بیسویں صدی کے مؤلفین نے شراکت کے متعلق اسلامی قانون کے اصولوں کو بھی خلط ملط کردیا ہے اور عام طور پر ان کتابوں کے پڑھنے، بلکہ بعض اوقات پڑھانے، کے باوجود لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتا کہ شراکت کا کاروبار کن اصولوں پر کھڑا ہے اور یہ اصول باہم کس طرح تعامل کرتے ہیں؟ اس لیے ضروری ہے کہ اس ضمن میں چند بنیادی باتوں کی وضاحت کی جائے۔
ہمارے ہاں عام طور پر شراکت سے ذہن partnership کے کاروبار کی طرف جاتا ہے، لیکن جب اسلامی قانون کا طالب علم شراکت کے متعلق اسلامی قانون کی کتابیں پڑھتا ہے، تو اسے وہاں بہت کچھ ایسا نظر آتا ہے جو ہمارے ہاں پارٹنرشپ کے قانون میں نہیں ہوتا۔ اس لیے بنیاد سے بات شروع کرنی چاہیے۔
اسلامی قانون میں شراکت کی تین بنیادی قسمیں ہیں:
ایک، مباح چیزوں میں شراکت؛
دوسری، ملکیت میں شراکت، جسے قانون co-ownership کہتا ہے؛ اور
تیسری، عقد کے نتیجے میں وجود میں آنے والی شراکت۔
مباح چیزوں میں شراکت سے مراد یہ ہے کہ جو چیزیں کس کی ملکیت میں نہیں ہیںِ، وہ سب کی ہیں اس مفہوم میں کہ جس نے انھیں پہلے قبضے میں لے کر الگ کرلیا، تو وہ اس کی ہوجاتی ہیں، جیسا کہ حدیثِ مبارک میں تین چیزوں میں اس طرح کی شراکت کا ذکر ہے۔ مثلاً کوئی شخص جنگل گیا اور لکڑی کاٹ کر الگ کرلی، تو وہ اس کی ہوگئی۔
یاد رہے کہ چونکہ معاصر قانونی نظام میں ریاست نامی فرضی شخص کو تمام چیزوں کا قانونی مالک مانا جاتا ہے، اس لیے اس فرضی شخص کو ماننے کے بعد ایسی کوئی مباح چیز باقی نہیں رہی میں سب لوگ اس مفہوم میں شریک ہوں؛ گویا ریاست کی فرضی شخصیت نے لوگوں کے درمیان شراکت کی یہ قسم قانوناً ختم کردی ہے، اور اب جنگل سے لکڑی کاٹنا ہو یا دریا سے پانی لینا ہو، ایسا اس کے قانونی مالک یعنی ریاست سے اجازت لیے بغیر نہیں کیا جاسکتا۔
دوسری قسم، ملکیت میں شراکت، کی ایک صورت یہ ہے کہ ایک شخص فوت ہوگیا ہے، تو اس کے مال کی ملکیت اس کے ورثا کی طرف منتقل ہوجاتی ہے؛ یا کسی نے اپنا مال دو یا زائد افراد کو ہبہ کردیا؛ تو جب تک اس مال کو تقسیم نہ کیا جائے اور ہر ایک کا حصہ الگ نہ کیا جائے، یہ ان کی مشترک ملکیت میں رہتا ہے۔
شراکت کی یہ دونوں قسمیں عقد کے بغیر وجود میں آتی ہیں اور اس لیے یہ partnership کے جدید تصور سے خارج ہیں۔
شراکت کی تیسری قسم وہ ہے جو عقد (contract) کے نتیجے میں وجود آتی ہے، ایسا عقد جس کا مقصد اکٹھے کاروبار کرکے اکٹھے نفع کمانا ہو۔ یہی وہ چیز ہے جسے معاصر قانون partnership کہتا ہے۔ آگے کی ساری بحث بنیادی طور پر شراکت کی اس قسم “شرکۃ العقد” کے متعلق ہوگی۔
شراکت کی تیسری قسم وہ ہے جو عقد (contract) کے نتیجے میں وجود آتی ہے، ایسا عقد جس کا مقصد اکٹھے کاروبار کرکے اکٹھے نفع کمانا ہو۔ یہی وہ چیز ہے جسے معاصر قانون partnership کہتا ہے۔ آگے کی ساری بحث بنیادی طور پر شراکت کی اس قسم “شرکۃ العقد” کے متعلق ہوگی۔
عام طور پر اس طرح کی شراکت کےلیے فریقین اپنی اپنی جانب سے مال شامل کرتے ہیں۔ اس لیے شراکت کی اس قسم کی بحث میں عام طور پر “شرکۃ الاموال” کی بات کی جاتی ہے۔
تاہم یہ عین ممکن ہے کہ دو افراد مال کے بجاے اپنا اپنا عمل شامل کرکے اکٹھے کاروبار شروع کریں، جیسے دو نانبائی مل کر کام کریں۔ اس صورت میں اسے “شرکۃ الاعمال” کہا جاتا ہے۔
اگر ایک جانب سے مال اور ایک جانب سے عمل ہو، تو اسے شراکت نہیں، بلکہ مضاربت کہا جاتا ہے اور ایسی صورت میں مال دینے والے کو “رب المال” اور عمل کرنے والے کو “مضارب” کہا جاتا ہے۔ مضاربت کو فی الحال ایک طرف رکھیں اور شراکتی کاروبار، یعنی شرکۃ الاموال اور شرکۃ الاعمال کی طرف آئیں۔
شراکتی کاروبار میں دونوں شریک ایک دوسرے کے وکیل (agent) ہوتے ہیں؛ یعنی ان میں سے ہر ایک کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ دوسرے کی جانب سے فعل سر انجام دے؛ اسی طرح اگر ایک شریک نے کاروبار کے متعلق کوئی کام کیا، تو وہ صرف اس کا فعل نہیں ہوگا، بلکہ اسے دوسرے شریک کا فعل بھی سمجھا جائے گا، بشرطے کہ وہ ایسا فعل نہ ہو جو وکالت (agency) کی حدود سے باہر ہو۔ اس لیے شراکتی کاروبار کے متعلق اسلامی قانون کی تفصیلات سمجھنے کےلیے از حد ضروری امر یہ ہے کہ وکالت کے متعلق اصول پہلے سمجھ لیے جائیں۔
اسی طرح یہ ضروری تو نہیں، لیکن ممکن ہے کہ دونوں شریک ایک دوسرے کے کفیل (surety) بھی بن جائیں، یعنی ہر شریک یہ ذمہ داری اٹھائے کہ کاروبار سے متعلق دوسرے شریک کے دیون (debts) کی ادائیگی کےلیے وہ ذمہ دار ہوگا۔ اگر شریکین نے ایسی بات شراکت کے معاہدے میں شامل کرلی، تو پھر کفالت کے عقد (contract of guarantee) کے متعلق بھی اسلامی قانون کے اصولوں کا فہم بھی ضروری ہوگا۔
پھر جب شراکتی کاروبار میں نفع ہوجائے، تو اس نفع میں دونوں شریک ہوتے ہیں۔ اس لیے جب تک اس اضافی مال/نفع کو تقسیم کرکے ہر شریک کا حصہ اس کےلیے الگ نہ کیا جائے، اس میں دونوں شریکوں کو مشترک ملکیت (co-ownership) حاصل ہوتی ہے۔ یہ مشترک ملکیت وراثت سے پیدا ہونے والی مشترک ملکیت سے اس لحاظ سے مختلف ہے کہ وراثت تو شرعی حکم سے ہوتی ہے، جبکہ یہاں عقد یعنی عقدِ شرکہ کے نتیجے میں مشترک ملکیت پیدا ہوئی ہے۔ بہرحال، مشترک ملکیت کے متعلق اصولوں کا فہم بھی اس وجہ سے ضروری ہوجاتا ہے۔
نیز چونکہ شراکت کے کاروبار میں عموماً ایک شریک کا مال دوسرے کے پاس رکھا جاتا ہے، یا بعض اوقات جس مال پر دونوں کی مشترک ملکیت ہوتی ہے، وہ کسی ایک شریک کے پاس ہوتی ہے، اس لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ ایسی صورت میں اس مال کو جو اس شخص کے پاس ہے، جو اس کا مالک نہیں ہے، یا اس کا تنہا مالک نہیں ہے، اسلامی قانون کی رو سے “ودیعہ” (deposit) کی حیثیت حاصل ہوتی ہے اور عقدِ ودیعہ دراصل عقدِ امانت ہے یعنی اس پر “امانت” کے اصولوں کا اطلاق ہوتا ہے۔
ہمارے اردو مؤلفین عموماً ودیعہ کو امانت کہتے ہیں، حالانکہ اسلامی قانون میں امانت کے نام سے کوئی الگ عقد نہیں پایا جاتا ہے، بلکہ مختلف عقوو اور معاملات پر امانت کے اصولوں کا اطلاق ہوتا ہے اور ان سب کو اکٹھے “عقود الامانہ” کہا جاتا ہے۔
یہاں تک شراکتی کاروبار کے متعلق چار چیزیں ہمارے سامنے آئی ہیں جنھیں سمجھے بغیر شراکتی کاروبار کے متعلق اسلامی قانون کے اصولوں کی درست تفہیم ممکن نہیں ہے:
(1) ودیعہ
(2) مشترک ملکیت
(3) وکالہ
(4) کفالہ
ایک شریک نے دوسرے پاس کوئی چیز رکھی ہے، تو وہ ودیعہ ہے اور اس پر امانت کے اصولوں کا اطلاق ہوتا ہے؛ جس چیز پر دونوں کی ملکیت ہو، اس پر مشترک ملکیت کے احکام لاگو ہوتے ہیں؛ شریک ایک دوسرے کے وکیل ہوتے ہیں؛ اور شریک ایک دوسرے کے کفیل بھی ہوسکتے ہیں۔
یہاں تک بات واضح ہو، تو اگلی بحث آسان ہوجاتی ہے۔
کمنت کیجے