زکوٰۃ ایک عبادت ہے جو مال کی پاکیزگی، سماجی توازن کے قیام اور اللہ کی رضا کے لیے انفاق کو لازم کرتی ہے۔ یہ نماز کے بعد اسلام کا سب سے اہم مالی فریضہ ہے، جو دولت کی گردش یقینی بنانے کے ساتھ روحانی تطہیر کا ذریعہ بھی بنتی ہے۔
اس کا مقصد صرف ضرورت مندوں کی مدد تک محدود نہیں، بلکہ انسان کو دولت کی آزمائش اور اس کی محبت کے منفی اثرات سے محفوظ رکھنا بھی ہے۔ مزید برآں، زکوٰۃ اجتماعی نظم و نسق کے استحکام میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا قانون خود مقرر فرمایا تاکہ فرد کے مال پر غیر ضروری مداخلت نہ ہو اور ریاستی مالیاتی نظام بھی متوازن رہے۔
زکوٰۃ کی شرح شریعت میں واضح طور پر متعین ہے اور اس میں اجتہاد کی گنجائش نہیں، تاہم نصاب کی تعیین اور اس میں دی جانے والی رعایتیں اجتہادی معاملات میں شامل ہیں۔ خواتین کے زیورات پر زکوٰۃ کے وجوب کا مسئلہ بھی انھی اجتہادی امور میں سے ایک ہے، جس میں فقہاء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔
بعض فقہاء ہر طرح کے زیورات پر زکوٰۃ کو واجب قرار دیتے ہیں، جیسے کے احناف کی رائے ہے۔ جبکہ فقہائے مالکیہ، شوافع اور حنابلہ کے نزدیک صرف وہ زیورات زکوٰۃ کے دائرے میں آتے ہیں جو استعمال میں نہ ہوں اور صرف ذخیرہ اندوزی یا سرمایہ کاری کے لیے رکھے گئے ہوں۔
یہ اختلاف دراصل نصاب کی تعیین میں اجتہادی اطلاق کے فرق کی ایک مثال ہے، جو بدلتے ہوئے حالات اور زمانے کے تقاضوں کے تحت پیدا ہوا ہے۔ موجودہ معاشی اور سماجی تبدیلیوں نے اس بحث کو مزید اہم بنا دیا ہے، کیونکہ جہاں ایک طرف امرأ اپنی امارت کے اظہار اور نمائش کے لیے زیورات کا استعمال کر رہے ہیں، وہیں زیورات اب محض دولت جمع کرنے کا ذریعہ نہیں رہے بلکہ ایک ثقافتی اور سماجی حیثیت کی علامت بھی سمجھے جاتے ہیں۔ یہی عوامل اس مسئلے پر ازسرِنو غور و فکر کی ضرورت کو نمایاں کرتے ہیں، تاکہ زکوٰۃ کے قانون اور اصولوں کو عصری تناظر میں زیادہ مؤثر انداز میں سمجھا جا سکے۔
یہاں یہ بات پیش نظر رہے کہ زکوٰۃ کے وجوب کے لیے بنیادی شرط، جس پر فقہاء کا اتفاق ہے، کسی شے کا ‘مالِ نامی’ ہونا ہے، یعنی ایسا مال جو بڑھنے اور سرمایہ کاری کے قابل ہو۔ چنانچہ جو فقہاء زیورات پر مطلق زکوٰۃ کے قائل ہیں، وہ درحقیقت انہیں ‘سرمایہ’ (Capital Asset) کے زمرے میں شمار کرتے ہیں۔ اس ضمن میں ان کی بناے استدلال اصلاً احادیث پر مبنی ہے۔
رسول اللہ ﷺ کی نسبت سے بیان ہونے والی وہ روایات جن سے زیورات پر زکوٰۃ کے وجوب کا استدلال کیا جاتا ہے، درج ذیل ہیں:
1-حضرت عائشہؓ کی روایت
آپ ﷺ نے دریافت کیا کہ کیا وہ اپنی چاندی کی انگوٹھیوں کی زکوٰۃ دیتی ہیں؟ جب انہوں نے انکار کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:
“یہی تمہارے لیے جہنم کی آگ کے لیے کافی ہیں۔” (سنن ابی داود: 1558)
2-حضرت ام سلمہؓ کی روایت
“میں نے نبی کریم ﷺ سے سوال کیا کہ اگر ایک عورت کے پاس سونے کا زیور ہو، تو کیا یہ کنز (جمع شدہ دولت) میں شمار ہوگا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: “اگر وہ اس کی زکوٰۃ ادا کرے تو وہ کنز نہیں رہتا۔”” (سنن ابی داود: 1564)
3-سونے کے کڑوں والی روایت
“نبی کریم ﷺ نے ایک عورت کو سونے کے موٹے کڑے پہنے دیکھا اور فرمایا: ‘کیا تم ان کی زکوٰۃ دیتی ہو؟’ جب اس نے انکار کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ‘کیا تمہیں پسند ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس کے بدلے آگ کے کڑے پہنائے؟'” (سنن ابی داود: 1563)
وہ فقہاء جو روزمرہ استعمال کے زیورات پر زکوٰۃ کے قائل نہیں، وہ ان احادیث کی تاویل میں مختلف علمی توجیحات پیش کرتے ہیں،جن میں سے قابل ذکر درج ذیل ہیں:
1- یہ احادیث ضعیف یا غیر صریح ہیں.
بعض محدثین کے نزدیک یہ احادیث یا تو سند کے لحاظ سے ضعیف ہیں، یا ان میں زکوٰۃ کے وجوب کی صراحت نہیں پائی جاتی۔
2- مخصوص اطلاقی ہدایت
فقہائے شوافع اور مالکیہ کے مطابق، یہ احادیث ان زیورات سے متعلق ہیں جو بطورِ دولت ذخیرہ کیے گئے ہوں، جبکہ عام استعمال میں آنے والے زیورات اس حکم سے مستثنیٰ ہیں۔
3- اصل اصول میں تبدیلی ممکن نہیں
کچھ محدثین کے نزدیک یہ احادیث درحقیقت زکوٰۃ کی ترغیب کے لیے وارد ہوئی ہیں، نہ کہ زکوٰۃ کے وجوب کی قطعی دلیل کے طور پر۔
ایک متوازن اور عملی زاویۂ نظر:
ہماری طالبعلمانہ رائے میں روزمرہ استعمال کے زیورات پر زکوٰۃ واجب نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ وہ ذاتی ضروریات کے زمرے میں آتے ہیں اور ان کی حیثیت غیر نامی مال کی ہوتی ہے۔ تاہم، اگر زیورات کو محض دولت کے ذخیرے، یا سماجی حیثیت کے اظہار کے لیے رکھا جائے، تو ان کی نوعیت عملا “مالِ نامی” میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
اسی طرح، اگر زیورات کو بطور محفوظ اثاثہ (Investment Asset) خریدا گیا ہو، اور ان کا بنیادی مقصد بوقتِ ضرورت فروخت ہو، تو وہ عملی طور پر سرمایہ کاری کے زمرے میں آئیں گے اور ان پر زکوٰۃ کا اطلاق ممکن ہوگا۔
اگر زیورات کی مقدار سماجی عرف کے مطابق غیر معمولی طور پر زیادہ ہو اور ان کا عملی استعمال برائے نام رہ جائے، تو احتیاطی تدبیر کے طور پر ان پر زکوٰۃ ادا کرنا زیادہ مناسب ہوگا، تاکہ مال کے حوالے سے دینی ذمہ داری کا احساس اور جوابدہی کا شعور برقرار رہے۔
مزید برآں، وہ افراد جو مالی لحاظ سے مستحکم اور صاحبِ ثروت ہیں، اور جن کے پاس بڑی مقدار میں زیورات موجود ہیں، ان کے لیے مناسب ہوگا کہ وہ ریاستی مالیاتی نظام کے تحت اگر ‘اعلیٰ آمدنی کے طبقے’ (High-Income Bracket) میں آتے ہیں، تو زکوٰۃ کی ادائیگی کو یقینی بنائیں۔اس کے برخلاف متوسط طبقے کے گھرانوں میں بچیوں کی شادی کے لیے جمع کیے گئے زیورات نہ تو روزمرہ استعمال میں آتے ہیں، نہ ہی ان پر مکمل تصرف حاصل ہوتا ہے، بلکہ وہ محض ایک امانت کے طور پر محفوظ رکھے جاتے ہیں۔ اسی لیے ایسے زیورات کو زکوٰۃ سے مستثنیٰ قرار دیا جانا چاہیے۔
اس فقہی اطلاق کے ساتھ، قرآن مجید کی وہ تنبیہ بھی ہمیشہ پیش نظر رہنی چاہیے جو انسان کو دولت کی محبت میں مبتلا ہونے اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرنے کے انجام سے خبردار کرتی ہے:
ارشاد فرمایا:
“سو اُن لوگوں کو دردناک عذاب کی خوش خبری دو جو (اِن میں سے) سونا اور چاندی ڈھیر کر رہے ہیں اور اُسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔ اُس دن جب اُن کے اِس سونے اور چاندی پر دوزخ میں آگ دہکائی جائے گی، پھر اُن کی پیشانیاں اور اُن کے پہلو اور اُن کی پیٹھیں اُس سے داغی جائیں گی۔ یہی ہے جس کو تم نے اپنے لیے جمع کر رکھا تھا، سو چکھو اُس کو جو تم جمع کرتے رہے ہو۔” (التوبہ: 34)
استاد مکرم اس کی توضیح میں لکھتے ہیں:
زکوٰۃ ادا کردینے کے بعد حال اور مستقبل کی ذاتی اور کاروباری ضرورتوں کے لیے روپیہ جمع رکھنا ممنوع نہیں ہے، لیکن خلق یا خالق کی طرف سے اُس کے انفاق کا کوئی مطالبہ سامنے آجائے اور آدمی اُسے خرچ کرنے سے انکار کر دے تو اُس کی سزا وہی ہے جو قرآن نے آگے بیان کر دی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔یہی انفاق حکمت کا خزانہ بخشتا ہے، اِسی سے نورقلب میں افزونی ہوتی ہے۔ اگر مال کے ڈھیر رکھتے ہوئے کوئی شخص اپنے پاس پڑوس کے یتیموں، بے کسوں، ناداروں سے بے پروا رہے یا دعوت دین، اقامت دین، تعلیم دین اور جہاد فی سبیل اللہ کے دوسرے کاموں سے بے تعلق ہو جائے تو وہ عند اللہ مواخذے اور مسؤلیت سے بری نہیں ہوسکتا، اگرچہ اُس نے اپنے مال کا قانونی تقاضا پورا کر دیا ہو۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۵۶۶)
کمنت کیجے