے غاروں میں موازنہ کرکے دیکھ لیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ اسفارِ خمسہ غور سے پڑھنے والے محققین نے بہت سارے ایسے امور کی نشاندہی کی ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی ترتیب مصنوعی ہے اور ان میں جو واقعہ بعد میں ذکر کیا گیا ہو، ضروری نہیں کہ وہ واقعی بعد میں ہی ہوا ہے۔ مثلاً پہلی صدی عیسوی کے ایک یہودی عالم اشماعیل بن الیشع کہتے ہیں:”اسفار خمسہ میں ’’پہلے ‘‘ اور ’’ بعد ‘‘ کی ترتیب کا کچھ خاص خیال نہیں رکھا گیا ہے ۔“ چنانچہ عام طور پر یہ اصول تسلیم کیا گیا ہے کہ تورات کے ابواب اور آیات کا اسی ترتیب میں ہونا ضروری نہیں ہے جس ترتیب میں وہ دیے گئے، یا جس ترتیب سے وہ واقع ہوئے۔
باقی رہی یہ بات کہ قرآن میں ہمارے نام نہاد ادیب کو کوئی ترتیب نظر نہیں آتی، تو اس کی وجہ ان کی کوتاہ نظری کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ معنوی ترتیب کا فہم تو خیر ان کی پہنچ سے بہت دور کی بات ہے، صرف حفظِ متن میں سہولت کےلیے اس ترتیب میں کیا کچھ ہے، یہ کسی ان پڑھ حافظِ قرآن سے پوچھ لیجیے، تو وہ بھی بتا دے گا کہ کیسے قرآن کریم کی آیات میں جگہ جگہ ایسی علامتیں ہیں جن کی وجہ سے حفظ میں بہت آسانی ہوجاتی ہے۔
ایک مثال لے لیجیے۔ ایک صاحب نے مجھے کہا کہ انھیں یہ یاد رکھنے میں دقت ہوتی تھی کہ فإذا جآءت الطآمۃ الکبریٰ اور فإذا جآءت الصآخۃ میں کون سی آیت سورۃ النازعات میں ہے اور کون سی سورۃ عبس میں؟ تو ان کے استاذ نے انھیں کہا کہ نازعات میں ت ہے جس کے ساتھ ط کی مناسبت ہے، اس لیے الطآمۃ الکبریٰ سورۃ نازعات میں ہے؛ اور عبس میں س ہے جس کے ساتھ ص کی مناسبت ہے، اس لیے الصآخۃ سورۃ عبس میں ہے۔
ایسی سیکڑوں نہیں، ہزاروں علامات قرآن کے متن میں موجود ہیں، بلکہ ہر حافظ اپنے لیے الگ علامات دریافت کرتا رہتا ہے؛ اسی لیے تو عربی نہ جاننے والے ہزاروں لاکھوں لوگ بھی بڑی آسانی سے قرآن حفظ کرلیتے ہیں۔ یہ باتیں نام نہاد پڑھے لکھے ادیب کی سمجھ میں نہیں آتیں:
تری نگاہ فرو مایہ، ہاتھ ہے کوتاہ
ترا گُنَہ، کہ نخیلِ بلند کا ہے گناہ؟!
کمنت کیجے