الحادی ماتا کی بپتا:
ایک سوال جو اکثر مذہبی لوگ ایتھیسٹ سے کرتے ہیں کہ اگر ایتھیسٹ مذہب کو نہیں مانتے تو ماں بہن سے سیکس کیوں نہیں کرتے تو کیا واقعی مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی ماں بہن سے سیکس اس لئے نہیں کرتے کہ ان کو مذہب نے روکا ہے تو آج اس بات کا آپریشن کرتے ہیں
اگر مسلمانوں کے اندر اتنا ہی خوف خدا ہے اور مذہب کے پابند ہیں تو رشوت کیوں لیتے ہیں ملاوٹ کیوں کرتے ہیں ذخیرہ اندوزی کیوں کرتے ہیں ناجائز منافع خوری کیوں کرتے ہیں یہاں تک کہ سود جس کے بارے وعید ہے کہ ستر بار ماں سے زنا کرنے سے زیادہ بڑا گناہ ہے وہ کیوں لیتے ہیں کبھی سوچا؟
کیا مذہب اور خوف خدا آپ کو ان سب گناہوں سے روک پایا نہیں نا اور روک سکتا بھی نہیں کیونکہ خوف خدا نام کی کوئی چیز وجود رکھتی ہی نہیں آپ لوگ اگر اپنی ماں بہن سے سیکس نہیں کرتے تو اس کی وجہ بھی خوف خدا یا مذہب کا منع کرنا یا رشتوں کی حرمت نہیں بلکہ آپ ڈرتے ہیں کہ اگر یہ کام کر بیٹھے تو معاشرے میں کیا ناک رہ جائے گی آپ کے والدین ہی آپ کو منہ نہیں لگائیں گے یعنی آپ صرف معاشرے کے خوف اور بدنامی کے ڈر کی وجہ سے اس کام کو کھلے عام سر انجام نہیں دیتے کیونکہ جس کام کو معاشرہ بہت برا جانے انسان کی نفسیات میں اس کا خوف بیٹھ جاتا ہے کیوں کہ انسان جن لوگوں کے ساتھ رہتا ہے ان سے دشمنی مول لینا یا ان کے سامنے ناپسندیدہ ترین کام کرنے کا خطرہ ہر گز مول نہیں لیتا اور جن کاموں کو معاشرہ قبول کر لیتا ہے چاہے مذہب ان کو جتنا ہی برا سمجھے انسان وہ کام کرتے ہوئے زیادہ خوف محسوس نہیں کرتا بس ہلکی پھلکی شرمندگی کا احساس ہوتا ہے وہ بھی پہلے پہل پھر وہ بھی ختم ہو جاتی ہے اسی وجہ سے مذہب کی سخت وعیدوں کے باوجود سود رشوت ملاوٹ دھوکہ دہی کا جرم عام ہے کیونکہ معاشرے کی اکثریت یہ جرم کرتی ہے اس لئے ان کو کرتے ہوئے خوف خدا کبھی آڑے نہیں آتا مگر ماں بہن سے سیکس کو کیونکہ معاشرہ شدید برا گردانتا ہے اسی لئے انسان (چاہے مذہبی ہو چاہے ایتھیسٹ) کو ماں بہن سے سیکس کرنے سے شدید خوف آتا ہے اور یہ خوف معاشرے کا ہوتا ہے بدنامی کا ہوتا ہے مگر مذہبی افراد یہاں بھی دونمبری کرتے ہوئے کریڈٹ لینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم خوف خدا کی وجہ سے ماں بہن سے سیکس نہیں کرتے
میرا چیلنج ہے اکیلے گھر میں رات کو بستر پر جوان ماں یا جوان بہن کے ساتھ لیٹ کر دیکھو پھر دیکھو کتنا خوف خدا آڑے آتا ہے اگر مائیں بہنیں تیار ہو جائیں تو مرد لوگ شاید ایک منٹ بھی نہ لگائیں اور خوف خدا کو اسی طرح کک مار کر اسٹیڈیم سے باہر پھینک دیں جس طرح تھانوں میں پولیس والوں نے روڈ پر وارڈن نے کچہریوں میں کلرکوں اور وکیلوں نے اسمبلیوں میں سیاست دانوں نے اور جنت الفردوس DHA میں ملک کے مالکوں نے پھینکا ہوا ہے.
کمزور جذباتی بنیادوں پر کھڑی اخلاقیات یا کامل مکمل مذہبی اخلاقیات :
ہمارا کہنا ہے کہ :
انسانی اخلاقیات کی بنیاد صرف سماجی خوف پر نہیں بلکہ فطرت، عقل اور مذہب کی گہرائیوں میں پیوست ہوتی ہے۔ یہ تصور کہ انسان صرف اس لیے ماں، بہن جیسے قریبی رشتوں سے جنسی تعلق سے باز رہتا ہے کہ معاشرہ اسے ناپسند کرتا ہے، ایک سطحی اور ناقص خیال ہے۔ انسان کے اندر کچھ ایسی فطری روایات اور احساسات ہوتے ہیں جو کسی بھی تعلیم یافتہ یا غیر تعلیم یافتہ، مذہبی یا غیر مذہبی شخص کو ان حدود کی پامالی سے روکتے ہیں۔ یہ احساسات محض معاشرتی دباؤ کا نتیجہ نہیں بلکہ انسانی فطرت میں ودیعت شدہ ہیں۔ اسلام ان رشتوں کو حرمت اور تقدس کا درجہ دیتا ہے۔ قرآن و سنت میں بار بار ان حدود کی وضاحت کی گئی ہے جن سے تجاوز کرنا سخت گناہ اور فطرت کی بغاوت سمجھا جاتا ہے۔ یہ تعلیمات نہ صرف ایک عملی رکاوٹ پیدا کرتی ہیں بلکہ انسان کے دل میں جواب دہی اور خوفِ خدا کا ایک زندہ احساس بھی جگاتی ہیں، جو کسی قانون یا پولیس سے زیادہ گہرا اور دیرپا ہوتا ہے۔ یہ بھی کہنا کہ چونکہ کچھ مذہبی لوگ رشوت، سود یا ملاوٹ جیسے گناہ کرتے ہیں، اس لیے مذہب بے اثر ہے، دراصل فرد کی کوتاہی کو مذہب پر تھوپنے کی کوشش ہے۔ مذہب اصول دیتا ہے، کردار انسان بناتا ہے۔ اگر ایک استاد کا شاگرد ناکام ہو جائے تو الزام استاد کے علم پر نہیں، بلکہ شاگرد کی کاہلی پر آتا ہے۔ ایمان صرف عبادات یا ظاہری لباس کا نام نہیں، بلکہ دل کی وہ کیفیت ہے جو انسان کو اکیلے میں بھی صحیح اور غلط کے فرق کا احساس دلاتی ہے۔ جب کوئی شخص تنہائی میں بھی گناہ سے بچتا ہے تو یہ اس کے ایمان کا ثبوت ہے۔ اگر کچھ لوگ مذہب کے باوجود گناہ کرتے ہیں تو یہ مذہب کی ناکامی نہیں، ان افراد کی کمزوری ہے۔ جن معاشروں میں مذہب کو کمزور کیا گیا، وہاں اخلاقیات کی دیواریں بھی جلد ہی ڈھہ گئیں۔ مغربی دنیا میں خاندان کے ادارے کا بکھرنا، جنسی جرائم کا بڑھنا اور رشتوں کی حرمت کا مٹنا اس کی واضح مثالیں ہیں۔ مذہب نہ ہو تو قانون بھی صرف ظاہری روک تھام کر سکتا ہے، باطن کی اصلاح نہیں۔ مذہب کو طنز، تمسخر اور تحقیر کا نشانہ بنانا نہ صرف علمی دیانت کے خلاف ہے بلکہ معاشرتی فساد کو دعوت دینا بھی ہے۔ جو شخص واقعتاً اصلاح چاہتا ہے، وہ سوال کو تہذیب، استدلال اور خلوص کے ساتھ پیش کرتا ہے، نہ کہ بھڑکانے والے الفاظ اور گندے مفروضوں کے ذریعے۔ انسان کا اصل امتحان وہی ہے کہ جب وہ گناہ کر سکتا ہو، مگر کرے نہیں۔ اور یہی خوفِ خدا ہے۔ اسے جھٹلانے والے نہ کل کامیاب تھے، نہ آج ہیں۔
کمنت کیجے