قرآن مجید کے طرزِ خطاب کا بنیادی اصول یہ ہے کہ اگرچہ اس کا خطاب پیغمبر کی زبانی پوری سوسائٹی سے ہوتا ہے، لیکن عملی ہدایات ہمیشہ ان کرداروں سے متعلق ہوتی ہیں جو سیاقِ کلام میں واضح طور پر زیرِ بحث ہوں۔ عمومی خطاب حکم کے عموم کی دلیل نہیں بنتا؛ اصل ذمہ داری کا تعین ہمیشہ ہدایات کی نوعیت اور ان کرداروں سے ہوتا ہے جنہیں سیاق و سباق
نمایاں کر دیتے ہیں۔
یہی حقیقت قرآن کی متعدد آیات میں دیکھی جا سکتی ہے۔ یتیموں کے بارے میں فرمایا:
اگر تمہیں خوف ہو کہ یتیموں کے درمیان انصاف قائم نہ رہے۔
یہاں خطاب عام ہے، مگر حکم صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو یتیموں کے سرپرست ہیں۔
اسی طرح رضاعت کے احکام میں بھی خطاب اجتماعی ہے، لیکن ذمہ داری صرف ماں اور باپ پر عائد کی گئی ہے۔ پوری سوسائٹی نہ بچوں کو دودھ پلا سکتی ہے اور نہ ان کا نان نفقہ اٹھا سکتی ہے۔
یہ قرآن کے طرزِ بیان کی بنیادی حقیقت ہے کہ خطاب اگرچہ عام ہو، مگر حکم ہمیشہ اس کردار کے مطابق خاص رہتا ہے جسے سیاق نے نمایاں کیا ہو۔
اسی نوعیت کا خطاب سورۂ نساء کی آیت 34 میں بھی ہے۔ ارشاد ہوا ہے:
﴿الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ ۚ فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُ ۚ وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ ۖ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا ۗ إِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا﴾
مرد عورتوں کے نگران ہیں، اس لیے کہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس لیے کہ انہوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں۔ سو نیک عورتیں فرماں بردار ہوتی ہیں، رازوں کی حفاظت کرتی ہیں، اس بنا پر کہ اللہ نے بھی حفاظت کی ہے۔ اور جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو، انہیں نصیحت کرو، پھر ان کے بستروں میں انہیں تنہا چھوڑ دو، پھر انہیں سزا دو۔ پھر اگر وہ تمہاری بات مان لیں تو ان پر کوئی راستہ تلاش نہ کرو۔ بے شک اللہ بہت بلند، بہت بڑا ہے۔
یہاں بھی خطاب بظاہر عام ہے، لیکن سیاقِ کلام مکمل طور پر میاں اور بیوی کے باہمی تعلق، ان کی ذمہ داریوں اور ان کے داخلی نظم پر قائم ہے۔ قوامیت کا ذکر، عورتوں کی ذمہ داریوں کی تعیین، غیب میں ان کی حفاظت، پھر ان ذمہ داریوں میں کوتاہی کی صورت میں اصلاح کے تین مراحل،یہ سب اس بات کی قطعی شہادت ہیں کہ یہاں اصل مخاطب شوہر اور بیوی ہی ہیں، نہ کہ سوسائٹی کے تمام طبقات۔
یہاں کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ چونکہ خطاب میں جمع کا صیغہ ہے، اس لیے تادیبی مراحل میں مخاطب شوہر کے ساتھ سوسائٹی بھی ہو سکتی ہے۔ لفظ ہیں:
﴿وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ﴾
ہمارے نزدیک یہ رائے سیاق و سباق کے بالکل خلاف ہے، کیونکہ آیت کی ابتدا سے آخر تک پورا بیان شوہر ہی کے کردار اور اس کی ذمہ داری پر قائم ہے۔
اسی مقام پر قرآن نے خود اس تادیب کو نافذ کرنے والے فریق کو براہِ راست مخاطب کرکے یہ فیصلہ بھی کر دیا ہے کہ ان ہدایات کا اصل مخاطب کون ہے۔ ارشاد ہوا ہے:
﴿فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا﴾
پھر اگر وہ تمہاری بات مان لیں تو ان پر کوئی راستہ تلاش نہ کرو۔
یہاں “کم’’ کی ضمیر شوہر کے سوا کسی پر نہیں جاتی، کیونکہ اطاعت ہمیشہ اسی فریق سے متعلق ہوتی ہے جس کے ساتھ ازدواجی معاہدہ قائم ہو۔ بیوی کی اطاعت شوہر سے متعلق ہے، سوسائٹی سے نہیں۔ سوسائٹی نہ قوام ہے اور نہ اس کے ساتھ اطاعت یا نافرمانی کا کوئی مفہوم قائم ہوتا ہے۔
چنانچہ شوہر اور سوسائٹی دونوں کو بیک وقت مخاطب قرار دینا عملی حقیقت اور سیاق و سباق کے مکمل خلاف ہے۔ آیت کی یہ ضمیر پوری قطعیت کے ساتھ بتا دیتی ہے کہ اس ہدایت کا مخاطب صرف اور صرف شوہر ہیں۔
اس مقام پر اس بات کی بھی خاص طور پر وضاحت ضروری ہے کہ ان تین اصلاحی مراحل میں سے دوسرا مرحلہ، یعنی
“وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ”
کسی بھی پہلو سے سوسائٹی سے متعلق ہدایت ہو ہی نہیں سکتا۔
اس لیے کہ مَضَاجِع سے مراد لیٹنے کی جگہیں ہیں، یعنی بستر اور خواب گاہیں، اور یہ وہ دائرہ ہے جو فطری، عرفی اور عملی ہر اعتبار سے صرف اور صرف شوہر اور بیوی کے باہمی تعلق سے متعلق ہوتا ہے۔ معاشرہ نہ کسی کے بستر میں شریک ہوتا ہے، نہ اسے یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ میاں بیوی کے نجی رہائشی نظم میں مداخلت کرے۔
بستر ترک کرنے کی ہدایت صرف اسی فریق سے متعلق ہو سکتی ہے جس کے ساتھ عورت کا ازدواجی تعلق قائم ہے، جس کے گھر میں وہ رہتی ہے اور جس کے ساتھ اس کی ازدواجی زندگی بسر ہوتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ تعبیر دراصل جنسی تعلق کے ترک کرنے کا ایک استعارہ ہے، جسے قرآن نے اس کی ظاہری اور محسوس صورت میں بیان کر دیا ہے، اور یہ قرآن مجید کا معروف ادبی اسلوب ہے کہ وہ نہایت نازک اور نجی نوعیت کی باتوں کو براہِ راست کے بجائے ایسے ہی باوقار اور اشاراتی پیرائے میں بیان کرتا ہے۔
چنانچہ “فِي الْمَضَاجِعِ” کی قید خود اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ یہاں مخاطب سوسائٹی نہیں بلکہ صرف شوہر ہے، اور اس ہدایت کو کسی اجتماعی یا سماجی تناظر میں منتقل کرنا نہ صرف سیاق کے خلاف ہے بلکہ عملی حقیقت سے بھی کوئی مناسبت نہیں رکھتا۔
البتہ قرآن نے سوسائٹی کو ازدواجی معاملات میں ایک خاص مقام پر ضرور شامل کیا ہے، اور وہ اس وقت ہے جب مسئلہ نشوز کے داخلی دائرے سے نکل کر شقاق کے سماجی بحران میں بدل جائے۔ فرمایا:
﴿وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا﴾
اور اگر تمہیں دونوں کے درمیان اختلاف کا اندیشہ ہو…
یہاں “تم’’ سے مراد خاندان کے بڑے یا وہ اجتماعی ذمہ دار لوگ ہیں جنہیں اس بگاڑ کے وسیع اثرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، اور میاں بیوی کو ’’بَیْنِہِمَا‘‘ کہہ کر دونوں کو الگ کر دیا ہے۔
چنانچہ شقاق وہ مرحلہ ہے جہاں گھر کے اندر اصلاح کے تمام راستے بند ہو جاتے ہیں، معاملہ ٹوٹ پھوٹ یا ظلم کے خطرے میں تبدیل ہو جاتا ہے اور اس کے اثرات خاندان اور پھر پورے معاشرے تک پھیلنے لگتے ہیں۔ اس موقع پر قرآن نے حکمین مقرر کرنے کی ہدایت دے کر سوسائٹی کو شامل کیا ہے، کیونکہ یہاں مسئلہ داخلی نہیں رہتا بلکہ باقاعدہ سماجی نوعیت اختیار کر لیتا ہے۔
یوں قرآن نے نشوز اور شقاق کے دونوں مراحل کو پوری وضاحت کے ساتھ الگ رکھا ہے۔ نشوز صرف ازدواجی اور داخلی معاملہ ہے، اس لیے آیت 34 کا مخاطب صرف شوہر ہے۔ شقاق سماجی مسئلہ ہے، اس لیے آیت 35 میں سوسائٹی کو مخاطب کیا گیا ہے۔
آیت 34 میں ﴿فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ﴾ اور آیت 35 میں ﴿وَإِنْ خِفْتُمْ﴾ دونوں اپنے اپنے مرحلے کے دائرۂ اختیار اور اصل مخاطب کو فیصلہ کن طور پر متعین کر دیتے ہیں۔
اس پورے اسلوب کو ایک سادہ دنیاوی مثال سے بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ فرض کیجیے ایک حکمران اپنی قوم سے عمومی خطاب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ہم نے تمہارے محکموں پر افسر مقرر کیے ہیں، اس بنا پر کہ ذمہ داریاں اور وسائل ان کے سپرد کیے گئے ہیں۔ پس جو ماتحت درست رویہ اختیار کریں، وہ ان کی ہدایات پر کاربند رہیں گے، اور جن کے بارے میں تمہیں اندیشہ ہو کہ وہ ہدایات سے ہٹ رہے ہیں، تو پہلے انہیں سمجھاؤ، پھر ضرورت ہو تو ان کے اختیارات میں کمی کرو، اور اگر اس پر بھی درست نہ ہوں تو ان کے خلاف تادیبی اقدام کرو۔ پھر اگر وہ تمہاری بات مان لیں تو ان پر کوئی زیادتی کا راستہ نہ ڈھونڈو۔ یہاں خطاب پوری قوم سے ہے، لیکن عملی ہدایات صرف افسر کے لیے ہیں، کیونکہ مذکورہ تمام اقدامات اسی کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔
لیکن اگر یہی حکمران آگے کہے کہ اگر تمہیں خوف ہو کہ افسر اور ماتحت کے درمیان اختلاف اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ داخلی اصلاح ممکن نہیں رہی اور اس کا اثر پورے محکمے تک پہنچنے لگا ہے، تو تم لوگ اس نزاع کو دیکھنے کے لیے دونوں کی طرف سے غیر جانب دار حکم مقرر کرو۔ اگر وہ اصلاح چاہتے ہوں گے تو ہم ان کے درمیان موافقت پیدا کر دیں گے۔ اس مقام پر خطاب کا رخ بدل جاتا ہے اور مخاطب اب افسر نہیں بلکہ وہ اجتماعی ذمہ دار ہیں جن پر محکمے کے عمومی نظم کی حفاظت کی ذمہ داری ہے، کیونکہ اس درجے پر جھگڑا ادارے کے لیے خطرہ بن
جاتا ہے۔
اس مثال میں دو مرحلے بالکل نمایاں ہیں۔ پہلا مرحلہ خالص افسر اور ماتحت کے باہمی نظم سے متعلق ہے اور تمام اقدامات اسی کردار کے سپرد ہیں۔ دوسرا مرحلہ وہ ہے جہاں اختلاف اس حد تک بڑھ جاتا ہے کہ محکمے کا نظم متاثر ہونے لگتا ہے اور یوں معاملہ اوپر کی اتھارٹی کے دائرے میں داخل ہو جاتا ہے۔ یہی ترتیب قرآن نے نشوز اور شقاق کے دونوں مراحل میں قائم کی ہے۔ نشوز داخلی مسئلہ ہے جس کا مخاطب صرف شوہر ہے، اور شقاق سماجی مسئلہ ہے جس میں سوسائٹی کے ذمہ داروں کو مخاطب کیا گیا ہے۔




کمنت کیجے