عصر حاضر میں ہمارے متداولہ علوم میں ابھی یہ طے ہونا باقی ہے کہ تعبیر سے کیا مراد ہے، اور مذہب کے بنیادی متون سے تعبیر کیونکر متعلق ہے؟ اور تعبیر کا مسئلہ اس وقت تک لاینحل رہتا ہے جب تک ”علم کیا ہے؟“ کے مسئلے پر دادِ تحقیق نہ دی جائے اور یہ ایک پیچیدہ سوال ہے۔ فوراً جواب کی طرف لپکنے سے پہلے تعبیر کے سوال کو کئی پہلوؤں سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ مثلاً ہماری علمی روایت کے انتاجات دینی علوم کے تقریباً ہر شعبے میں معلوم، معروف اور قابل رسائی ہیں۔ مثلاً تفتازانی کی ”شرح عقائد نسفی“ ایک معروف اور قابلِ رسائی متن ہے۔ اسی طرح محمد بن عبدالوہاب کی ”کتاب التوحید“، اور شاہ اسماعیل شہید کی ”تقویت الایمان“ جدید عہد میں سامنے آنے والے متون ہیں۔ ان کا تعلق عقیدے سے ہے، اور اس امر کے سوا ان میں کوئی چیز مشترک نہیں ہے۔ اس حوالے سے بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا یہ متون کسی ”تعبیر“ کا نتیجہ ہیں؟ اگر اس کا جواب ہاں میں ہے تو ان تعبیری اصولوں کی نشاندہی ضروری ہے جن کو بروئے کار لا کر یہ متون تحریر کیے گئے اور اگر اس کا جواب نہیں میں ہے تو تعبیر (interpretation) اور تصویب (canonization) کے علمی امتیازات اور ان کی ثقاہت کو متعین کرنا ضروری ہے۔ دوسری مثال ”فتاویٰ عالمگیری“ کے حوالے سے دی جا سکتی ہے۔ اول یہ کہ ان فتاویٰ میں بیان کردہ شریعت کس حد تک شرعی ہے؟ اسی طرح محترم جاوید احمد غامدی کی کتاب ”میزان“ مجموعی طور پر فقہ کی کتاب ہے اور اس میں بھی بنیادی سوال یہی ہے کہ اس کے انتاجات خود کہاں تک شرعی ہیں؟ کیا ”فتاویٰ عالمگیری“ کسی تعبیر کے نتیجے میں سامنے آئے ہیں اور اگر ایسا ہی ہے تو اس تعبیری طریقۂ کار کی نوعیت کیا ہے؟ محترم غامدی صاحب کی ”میزان“ بھی کچھ تعبیری اصولوں اور ان کی اطلاقی منہج کے حاصلات پر مشتمل ہے، لیکن اصول، منہج اور حاصلات کی نسبتیں قطعی طور پر مضطرب ہیں۔ محترم غامدی صاحب نے اپنے تعبیری اصول ”میزان“ کے شروع میں ”اصول و مبادی“ کے عنوان سے بیان کیے ہیں۔
میرا فوری مقصد تعبیر اور تعبیری اصولوں کے مسئلے کو زیربحث لانا نہیں ہے بلکہ برصغیر کی علمی روایت میں کئی اساسی موضوعات کے حوالے سے وسیع پیمانے پر ہونے والی تعبیری کارگزاری کی طرف اشارہ کرنا ہے جس نے مذہب کی نئی تشکیلات پیدا کی ہیں جنھیں مجموعی طور پر ”فکر اسلامی“ کہا جاتا ہے۔ اس نام نہاد ”فکر اسلامی“ سے عقل کا کوئی تصور، کلاسیکل یا جدید معنوں میں، مکمل طور پر غیر حاضر ہے اور یہ فکر مکمل طور پر بے سروپا صوابدیدی تشریحات پر مبنی ہے۔ ہماری کلاسیکل معقولی اور علمی روایت اصولِ دین اور اصولِ فقہ پر مبنی تھی۔ اصول دین بنیادی طور پر علمیاتی (epistemelogical) ہے اور اصول فقہ اصلاً تعبیراتی (heremeneutical) ہے۔ علوم کے دائرے میں یہ امر عام ہے کہ علم اور تعبیر کے اصول ایک نہیں ہیں، الگ الگ ہیں۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ اصولِ دین اور جدید علمیات (epistemology) کے فکری تعاملات کو سامنے لایا جاتا اور اصولِ فقہ اور جدید اصولِ تعبیر/ہرمینیات (hermeneutics) میں مکالمے کے فکری امکانات تلاش کیے جاتے۔ اصول دین اور اصول فقہ کی تو کوئی روایت ہی باقی نہ رہی اور نام نہاد فکر اسلامی نے جتنے بھی تعبیری اصول وضع کیے ہیں وہ سب جعلی ہیں۔ اس کی سب سے عمدہ مثال ”میزان“ میں بیان کردہ ”اصول و مبادی“ ہیں جن پر انشاء اللہ آئندہ کسی تحریر میں اپنی معروضات پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔ غامدی صاحب کا رد ناممکن ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ان کے مخاصمین خود ایک علمی خلائے بسیط کے بلیک ہول میں مقید ہیں۔ وہاں سے کوئی صدا آ نہیں سکتی۔ اس صورت حال کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہمارے علوم سے علمیات اور تعبیر دونوں کا مکمل خاتمہ ہو گیا۔ لیکن بحث جاری رہی، اور جب علمی بحث کسی علمی اور تعبیری اصول کے بغیر جاری رہے تو رد و قبول کے سارے منطقی اور عقلی نظام ختم ہو جاتے ہیں اور علوم آلاتی اور judgemental ہو کر فتوے میں سمٹ آتے ہیں۔ وہ علم جو دستارِ تعبیر اور ردائے استدلال اتار پھینکے تکفیری ہو جاتا ہے۔ اسی باعث ہماری گزشتہ دو صدیوں کی فکر اسلامی مکمل طور پر تکفیری ہے۔
”تکفیری“ میں کسی دوسرے مسلمان کو کافر کہنا تو یقیناً شامل ہے لیکن یہ بس یہیں تک نہیں ہے، کیونکہ ”تکفیر“ میں پنہاں انکار کئی دوسری چیزوں کو محیط ہوتا ہے۔ مثلاً پوری اسلامی تاریخ کا انکار کرنا، یعنی مسلم تاریخ کو مسلمانوں کے مذہب اور تہذیب سے خارج کر دینا۔ مثلاً جہاد کو دین سے نکال باہر کرنا یا دین کے اندر رکھتے ہوئے اسے عضو معطل (vestigial) بنا دینا۔ مثلاً احادیث کا انکار کرنا اور انہیں دین کا حصہ تسلیم نہ کرنا۔ مثلاً تقلید اور فقہ کا انکار کرنا اور انھیں دین سے خارج کر دینا۔ مثلاً مذہبی رسومات کا انکار کر دینا۔ مثلاً تصوف کا انکار کر کے اسے دین سے لاتعلق کر دینا یا متوازی دین بتانا۔ مثلاً تفسیر کا انکار کرنا اور اسے کفر قرار دینا۔ مثلاً دین کے روایتی استناد کا انکار کرنا، اور نئے استنادی ڈھکوسلے ایجاد کرنا۔ مثلاً مراتب سے انکار کر کے پورے دین کو ایک discursive علم بنا دینا اور (intellegibility) کا بحران پیدا کر دینا۔ مثلاً علوم سے تنزیہہ اور تشبیہ کے مسئلے کو خارج کر دینا، اور عقیدے کے امکانات پر شب خون مارنا۔ مثلاً دین سے جڑی ہوئی روایتی منہج علمی کا انکار کر کے جدید فلسفیانہ علوم کو اس میں گھسیڑنا۔ مثلاً دین کی اجتماعی سیاسی اور معاشی اقدار کو ترک کر کے بالکل جعلی سیاسی اور معاشی فکر وضع کرنا، علی ہذا القیاس۔ یہ اور کئی دیگر مہمات علمی ہم نے گزشتہ دو سو سال میں سر کی ہیں اور الحاد ان تکفیری علوم کا براہ راست نتیجہ ہے۔
کمنت کیجے