Home » کلی ماہیات کا خارجی وجود اور اصول “جمع بین الضدین” کی مخالفت
فلسفہ

کلی ماہیات کا خارجی وجود اور اصول “جمع بین الضدین” کی مخالفت

اب تک ہم نے واضح کیا کہ جنہیں مقولات و کلی ماہیات (essences) کا خارجی وجود کہا جاتا ہے، جزئی قضایا جیسے کہ “زید انسان ہے” میں ان کا لزوم ثابت کرنے کی بنیاد موجود نہیں، اسی طرح یہ امور اولیات عقلیہ تو کجا جزئی قضایا کا گراؤنڈ فراہم کرنے میں بھی غیر متعلق و غیر مفید ہیں بلکہ درست بات یہ ہے کہ اولیات و جزئی قضایا کی صحت ان کلیات کے سوا مستقل پیمانے پر متعین ہوتی ہے۔ آئیے اب کچھ بات اس پر بھی کرلیں کہ کلیات و ماہیات بطور وجود ذہنی و خارجی کے نظرئیے سے کس طرح عین اس بنیادی و قطعی چیز ہی کی نفی ہوجاتی ہے جس کی ان کے ذریعے بنیاد فراہم کرنے کی سپائیکر صاحب کی جانب سے بات کی جارہی ہے۔
اس نظرئیے کے قائلین کا ماننا ہے کہ خارج میں موجود مثلاً بہت سارے سیبوں (apples) میں “سیبیت” (appleness) نامی ایک (identical) ہی ماہیت پائی جاتی ہے، یعنی سیب الف و ب میں اگرچہ کچھ اضافی صفات بھی ہیں تاہم سیبیت نامی ماہیت ان میں ایک (identical) ہے اور اسی ایک ماہیت، یعنی سیبیت، میں شرکت کی بنا پر ہر سیب ایک سیب ہے نیز یہی ایک ماہیت ہمارے “ذہن میں موجود سیب” کی بنیاد ہے (یعنی ذہن اسی ماہیت کی شبیہہ اخذ کرتا ہے)۔ اس نظرئیے کے قائلین کے مطابق “سیبیت” ہر ہر سیب سے الگ بالذات ایک ماہیت کے طور پر موجود ہے اور ہر سیب میں یہی ماہیت پائی جاتی ہے۔ اس کا مطلب کیا ہوا؟ یہ کہ ایک ہی ماہیت کو بیک وقت مثلاً زید کھا رہا ہے اور وہی ماہیت راشد کے سیبوں سے بھرے تھیلے میں بھی موجود ہے اور وہی ماہیت درخت پر موجود سیبوں میں بھی لٹکی ہوئی ہے! اگر زید کے ہاتھ میں موجود “سیبیت” بعینہٖ وہی ہے جو راشد کے تھیلے اور درخت پر لٹکے سیب میں ہے، تو یہ ایک ہی چیز کو بیک وقت مختلف مقامات، احوال اور افعال میں موجود ماننا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ “جمع بین الضدین محال ہونے” کے اصول کا اعتبار جاتا رہا۔ اگر اس کا اعتبار جاتا رہے تو اس سے کتنے فاسد نتائج پیدا ہوتے ہیں اہل علم اس سے واقف ہیں۔
اس نظرئیے کے قائلین اس کے جواب میں ہم آہنگی کو برقرار رکھتے ہوئے یہ نہیں کہہ سکتے کہ سیب الف میں جو ماہیت ظاہر ہوئی وہ سیب ب کی ماہیت سے الگ ہے، کیونکہ اگر دونوں سیبوں کی ماہیت واقعی الگ ہے تو آپ نے کلی ماہیات کے خارجی وجود کا انکار کرنے والوں کی بات کو مان لیا۔ اور اگر وہ ایک (identical) ہے تو یہی تناقض ہے کہ ایک ہی شے بیک وقت دو الگ مقامات پر دو الگ احوال میں موجود ہے۔ چنانچہ اس نظرئیے کے قائلین کے پاس یہ مانے بغیر چارہ نہیں کہ ایک ہی ماہیت متعدد اشیا میں بیک وقت متضاد احوال میں موجود ہوسکتی ہے (اس نظرئیے کے قائلین یہی جواب چند دیگر الفاظ میں بھی دہراتے ہیں لیکن کسی سے بھی اس مسئلے کا تسلی بخش جواب نہیں ہوپاتا جو زیر بحث ہے)۔ اسی طرح اس نظرئیے کی رو سے یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ ہر ہر مشخص سیب کی بعض الگ صفات ملنے کے بعد جب اس میں کلی ماہیت، یعنی سیبیت، کا ظہور ہوتا ہے تو وہ کلی ماہیت بدل جاتی ہے کیونکہ اس سے بھی ان کا نظریہ جاتا رہے گا۔
الغرض یہ نظریہ “جمع بین الضدین” کے اصول ہی کو غلط قرار دیتا ہے۔ بھلا ایسا نظریہ کسی علمی قضئے کی وجودی بنیاد کیسے فراہم کرسکتا ہے جو قطعیات عقلیہ کی ہی نفی کرے؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس نظرئیے کو استعمال کرکے عین اس چیز کی بنیاد فراہم کرنے کا دعوی کیا جارہا ہے جسے یہ قائم ہی نہیں رکھ سکتا! چنانچہ یہ ایک وجہ ہے جس کی بنا پر متعدد ائمہ اشاعرہ و ماتریدیہ نے اس نظرئیے کو قبول نہیں کیا۔
یاد رہے کہ یہاں ابھی ہم نے اس نظرئیے سے لازم آنے والی صرف ایک مشکل کا ذکر کیا ہے، اس میں ایسے مزید مسائل بھی موجود ہیں جن کا ذکر کسی اور نشست میں ہوگا، ان شاء اللہ۔

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں