Home » خلیفہ راشد سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے قدیم وجدید باغیوں کے اعتراض
تاریخ / جغرافیہ شخصیات وافکار کلام

خلیفہ راشد سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے قدیم وجدید باغیوں کے اعتراض

سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف چودہ سو سال پہلے جو بغاوت اٹھی تھی، وہ آج تک جاری ہے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس آزمائش کے سبب سے اللہ عزوجل ان کے درجات کو مسلسل بلند فرما رہے ہیں۔ سیاسی باغیوں نے اس وقت بھی سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے وجود سے پہلے ان کے کردار کا قتل کیا تھا، اور آج کے تحریکی اور سیدنا عثمان کے خلاف فکری بغاوت کرنے والی جماعت بھی ان کے کردار کے قتل پر ہی تُلی ہوئی ہے کیونکہ سیاسی قتل تو اب وہ کر نہیں سکتی۔ اگر یہ فکری باغی اس دور میں موجود ہوتے تو سیدنا عثمان کے بالفعل قتل کی تحریک کے فتنے میں بھی شامل ہو چکے ہوتے۔ جنہوں نے سیدنا عثمان کو بالفعل قتل کیا، وہ بھی مسلمان معاشرے کے لوگ تھے، کلمہ گو تھے، داڑھیوں والے تھے، نمازی پرہیز گار تھے، تحریکی تھے، عدل اور انصاف کے علمبردار تھے، ظلم کو مٹانا چاہتے تھے، اسلام کو غالب کرنے کے متمنی تھے، لیکن خوارجی مزاج رکھتے تھے۔ اور آج کل کے خوارجی تو وہ للہیت اور تقوی بھی نہیں رکھتے جو پرانے رکھتے تھے۔ ابھی ایک معاصر باغی کو ہی دیکھ لیں کہ جس کا حضرت عثمان کے خلاف چارج شیٹ کھولنے پر اصرار ہے، یہی حضرت ماضی قریب میں لڑکیاں پٹانے کی باتیں اپنی وال پر کرتے رہے ہیں کہ انہوں نے اپنی زندگی میں اتنی اتنی لڑکیاں پٹائی ہیں اور ساتھ میں دوسروں کو بتلا رہے تھے کہ ایسے نہیں ملتی، پٹانی پڑتی ہے۔ یعنی نکاح کرنے سے بھی حرام کاری کی اجازت ہے۔ بھئی، تم نے کر لی، سو کر لی۔ اللہ سے معافی کی امید رکھو۔ لیکن نوجوانوں کو غلط رستے کیوں دکھاتے ہو یا اپنے گناہ کا اعلان کر کے مجاہر کیوں بنتے ہو؟ کہ جس کے لیے حدیث میں شدید وعید ہے۔ یہ تو ان کے اپنے کردار کا حال ہے اور یہ اصرار کر رہے ہیں کہ صحابہ کے خلاف تحقیق کا دروازہ کھولنے میں حرج ہی کیا ہے؟
اور دوسری طرف صورت حال یہ بھی ہے کہ خود میاں صاحب د-ا-ع-ش-ی خوارجی نظریات کے سبب شمالی علاقہ جات کی سیر بھی کر چکے ہیں۔ ہماری نوجوانوں کو یہی تلقین ہے کہ تحریک کے ساتھ وابستہ رہیں لیکن انتہا پسند خوارجی باغی تحریکی عناصر سے دور رہیں کیونکہ یہ ایک مزاج ہے جو زندگی بھر ختم نہیں ہوتا۔ ایک طرف سے اس مزاج کو ریاست دبا کر کنٹرول کرتی ہے تو یہ دوسری طرف نکل جاتا ہے۔ ہاں خوارجی مزاج میں تبدیلی آ سکتی ہے لیکن وہ صحیح العقیدہ صوفی کی صحبت سے اور صوفیاء کے تو وہ حد درجہ دشمن ہوتے ہیں۔ لہذا ان سے دور رہنا ہی بہتر ہے۔ ان کا ماضی کبھی بھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑتا۔ ان کا صرف رنگ بدل جاتا ہے، مزاج وہی رہتا ہے۔ دیکھو، ہمارا کسی معاصر باغی کے ساتھ کوئی ذاتی اختلاف نہیں ہے۔ اگر ہوتا تو ہم اس پر اس سے پہلے لکھ چکے ہوتے۔ جب انہوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف مہم شروع کی تو اب صورت حال یہ ہے کہ یہ انجینئر محمد علی مرزا سے بھی بدتر ہیں۔ اور میں یہ بات علی وجہ البصیرۃ کہہ رہا ہوں کیونکہ میں نے انجینئر محمد علی مرزا پر بھی کام کیا کیا ہے۔ وہ بھی اتنی جرات نہیں کرتا جتنی انہوں نے کر لی ہے۔ بس فرق صرف اتنا ہے کہ انجینئر کا حلقہ وسیع ہونے کے سبب اس پر رد عمل زیادہ آ گیا۔ انہیں ابھی پڑھنے والے تھوڑے ہیں اور جو ہیں، وہ بھی بے وقوف دوست زیادہ ہیں کہ کبھی انہیں راہ راست پر لانے کے لیے ان کے تاریخی شعور کی تعریف کر دیں گے (جو وکی پیڈیا کے چند تاریخی صفحات میں اس سے زیادہ ہوتا ہے) لیکن یہ انہیں نہیں معلوم کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ہل سکتا ہے لیکن مزاج نہیں بدل سکتا۔
ایک ایسے ہی باغی نے ہمارے دفاع صحابہ کے اس سلسلے کی پچھلی قسط کی بابت یہ دعوی کیا ہے کہ حافظ صاحب کی یہ تحریر فلاں کی تحقیق سے ماخوذ ہے حالانکہ ان صاحب کا نام میں نے پہلی دفعہ ان حضرت کی زبان سے سنا ہے۔ ان باغیوں کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے پاس جب کوئی علمی جواب نہیں ہوتا تو یہ آپ کی تحقیق کو ڈی گریڈ کرنے کے لیے اس قسم کی نیچ حرکتوں پر اتر آتے ہیں۔ میں نے اسی تحریر میں بھی یہ لکھا تھا کہ یہ باتیں اصلا طبری میں موجود ہیں اور طبری کے حوالے میں نے اپنی کتاب میں نقل کر دیے ہیں، وہاں دیکھ لیں۔ لیکن اس باغی نے اس کے باوجود ہماری تحقیق کو اپنے قارئین کی نظر میں گھٹانے کی خاطر یہ الزام لگا دیا کہ فلاں معاصر محقق کی تحقیق سے یہ سب کچھ ماخوذ ہے۔ تو فلاں معاصر محقق نے بھی طبری سے لے لیا ہو گا، اس میں کیا راکٹ سائنس ہے جو ان کو سمجھ نہیں آ رہی۔ اصل میں یہ خود ثانوی مصادر سے ساری کھچڑی پکاتے ہیں اور اصل مصادر دیکھنے کی انہیں توفیق نہیں ہوتی لہذا ہر کسی کو اپنے پر قیاس کرتے ہیں۔ ہم نے بہت عرصہ پہلے مشاجرات سے متعلق طبری کے بعض مقامات آن لائن پڑھائے ہوئے ہیں، اس کا ٹیکسٹ ہائی لائیٹ کر کے اور اس کو لائیو دکھا کر۔ اس سے زیادہ اس موضوع پر ان باغیوں سے کلام کرنا بے کار ہے۔ اب ہم اصل موضوع کی طرف آتے ہیں کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بغاوت کے عمومی اسباب کا جائزہ پچھلی قسط میں، اب ہم اس قسط میں اس کے خصوصی اسباب کے بیان کی طرف آتے ہیں۔
باغیوں نے اپنے فتنے کے ذریعے حضرت عثمان کے خلاف جو چارج شیٹ بنا لی تھی اور اُسے پھیلا رہے تھے، اُن میں ایک بہت بڑا اعتراض تو یہ تھا کہ آپ نے سرکاری چراہ گاہ کو ذاتی مقصد کے لیے استعمال کیا ہے۔ صورت حال یہ تھی کہ حضرت عمر نے مدینہ سے کچھ فاصلے پر 80 کلو میٹر کا علاقہ سرکاری چراہ گاہ کے طور خاص کر دیا تھا کہ جس میں بیت المال کے اونٹ اور گھوڑے چرتے تھے۔ حضرت عثمان کے زمانے میں اِن اونٹوں اور گھوڑوں کی تعداد میں کافی اضافہ ہو گیا تو اُنہوں نے سرکاری چراہ گاہ کی حدود میں توسیع کر دی۔ اب اِس پر مصر سے آئے باغیوں کے ایک گروہ نے اعتراض کیا کہ آپ نے لوگوں کے جانوروں کا چارہ اور پانی روک لیا ہے۔اور یہ کام اللہ کے حکم سے نہیں کیا بلکہ اپنی طرف سے کیا ہے کیونکہ چراگاہ کی توسیع کی بابت کوئی وحی تو نازل نہیں ہوئی۔ بعض روایتوں میں یہ بھی ہے کہ اُنہوں نے حضرت عثمان کو سورۃ یونس پڑھنے کو کہا اور جب حضرت عثمان اِس آیت پر پہنچے کہ اللہ کے نازل کردہ رزق میں سے بعض کو تم نے حرام قرار دیے دیا اور بعض کو حلال۔ تو وہ کہنے لگے کہ آپ نے یہی کام کیا ہے۔ حضرت عثمان نے انہیں سمجھایا کہ یہ آیت فلاں پس منظر میں نازل ہوئی ہے یعنی مشرکین کی بابت، اس کا میرے فعل پر اطلاق درست نہیں لیکن وہ ماننے کو تیار نہ تھے کہ خوارجی تھے اور قرآن کے ظاہر سے استدلال کے پیرو تھے، اس آیت کے پس منظر اور سبب نزول کو اہمیت دیے بغیر۔ انہوں نے اور آیات سے بھی استدلال کیا۔ اِس کے بارے بھی حضرت عثمان نے جواب دیا کہ یہ آیت فلاں فلاں پس منظر میں نازل ہوئی ہے، اس کا اطلاق مجھ پر درست نہیں لیکن وہ اعتراضات کرتے چلے گئے، یہاں تک کہ حضرت عثمان نے خاموشی اختیار کی اور اُنہیں کہا کہ میں اللہ عزوجل سے توبہ استغفار کر تا ہوں، برائے مہربانی مسلمانوں میں فتنہ ڈالنے سے باز رہو اور جماعت کے ساتھ جڑے رہو، اور مجھے بتاؤ کہ اب توبہ استغفار کے بعد مجھ سے مزید کیا چاہتے ہو تا کہ میں تمہاری وہ شرائط بھی پوری کر دوں اور اُمت فتنے سے بچی رہے۔ انہوں نے چند شرائط رکھیں، حضرت عثمان نے اُن کو مان لیا اور وہ واپس ہو گئے۔
لیکن مصر واپسی کی طرف رستے میں باغیوں کو ایک شخص ملا کہ جس کے پاس سیدنا عثمان کا خط تھا کہ جس میں اُنہوں نے مصر کے گورنر کو لکھا تھا کہ اِن میں سے فلاں فلاں کو قتل کر دو یا کوڑے مارو یا قید کر دو یا جلا وطن کر دو۔ باغی وہیں سے واپس مدینہ آ گئے۔ سیدنا عثمان نے اُنہیں یقین دلایا کہ یہ خط میرا نہیں ہے، یہ کوئی سازش کر رہا ہے لیکن وہ ماننے کو تیار نہ ہوئے۔ باغیوں نے سیدنا علی کو بھی جا کر کہا کہ حضرت عثمان کو دیکھیں کہ ہمارے ساتھ کیا کر رہے ہیں تو سیدنا علی نے انہیں واپس جانے کو کہا۔ باغیوں نے کہا کہ آپ ہی نے تو ہمیں خط لکھے تھے۔ تو سیدنا علی نے کہا کہ میں نے تمہیں کوئی خط نہیں لکھا اور آبادی سے باہر نکل گئے۔ اس پر باغی بہت حیران ہوئے۔
اس سب کچھ سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن سبا کی لابی اس وقت تک بہت مضبوط ہو چکی تھی۔ وہ ایک طرف سیدنا علی کی طرف سے باغیوں کو خطوط لکھ کر بغاوت پر آمادہ کر رہے تھے۔ اور دوسری طرف سیدنا عثمان کی طرف سے باغیوں کے قتل کے خطوط بھی جاری کر رہے تھے تا کہ باغیوں کے ساتھ صلح کا معاملہ ختم ہو اور جنگ کی آگ کو خوب بھڑکایا جا سکے۔انہی حالات اور فتنوں کے سبب سیدنا عمار بن یاسر اور محمد بن ابی بکر جیسے لوگ بھی سازش کا شکار ہو گئے تھے اگرچہ انہوں نے بعد میں رجوع کر لیا تھا۔ مدینہ کی چراگاہ کے مسئلے میں سیدنا عثمان کا موقف بالکل درست تھا کہ انہوں نے وہ چراگاہ صدقات اور بیت المال کے اونٹوں کے لیے مختص کی تھی، اپنے لیے نہیں۔ لیکن باغیوں کا کہنا یہ تھا کہ یہ چراہ گاہ اللہ کی زمین پر ہے، لہذا اِسے حضرت عثمان کا ریاست کے لیے مختص کر دینا اللہ کے حلال کو حرام بنانا ہے۔
یہ بالکل ایک ظاہری قسم کا استدلال تھا کہ جس میں کسی قسم کی بھی کتاب اللہ کی فہم وفراست موجود نہ تھی۔ ایک ریاست میں موجود تمام علاقہ اور وسائل پبلک پراپرٹی ہوتی ہے اور حکومت کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ اسے ریاستی استعمال میں لا سکے اور لوگوں کو پابند کر سکے کہ وہ اِس سے ریاست کی اجازت کے بغیر فائدہ نہ اٹھائیں۔ کسی بھی ریاست میں موجود معدنیات، جنگلات، دریا، چراگاہیں، بندر گاہیں وغیرہ جیسے قدرتی وسائل ریاست ہی کی ملکیت ہوتے ہیں۔ عوام اِس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں لیکن اُن کا انتظام ریاست کے پاس ہی ہوتا ہے۔ اور ریاست اُن سے فائدہ اٹھانے پر انتظامی پہلو سے پابندی لگا سکتی ہے بشرطیکہ وہ عوام مفاد میں ہی استعمال ہو رہے ہوں۔ اور یہاں بھی چراہ گاہ کامعاملہ یہ تھا کہ سیدنا عثمان کے زمانے تک زکوۃ، صدقات اور بیت المال کے اونٹ بہت بڑھ گئے تھے کہ جنہیں ایک مختص چراہ گاہ کی ضرورت تھی، ورنہ وہ مال ضائع ہو جاتا۔ اور یہ مال بھی ریاست کا مال تھا کہ جو عوام ہی کی فلاح وبہبود پر خرچ ہوتا تھا۔ یہ چراہ گاہ بھی حضرت عمر نے مختص کی تھی، سیدنا عثمان نے صرف اس کی حدود میں اضافہ کیا تھا۔
باغیوں کا ایک اعتراض یہ تھا کہ حضرت عثمان نے عبد اللہ بن ابی سرح کو مال غنیمت سے خاص حصہ دیا تھا۔ اِس پر حضرت عثمان نے جواب دیا کہ اُنہوں نے خمس میں سے پانچواں حصہ یعنی چار فی صد بطور انعام عبد اللہ بن ابی سرح کو دیا تھا جو کہ ایک لاکھ کی رقم تھی۔ اِس قسم کے انعامات اُمرائے لشکر میں حضرات شیخین بھی جاری کیا کرتےتھے۔ لیکن جب فوج نے حضرت عثمان کے اس فیصلے کو نا پسند جانا تو وہ رقم اُسی فوج میں ہی تقسیم کر دی گئی تھی حالانکہ اُس مال پر اُس فوج کا کوئی حق نہ تھا۔
واضح رہے کہ خمس، مال غنیمت کا پانچواں حصہ یعنی بیس فی صد ہوتا ہے جبکہ چار حصے یعنی اَسی فی صد سپاہیوں میں تقسیم کیے جاتے ہیں۔ خمس یعنی بیس فی صد کے بارے قرآن مجید نے کہا کہ وہ اللہ اور اُس کے رسول، رشتہ داروں، یتیموں، مساکین اور مسافروں کا حق ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اِس کا مصرف کیا ہو گا تو اِس میں فقہاء کا اختلاف ہے اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں خمس سے متعلق آیت مبارکہ کی تفسیر وتوضیح میں اختلاف ہو گیا کہ اللہ کے حصے سے کیا مراد ہے؟ کیا یہ بیت اللہ اور خانہ کعبہ پر خرچ ہو گا؟ یا مسلمانوں کے مفاد عامہ (public interest) میں خرچ ہو گا؟ اِسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ اُن کی رحلت کے بعد کس پر خرچ ہو گا؟ یہ بنو ہاشم کو ملے گا ؟ یا یہ اُن کے غیر کو بھی جا سکتا ہے؟ اِسی طرح رشتہ دارں سے کیا مراد ہے؟ کیا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ دار ہیں؟ یا اِس سے مراد جو بھی مسلمانوں کا صالح حکمران ہو کہ جسے خلافت آپ علیہ السلام سے نیابت میں ملی ہو، اُس کے رشتہ دار بھی مراد ہیں؟ اور مساکین اور مسافروں سے مراد کیا ہے؟ یہ صرف بنو ہاشم کے ہی مساکین اور مسافر ہیں؟ یا عام مسلمان مساکین اور مسافر بھی اِس میں شامل ہیں؟
اِس بارے مالکیہ کا کہنا یہ ہے کہ خمس یعنی بیس فی صد پر امام کا حق ہے، چاہے تو بیت المال میں لگا دے، چاہے تو مسلمانوں کے مفاد عامہ میں لگا دےجیسا کہ لشکر کے لیے اسلحہ وغیرہ خریدنے میں لگا دے کہ جسے ہم آج کل کی زبان میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ دفاعی بجٹ میں لگا دے۔ مالکیہ کے نزدیک یہ امام کا اجتہاد ہے کہ وہ جہاں چاہے اپنے اجتہاد کے مطابق اِس بیس فی صد کو خرچ کر سکتا ہے بشرطیکہ وہ اجتہاد کی صلاحیت رکھتا ہو۔ اور اِسی رائے پر خلفائے راشدین کا عمل تھا۔ سیدنا عثمان کا بھی یہی موقف تھا کہ جس پر اعتراض ہوا تو اُنہوں نے اختلاف ختم کرنے کے لیے وہ خمس اُنہوں نے سپاہیوں پر ہی لوٹا دیا جبکہ مال غنیمت میں سے وہ سپاہی اپنا حصہ وہ پہلے سے ہی لے چکے تھے۔حضرت عثمان نے بھی خمس کا سارا مال عبد اللہ بن ابی سرح کو نہ دیا تھا بلکہ خمس کا بھی پانچواں حصہ یعنی چار فی صد دیا تھا اور اتنا امام کے اختیار میں ہوتا ہے۔ اور وہ دے بھی اس کو رہے تھے جو امرائے لشکر میں سے تھا اور اِس سے مقصود اُس کی حوصلہ افزائی تھی۔ البتہ امیر لشکر اُن کا رشتہ دار بھی تھا لہذا اعتراض پیدا ہوا تو اُنہوں نے وہ حصہ واپس لے کر سپاہیوں میں ہی تقسیم کر دیا۔
حضرات شیخین اور حضرت علی نے بھی خمس کی تقسیم میں اِسی رویے کو اختیار کیا تھا کہ اِسے امام کا حق مانا تھا اور اپنے اجتہاد سے اِس کی تقسیم کی تھی لہذا اِس بارے میں حضرت عثمان کی روش کوئی نئی نہ تھی لیکن اعتراض کرنے والوں کو ایک اعتراض چاہیے تھا، جو اُنہوں نے بنا لیا تھا۔ البتہ حضرت عثمان نے کمالِ حکمت سے اِس کو بھی دفع کر دیا تھا۔
شوافع اور حنابلہ کا کہنا یہ ہے کہ خمس کے مزید پانچ حصے ہوں گے کہ جن میں سے صرف ایک حصہ رشتہ داروں یعنی بنو ہاشم اور بنو مطلب کو جائے گا، دوسرا یتامی، تیسرا مساکین، چوتھا مسافروں اور پانچواں رسول اللہ کا حصہ جو کہ آپ کی رحلت کے بعد اب مسلمانوں کے مفاد عامہ (public interest) میں خرچ ہو گا۔ حنفیہ کے نزدیک خمس کے تین حصے ہوں گے؛ یتامی، مساکین اور مسافروں کا حصہ۔ اِن کے نزدیک بنو ہاشم اور بنو مطلب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا، لیکن صرف اُن کے فقراء اور مساکین کو، ورنہ یہ اُن کا حق نہیں ہے۔ لہذا رشتہ داروں سے مراد بھی بنو ہاشم اور بنو مطلب کے فقراء اور مساکین ہی ہیں۔ پس حنفی فقہاء کے نزدیک خمس کی اصل مدات یہی تین ہیں۔ رہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ تو وہ آپ کی رحلت کے ساتھ ہی منقطع ہو گیا ہے۔ اور وہ خاص آپ علیہ السلام کا تصرف تھا۔ تو خمس کی تقسیم کیسے کرنی ہے، یہ ایک اجتہادی مسئلہ تھا کہ جس میں سیدنا عثمان کا ایک اجتہاد تھا جو کہ ان کے پیش رَو خلفاء کا بھی تھا لہذا اِس میں اُنہیں مطعون کرنا بنتا نہیں تھا۔
باغیوں کو ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ حضرت عثمان نے اپنے رشتہ داروں کو نوازا ہے۔ اِس پر سیدنا عثمان نے اُن سے سوال کیا کہ کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے قبیلہ قریش کو دوسروں پر ترجیح نہ دیتے تھے؟ وہ لوگ خاموش ہو گئے۔ حضرت عثمان نے دوبارہ سوال کیا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قریش میں سے بنو ہاشم کو ترجیح نہ دیتے تھے؟ لوگ پھر خاموش ہو گئے۔ اِس پر سیدنا عثمان نے کہا کہ اگر میرے پاس جنت کی کنجیاں ہوتیں تو میں وہ بھی بنو امیہ میں تقسیم کرتا تا کہ وہ جنت میں داخل ہو جائیں۔ اُن کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ خاندان سے محبت ایک طبعی امر ہے اور خاندان کا کرنا انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کیا تھا تو میں نے بھی کر لیا تو حرج نہیں ہے۔
بعض روایتوں میں یہ بھی ہے کہ اُنہوں نے وضاحت پیش کی کہ میں نے اپنے رشتہ داروں کو اپنے مال سے دیا ہے، مسلمانوں کے مال سے نہیں۔ اور مسلمانوں کا مال نہ میں اپنے لیے جائز سمجھتا ہوں اور نہ ہی اپنے رشتہ داروں کے لیے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے وضاحت میں یہ بھی بیان کیا کہ تم سب جانتے ہو کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اور پھر حضرات شیخین کے زمانے میں بھی اپنا کس قدر مال مفاد عامہ میں خرچ کیا۔ تو اُس وقت جبکہ مجھے مال کی زیادہ ضرورت تھی اور میں جوان تھا، میں اِس قدر اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والا تھا اور اب جبکہ میں بڑھاپے کی عمر میں ہوں، تو اپنے لیے مال جمع کروں گا اور اس کے لیے بیت المال میں خیانت کروں گا! حضرت عثمان نے یہ بھی واضح کیا کہ رسول اللہ اور اپنے پیش رَو خلفاء کے زمانے میں اُن سے زیادہ مال مویشی کسی کےپاس نہ تھا جبکہ خلیفہ بننے کے بعد اُن کے کل اثاثہ جات میں دو اونٹ ہیں اور وہ بھی اُنہوں نے حج کی سواری کی غرض سے رکھے ہوئے ہیں۔
باغیوں کا الزام یہ تھا کہ بیت المال سے نوازتے تھے اور خیانت کے مرتکب ہوتے تھے تو ایسا کچھ نہ تھا۔ وہ اپنے مال سے دیتے تھے کہ خود مالدار تھے۔ اور خلیفہ بننے سے پہلے سے مالدار تھے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے خرچ کرنا اُن کی گھٹی میں پڑا ہوا تھا کہ عربوں میں ویسے بھی سخاوت عام تھی۔ سیدنا عثمان ایسے امین تھے کہ اُن کی امانت کی گواہی خود رسول اللہ نے دی تھی۔ آپ نے مسلمانوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ عنقریب ایک فتنے سر اٹھائے گا تو لوگوں نے پوچھا کہ اِس سے ہم کیسے بچیں؟ تو آپ نے فرمایا کہ اُس امین یعنی عثمان کے ساتھ ہو جانا۔ سیدنا عثمان کے لیے آپ کے لفظِ امین نے اِس فتنے کی حقیقت کو واضح کر دیا ہے اور یہ بھی کہ سیدنا عثمان کو باغیوں کے الزامات سے برات پہلے ہی سے دربار نبوی سے حاصل ہو چکی تھی، چاہے وہ قدیم باغی ہوں یا جدید۔ اور اِس میں ہمارے لیے یہ بھی سبق ہے کہ خود رسول اللہ نے اِس امت کو آنے والے فتنوں سے کیسے خبردار کیا ہے اور اِن فتنوں سے بچنے کے رستے بھی سجھائے ہیں۔ اب بھی اگر کوئی اِن فتنوں کا شکار ہوا تو وہ حجت تمام ہونے کے بعد ہی ہوا کہ سیدنا عثمان کے دور میں پیدا ہونے والے فتنوں کو آپ اپنی زندگی ہی میں بیان کر گئے تھے۔
یہ بھی بہت اہم مسئلہ ہے کہ سیدنا عثمان کی شہادت اور اُن کےحوالے سے پیدا ہونے والے فتنوں کی خبر آپ نے پہلے سے ہی دے دی تھی اور ایسی کئی ایک روایات ہیں۔ سیدنا حسین کی شہادت کی خبر کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی؟ تو اس بارے دو موقف ہیں۔ بعض اہل علم کچھ ضعیف اور متکلم فیہ روایات کی بنیاد پر اس کے قائل ہیں جبکہ بعض اہل علم اس کے قائل نہیں ہیں۔ البتہ دربار رسول سے شہادت عثمان کی خبر کی روایات صحیح اور مستند ہیں۔
باغیوں کا ایک اعتراض یہ تھا کہ سیدنا عثمان نے نو عمروں کو گورنر لگایا ہے۔ اس کا جواب حضرت عثمان نے دیا کہ میں نے جن کو گورنر لگایا ہے، وہ قابل، متحمل مزاج اور پسندیدہ لوگ ہیں۔ اگر یقین نہ آئے تو اُن کی رعایا سے معلوم کر لو۔ سیدنا عثمان نے باغیوں سے یہ بھی کہا کہ یہ اعتراض تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ہوا تھا جبکہ آپ علیہ السلام نے اسامہ بن زید کو امیر لشکر بنایا تھا کہ اُن کی عمر چھوٹی ہے۔ لیکن اعتراض کرنا آسان ہے، اسے جسٹیفائی کرنا مشکل ہے۔ لہذا جیسے وہ وہاں جسٹیفائی نہ ہو سکا، یہاں بھی جسٹیفائیڈ نہیں ہے۔
دکتور صلابی کا کہنا ہے کہ اصل میں سیدنا عثمان کے کل 26 گورنر تھے کہ جن میں سے پانچ رشتہ داروں کے نام ملتے ہیں کہ جنہیں آپ نے گورنر لگایا تھا؛ معاویہ بن سفیان، عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح، ولید بن عقبہ، سعید بن العاص اور عبد اللہ بن عامر۔ مذکورہ بالا پانچ کے علاوہ 21 گورنر ایسے تھے جو آپ کے رشتہ دار نہیں تھے جیسا کہ ابو موسی اشعری، قعقاع بن عمرو، حبیب مسلمہ، عبد الرحمن بن خالد بن ولید، ابو الاعور السلمی، اشعث بن قیس، جریر بن عبد اللہ بجلی اور یعلی بن منیہ وغیرہ کہ ان کے بارے تو معروف ہے کہ صحابی تھے۔ اِن کے علاوہ کچھ تابعین میں سے بھی تھے۔ دوسرا بنو امیہ میں سے یہ پانچوں گورنر بھی ایک وقت میں نہ تھے بلکہ ولید بن عقبہ کو معزول کر کے سعید بن العاص کو گورنر لگایا گیا تھا۔ بعد میں سعید بن العاص کو بھی معزول کر دیا تھا۔ اور حضرت عثمان کی شہادت کے وقت آپ کے رشتہ داروں میں سے صرف تین گورنر تھے اور وہ تینوں صحابی ہیں۔
اِن تینوں میں سے بھی امیر معاویہ حضرت عمر کے زمانے سے شام کے گورنر چلے آ رہے تھے لہذا خلافتِ عثمان میں چھبیس میں سے دو گورنر ایسے تھے کہ جنہیں حضرت عثمان نے لگایا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی بنو امیہ کے تین گورنر رہے تھے جیسا کہ عتاب بن اسید بن ابی العاص مکہ پر، ابو سفیان بن حرب نجران پر اور ابان بن سعید بحرین پر گورنر مقرر تھے۔ یزید بن ابی سفیان کو حضر ت ابو بکر نے گورنر مقرر کیا تھا جبکہ معاویہ بن ابی سفیان کو حضرت عمر نے شام کا گورنر لگایا تھا۔ ولید بن عقبہ کو بھی پہلے حضرت ابو بکر نے اور پھر حضرت عمر نے سپہ سالاری کی ذمہ داریاں دی تھیں۔
حضرت عثمان نے یہ بھی کہا تھا کہ انہوں نے ولید بن عقبہ کو اپنی رشتہ داری کے سبب گورنر نہیں لگایا تھا بلکہ اس لیے لگایا کہ رسول اللہ کی پھوپھی ام حکیم بیضاء بنت عبد المطلب اُن کی نانی ہے۔ ولید بن عقبہ کی معزولی کے بعد سعید بن العاص کوفہ کے گورنر بنائے گئے۔ کوفہ والے تو حضرت عمر کے گورنر سے بھی مطمئن نہ تھے کہ سعد بن ابی وقاص کی معزولی بھی اُنہی کی شکایتوں کے سبب ہوئی تھی۔ مالک بن حارث اشتر نخعی نے سعید بن العاص کے گورنر بنائے جانے پر اُن کے خلاف پروپیگنڈا کیا تھا۔ اور عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح ایک جنگجو انسان تھے۔ اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہی درمیان میں کچھ عرصہ فتنے کا شکار ہو کر مرتد ہو گئے لیکن پھر دوبارہ اسلام قبول کر لیا تھا۔ تیونس کی فتح میں یہی سپہ سالار تھے۔
اگر یہ بات قابل اعتراض تھی کہ حضرت عثمان نے اپنے چار رشتہ داروں کو گورنر لگایا تھا تو دوسری طرف حضرت علی کے 41 گورنروں میں چار گورنر ایسے تھے جو حضرت عباس کے بیٹے تھے اور سیدنا علی کے چچا زار بھائی تھے جیسا کہ حضرت قُثم بن عباس کو مکہ اور طائف، حضرت تمام بن عباس کو مدینہ، عبید اللہ بن عباس کو یمن اور بحرین، اور عبد اللہ بن عباس کو بصرہ کا گورنر لگایا گیا تھا۔
باغیوں کا ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حَکَم (Hakam) کو مکہ سے طائف بھیج دیا تھا اور حضرت عثمان نے اُنہیں واپس بلوا لیا۔ لیکن حضرت عثمان نے واضح کیا کہ رسول اللہ نے ہی حَکَم کو طائف بھیجا تھا اور یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے کہ جنہوں نے اُنہیں واپس مکہ بلوا لیا تھا۔ اِس پر لوگوں نے گواہی بھی دی کہ ایسا ہی ہے۔
باغیوں کا ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ سفر میں نماز قصر ہے یعنی آدھی ہے جبکہ حضرت عثمان پوری پڑھتے ہیں۔ اِس پر حضرت عثمان نے وضاحت دی کہ جس شہر میں یعنی مکہ میں، میں نے پوری نماز پڑھی ہے، وہاں میرے اہل وعیال رہائش پذیر ہیں لہذا میں نے اپنے آپ کو وہاں مقیم شمار کیا تھا۔

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر دینی علوم کے معروف اسکالر ہیں اور رفاہ یونیورسٹی لاہور میں تدریسی خدمات انجام دیتے ہیں۔

mzubair.is@riphah.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں