Home » نفیرِعام میں جہاد کی فرضیت : حنفی فقہا کے تناظر میں
اسلامی فکری روایت سیاست واقتصاد فقہ وقانون

نفیرِعام میں جہاد کی فرضیت : حنفی فقہا کے تناظر میں

نفیر عام میں جہاد مسلمانوں پر فرض ہو جاتا ہے اور
“عورت شوہر کی اجازت کے بغیر، آقا غلام کی اجازت کے بغیر اور بیٹا ماں باپ کی اجازت کے بغیر نکلیں گے”۔
یہ عبارت فقہ اسلامی میں کتاب السیر (الجہاد) کے ایک پہلو کی نمائندگی کرتے ہیں۔ غزہ کے تناظر میں، علما نے امت کی یہ رہنمائی کی کہ غزہ کی حالت میں امت مسلمہ پر بحیثیت مجموعی جہاد فرض ہے، اس پر بہت سے سوالات اٹھ رہے ہیں اور خاص طور سے، ایک عام بندہ یہ سوال کر رہا ہے کہ:
“کیا اس کے لیے اب گھر میں بیٹھے رہنا جائز ہے؟ کہیں وہ گناہ گار تو نہیں ہو رہا؟”
جن علما غزہ کے تناظر میں جہاد کی فرضیت کی بات کی ہے، بظاہر انہوں نے یہ نہیں کہا کہ ہر مسلمان پر نکلنا واجب ہے تاہم اس وقت ایک عام بندے کی طرف سے یہ سوال کثرت سے پوچھا جا رہا ہے کہ کیا وہ ان حالات میں گناہ گار ہوں گے۔ ذیل میں ہم اسلامی فقہ کے تناظر میں واضح کریں گے کہ جسے نفیر عام کہا جاتا ہے اس میں بھی جہاد کے لیے نکلنا (نفس وجوب اور وجود ادا دونوں پیش نظر) ہر ایک پر فرض نہیں۔ چونکہ ہمارے دیار وبلاد میں فقہ حنفی کا غلبہ ہے اس لیے فقہ حنفی کے حوالے سے اس بحث کو پیش کیا جا رہا ہے اگرچہ دوسرے فقہا کے ہاں بھی معاملہ زیادہ مختلف نہیں۔
فقہا کے ہاں، جہاد کی فرضیت پر گفتگو کی ترتیب یوں ہے کہ وہ پہلے وہ یہ طے فرماتے ہیں کہ جہاد ہمیشہ فرض ہی ہوتا ہے: کہیں فرض کفایہ اور کہیں فرض عین۔ اور جب یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں بندے کے حق میں جہاد “نفل” ہے تو اس سے مقصود صرف یہ ہوتا ہے کہ چونکہ جہاد فرض کفایہ ہے اس لیے اگر وہ نہ نکلے اور دوسرے لوگ یہ فریضہ ادا کر رہے ہیں، تو اس پر گناہ گار نہیں۔ لیکن اگر وہ بندہ نکلتا ہے، تو وہ دراصل فرض کفایہ ادا کر رہا ہے۔ اسی حوالے سے ہم تنویر الابصار کا مختصر متن پیش کرتے ہیں جو ہمارے آنے والے گفتگو کے لیے وہی حیثیت رکھتا ہے جو علمی مقالے میں خطہ (Synopsis) کی ہوتی ہے۔ چنانچہ علامہ تمرتاشی فرماتے ہیں:
“هو فرض كفاية ابتداء إن قام به البعض، سقط عن الكل، وإلا أثموا بتركه، لا على صبي وعبد وامرأة وأعمى ومقعد وأقطع ومديون بغير إذن غريمه وعالم ليس في البلدة أفقه منه. وفرض عين إن هجم العدو فيخرج الكل ولو بلا إذن. ولابد من الاستطاعة.”
مفہوم: جہاد (قتال) کا از خود آغاز کرنا (امت پر) فرض کفایہ ہے: اگر بعض اسے نبھا لیں، تو سب سے گناہ اتر جائے، ورنہ سب کے سب گناہ گار ہیں سوائے بچے، غلام، عورت، نابینا، اپاہج، دست بریدہ پر، اسی طرح، سوائے قرض دار پر قرض خواہ کی اجازت کے بغیر اور علاقے کے سب سے بڑے عالم پر (کہ ان پر فرض نہیں)۔ تاہم اگر دشمن حملہ آور ہو، تو یہ فرض عین ہے اور سب نکلیں گے اگرچہ (جن سے فرض کفایہ میں اجازت لینا ضروری ہے ان کی) اجازت نہ ہو۔ فرض عین میں بھی استطاعت کی شرط کا پیش نظر ہونا ناگزیر ہے۔۱۲
یہاں ہم فرض عین پر گفتگو کریں گے اور چونکہ فرض عین کے سیاق میں نفیر عام کا تذکرہ ہوتا ہے اس لیے اس کی تعریف پر بھی نظر ڈال لیتے ہیں۔ علامہ شامی اس حوالے سے فرماتے ہیں:
“(إن هجم العدو) أي دخل بلدة بغتة. وهذه الحالة تسمى النفير العام. قال في الاختيار: والنفير العام أن يحتاج إلى جميع المسلمين.”
مفہوم: “اگر دشمن حملہ آور ہو”(علامہ تمرتاشی کے اس کہنے )کا مطلب یہ ہے کہ کسی علاقے پر دشمن دھوا بول دے۔ اسی کیفت کو “نفیر عام” کہا جاتا ہے۔ (علامہ موصلی کتاب) الاختیار (في تعليل المختار) میں فرماتے ہیں: نفیر عام اس سے عبارت ہے کہ تمام مسلمانوں کی ضرورت ہو۔۱۲
بظاہر یہاں دو مختلف تصورات نفیر عام کے ہیں لیکن حقیقت میں یہ دونوں مل کر نفیر عام کو بیان کر رہے ہیں کہ جب اچانک کسی علاقے پر حملہ ہو جائے اور وہاں متعین فوج اسے روکنے کے لیے کافی نہ ہو اور اس علاقے کے تمام لوگوں کی ضرورت پیش آئے، تو اس علاقے کے لیے نفیر عام ہے۔ اسی طرح، اگر اس علاقے کے لوگ کافی نہ ہوں، تو ان کے پڑوسی مسلمان علاقوں پر ذمے داری عائد ہو گی۔ اور پڑوسی علاقے کی فوج یا مخصوص طبقہ سے بھی دھاوے کو نہ روکا جا سکے تو اس علاقے کے تمام لوگوں پر بھی واجب ہو جائے گا اور اس پڑوسی علاقے کے لیے نفیر عام لازم ٹھہرے گی۔
تاہم یہاں اہم بات، ہمارے مقصود کے پیش نظر، کسی علاقے کے ہر ہر بندے پر جہاد کی فرضیت ہونا اصل ہے۔ نیز نظری طور سے، یہ بھی ممکن ہے کہ کسی علاقے کے کچھ عام لوگوں ہی سے دشمن کا مقابلہ ہو جائے تو وہ “نفیر عام” نہیں کہلائی گی۔ لیکن اس میں اتنے لوگوں کا ہونا ضروری ہے کہ دشمن کو مسلم علاقے سے باہر دکھیل دیا جائے۔
فرض عین ہونے کی شرائط
کیا ہر ہر عاقل بالغ صحت مند مسلمان پر جہاد کرنا فرض ہو گا؟ اس کا جواب نفی میں ہے اور اوپر ہم دیکھ چکے کہ اس کے لیے استطاعت شرط ہے۔ آئیے اس حوالے سے علامہ تمرتاشی کے عبارت پر علامہ حصکفی اور علامہ شامی اور دیگر فقہا نے اس کے ضمن میں جن جن احوال کا تذکرہ کیا ہے انہیں دیکھتے ہیں اور ان کے پیچھے کارفرما اصول جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
اسلحے کے استعمال کی قدرت:
کسی وقوعے کے علم کے بعد، قتال کی فرضیت کے لیے ضروری ہے کہ انسان کے پاس اسلحہ ہو اور وہ اسے استعمال کر سکے۔ علامہ حصکفی اس حوالے سے فرماتے ہیں:
وفي السراج وشرط لوجوبه: القدرة على السلاح
مفہوم: (علامہ حدادی کی قدری کی شرح) سراج میں ہے کہ جہاد کے فرض عین ہونے کے لیے اسلحے پر قدرت ہونا شرط ہے۔۱۲
علامہ حصکفی نے یہ بات فرض عین کے لیے استطاعت کی شرط کے ضمن میں رقم فرمائی ہے۔ علامہ شامی نے اس پر توشہ اور سواری میسر ہونے کا اضافہ کیا ہے۔
ظاہر ہے کہ ہر دور کے لحاظ سے، اسلحہ ہونا ضروری ہے۔ چنانچہ اس دور میں “شمشیر وسنان” سے گزارہ نہیں۔ اس لیے، موجودہ جنگوں میں جہاں ہوائی، بحری اور بری حملے بہت ترقی کر چکے ہیں، بغیر معیاری عسکری تربیت کے کسی انسان میں یہ شرط پائی ہی نہیں جاتی۔ (ویسے بھی آج کے عام شہری نوجوان میں اتنی صلاحیت نہیں کہ راہ چلتے اگر کوئی اس سے موبائل وغیرہ چھیننے کی کوشش کرے تو اسے زیر کر لے اور یہ مسلمانوں کی تربیت میں ایک بہت بڑا خلا ہے!)
تاہم اس دور میں، وہ ہیکرز جو کسی طرح دشمنوں کے آلات حرب کو، اپنی جگہ بیٹھے ہوئے نقصان پہنچا سکتے ہوں، ان کے پاس قدرت ہے اور اگر وہ ایسا کچھ کرتے ہیں تو اس دور میں انہیں وہی اجر ملے گا جو ماضی میں میدان کارزار میں شمشیر کے جوہر دکھانے والوں کو ملتا تھا۔
سلطان وقت یا ساتھیوں کی طرف سے رکاوٹ:
جہاد ایک اجتماعی عمل ہے یہ کسی چور اچکے سے نمٹنے جیسا معاملہ نہیں۔ یہ گلی کے چھوکروں کی لڑائی نہیں۔ یہ کسی محلے کے دو جھتوں کا گتھم گتھا ہونا نہیں۔ اس لیے، فقہا کا کہنا ہے کہ اگر حاکم وقت خود نہیں اٹھ رہا یا اس نے پابند کر رکھا ہے کہ لوگ نہیں نکلیں گے، تو عام بندے پر جہاد فرض عین نہیں۔ اسی طرح، اگر کسی جگہ معاشرے میں لوگ ساتھ نہیں دیتے، تو جو لوگ اس کا جذبہ اور احساس رکھتے ہیں، ان پر تنہا ہی نکل جاتا فرض نہیں۔
اس حوالے سے علامہ ابن الہمام فرماتے ہیں جسے علامہ شامی نے بھی اپنی تصویب کے ساتھ نقل کیا:
“يجب أن لا يأثم من عزم على الخروج وقعوده لعدم خروج الناس وتكاسلهم وقعود السلطان ومنعه.”
مفہوم: اس شخص کو بھی نہیں گناہگار ہونا چاہیے جو نکلنے کا عزم وارادہ رکھتا ہو تاہم لوگوں کے نہ نکلنے اور سستی کی وجہ سے نہ نکلے، نیز حاکم وقت کے اقدام نہ کرنے یا رکاوٹ کی وجہ سے نہ خروج کرے۔۱۲
اسلامی ممالک پر وجوب ادا
یہی سے گفتگو مقتدرہ کی ذمے داری کی طرف لوٹتی ہے۔ ڈاکٹر یوسف قرضاوی صاحب نے اپنی مشہور کتاب فقہ الجہاد میں علامہ ابن الہمام کی پیش کردہ وضاحت کو بنیاد بنا کر غزہ کے حوالے سے خاص طور سے واضح کیا ہے اور افسوس بھی کیا ہے کہ مسجد اقصی کو جن ممالک نے گھیرا ہوا ہے وہ مجاہدین کو داخل نہیں ہونے دیتے بلکہ اگر کوئی کوشش کرے، تو اسے گولی مار دیتے ہیں۔ اس لیے، اس حالت میں ان پر جہاد واجب نہیں۔ اور یہ بات انہوں نے جہاد کے وجوب کے موانع کے سیاق میں کہی۔
یہی وجہ ہے کہ وہ مسلمان ممالک جو غزہ کے پڑوسی نہیں ان پر براہ راست قتال کا وجوب اس وقت تک عائد نہیں ہو گا جب تک ارد گرد کے ممالک (اردن، مصر، لبنان اور سوریہ) انہیں جانے کا راستہ نہیں دیتے۔ اور یہ امر وجوب ادا کے لیے مانع شمار ہو گا۔ ظاہر ہے کہ جس طرح زمینی وبحری حدود ہیں، اسی طرح ہر ملک اپنی فضائی حدود بھی رکھتا ہے۔ تاہم ان ممالک پر یہ ضرور عائد ہو گا کہ اپنی بساط بھر جو کوشش کر سکتے ہیں وہ کریں۔ سفارتی سطح پر جو کردار ادا کر سکتے ہیں کریں۔
یہاں یہ پہلو بھی واضح رہے کہ جب نفیر عام ہو اور کسی علاقے کی فوج جنگ زدہ علاقے کی طرف پیش قدمی کرے تو راستے کی رکاوٹیں ہٹانے کے لیے اقدامات کر سکتی ہے بلکہ اسے ایسا کرنا ہوتا ہے کہ “امن الطریق” جہاد کے ادا کرنے میں رکاوٹ نہیں۔ اس کا بظاہر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ غیر ہمسایہ مسلم ممالک پر واجب ہو کہ ان پڑوسی ممالک پر بھی حملہ کریں جو غزہ یا فلسطین میں دوسروں کو داخل نہیں ہونے دے رہے۔ اور اس کا مطلب یہ ہوا کہ افغانستان، پاکستان، بنگلادیش وغیرہ پر یہ واجب ہوتا ہے کہ متذکرہ بالا پڑوسی ممالک کے خلاف اعلان جنگ کر کے اس پر قبضہ کر لیں اور پھر غزہ کی مدد کو جائیں۔ لیکن ہمیں معلوم ہے کہ اس وقت غزہ کے بچانے کے لیے مسلمان ممالک کا آپس میں لڑنا نہ صرف یہ کہ اس حوالے سے ممدگار نہیں ہو گا بلکہ یہ صیہونی مقاصد کو پورا کرنے میں باقاعدہ ممدگار ہو گا اور فقہ وقانون کا یہ مسلمہ ہے کہ ایک مقصد کے حصول کے لیے ایک معاملہ وضع کیا گیا ہو اور کسی جگہ وہ اس کے خلاف نتیجہ پیدا کرے تو وہ اس جگہ پر مسترد ٹھہرتا ہے جیسے وہ فقہا جن کے ہاں بدکار کو شہر بدر کرنا حد کا حصہ نہیں ان کا کہنا ہے کہ بسا اوقات یہ الٹ نتائج پیدا کرتا ہے کہ ایسے بدکار انسان کو زیادہ کھلی چھٹی مل جاتی ہے۔ اس لیے، اسے حد کا حصہ بنانے کے بجائے حاکم وقت کو سپرد کرنا چاہیے (لئلا يعود على موضوعه بالنقض).
جہاں تک ان پڑوسی ممالک کا تعلق ہے ان پر وجوب ادا ان کی استطاعت کے لحاظ سے ہو گا۔ اگر ان کے بس میں ہو اور وہ غزہ کی مدد نہ کریں، تو بلاشبہ ان ممالک کے طاقت کے ستونوں پر گناہ عائد ہو گا اور اس ملک کی مسلمان عوام کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ اپنے حکمرانوں پر دباو ڈالیں کہ جس حد تک وہ کردار ادا کر سکتے ہیں اس حد تک ضرور کریں۔
یہ تحریر صرف شرائط کے تذکرے کے لیے ہے۔ تاہم یہاں یہ کہنا ضروری ہے کہ ان رکاوٹوں کی وجہ سے اگرچہ براہ راست جہاد میں شرکت واجب نہ ہو لیکن ایک مسلمان کے لیے اس کی نیت وجذبہ اور جو کچھ وہ اس کے لیے کر سکتا ہے وہ کرنا بہر کیف ضروری ہے جس میں مالی مدد، نفسیاتی مدد، دعا کے ذریعے سے مدد سر فہرست ہے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ: لاهجرة بعد الفتح، ولكن جهاد “ونية” وإذا استنفرتم، فانفروا! [فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں، بلکہ جہاد اور (جہاد وغیرہ نیک کاموں کی) نیت ہے اور جب تمہیں نکلنے کا کہا جائے، تو نکل پڑو!]

مشرف بیگ اشرف

مولانا مشرف بیگ اشرف روایتی دینی علوم کے استاذ ہیں اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے فلسفہ وعقیدہ میں ڈاکٹریٹ کر رہے ہیں۔

m.mushrraf@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں