اس پر ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں، موضوع کی مشکلات نیز جدید فلسفے کی پیدا کردہ غیر مفید اصطلاحات کی پیچیدگیوں کے باوجود یہاں اشارتا چند نکات لکھتے ہیں۔
حسن و قبح افعال کے احکام کی بحث ہے اور حسن و قبح کے کئی معنی ہیں۔ سر دست یہاں چار اہم ہیں:
1) یہ کسی فعل کی وہ ذاتی صفات ہیں جو ان کے فاعل کے لئے فوری طور پر تعریف اور مذمت لازم کریں۔ اس تعریف کے مطابق حسن وہ فعل ہے جس سے کسی فاعل کی تعریف لازم آئے اور قبیح وہ ہے جس سے اس کی مذمت لازم آئے۔ اس معنی میں حسن و قبح کو عقلی امور کہتے ہیں (متکلمین کی اصطلاح میں دلیل عقلی وہ ہے جو اپنی ذات کی بنا پر کسی شے پر دال ہو یا اسے لازم کرے) اور اس معنی میں حسن و قبح کا وہی تصور ہے جسے مادی امور کی بحث میں علت کہتے ہیں (یعنی کسی شے کا اپنی ذاتی صفت کی بنا پر کسی شے کو لازم کرنا، نہ کہ کسی ارادہ کرنے والے کی مشیت کی بنا پر)۔ بات کو آسان رکھنے کے لئے ہم یوں کہیں گے کہ اس مفہوم کی رو سے حسن و قبح مورل صفات ہیں جو کچھ امور کو لازم کرتی ہیں۔ یہ ابجیکٹو حسن و قبح کی ایک تشریح ہے اور اس کی رو سے اخلاقی قضایا ہر ارادی فاعل پر لاگو ہیں چاہے وہ بندہ ہے یا خدا اس لئے کہ فعل کی اخلاقی قدر کا تعین اس سے نہیں ہوتا کہ فاعل کون ہے بلکہ یہ فعل کی صفت سے ہوتا ہے۔ یہ معتزلہ و شیعہ امامیہ کا موقف ہے۔
2) یہ کسی فعل کی فاعل کی اغراض کے ساتھ ہم آھنگی و عدم ہم آھنگی سے عبارت ہیں، پس جو چیز کسی فاعل کی اغراض کے ساتھ ملائم (compatible) ہو وہ اس کے لئے حسن ہے اور جو اس کی اغراض کے ساتھ غیر ملائم ہو وہ اس کے لئے شر ہوتی ہے۔ یعنی حسن و قبح افعال کی ذاتی صفات نہیں ہیں بلکہ فاعل و فعل کے مابین اغراضی نسبت کا نام ہے۔ انسانوں کی بالاخر غرض جلب منفعت و لذت اور دفع مضرت و الم ہے۔ پس انسانی سطح پر لاگو اخلاقی قضایا لذت و الم کے انسانی جذبات پر مبنی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جو فاعل ان جذبات سےماورا ہے اس کے افعال پر ان قضایا کی روشنی میں حکم لگانا ممکن نہیں۔ اس تشریح کے مطابق بھی انسانی سطح پر جاری اخلاقی قضایا ابجیکٹو ہیں (اس لئے کہ انسانی اغراض و جذبات بھی حقائق ہیں)۔ تاہم اس تعبیر کی رو سے فعل میں ایسی کوئی ذاتی صفت نہیں جو ہر ذات کے نزدیک اس کے فاعل کی تعریف و مذمت (اور نتیجتا اجر و سزا) کو لازم کرے۔ باالفاظ دیگر یہ تعبیر یہ نہیں کہہ رہی کہ اخلاقی قضایا سبجیکٹو بمعنی ذہنی تخیلات وغیرہ ہیں بلکہ یہ ان کی معروضی نوعیت کی ایک متبادل تشریح ہے۔ اشاعرہ انسانی سطح پر جاری اخلاقی قضایا کے بارے میں یہی رائے رکھتے ہیں۔ چونکہ خدا لذت و الم سے ماورا ہے، لہذا انسانی سطح پر جاری اخلاقی قضایا سے خدا کے افعال پر عدل و ظلم کا کوئی حکم جاری کرنا ممکن نہیں۔ باالفاظ دیگر پہلے موقف کے برعکس فاعل دو طرح کے ہیں، وہ جس کے افعال اغراض کے ماتحت ہیں اور وہ جو جس کے افعال اغراض سے متعین نہیں ہوتے۔ اول الذکر کے احکام موخر الذکر پر لاگو نہیں ہوسکتے۔ یہ حکم کہ فلاں فعل سے چونکہ اذیت و الم جنم لے رہا ہے اس لئے یہ فعل شر اور اس کا فاعل شریر ہے، یہ حکم قبیح ہونے کے اسی فریم آف ریفرنس سے پیدا ہوتا ہے (نہ کہ پہلے سے)، لہذا اس کا اطلاق اس فاعل پر کیٹیگری مسٹیک ہے جو حسن و قبح کے اس معنی سے ماورا ہے۔ متکلمین اسے یوں کہتے ہیں کہ حسن و قبح عقلی امور نہیں (یا خدا کے افعال پر حسن و قبح عقلی لاگو نہیں)۔ اس موقف کی ترجمانی یوں ہوگی کہ موریلٹی کوئی شے نہیں (یعنی موریلٹی کوئی ایسی صفت نہیں جو کسی دوسری شے یعنی تعریف و مذمت کو لازم کرے)۔ البتہ یہاں کسی فعل کو prudent کے معنی میں حسن کہا جاسکتا ہے کہ جس سے لذت کے حصول یا تکلیف میں کمی وغیرہ ممکن ہوتے ہیں۔ اس تشریح کے مطابق پوزیٹو اور نارمیٹو جملے میں اصلا کوئی فرق نہیں اور اس تعبیر کے مطابق یہ ماننے میں کوئی رکاوٹ نہیں کہ انسانی سطح پر جاری اخلاقی قضایا بالاخر انسانی اغراض و مفادات کے ارد گرد بنے گئے سماجی امور ہوتے ہیں (لیکن یہ حقیقی و ابجیکٹو ہی ہیں)۔
3) یہ کسی فاعل کے لئے کسی فعل کے مطلق جواز سے عبارت ہیں۔ خدا کی جناب میں یہی معنی متعلق ہیں اس لئے کہ خدا کے لئے ہر فعل حسن بمعنی جائز ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ خدا کا ہر فعل اپنی ملک میں ہے، ظلم کا معنی تب متصور ہوتا ہے جب کوئی فاعل کسی کی ملکیت میں ایسا تصرف کرے جو اس کے لئے روا نہیں۔ اس دنیا میں کسی بنیاد پر کسی کا ایسا کوئی استحقاق نہیں جو فاعل مختار کے افعال پر روک لگا سکے یا اس پر کچھ واجب کرسکے۔ پس خدا کا ہر فعل جائز اور لازما حسن ہے (لیکن پہلے معنی کے مفہوم میں نہیں)، اس کے کسی فعل پر انسانی سطح پر جاری اخلاقی تصورات کی بنا پر نہ روک لگائی جاسکتی ہے اور نہ اعتراض کیا جاسکتا ہے۔ اگر وہ سب کو پیدا کرکے تکلیف دے تو اس کے لئے یہ بھی جائز و عدل ہے، پھر وہ سب کو جہنم میں ڈال دے تو اس کی جناب میں یہ بھی جائز و عدل ہے۔ نیز بندے جس چیز کو اچھا و برا سمجھیں اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ خدا کی جناب میں بھی وہ اچھے وہ برے ہوں گے۔ اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ حسن و قبح عقلی کی بنیاد پر عند اللہ بندوں کی کوئی تکلیف ثابت نہیں ہوتی، اسے برات اصلیہ بھی کہتے ہیں کہ اگر بالفرض نبی کی بعثت نہ ہو تو بندوں کے افعال سے متعلق عند اللہ حسن و قبح کے حکم کے بارے میں توقف اختیار کیا جائے گا اس لئے کہ دلیل عقلی یہاں مفید نہیں۔
4) اس بنا پر اشاعرہ کہتے ہیں کہ عند اللہ بندوں کے افعال کے احکام صرف اس شخص یعنی نبی کی خبر سے ثابت ہوسکتے ہیں جو خدا کی طرف سے خبر دینے میں سچا ہو۔ یہاں سے حسن و قبح کا چوتھا معنی سامنے آتا ہے جسے حسن و قبح شرعی کہتے ہیں، یعنی بندوں کے افعال کے وہ اخلاقی احکام جو نبی کی خبر سے ثابت ہوتے ہیں اور جو اس چیز سے عبارت ہیں کہ کس فعل پر عند اللہ ثواب ہوگا اور کس پر عقاب (یاد رہے کہ یہ بھی ابجیکٹو ہوتے ہیں)۔ خدا کا حکم بندے کے لئے کیوں کر قابل فہم ہوتا ہے؟ اس لئے کہ اس کا خطاب بندوں کو ان کی سطح پر جاری حسن و قبح کے تصورات کی بنیاد پر ایڈریس کرتا ہے، یعنی لذت و الم: اگر فلاں کام کیا تو ثواب ملے گا اور فلاں کیا تو عقاب ہوگا۔ عند اللہ ثواب و عقاب کے ان احکام کو جاری کرنے کا خود خدا کے ارادے سے ماورا کوئی پیمانہ موجود نہیں۔ حسن و قبح کے اس مفہوم میں خدا کا حکم بندے کے لئے اخلاقی قدر کا مظہر نہیں ہے بلکہ واضع ہے۔ اسے یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ حسن و قبح عقلی نہیں وضعی (کسی ارادہ کرنے والے کے ارادے کی بنا پر) ہیں۔اب اس تعبیر کے بعد اگر پہلے معنی کی طرف پلٹا جائے تو اشاعرہ یہ کہہ رہے ہیں کہ فعل اور تعریف و مذمت کے احکام کے مابین جس لزوم کی نسبت آپ نے فعل کی صفت کی جانب کی، وہ لزوم خدا کے ارادے سے جنم لیتا ہے: یعنی قابل تعریف وہ ہے جس کا وہ حکم دے اور قابل مذمت وہ ہے جس سے وہ منع کردے (اور یہ ہم انسانی سطح پر مانوس حقائق کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ ہم واقعی ابدی تکلیف والی جگہ یعنی جہنم جانا پسند نہیں کرتے)۔ البتہ یہ بات یاد رہے کہ اشعری فکر اس بات کے خلاف نہیں کہ انسانی سطح پر جاری prudential معنی میں جن امور کو انسان حصول لذت و دفع الم کے طور پر پہچانتے ہیں، خدا اپنے احکام کے اجرا میں ان کی رعایت کرلے لیکن ایسا کرنا اس پر واجب نہیں، برخلاف پہلے موقف کے جس کی رو سے حسن و قبح عقلی پر مبنی احکام کی رعایت اور انسانوں کے مفاد کا تحفظ خدا پر واجب ہے۔
چنانچہ مسئلہ شر کے تحت اٹھائے جانے والے ہر اعتراض پر اشاعرہ کا اصولی و حتمی جواب یہ ہے: فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيدُ نیز لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ (اگرچہ خدا کے خطاب کے نظائر کی رو سے اشاعرہ اس کے افعال کی حکمتیں بہرحال بیان کرتے ہیں) اور امام رازی (م 1206) و علامہ آمدی (م 1231) کے دور تک یہ بحث اس قدر میچور ہوگئی تھی کہ یہ حضرات اپنی کتب میں اس قسم کے اطلاقی مسائل و اعتراضات پر بس اتنا تبصرہ کرکے آگے بڑھ جاتے ہیں کہ یہ اعتراض حسن و قبح عقلی کے مفروضے پر قائم ہے (یعنی یہ کہ خدا اور بندے دونوں پر یکساں اخلاقی احکام لاگو ہیں) جبکہ ہمارے نزدیک یہ مفروضہ ہی غلط ہے۔ اشعری موقف کی رو سے اسی لئے جسے اخلاقی دلیل کہتے ہیں اس سے خدا کے وجود اور اس کے افعال کی نوعیت پر استدلال نہیں کیا جاسکتا ہے اور ماضی قریب میں شیخ مصطفی صبری صاحب (م 1954) نے بھی کانٹ (م 1804) کے مورل آرگومنٹ کی تردید کی تھی۔




کمنت کیجے