Home » علم کلام کا دائرہ بحث: قاضی باقلانی کی رائے
شخصیات وافکار کلام

علم کلام کا دائرہ بحث: قاضی باقلانی کی رائے

قاضی ابوبکر باقلانی (م 403 ھ / 1013 ء) علم کلام کے موضوع پر اپنی کتاب “تمہید الاوائل و تلخیص الدلائل” کے مقدمے میں کتاب کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں:
كتاب جَامع مُخْتَصر مُشْتَمل على مَا يحْتَاج إِلَيْهِ فِي الْكَشْف عَن معنى الْعلم وأقسامه وطرقه ومراتبه وضروب المعلومات وحقائق الموجودات وَذكر الْأَدِلَّة على حدث الْعَالم وَإِثْبَات محدثه وَأَنه مُخَالف لخلقه وعَلى مَا يجب كَونه عَلَيْهِ من وحدانيته وَكَونه حَيا عَالما قَادِرًا فِي أزله وَمَا جرى مجْرى ذَلِك من صِفَات ذَاته وَأَنه عَادل حَكِيم فِيمَا أنشأه من مخترعاته من غير حَاجَة مِنْهُ إِلَيْهَا وَلَا محرك وداع وخاطر وَعلل دَعَتْهُ إِلَى إيجادها تَعَالَى عَن ذَلِك وَجَوَاز إرْسَاله رسلًا إِلَى خلقه وسفراء بَينه وَبَين عباده وَأَنه قد فعل ذَلِك وَقطع الْعذر فِي إِيجَاب تصديقهم بِمَا أبانهم بِهِ من الْآيَات وَدلّ بِهِ على صدقهم من المعجزات
مفہوم: ایک جامع اور مختصر کتاب جو ان تمام امور پر مشتمل ہے جن کی ضرورت علم کی حقیقت، اس کی اقسام، اس تک پہنچنے کے طریقے و مراتب، معلومات کی اقسام، اور موجودات کی حقیقتوں کے انکشاف میں پیش آتی ہے۔ نیز اس میں دلائل ہیں عالم کے حادث ہونے اور اس کے محدث کے وجود پر، اور اس بات پر کہ وہ محدث اپنی مخلوق سے مختلف ہو، وہ لازماً یکتا ہو، ازل سے زندہ عالم و قادر ہو، اور اس کی صفات سے متعلق ایسے دیگر امور پر بھی گفتگو کی گئی ہے، نیز یہ کہ وہ اپنے تمام افعال میں عدل کرنے اور حکمت والا ہے اس حال میں کہ اسے ان (مخلوقات) کی حاجت نہیں، اور (اس کے افعال کا اس کے ارادے سے ماوراء) کوئی محرّک، داعیہ، خیال یا علت نہیں جو اس سے ایجاد کا تقاضا کرے۔ اور اس بات پر بھی (دلائل کا ذکر ہے) کہ اللہ کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے بندوں کی طرف رسول بھیجے جو اس کے اور بندوں کے درمیان سفیر ہوں، اور اس پر بھی (دلائل دئیے گئے ہیں) کہ اس نے ایسا کیا ہے، نیز اس نے انبیاء کی تصدیق کو واجب کرنے کے معاملے میں واضح نشانیاں ظاہر کرکے (لوگوں کے پاس) کوئی عذر نہیں چھوڑا اور معجزات کے ذریعے ان کے سچے ہونے پر دلیل قائم کی۔
اس کے بعد قاضی صاحب باطل فرقوں کا ذکر کرتے ہیں۔ آپ کی اس تفصیل اور کتاب کے مباحث کی ترتیب سے علم کلام کا سکوپ واضح ہوتا ہے جو دو امور پر مبنی کہا جاسکتا ہے: امور عامہ جن کا تعلق ہر عقلی و فلسفیانہ ایکٹیویٹی سے ہے اور وہ معین مسائل جو ان امور کو مخصوص مسائل پر لاگو کرنے سے متعلق ہیں۔ امور عامہ کا خلاصہ یہ ہے:
1) علمیات: علم کی حقیقت و اقسام نیز اس کے حصول کے ذرائع کی ابحاث۔ قاضی صاحب علم کو علم قدیم و حادث اور پھر علم حادث کو ضروری و نظری میں تقسیم کرتے ہوئے ہر ایک کی تفصیل لکھتے ہیں۔
2) وجودیات: آپ تمام قابل علم (knowable        objects) کو پہلے موجود و معدوم اور پھر معدوم کو ممکن و محال میں تقسیم کرتے ہیں، پھر ممکن کو تین اقسام میں رکھتے ہیں:، وہ جن کے بارے میں ہمیں علم ہے کہ وہ رونما ہوں گے، وہ جو رونما نہیں ہوں گے اور وہ جن کے ہونے اور نہ ہونے کے بارے میں کوئی علم نہیں۔ پھر آپ موجود کو قدیم و حادث (ماسوا اللہ) اور پھر حادث کو جوہر، جسم و عرض میں تقسیم کرتے ہیں۔ یہاں نوٹ کرلیجئے کہ متکلمین جب ماسوا اللہ کے جوہر، جسم و عرض میں محدود ہونے، معدوم کے شے نہ ہونے، جزو لایتجزی وغیرہ کا بیان کررہے ہوتے ہیں تو دراصل وہ اپنی وجودیات (ontology) بیان کررہے ہوتے ہیں۔
معین امور کا خلاصہ یوں ہے:
1) اس کے بعد آپ عالم کے حدوث اور اس کے محدث کے وجود پر دلائل قائم کرتے ہوئے اس کی تنزیہی و ثبوتی صفات کی بحث کرتے ہیں۔
2) چونکہ نبی مبعوث کرنا خدا کے افعال میں سے ایک فعل ہے، اس لئے خدا کے حکیم و عادل ہونے کے تناظر میں اس کے افعال کی اخلاقی نوعیت پر بحث کرتے ہیں، اسے morality کی بحث کہا جاتا ہے۔ اسی بحث کا تعلق اس پہلو سے ہے کہ وحی کی خبر میں کونسا حکم آنا واجب ہے، کونسا محال اور کونسا جائز ہے۔
3) اس کے بعد امکان نبوت، وقوع نبوت اور اس کے ثبوت کے دلائل پر بحث کرتے ہیں۔
4) اثبات نبوت کے بعد آپ ان امور کی جانب رخ کرتے ہیں جو نبی کی خبر سے ثابت ہوتے ہیں (انہیں “سمعیات” کہتے ہیں)۔ اس نظام فکر میں مدعی نبوت کی سچائی کی تصدیق بذریعہ دلیل ہوجانے کے بعد امکان عقلی کے دائرے میں اس کی خبر کی تصدیق کرنا اندھا یا نرا ایمان نہیں رہتا۔
قاضی صاحب کی یہ تفصیل علم کلام کی نوعیت کو بخوبی واضح کردیتی ہے۔ یہاں چند باتیں بالخصوص نوٹ کرنے لائق ہیں:
الف) متاخرین کے ہاں جنہیں فلسفے کے “امور عامہ” کہتے ہیں، متقدمین متکلمین بھی یہ اصطلاح استعمال کئے بغیر ان پر ضروری ابحاث کیا کرتے تھے۔ بعض لوگوں کو وہم ہوا کہ ان امور پر بحث امام رازی (م 606 ھ / 1210 ء) و مابعد فنامینا ہے۔ اسلامی روایت میں یہ امور علامہ ابن سینا (م 429 ھ / 1037 ء) سے ماقبل زیر بحث رہے ہیں۔
ب) یہ اقتباس علم کلام اور فلسفے کے مباحث میں اشتراک (overlap) کو بھی بخوبی واضح کرتا ہے۔ آپ کی بحث کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ علم کلام کا موضوع سب “معلوم” (objects         of         knowledge) ہیں۔
ج) علمیاتی ترتیب کی رو سے امکان و ثبوت نبوت کی بحث ذات باری اور اس کی صفات کا ثبوت فراہم کردئیے جانے کے بعد شروع ہوتی ہے، اس فریم ورک میں اس بات کا کوئی مطلب نہیں کہ “خدا کیسا ہے” یا “خدا کون ہے” کا جواب نبی کی خبر سے لیا جائے گا (کتاب “التقریب والارشاد” میں قاضی صاحب نے اس نکتے کو مزید واضح کرتے ہوئے بتایا ہے کہ نبوت کی بحث فرع ہے)۔
د) وحی کی خبر میں کیا وارد ہوسکتا ہے اور کیا نہیں (یعنی کیا محال ہے)، اس کا تعین عقل سے ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں یہ جو بات مشہور ہوگئی ہے کہ نبی کی ضرورت اس لئے ہے کیونکہ انسانی ذرائع علم حقیقت کے ادراک میں ناکارہ ہیں، یہ نکتہ اس دعوے کی غلطی پر روشنی ڈالنے والا ہے۔
ھ) نبی کی خبر کی تصدیق کرنا یا اس کی خبر سے کچھ معلوم ہونا تقلید میں سے نہیں جیسا کہ ان لوگوں کا خیال ہے جو جاننے اور ماننے کو الگ کہتے ہیں، بلکہ اس کی خبر کی تصدیق دلیل پر مبنی علم ہے۔

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں