Home » وجود و ماہیت: ائمہ اشاعرہ و ماتریدیہ کا طریقہ بحث
اسلامی فکری روایت کلام

وجود و ماہیت: ائمہ اشاعرہ و ماتریدیہ کا طریقہ بحث

ائمہ اشاعرہ و ماتریدیہ کا کہنا ہے کہ وجود ماہیت پر زائد نہیں اور نہ ہی “وجود مطلق” کوئی الگ سے ذات یا ماہیت یا خارجی وجود ہے بلکہ یہ کسی مخصوص شے کے خارج میں متحقق ہونے پر لاگو ہونے والا حکم ہے اور بس۔ وجود کسی شے کا ہوتا ہے نہ کہ “وجود محض” یا “وجود مطلق” کا۔ اس اعتبار سے ہر شے کا وجود اس کی ماہیت کا عین ہے۔ زید اگر الف ب ج صفات کا نام ہے تو زید کے موجود ہونے کا مطلب الف ب ج صفات کا خارج میں تحقق یا پایا جانا ہے، اسی طرح راشد کے پائے جانے کا بھی یہی مفہوم ہے۔ چنانچہ الف ب ج موجود ہیں نہ کہ وجود۔ علامہ صدر الشریعۃ اسی لئے وجود کا مفہوم یوں لکھتے ہیں:
حقیقة مخصوصة فی الخارج ۔۔۔ فاذا کان الوجود مقولا علی الحقائق المختلفة لا یمکن تحدیدہ
مفہوم: خارج میں ایک مخصوص حقیقت ۔۔۔ پس جب وجود مختلف حقائق پر بولا جاتا ہے تو اس کی تعریف ممکن نہیں
یعنی وجود خارج میں متحقق کوئی جنس و نوع نہیں ہے بلکہ یہ مختلف حقائق کے لئے الگ الگ معنی میں بولا جاتا ہے اور اس لئے اس کی تعریف ممکن نہیں۔ اس کے برعکس یہ بات پہلے واضح کی گئی کہ کلی ماہیات کے وجود خارجی اور وجود ذہنی کے قائلین کس طرح “زید انسان ہے” جملے میں “انسان” کو ایک “خارجی کلی وجود” فرض کرلیتے ہیں جبکہ یہ جملہ اصلاً نامکمل و غیر مفید ہے یہاں تک کہ اس کی تحلیل کرکے ان صفات کا ذکر کیا جائے جن کا نام زید و انسان رکھا گیا اور جس کے بعد یہ واضح ہوجاتا ہے کہ انسانیت کوئی خارجی کلی نہیں بلکہ یہ ان یکساں مگر جدا جدا صفات کا نام ہے جو زید و راشد میں الگ الگ پائی جاتی ہیں، نیز “زید و راشد انسان ہیں” جملے کی صداقت کا مطلب یہ ہے کہ جن جزوی صفات کا نام انسان رکھا گیا ان کے زید کے لئے تحقق کی وجہ سے “زید انسان ہے” جملہ سچ ہے، انہی جیسی جزوی صفات کا تحقق راشد میں ہونے کی بنا پر “راشد انسان ہے” جملہ بھی درست ہے۔ ایک اور مثال لیجئے۔ جنہیں ہم سیب و انار کہتے ہیں، ان میں لال و رس دار و گول ہونا مشترک ہے جبکہ دانے دار ہونا اور مثلا میٹھا و کٹھا میٹھا ہونا مشترک نہیں۔ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ لالی و رس داری بطور ماہیات الگ سے کہیں متحقق ہیں اور نہ ہی اس کا یہ مطلب ہے کہ ان کلی ماہیات کے خارج میں پائے جانے کی بنا پر ہی ان چیزوں کا لال ہونا متحقق ہوسکتا ہے نیز جب تک ان کلی ماہیات کا خارجی وجود نہ مانا جائے یا انہیں ثابت نہ کیا جائے ہمارے اس جملے کا وجودی صدق ثابت نہ ہوسکے گا کہ “سیب و انار لال ہے”۔ ان سب چیزوں کے لال ہونے اور ان پر بولے جانے والے قضایا کی سچائی کا مطلب یہ ہے کہ خارج میں یکساں مگر جدا صفات الگ الگ اجسام میں پائی جاتی ہیں جن پر یہ الفاظ دال ہیں (یعنی they         are           true         of           all          of            them)۔ اب فرض کیجئے آپ نے کسی خاص صفات کے اشتراک (یعنی جو ان سب میں پائی جاتی ہیں) کی بنا پر ان سب کو “پھل” نامی ایک تصور میں بند کیا۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ “پھل” نامی ایک نوع خارج میں متحقق ہے؟ بالکل بھی نہیں، اور نہ ہی یہ کہا جائے گا کہ پھل نامی نوع ان سب میں چونکہ مشترک ہے لہذا ہر ہر پھل کو اس کلی سے الگ کرنے کے لئے ایک اضافی صفت درکار ہے بلکہ معاملہ یہ ہے کہ سیب 1، سیب 2، انار 1، انار 2، کیلا 1، کیلا 2 میں پھل کا صرف نام مشترک ہے اور یہ نام ان کی تقسیم کا باعث ہے۔ اس نام کے سوا نہ خارج میں اور نہ ہی ذہن میں پھل نامی کوئی کلی ماہیت موجود و قائم ہے۔
اب اگر آپ اسی بات کو آگے بڑھائیں تو جان لیں گے کہ سیب و انار و کیلے میں یہ بات بھی مشترک ہے کہ یہ سب وزن دار ہیں اور خارج از ذہن پائے جاتے یعنی متحقق ہیں۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ “وجود مطلق” از خود کوئی چیز ہے جو تمام ماہیات سے ماورا الگ بھی متحقق ہے؟ ہرگز نہیں، بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ “خارج از ذہن تحقق” کا حکم ان سب پر صادق آتا ہے۔ ائمہ اشاعرہ و ماتریدیہ کے مطابق کلی ماہیات کے خارجی وجود کے قائلین کی بنیادی خطا یہ ہے کہ انہوں نے جزیات پر عارض ہونے والی صفات کے تحقق کو از خود ایک کلی خارجی وجود فرض کرلیا یہاں تک کہ اس فکری لغزش نے انہیں “نرے وجود” یعنی صرف “تحققِ محض” کو بھی مستقل حقیقت ماننے پر مجبور کر دیا۔ چنانچہ ان ائمہ کے نزدیک نرا وجود کوئی قائم بالذات چیز نہیں ہوتا بلکہ وجود ہمیشہ کسی شے و ماہیت کا ہوتا ہے۔ کسی شے کے موجود ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ “وجود” نام کی کوئی ایک شے یا ذات تمام اشیا میں مشترک ہے یا یہ سب اشیا اس کلی ذات میں شریک ہیں یا اس کا عکس وغیرہ ہیں، بلکہ ان میں صرف “لفظِ وجود” مشترک ہے، نہ خارج میں اس لفظ کا مدلول ایک ہے اور نہ ہی ذہن میں اس کا معنی۔ جس طرح سیب 1 اور سیب 2 کو سیب کہہ دینا اور سیب و انار کو “پھل” کہہ دینا اس بات کا ثبوت نہیں کہ “نوع سیب” یا “پھل” نامی کوئی شے خارج میں قائم ہے، اسی طرح “وجود” بھی خارج میں کوئی کلی متحقق نہیں بلکہ ہر شے کا اپنا جداگانہ وجود ہوتا ہے اور ان سب پر “موجود” کا اطلاق اس لیے کیا جاتا ہے کیونکہ یہ سب خارج میں جدا جدا طور پر متحقق ہیں اور اس لئے اس لفظ سے ثابت حکم ہر ایک معین شے پر صادق ہے (it        is        true        of         each        one        of        them)۔
ائمہ اشاعرہ و ماتریدیہ کے مطابق وجودی مفکرین کو جو غلط فہمی “انسانیت” نامی مشترک حکم سے لاحق ہوئی، وہی غلط فہمی انہیں “کلی وجود” سے متعلق لاحق ہوئی جو اسی کی اگلی شکل ہے۔ یعنی انہوں نے جملہ “زید انسان ہے” میں “زید”، “انسان “اور “ہے” تینوں کو یک بعد دیگرے “کلی خارجی ذات / وجود” فرض کرلیا (جبکہ یہ ایک ہی شے پر لاگو احکام ہیں)۔ اس تجزئیے کی بنا پر یہ حضرات کہتے ہیں کہ “وجود ماہیات سے الگ اور ان پر زائد ہے” (جس کی پھر آگے مزید تشریحات ہیں)۔ یعنی یہاں صورت مسئلہ گویا یہ ہے کہ انسانیت، سیبیت، گھوڑا پن وغیرہ کلی ماہیات کہیں لٹکی ہوئی قائم ہیں یہاں تک کہ وجود آکر انہیں لاحق ہوتا ہے۔ اس مقام پر انہیں یہ مشکل پیش آتی ہے کہ وجود لاحق ہونے سے قبل جو ماہیات ہیں، کیا وہ موجود ہیں یا نہیں؟ اگر موجود ہیں تو انہیں وجود لاحق ہونے کا کوئی معنی نہیں، اور اگر وہ موجود نہیں تو انہیں ماہیات کہنے کا کیا مطلب ہوا؟ اس کا حل ان کے پاس معتزلی عالم ابو علی الجبائی (م 303 ھ) کے نظریات پر قائم شدہ ان کے بیٹے ابو ھاشم (م 321 ھ) کا “نظریہ حال” ہے جو مختلف اشیا پر بولی جانے والی مشترک صفات یا اخبار (universal predicates) کی توجیہہ سے متعلق ایک نظریہ ہے اور جس کے مطابق وجود و عدم کے مابین ثبوت نامی ایک کیفیت بھی ہے جو نہ وجود ہے اور نہ عدم ہے! اس نظرئیے کی صحت پر کتب کلام میں ابحاث موجود ہیں جنہیں دیکھنے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ موقف الفاظ کے الجھاؤ سے زیادہ کچھ نہیں کہ بس وجود کا نام ثبوت رکھ لیا گیا ہے (شیخ حسن سپائیکر صاحب اشاعرہ وغیرہ کی جانب سے اس مسئلے پر معتزلہ کی تردید کی بنا پر اشاعرہ سے نالاں دکھائی دیتے ہیں، اس کی وجہ یہاں سے سمجھی جاسکتی ہے)۔ یہاں یہ سمجھ لیجئے کہ کلی ماہیات اور اعیان ثابتہ کو یہ حضرات وجود و عدم کے مابین اسی درمیانی کیفیت پر مانتے ہیں۔ یہ بات بھی سمجھ لیجئے کہ اس نظرئیے کے حاملین کے مطابق خلق کا مطلب خدا کی طرف سے ماہیات کی ایجاد کا فعل نہیں ہے بلکہ انہیں ثبوت سے موجود کرنے کا فعل ہے، ماہیات خدا کے ارادی فعل سے قبل ازل سے ثابت ہیں (معتزلہ و وجودی فکر والے البتہ اس کی تفصیل الگ طرح بیان کرتے ہیں)۔
وجود کو ماہیت سے الگ قرار دینے کے انتہائی دلائل ان حضرات کی طرف سے یہ دئیے جاتے ہیں کہ انسانی ذہن وجود کو ماہیت سے الگ سوچ سکتا ہے نیز تمام موجودات واجب الوجود و ممکن الوجود میں منقسم ہوتی ہیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ انہیں تقسیم کرنے والی شے ان سے عام اور ان میں مشترک ہونا چاہئے اور فرق لانے والی چیز کوئی اضافی ہونا چاہئے (اس اضافی شے کو یہ ماہیت کہتے ہیں)۔ پہلی دلیل اس لئے بے معنی ہے کہ ذہن تو وجود کا بھی وجود سوچ لیتا ہے جو بالاخر تسلسل پر منتج ہوتا ہے، اسی طرح ذہن وجود کی ماہیت کو بھی سوچ لیتا ہے اور پھر اس ماہیت کے وجود کو اور پھر اس کے وجود کو بھی، اسی طرح ذہن دو اور جفت کو بھی الگ سوچ لیتا ہے۔ اس قسم کی ذہنی تجریدات الفاظ کے معنوی پھیلاؤ سے جنم لیتی ہیں (جیسے سیب و انار کو پھل کہہ دینا) اور ان کی بنا پر کسی خارجی وجود مطلق کا تحقق ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ اگر کوئی کہے کہ “یہ میرا شیف ہے، آپ کا کھانے کو جو دل چاہے اسے بتائیں یہ کچھ بھی پکا سکتا ہے” تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ “کچھ” بذات خود کوئی کھانے کی “کلی ڈش” ہے۔ دوسری دلیل کا جواب درج بالا تفصیل سے واضح ہے کہ یہاں موجودات کو تقسیم کرنے والی شے وجود مطلق نامی ذات نہیں بلکہ صرف اس کا “نام” ہے۔ علامہ آمدی نے اس جواب کو چند الفاظ میں یوں سمو دیا ہے:
فمورد القسمة الی الواجب والممکن لیس مسمی الذات بل اسم الذات
مفہوم: واجب اور ممکن کی تقسیم کی بنیاد دراصل ذات کا مسمی (یعنی referent) نہیں، بلکہ ذات کا صرف نام ہے۔
یہاں آخر میں اشارتاً یہ بات نوت کیجئے کہ درج بالا تفصیل سے واضح ہے کہ اشعری ماتریدی کلام کا نیوپلاٹونزم کے ساتھ تعلق نہیں، کئی لوگوں کو اس بارے میں متعدد غلط فہمیاں ہیں۔

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں