Home » آبادی کنٹرول تحریک کی فکری بنیادیں
تہذیبی مطالعات سماجیات / فنون وثقافت سیاست واقتصاد

آبادی کنٹرول تحریک کی فکری بنیادیں

 

اس تحریر میں آبادی کنٹرول تحریک کی فکری بنیادوں کا خلاصہ بیان کیا جائے گا جس سے ایک طرف اس ذہنیت کو سمجھنے میں مدد ملے گی جو ان پروگرامز میں روح رواں کی حیثیت رکھتی تھی، ساتھ ہی ساتھ یورپی اقوام کی نسل پرستانہ ذہنیت کو سمجھنے میں بھی مدد ملے گی نیز “میرا جسم میری مرضی” جیسے حالیہ نعروں کا پس منظر بھی سامنے آسکے گا۔ آبادی کنٹرول کرنے کی تحریک کی بنیادیں دو نظامہائے فکر کے ساتھ منسلک ہیں: (1) Eugenic تحریک اور (2) فیمینسٹ تحریک۔
1) یوجینکس تحریک
یوجینکس فکر کو جرمنی، امریکہ اور انگلستان میں مقبولیت حاصل ہوئی اور ان ممالک کے سیاسی منظر نامے میں اختلاف کے سبب ان ممالک کے یوجینکس مفکرین کے پروگرامز اور پالیسیوں میں کچھ اختلاف بھی رہا ۔ البتہ یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ انیسویں اور بیسویں صدی میں یوجینکس تحریک کا اثر و رسوخ سوشلسٹ، قوم پرست اور لبرل ہر طبقہ ہائے فکر پر تھا۔
یوجینکس ڈارون کی فکر کے پیروکار تھے جن کے خیال میں “اچھی قسم کے انسانوں” کو یہ حق ملنا چاہئے کہ وہ اس دنیا پر باقی رہیں۔ ڈارون تنویری فکر (Enlightenment) کے فلاسفہ سے متاثر تھا جن کی فکر کی رو سے اس کائنات میں انسان کے سواء کوئی حقیقی خدا موجود نہیں نیز انسان کو اس کائنات سمیت اپنی ذات کی توجیہہ و معنویت سمجھنے کے لئے کسی وحی کی ضرورت نہیں، یہ کام وہ اپنی خواہشات، حواس ا ور عقل کی روشنی میں از خود سرانجام دے سکتا ہے۔ اس مفروضے کے تحت سماجی علوم (Social Sciences) کا فروغ ہوا جن کے ماہرین ایک عرصے سے کائنات میں زندگی کی ایسی حیاتیاتی (یعنی بائیولوجیکل) بنیادیں وضع کرنے کی کوشش میں مصروف تھے جو انسانی زندگی کی تفہیم کے لئے “تصور تخلیق ” کی ضرورت ختم کردے ۔ اس حوالے سے 1851 میں سپنسر (Spencer) نے اپنی کتاب Social Statistics میں اس خیال کا اظہار کیا کہ انسانی زندگی خدا کی ہدایت کے بجائے ارتقاء کے اصولوں پر گامزن ہے جس میں طاقتور انسان کمزوروں کی نسبت باقی بچ رہتے ہیں۔ 1864 میں شائع ہونے والی کتاب Principles of Biology میں وہ اسے “سروائیول آف دی فٹسٹ” کا نام دیتا ہے۔ سپنسر کے خیال میں اس قانون کے تحت طے پانے والی یہ ترتیب و تقسیم نہ صرف یہ کہ فطری ہے بلکہ درست و مناسب (یعنی اخلاقی ) بھی ہے۔ اسی بنا پر وہ یہ خیال پیش کرتا ہے کہ کمزور پرجاتیوں یا انواع (species) کے انسانوں کا مرجانا ہی بہتر ہے اور مصلحین و سرکار کا انہیں بچانے کے لئے ان کی مدد کرنا انسانیت پر ظلم کرنے کے مترادف ہے۔ سپنسر کے خیال میں انسانی معاشروں میں “مسابقت پر مبنی مارکیٹ پراسس” اسی فطری قانون کا اظہار ہے جو حیاتیاتی سطح پر جاری و ساری ہے۔ یہ جنہیں غریب کہا جاتا ہے یہ وہی لوگ ہیں جو اس فطری و اخلاقی طور پر جائز مسابقتی عمل میں پیچھے رہ جانے والے ہیں، فطرت و عقل کا تقاضا یہی ہے کہ وہ معدوم ہوجائیں کیونکہ ان کی غربت و افلاس ان کے کم تر جاتی یا نوع (specie) ہونے کا جائز اظہار و نتیجہ ہے۔ ان خیالات کے ذریعے سپنسر ایک طرف یورپی معاشروں میں مارکیٹ سوسائٹی سے جنم لینے والی بڑھتی ہوئی آمدنیوں کے تفاوت اور دوسری طرف یورپی اقوام کی عالمی لوٹ مار کا اخلاقی جواز بیان کررہا تھا ۔
سن 1859 میں ڈارون کی مشہور زمانہ کتاب On the Origin of Species منظر عام پر آئی۔ اس کتاب میں ڈارون نے یہ بتانے کی کوشش کی کہ اس کرہ ارضی پر موجود حیات کس طرح ارتقاء پزیر ہوئی۔ اس کتاب کے شائع ہونے کے بعد سپنسر کے خیالات کو Social Darwinism کہا جانے لگا۔ انسانی زندگی و معاشرت کی مقصدیت کی تفہیم کے لئے خدا کی وحی کے بجائے جانداروں کے ارتقاء سے متعلق ڈارون کے خیالات کو استعمال کرنے کی روش اختیار کی جانے لگی اور خود ڈارون نے بھی اپنی دوسری کتاب The Descent of Man, and Selection in Relation to Sex (1871)میں یہ بیانیہ اختیار کیا۔
حیوانی حیات کے ارتقاء سے متعلق ڈارون کے اس نظرئیے کو الحادی ریاستی پالیسی سازی کے فروغ کے لئے جس شخص نے بھرپور طریقے سے استعمال کیا وہ ڈارون کا کزن فرانسس گیلٹن (Francis Galton) تھا جس کی کتاب Heredity Genius: An Inquiry into Its Laws and Consequences سن 1869 میں شائع ہوئی۔ اس کتاب میں وہ چند کامیاب انسانوں اور کھلاڑیوں کی مثالوں سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ کامیابی کا اصل محرک جینیاتی برتری ہوتی ہے۔ اس کے خیال میں جسامت، صلاحیت و کردار ہر طرح کی افضلیت انسانی جینز کے ذریعے منتقل ہوتی ہے، یعنی جینز خلقی اعتبار ہی سے اعلی اور ادنی ہوتے ہیں۔ گیلٹن علم شماریات کا بھی ماہر تھا اور اس کے خیال میں اس نے جینیاتی علم کو پہلی مرتبہ شماریاتی سطح پر بیان کیا ہے۔ 1883 میں چھپنے والی کتاب Inquiries into Human Faculty and Its Development میں اپنے اس مقدمے کو وہ Eugenics کا نام دیتا ہے۔ یونانی زبان میں eu اچھے و بہتر اور genes پیدا شدہ (born) کے معنی میں بولے جاتےہیں۔ اس اعتبار سے Eugenics کا معنی پیدائشی طور پر افضل (well-born) بنتا ہے۔ گیلٹن کی دعوت یہ تھی کہ انسانوں کو اپنا مستقبل اندھے بہرے قانون فطرت کے حوالے کرنے کے بجائے خود اپنے ہاتھوں میں لینے کی ضرورت ہے کیونکہ ادنی وجود کے خاتمے کا جو عمل آہستہ رفتار، انسان کے ارادے کے بغیر اور سفاکی کے ساتھ اس کائنات میں جاری ہے انسان اس عمل کو ارادی طور پر تیز رفتاری اور نسبتا رحم دلی کے ساتھ سرانجام دے سکتا ہے۔ اس کے خیال میں eugenic تحریک کے پروگرام پر گامزن ہوکر انسانی نسل کو بلندیوں کے نئے افق پر پہنچانا ممکن ہے اور وہ اس کام کو خیر اعلی تصور کرتا۔ گیلٹن ایک متشدد نسل پرست تھا جو انگلستان کی گوری چمڑی والوں کو دنیا کے دیگر انسانوں سے پیدائشی طور پر افضل سمجھتا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ اعلی نسل کے انسانوں کو چاہئے کہ وہ زیادہ بچے پیدا کریں اور گھٹیا نسل کے انسانوں کے پھیلا ؤ کی روک تھام کے لئے مناسب اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ، اگرچہ اس کے یہاں ان اقدامات کا تفصیلی ذکر نہیں ملتا۔ یاد رہے کہ اسی دور میں کال مارکس بھی اپنے تئیں چند “فطری تاریخی اصولوں “کی بنیاد پر اپنے افکار کی تعلیم و تبلیغ کررہا تھا اگرچہ اس کی دعوت کی بنیاد انسانی نسلوں کے بجائے “معاشی طبقات کی کشمکش” تھی اور مارکسسٹ حضرات کا بھی یہی خیال تھا کہ ان قوانین فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان ارادی طور پر ان قوانین فطرت کو بڑھاوا دینے کا ایجنٹ بن جائے ۔ چنانچہ سپنسر، گیلٹن اور مارکس کے یہاں لبرل، نسل پرست اور سوشلسٹ پالیسی میکینگ کے اصول تقریبا ایک ہی قسم کے طرز فکر پر وضع شدہ ہیں، یعنی “تاریخی قوانین فطرت ” سے متعلق ان کا انفرادی ادراک۔
جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا کہ جس دور میں گیلٹن اپنے خیالات پیش کررہا تھا اسی دور میں اس سے ملتے جلتے خیالات پر مبنی ڈارون کی کتاب بھی شائع ہوئی ۔ البتہ ڈارون کے بارے میں یہ کہنا آسان نہیں کہ وہ eugenic پروگرام کا حامی تھا یا نہیں کیونکہ اس کی کتاب میں ایسے اقتباسات بھی موجود ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں کو جینیاتی سطح پر طاقتور و کمزور میں تقسیم کرنے کے باوجود بھی وہ اس بات کا قائل تھا کہ نہ چاہتے ہوئے بھی کمزور مخلوق کو بہرحال برداشت کرلینا چاہئے۔ سپنسر اور ڈارون سے شروع ہونے والے یہ افکار کسی سطح پر مالتھس سے بھی متاثر تھے جس نے 1798 میں (An Essay on the Principles of Population) یہ خیال پیش کیا کہ انسانیت کا مستقبل تاریک ہے کیونکہ انسان بحیثیت مجموعی اس قدر ذرائع پیدا کرنے پر قدرت نہیں رکھتا جو اس دنیا میں اسے باقی رکھنے کے لئے درکار ہیں۔ اس خوف نے کچھ مفکرین کو ایسے خیالات سوچنے پر ابھارا جن کے ذریعے انسانیت کا بقا ممکن رہ سکے اور اس کا اظہار “آبادی کنٹرول” کرنے کے افکار میں ہوا۔
امریکی دھرتی بھی یوجینکس خیالات کے پھیلاؤ کے لئے زرخیز ثابت ہوئی کیونکہ وہاں پر قابض یورپی اقوام پہلے ہی سے نسلی تفاخر کے خمار کا شکار اور ریڈ انڈینز کی مقامی آبادی کی لوٹ مار و نسل کشی میں مصروف تھیں۔ ماہرین تاریخ کے مطابق امریکہ پر قابض یورپی اقوام نے تین سو سال کے عرصے میں لگ بھگ 9 کروڑ ریڈ انڈینز کا قتل کیا اور جس کا جواز بڑے بڑے مغربی فلاسفہ (مثلا جان لاک) نے بیان کیا۔ اس قدر وسیع پیمانے پر قتل عام اور نسل کشی کی مثال پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ چنانچہ اس فکر کو امریکہ میں بہت پزیرائی ملی۔ 1877 میں امریکی جیلوں میں مقبوس قیدیوں کی اصلاح پر مامور ایک محقق Richard Dugdale کی کتاب The Jukes: A Study in Crime, Pauperism, Disease and Heredity شائع ہوئی۔ اس کتاب میں مصنف نے Juke نامی ایک خاندان کی پانچ نسلوں کے709 افراد کے اعداد و شمار اکٹھے کرکے یہ معلوم کیا کہ اس خاندان کے 50 فیصد لوگ جرائم پیشہ رہے ہیں۔ البتہ مصنف ان اعداد و شمار سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کرتا کہ اس کی وجہ جینیاتی ساخت تھی بلکہ اس کے خیال میں اس کی بنیادی وجہ برےماحول کے اثرات تھے۔ لیکن مصنف کے اس نتیجے کو نظر انداز کرکے یوجینکس تحریک کے حامیوں نے Juke فیملی کی اس تاریخ کو اپنے نظرئیے کی حمایت میں پیش کیا کہ جرائم پیشہ رویہ جینز کے ذریعے منتقل ہوتا ہے۔ اس کتاب کے یک بعد دیگرے اسی طرز پر مزید تحقیقاتی کتب منظر عام پر آئیں جن میں کسی مخصوص قبیلے یا علاقے کے انسانوں کے مجرمانہ رویوں کی توجیہہ ان کی جینیاتی ساخت بتائی گئی (ایک اہم کتاب McCulloch کی In the Tribe of Ishmael تھی جو 1878 میں شائع ہوئی)۔
1884 میں فوت ہونے والے Mendel نامی ایک محقق نے مختلف پودوں کی پیدائش اور ٹرانسپلانٹیشن کے ذریعے پودوں میں جینیاتی خصوصیات کی منتقلی سے متعلق کافی سارے اصول دریافت کررکھے تھے کہ پودوں کی مختلف صفات (مثلا رنگ قد وغیرہ) کس طرح ایک نسل کے پودے سے دوسرے میں منتقل ہوتی اور ختم ہوتی ہیں۔ البتہ اس کی زندگی میں یہ تحقیقات منظر عام پر نہ آسکیں۔ ان تحقیقات کو سن 1900 میں یوجینکس کے حامی اپنے پلیٹ فارم سے سامنے لائے کیونکہ یوجینکس والوں کے خیال میں یہ ان کے مقدمے کی وہ سائنسی دلیل تھی جس کے وہ اب تک منتظر تھے۔ ان تحقیقات سے قبل زیادہ تر کام شماریاتی قیاس آرائیوں پر مبنی تھا، ان کے خیال میں Mendel کے کام نے تجرباتی بنیادوں پر یہ ثابت کردیا تھا کہ اچھی بری صفات جینز کے ذریعے ہی منتقل ہوتی ہیں نیز ان کی منتقلی کے عمل کی پیش گوئی کرنا ممکن ہے۔ Mendel کی تحقیقات کو یوجینکس تحریک کے ان مقدمات کو فروغ دینے کے لئے استعمال کیا گیا کہ کمزور، بیمار، جرائم پیشہ وغریب لوگوں کو بچے پیدا کرنے سے روک دینے میں ہی انسانیت کی بھلائی ہے۔ یوجینکس تحریک کے زعماء نے اعداد و شمار کی توجیہہ بیان کرنے میں سارا زور جینیاتی عنصر پر دیا، لیکن انسانی رویوں پر سازگار اور برا ماحول کس طرح اثرا انداز ہوتا ہے اس پہلو کو کلیتا نظر انداز کردیا گیا۔ Thomas Hunt Morgan نے اسی دور میں اپنے تحقیقی کام سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اکثر و بیشتر انسانی رزائل جینیاتی کے بجائے برے ماحول کے پیدا کردہ ہوتے ہیں لیکن یوجینکس مفکرین نے اس کی طرف کان نہیں دھرے ۔
یوجینکس فکر اپنی اصل میں نسل پرستانہ تحریک تھی جو گوری چمڑی والوں کو دنیا کی عظیم ترین انسانی نسل فرض کرتی تھی۔ گیلٹن کے خیال میں گوری چمڑی والے انسان آدھی عقل رکھنے والے سیاہ فاموں سے افضل تھے۔ Paul Papenoe اپنی کتاب Applied Eugenics میں کہتا ہے کہ اگر انسانی نسلوں کو انسانی تہذیب کی نشونما میں ڈالے گئے ان کے حصے کی بنیاد پر ترتیب دیا جائے تو سیاہ فاموں کو تقریبا صفر نمبر دیا جانا چاہئے ۔ اکثر مفکرین سفید فام آبادی کی شرح کم ہونے پر یشانی کا اظہار کرتے۔ لیکن نسل پرست مفکرین کے علاوہ کنزرویٹو لبرل مفکرین بھی اس فکر سے متاثر تھے کیونکہ ان کے خیال میں یوجینکس سائنس انسانوں کے مابین اس بڑھتی ہوئی عدم مساوات کی توجیہہ بیان کرتی تھی جو مارکیٹ اکانومی کی ایک بنیادی خصوصیت ہے (جیسا کہ سپنسر کی فکر میں اسکا ذکرہوا)۔
آگے بڑھنے سے قبل یوجینکس تحریک کے زیر اثر کئے جانے والے چند عملی اقدامات پر روشنی ڈالنا بھی ضروری ہے اور اس کے لئے ہم امریکی تاریخ پر نظر دوڑانا چاہتے ہیں کیونکہ آبادی کنٹرول کرکے اچھی انسانی نسل تیار کرنے کے جنون پر بات کی ابتداء بالعموم نازیوں سے ہوتی ہے جبکہ نازیوں کا ظہور اس عمل میں سب سے پہلے نہیں بلکہ کافی بعد میں ہوا۔
 آبادی کنٹرول پروگرام: امریکی تاریخ کے جھروکوں سے
آبادی کنٹرول کی اس مہم کو امریکہ میں ابتداء رضاکارانہ عمل کے طور پر متعارف کروایا گیا لیکن نتائج کے اعتبار سے غیر موثر ہونے کی بنا پر جبری طریقوں کو اختیار کیا گیا۔ امریکہ میں ان جبری طریقوں کے دو محاذ تھے:
الف) امریکہ میں پہلے سے موجود “کم تر” انسانوں کا خاتمہ
اس کے لئے ابتداء اس خیال پر عمل کرنے کی کوشش کی گئی کہ ایسے کم تر انسانوں کو شادی کرنے سے روکا جائے۔ چنانچہ 1895 میں امریکہ میں قانون بنایا گیا جس کا مقصد خاص طرح کے لوگوں کو شادی سے روک کر بچے پیدا کرکے اپنی نسل آگے بڑھانے سے روکنا تھا۔ لیکن اس میں مسئلہ یہ تھا کہ نسل کا تسلسل بدون نکاح بھی جاری رہ سکتا تھا، چنانچہ یہ فیصلہ کیا گیا کہ ایسے لوگوں کے میل جول کو روکنے کا ریاستی سطح پر بندوبست کیا جائے جس کی صورت یہ بنائی گئی کہ انہیں بچہ پیدا کرنے کی عمر میں کہیں قید کردیا جاتا، بالخصوص عورتوں کو۔ چونکہ اس طریقہ کار کے اخراجات بہت زیادہ تھے اور ایسے “کم تر لوگ” بھی بہت زیادہ تھے لہذا ان کی جبری نس بندی کا فیصلہ کیا گیا ۔ اس نس بندی کا مقصد امریکہ کے genetic pool کو “اچھا” بنا کر محفوظ کرنا تھا۔ 1907 سے امریکی ریاستوں میں جبری نس بندی کے قوانین بنائے جانے لگے ۔ یوجینکس تحریک کے لیڈروں کے مطابق امریکی قوم کی بھلائی کے لئے لازم تھا کہ ڑیڑھ کروڑ لوگوں کی نس بندی کی جائے۔
ڈارون کی فکر سے متاثر یہ تحریک 1910 اور 1920 کی دھائیوں میں امریکہ کے اندر نہایت مقبول تھی، 376 امریکی جامعات میں یوجینکس بطور مضمون پڑھایا جاتا تھا، تحریکی مقاصد کے حصول کے لئے باقاعدہ کانفرنسز، لیکچر سیریز و مناظروں کا اہتمام ہوا کرتا۔ اس تحریک کی بڑھوتری کے لئے باقاعدہ ایک سائنسی تحقیق کا ادارہ بھی قائم کیا گیا جس کا مقصد ایسے طریقے ایجاد کرنا تھا جن کے ذریعے دنیا سے “گھٹیا نسل” کے انسانوں خاتمہ کیا جاسکے۔اس وقت کے دولت مند ترین شخص John Dockefeller نے اس ادارے کے لئے فنڈنگ فراہم کی اور سابق امریکی صدر روز ویلٹ میگزینوں میں اس کے حق میں تحریریں لکھا کرتے تھے (ان کے کچھ الفاظ اس طرح ہیں I wish very much that the wrong people could be prevented entirely from breeding )۔ یوجینکس کی اس تحریک سے معاشرے کے تمام طبقات متاثر تھے، بالخصوص ڈاکٹرز جن کے خیال میں اس کے ذریعے اس دھرتی کو کمزور اور بیمار جینز سے پاک کیا جاسکتا ہے۔ “کہیں آپ کی خیرات آپ کے خلاف ہی تو استعمال نہیں ہورہی” طرز پر ان مخیر لوگوں کو برا بھلا کہا جاتا جو غرباء اور کمزوروں کو خیرات دیا کرتے۔ 1917 میں ہولی وڈ سے انہی خیالات کی ترجمانی پر مبنی The Black Stork فلم بھی جاری کی گئی۔
امریکہ میں اس تحریک کا اثر و رسوخ کس قدر تھا اس کا اندازہ اس سے لگائیے کہ 1927 میں امریکی سپریم کورٹ نے ریاستی سطح پر جبری نس بندی کے جواز کا فیصلہ سنایا، اس کیس کو Buck v. Bell نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ فیصلہ دراصل بیسویں صدی کی ابتداء سے امریکہ میں جاری جبری نس بندی کے طریقوں کا آئینی جواز تھا، اس سے قبل مختلف سٹیٹس اپنے تئیں قوانین بنا کر یہ کررہی تھیں یہاں تک کہ ورجینیا سٹیٹ کے ایک ھسپتال میں Buck قبیلے سے تعلق رکھنے والی بچی Carrie کی نس بندی یہ کہہ کر رکوا دی گئی کہ یہ عمل آئینی نہیں ہے، جب اس پر کیس چلا تو بات سپریم کورٹ تک چلی (Carrie Buck کی کہانی نہایت درد ناک ہے جو امریکہ میں جاری اس تحریک کی بھینٹ چڑھی)۔ یہ فیصلہ کوئی معمولی یا چھوٹے قد کے ججز نے نہیں بلکہ اعلی امریکی قانون دانوں نے لکھا تھا جس میں Oliver Wendell Holmes Jr.,بھی شامل تھا جس کا شمار امریکی تاریخ کے بہترین قانونی ذھنوں میں ہوتا ہے۔ کیس کے فیصلے میں اس بیس سالہ لڑکی کی نس بندی کو جائز کہتے ہوئے اس اعلی ترین امریکی قانونی ذھن نے یہ افسوس ناک الفاظ لکھے: Three generations of imbeciles are enough، یعنی پاگلوں و احمقوں کی تین نسلیں کافی ہیں ، تین نسلوں سے اس کی مراد Carrie، اس کی ماں اور اس کا بچہ تھا ۔ سن 1942 میں Skinner v. Oklahoma نامی کیس میں 1927 کے اس فیصلے کو ختم کرنے کے بجائے امریکی سپریم کورٹ نے اسے برقرار رکھتے ہوئے محدود بنیادوں پر نس بندی کو غیر آئینی قرار دیا گیا (جبری نس بندی کے ان قوانین کے تحت 1981 تک امریکہ میں عدالتیں جبری نس بندی کے احکامات جاری کرتی رہی ہیں، کئی ماھرین کے مطابق یہ قانون 2013 تک امریکہ میں کسی نہ کسی صورت موثر تھا، ماھرین قانون اس پر روشنی ڈال سکتے ہیں)۔ صرف 1927 کے اس فیصلے کے بعد امریکہ میں 70000 لوگوں کی جبری نس بندی کی گئی۔ اس ظلم و ستم کا خصوصی نشانہ “بیوقوف” (feebleminded) لوگ بالخصوص عورتیں تھیں (بیوقوفی کی تعریف ظاہر ہے ان کی اپنی بنائی ہوئی تھی جس پر وہ قدیم امریکی باشندے با آسانی پورا اترتے تھےجن کی نسل کشی کا کام یورپی اقوام پہلے ہی سے سرانجام دے رہی تھیں)۔
جبری نس بندیوں کا یہ عمل بذات خود ایک درد ناک کہانی ہے جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں جہاں ” دوسرے انسانوں” کے ساتھ بھیڑ بکریوں جیسا سلوک کیا گیا۔ تصور کیجئے کہ نس بندی کا عمل کتنا تکلیف دہ اور اس سے ریکوری کا وقت کتنا لمبا ہوتا ہے، نیز جب کسی کو کم تر، غیر اور دشمن سمجھ کر ایسا کیا جائے تو اس کی تکلیف و صحت کا کتنا خیال کیا جاتا ہوگا؟ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ بیسویں صدی کی ابتداء میں میڈیکل سائنس میں سرجری ابتدائی ادوار سے گزررہی تھی اور دوران سرجری مختلف قسم کی پیچیدگیاں اور انفیکشنز وغیرہ ہوجانے کے امکانات بہت زیادہ اور انہیں کنٹرول کرنے کے ذرائع نہایت کم تھے لیکن اس کے باوجود بھی بڑی تعداد میں لوگوں پر یہ عمل مسلط کیا گیا۔
ب) امریکہ کے باہر سے آنے والے “کم تر انسانوں” کو روکنا
اسی ضمن میں 1924 میں امریکہ میں ہجرت کرنے والوں کی روک تھام کے لئے بھی ایک قانون بنایا گیا جس کے تحت امریکہ میں مختلف علاقوں سے ھجرت کرسکنے والوں کے لئے 1890 کی آبادی کی شرح کی بنیاد پر کوٹا مقرر کیا گیا۔ اس کا مقصد امریکہ میں Nordic اقوام (بالعموم مشرقی یورپی اقوام) کی آبادی کم کرکے اسے “اچھے”، بالخصوص انگلستان سے آنے والے، لوگوں کی آماجگاہ بنانا تھا۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہی وہ زمانہ ہے جب یہودیوں کو بھی “سائنسی” تحقیقات کی روشنی میں “ان فٹ” قرار دئیے جانے کا کام شروع کیا گیا گیا۔ اس دور میں “سائنسی” مقالوں کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی تھی کہ مشرقی یورپ سے آنے والے لوگوں میں 50 فیصد کم عقل و نیم پاگل (feebleminded) ہیں۔ feebleminded کی اصطلاح اس دور میں امریکہ میں ایک وبا کی طرح سمجھی جاتی تھی اور اس کا استعمال نہایت عام تھا ( 1920 کی دھائی میں لکھا جانے والا ناول The Great Gatsby اس دور میں گوری چمڑی کے تفاخر کا مثبت بیانیہ ہے)۔ آج دنیا کو یہ تو بتایا جاتا ہے کہ جرمن یہودیوں کو کم تر سمجھتے تھے لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ امریکی بھی ایسا ہی سمجھتے تھے۔ ان امریکی پابندیوں نے ھولوکاسٹ کے دوران یہودیوں کو ھٹلر کے ھاتھوں مرنے کے لئے مجبور کئے رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔
یہ تھے وہ جنونی افکار و ہیجانی حالات جنہوں نے دوسری جنگ عظیم سے قبل ایک طرف نازیوں کی “چنیدہ انسانوں کی افزائش” کے پاگل پن کو جنم دیا تو دوسری طرف یہودیوں کے قتل عام کا سائنسی بنیادوں پر جواز فراہم کیا۔ آبادی کنٹرول کی یہ تاریخ جنگ عظیم دوئم سے ماقبل کی ہے۔ جنگ عظیم دوئم کے بعد یہ پروگرام پھر سے سامنے آیا البتہ اس بار اسے یو این کی سرپرستی حاصل تھی اور اس کا عنوان “ڈویلپمنٹ” تھا۔ اس کے مظالم و مسائل کی ایک الگ تاریخ ہے، اس کا بیان ان شاء اللہ پھر کسی فرصت میں۔
 چند اہم باتیں
یہاں چند اہم باتیں نوٹ کرنی چاہئیں:
ایک یہ کہ اس پورے عمل کو جواز دینے کا استدلال مذہبی نہیں عین سائنسی تھا، یعنی ڈارون کے بیان کردہ بائیولوجیکل قوانین فطرت اور سپنسر (Spencer) کی بیان کردہ سماجیات۔ دوسروں کو جینیاتی و نفسیاتی سطح پر “کم تر”ثابت کرنے کے لئے سائنسی استدلال سے لبریز مقالہ جات و کتابیں لکھی گئیں۔ ممکن ہے اس بات کے جواب میں یہ کہا جائے کہ اس سب میں قصور سائنس کا نہیں بلکہ نسلی تفاخر کے انسانی جذبے کا تھا۔ لیکن یہ جواب بذات خود اس بات کا اقرار ہے کہ سائنسی علمیت پر مبنی معاشروں میں کسی سائنسی نظرئیے کا اسی طرح غلط استعمال ممکن ہے جس طرح مذھبی علمیت پر مبنی معاشروں میں کسی مذھبی استدلال کا اور جس کی بنیاد پر “بذات خود مذہب ” کو مورد الزام ٹھرا کر اسے اجتماعی فیصلوں سے نکال باہر کرنے کا بوگس استدلال کھڑا کیا جاتا ہے۔
دوسری یہ کہ عورتوں پر ہونے والا یہ تمام ظلم و ستم فیمینسٹ تحریک کے آشیر باد سے ہوا جو اس دور کا ایک اور اہم فکری رویہ تھا جس نے آبادی کنٹرول پروگرامز کو بڑھاوا دینے میں اہم کردار ادا کیا، ذیل میں اس کا کچھ تجزیہ پیش کیا جاتا ہے۔
2) فیمینسٹ تحریک
انیسویں صدی کے آخر سے فیمینسٹ تحریک کا آغاز ہوتا ہے جو “عورت بطور جنس” کی آزادی و خود مختاری کی دعوت دیتی ہے۔ جنگ عظیم دوئم سے ماقبل دور تک فیمینسٹ تحریکوں کا یوجینکس تحریکوں کے ساتھ اشتراک عمل بظاہر متضاد محسوس ہوتا ہے، بالخصوص اگر آج کی فیمینسٹ تحاریک کی دعوت کو مد نظر رکھا جائے جو “انفرادی ہیومن رائٹس” کے تناظر میں عورتوں کے مساوی حقوق کا جواز بیان کرتی ہیں۔ یوجینکس تحریک کے بڑے بڑے مبلغین مرد تھے اور یوجینکس نظرئیے کی رو سے مرد بطور جنس جینیاتی طور پر عورت بطور جنس سے طاقتور و افضل وجود ہے۔ اس بات کے پیش نظر فیمینسٹ مفکرین کا یوجینکس مفکرین کے ساتھ مل کر آبادی کنٹرول پروگرامز مرتب کرنے کا کام کرنا بظاہر عجیب محسوس ہوتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود فیمینسٹ مبلغین نے عورتوں کو روایتی معاشرت کی جکڑ بندیوں سے آزاد کرانے کے لئے یوجینکس تحریک کے ساتھ اشتراک عمل کا رویہ اختیار کیا ۔ ان کی رائے میں انیسویں صدی کے ماحول میں نجی آزادی کی دعوت کا نتیجہ مرد کے ہاتھوں باجگزار عورت کا مزید استحصال تھا کیونکہ “نجی” کا روایتی تصور “گھر”(میاں بیوی کے تعلق نہ کہ فرد) کو سیاسی و اجتماعی زندگی سے الگ قرار دے کر مرد کی عورت پر حاکمیت کے روایتی تصور کو ناقابل سوال بنادیتا ہے اور نتیجتا عورت جکڑ بندیوں کا شکار رہتی ہے اور اس کے لئے “نجی ” انفرادی حقوق کا حصول ناممکن رہتا ہے۔ چنانچہ عورت کی آزادی کے لئے نجی حقوق کے بجائے ممتا (motherhood) کے ایک نئے “اجتماعی” تصور کو بطور دلیل استعمال کرنا ضروری سمجھا گیا۔
ممتا کے اس جدید تصور کی بنیاد عورت کے برتھ (افزائش نسل) کنٹرول کرسکنے کے حق پر قائم تھی کیونکہ فیمینسٹوں کے خیال میں یہی عمل عورت کی حقیقی آزادی کا اظہار اور ضامن ہے۔ جس عورت کو یہ فیصلہ کرنے کا حق نہیں کہ اس نے بچہ جننا ہے یا نہیں وہ آزاد نہیں ہوسکتی۔ اس دور میں اس فکر کی بڑی مبلغہ مارگریٹ سینگر (Margaret Sanger) جو اسقاط حمل کی زبردست حامی تھیں، ان کے الفاظ کچھ یوں ہیں No woman can call herself free who does not own and control her body۔ چنانچہ اس مقدمے کو معقول ثابت کرنے کے لئے انگلستان، امریکہ و جرمنی کی فیمینسٹ تحریکوں نے اس یوجینکس نظرئیے کو قبول کیا کہ بے ڈھنگ بچے پیدا کرنے کے بجائے محدود مگر اچھی نسل کے انسانوں کی پیدائش کو ممکن بنایا جائے (اگرچہ جرمنی، انگلستان اور امریکہ کی فیمینسٹ تحریکوں کے مابین اپنے اپنے ملکوں کے معاشرتی و سیاسی حالات کے پیش نظر مختلف پروگرامز و پالیسیوں کے بارے میں اختلافات بھی پائے جاتے تھے)۔ اس کے لئے لازم تھا کہ گھر اور ولدنیت (parenthood) کو روایتی تصور نجی سے نکال کر (سرمایہ دارانہ) اجتماعی زندگی کا حصہ بنایا جائے اور ریاستی پالیسی کے ذریعے اسے اس طرح ریگولیٹ کیا جائے جو ممتا (motherhood) کے ایسے نئے تصور کو فروغ دے سکے جس کے ذریعے عورت کے انفرادی حقوق محفوظ ہوسکیں۔ ممتا کے اس نئے تصور کے فروغ کے لئے درج ذیل خطوط پر ریگولیشنز اور قانون سازی کا اجراء لازمی سمجھا گیا:
• ان اختیارات کا خاتمہ کرنا جو ان روایتی معاشروں میں مرد کو عورت پر حاصل تھے، بالخصوص جنسی حقوق جو عورت پر اس کی مرضی کے بغیر بچہ مسلط کرنے کا ذریعہ تھے
• عورت کی رضا مندی کے بغیر شوہر کے جنسی تعلق کو ریپ شمار کرتے ہوئے قابل سزا جرم قرار دیا جائے
• کم تر نسلوں میں شادی اور افزائش نسل کے رجحان کی حوصلہ شکنی
• نکاح کے بجائے آزادانہ جنسی تعلقات اختیار کرنے کا حق تاکہ عورت بھی اسی طرح جنسی عمل سے محظوظ ہوسکے جیسے مرد ہوتا ہے۔ یہ آزادانہ اختلاط بھی اعلی نسل کے مردوں اور عورتوں کے مابین ہو تاکہ اعلی نسل کے بچے اور قوم پیدا کی جا سکے
• بدکار ماؤں اور بدکاری کے عمل سے جنم لینے والے بچوں کا معاشرتی مقام بڑھانے کی ضرورت۔ یوجینکس اور فیمینسٹ لیڈروں کے مطابق اچھی نسل سے پیدا ہونے والے ولد الزنا بچوں کو معاشرے کے “قابل قدر اثاثے ” کے طور پر دیکھنے کی ضرورت تھی کیونکہ یہی بچے معاشرے کی ترقی کے ضامن بننے والے تھے لیکن دقیانوس اخلاقی تصورات کی وجہ سے ان بچوں کی ناقدری اور ان کی بدکار ماؤں کا معاشرتی مقاطعہ کیا جاتا تھا ۔ جرمن فیمینسٹ مبلغہ Ruth Bre کے نزدیک ایک مثالی معاشرے میں مرد و عورت بالکل آزادانہ جنسی اختلاط کیا کریں گے اور ریاست کمزور نسلوں کی افزائش نسل کو ناممکن بنادے گی۔ انگلستان سے تعلق رکھنے والی فیمینسٹ تحریکوں نے البتہ اس جرمن فیمینسٹ خیالی جنت سے مکمل ہم آھنگی کا مظاہرہ نہیں کیا، اگرچہ وہ ولد الزنا کے معاشرتی مقام کو بہتر بنانے کی قائل تھیں لیکن اس کی اتنی عمومی پیدائش کو اچھا گمان نہ کرتیں ۔
• عورت کے لئے اسقاط حمل کے حق کو ماننا تاکہ وہ اپنی مرضی سے یہ فیصلہ کرسکے کہ اس نے بچہ جنم دینا ہے یا نہیں۔ اس ضمن میں مارگریٹ سینگر کی طرح Camilla Jellinek کہتی ہےکہ control of one’s own body (یعنی “میرا جسم میری مرضی”) آزاد شخصیت کا بنیادی اظہار ہے۔ البتہ یہ موضوع بھی یوجینکس اور فیمینسٹ مفکرین کے مابین کچھ مختلف فیہ رہا ہے کہ کیا عورت کا یہ حق مطلقا انفرادی (یعنی کسی دوسرے کے سامنے جوابدہی کی قید سے ماوراء) ہے یااسے مناسب اجتماعی مقاصد کے لئے قربان یا محدود بھی کیا جاسکتا ہے۔ انیسویں صدی کے آخر میں انگلستان اور جرمنی میں بچوں کی شرح پیدائش میں ایک تہائی کے قریب کمی ہوگئی تھی جس سے یہ دونوں ریاستیں خائف تھیں کیونکہ بچوں کی پیدائش میں کمی کا مطلب مستقبل کی فوجی قوت میں کمی تھا۔ اس معاملے میں عورت کے انفرادی حق پر زور دینے والے فیمینسٹ مفکرین کا خیال تھا کہ بچوں کی “تعداد” میں کمی کا ازالہ “بہتر نسل” کے بچوں میں اضافے سے خود بخود ہوجائے گا ۔ ان کے خیال میں اہم بات یہ تھی کہ ان بہتر نسل کے بچوں کی تعلیم، خوراک اور صحت پر توجہ دی جائے۔
• بدکاری کی عمومیت سے پھیلنے والی جنسی بیماریوں کی روک تھام اور عورتوں کو ان سے بچانے کے لئے قوانین کا اجراء۔ انگلستان کی فیمینسٹ تحریکوں کے خیال میں برتھ کنٹرول کے طریقے اختیار کرنے کے بجائے عورتوں میں مجرد زندگی گزارنے کو فروغ دینا عورتوں کے لئے زیادہ محفوظ و بہتر طریقہ کار تھا اس لئے کہ مردوں کی اکثریت جنسی بیماریوں کا شکار تھی۔ اس کے برعکس جرمنی میں جنسی امراض کے شکار مردوں اور عورتوں کو جنسی عمل کے ذریعے بیماری منتقل کرنے کے عمل میں مجرم قرار دئیے جانے کے قوانین متعارف کروائے گئے۔ شادی کے لئے “ھیلتھ سرٹیفیکیٹ” کے حصول کو لازم قرار دئیے جانے کی تجاویز بھی پیش ہوئیں اگرچہ انگلستان میں وہ نافذ نہ ہوسکیں
• “ان فٹ” لوگوں کو بچہ پیدا کرنے سے روک دینا، چاہے بذریعہ قید ہو یا نس بندی ۔ یوجینکس اور فیمینسٹ تحاریک کی جدوجہد کے نتیجے میں انگلستان میں 1913 میں یہ قانون پاس کیا گیا کہ جس شخص کو دو ڈاکٹرز ذہنی طور پر “ان فٹ”(feebleminded) یعنی اپاہج قرار دیں گے وہ شادی نہیں کرسکے گا اور اسے قید خانے میں ڈال دیا جائے گا۔
چنانچہ ریاست کی زیر نگرانی ممتا کا یہ جدید تصور یعنی “اچھی نسل کے صحت مند بچوں کی افزائش نسل کا پروگرام” انگلستان اور جرمنی میں جدید ویلفئیر سٹیٹ کا آغاز تھا۔ جنگ عظیم اول کے دنوں میں زچہ بچہ کی صحت کے لئے سرکاری سطح پر بہت سے امدادی پروگرامز کا اجراء کیا گیا۔
جنگ عظیم دوئم سے قبل دور میں فیمینسٹ تحریک کی سب سے بلند آواز سینگر امریکی کالجز میں ان فٹ لوگوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کے نقصانات پر لیکچرز دیا کرتی تھیں۔ “بیوقوف و پاگل عورتوں” کو الگ تھلگ مقامات پر رکھنے کے لئے بنائے جانے والے گھروں کے لئے خواتین کے Deep South federated کلب نے نہایت سرگرم کردار ادا کیا۔ 1930 میں یوجینکس اور فیمینسٹ تحریک والوں نے مل کر “فیملی پلاننگ” کے نعرے کے تحت اجتماعی کام کرنے کا ایک بوڑد تشکیل دیا۔ ان دونوں تحریکوں کے مابین مشترک تصور “اصل انسان کی اصل آزادی” اور “دنیا سے غربت کےخاتمے” کا ایجنڈہ تھا۔ جب امریکہ میں جبری نس بندی کی یہ تحریک عروج پر تھی اس وقت کیتھولک چرچ کا کردار بالعموم مثبت رہا جس نے ابارشن و نس بندی کے معاون قوانین کی مخالفت کی ، 1927 کے امریکی سپریم کورٹ فیصلے میں جس واحد جج نے اس فیصلے کے خلاف نوٹ لکھا وہ ایک کیتھولک تھا۔
یہاں یہ بات لائق توجہ ہے کہ جنگ عظیم دوئم سے پہلے فیمینسٹ تحریکوں نے عورت کے انفرادی حقوق منوانے کے لئے بالعموم ” ہیومن رائٹس” جیسے کسی فلسفے پر انحصار کرنے کے بجائے ایسے یوجینکس مقدمات اختیار کرنے کو ترجیح دی جو “عورت کی بہتری” کو “معاشرے کی بہتری” کا پیش خیمہ بتاتے تھے۔ دوسرے لفظوں میں ان کا مقدمہ از خود کسی مثبت استدلال کے بجائے منفی یوجینکس نظریات پر مبنی تھا جن کی رو سے چونکہ کمزور و ناکارہ بچے والدین اور معاشرے دونوں کے لئے بوجھ ہوتے ہیں لہذا عورت کو بچہ جننے میں انتخاب کا حق ملنا لازم ہے۔ لیکن ان مقدمات پر تحریک کی بنیاد رکھ کر فیمینسٹ تحریکوں نے افزائش نسل کے فیصلے کو عورت کے “حق” کے بجائے ایک نئی قسم کی “ذمہ داری” بنا دیا جس کی بنیاد پر صرف انہی عورتوں کو آزادی میسر آسکتی تھی جو اس ذمہ داری کو احسن طریقے سے ادا کرسکیں ، رہ گئیں غیر ذمہ دار عورتیں تو عین یہی مقدمہ انہیں ہر قسم کی سزا کا مستحق بھی ٹھہراتا تھا۔ یہ سوال کہ کون “ذمہ دار” ہے اور کون “غیر ذمہ دار” نیز اس کا فیصلہ کیسے ہوگا، اس ساری بحث میں اس کا کوئی جواب نہیں ملتا۔ یہی وجہ ہے کہ جنگ عظیم اول کے دوران فوجی قوت بڑھانے کے لئے جب عورتوں کو زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرنے پر مجبور کیا جانے لگا تو فیمینسٹ تحاریک اس پر نالاں ہوئیں۔ ایک خاتون سوشلسٹ لیڈر Henriette Fiirth کی اسی تلملاہٹ کا اظہار ان الفاظ میں ہوا:
“men who without consideration for our rights and welfare, demand children, children, and more children. How will they compel us?”۔
موقع پرست فیمینسٹوں کو اس موڑ پر “ممتا بذات خود” کا روایتی تصور اعلی ترین جذبے اور عمل کا نام دکھائی دینے لگا اور اس جبر کو نامعقول بتانے کے لئے ممتا سے متعلق “روایتی جذبات “
there is nothing greater than to create and to build the life of person itself
کا بھی بے دریغ استعمال کیا گیا۔
 “میرا جسم میری مرضی “
ماضی اور حال کی فیمینسٹ تحریکوں کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا ایجنڈہ بنیادی طور پر عورت کے مانع حمل طرق اختیار کرسکنے ، آزادانہ جنسی تعلق اور اسقاط حمل کے حقوق کے ارد گرد گھومتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم سے ماقبل اگر اس کے لئے یوجینکس تحریک کی سائنسی اور سیاسی بنیادوں کی آڑ میں “ممتا کے نئے تصور” کو استعمال کیا گیا تو جنگ عظیم دوئم کے بعد “ہیومن رائٹس” جیسے نظریات کا سہارا لیا گیا جن کی رو سے یہ “قومی ذمہ داری” کے بجائے “نجی حق” کا معاملہ ٹھہرتاہے۔ ہیومن رائٹس اس مفروضے پر مبنی ہیں کہ ہر فرد کو فطری و پیدائشی طور پر کچھ ایسے نجی حقوق حاصل ہیں جنہیں کسی مذہبی یا غیر مذہبی تصور خیر کی بنیاد پر منسوخ اور محدود نہیں کیا جاسکتا۔ ان حقوق کے بارے میں مفروضہ یہ ہے کہ ان کی توثیق (authentication) و جواز (legitimacy) کے لئے نہ تو خدا کے حکم کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی روایت و ریاستی قانون کی کیونکہ یہ اپنا جواز اپنے اندر رکھتے (یعنی self-evident) ہیں۔ ان حقوق میں سے ایک فرضی بنیادی حق اظہار رائے کا حق ہے جس کے مطابق فرد کو یہ حق ہے کہ وہ حصول لذت کے لئے اظہار ذات کے جس بھی طریقے کو اختیار کرنا چاہئے اختیار کرلے اور اسے حاصل کرنے کی جدوجہد کرسکے۔ ہیومن رائٹس کا یہ تصور فرد کی زندگی کے ایک دائرے کو ان معنی میں خالصتا “نجی” قرار دیتا ہے کہ اس دائرے میں کسی غیر (چاہے وہ خدا ہو، ریاست ہو یا ماں باپ کسی) کو مداخلت کرنے کا اختیار نہیں۔ اس تصور حق کے مطابق انسان ہونے کا مطلب زندگی کے اس نجی دائرے میں خودمختار ہونے کے ہم معنی ہے اور جو بھی تصور خیر، روایت ، قانون یا ریاست اس خود مختاری کو منسوخ یا محدود کرتے ہیں وہ درحقیقت فرد کے انسان ہونے کی نفی کرتے ہیں۔
فیمینسٹ (اور لبرل) مفکرین ہیومن رائٹس کے اسی مفروضہ حق کی بنیاد پر مانع حمل طرق کے استعمال، آزادانہ اختلاط اور اسقاط حمل کے حقوق کو عورت کے ایسے نجی حقوق شمار کرتے ہیں جن میں کسی کو مداخلت کی اجازت نہیں لہذا ان معاملات میں وہ کسی کو جواب دہ بھی نہیں۔ یہ مفکرین ان حقوق کو “عورت کے انسان ہونے” کے ہم معنی قرار دیتے ہیں کیونکہ یہ وہ خصوصی اعمال ہیں جو عورت کی “انفرادیت” کا اظہار ہیں، بالخصوص اسقاط حمل کا حق۔ ان خصوصی اعمال کے سواء دیگر سب اعمال مرد کے لئے بھی تقریبا اسی قدر ممکن ہیں جیسے عورت کے لئے اور یہی وجہ ہے کہ ان دیگر معاملات میں ہیومن رائٹس تحریکیں عورت کے لئے وہی حقوق طلب کرتی ہیں جو روایتی طور پر مرد کو حاصل رہے ہیں مثلا لباس، تعلیم یا پراپرٹی رکھنے کے حقوق وغیرہ، لیکن افزائش نسل (reproduction) کے معاملے میں مرد کو معیار بنا کر ایسی کوئی توسیع ممکن نہیں بلکہ اس معاملے میں ایسی ہر نقالی عورت کے خلاف جاتی ہے کیونکہ روایتی فکر اور قوانین فطرت اس معاملے میں مرد کو فوقیت عطا کرتے ہیں۔ یوں سمجھئے کہ اس فکر کی رو سے یہ معاملہ ان دو جنس کے مابین لازمی مسابقت و دشمنی (inevitable rivalry) کا دائرہ ہے کیونکہ یہاں کسی ایک کے حق میں اضافے کا لازمی مطلب کسی دوسرے کے نجی دائرے میں کمی ہے۔ اس دائرے میں عورت کی خودمختاری تب ہی ممکن ہے جب مرد (بالخصوص بطور شوہر) کی اس خود مختاری کو ختم کیا جائے جو اسے اس مذہبی روایت پر مبنی معاشرت میں میسر ہوتی ہے جو مرد کو عورت کا “قوام” کہتی ہے۔
لبرل معاشروں میں عورت کے اسقاط حمل کے حق سے مستفیض ہونے والے طبقات میں سب سے بڑا طبقہ پورن انڈسٹری اور میڈیا ہاؤسز (فلم، ڈرامہ و فیشن انڈسٹریز) ہیں جہاں بچے پیدا کرنے والی عورت لائق استعمال و قابل قدر نہیں رہتی۔ اسقاط حمل کا عمومی جواز عورت کو بدکاری پر مبنی معاشرت میں شرکت پر رضامند کرنے کی لازمی شرط ہے، اس حق کے بغیر بدکار معاشرت ایک عورت کے لئے کسی بھیانک تجربے سے کم نہیں کیونکہ بدکاری کے نتائج اس کی انفرادی خود مختاری کو ہمیشہ کے لئے ملیا میٹ کردیتے ہیں۔ قوانین فطرت عورت کو اس امر پر مجبور کرتے ہیں کہ جنسی عمل کے بعد وہ ایک وجود کی ذمہ داری اٹھائے جبکہ مرد پر ایسی کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوپاتی اور چند لمحوں کے اس تعلق کے بعد وہ اپنی نجی زندگی کو بعینہہ اسی طرح محفوظ پاتا ہے جیسا کہ اس تعلق سے پہلے۔ چنانچہ عورت کے حق خود مختاری کو محفوظ کرنے کے لئے لازم تھا کہ ایک طرف اسے شوہر سے آزاد کیا جائے اور دوسری طرف جنسی عمل سے متعلق فطری ذمہ داری سے۔ اسقاط حمل کی یہ تحریکیں ہی ہم جنس پرست رویوں کے جواز کی پیش خیمہ ہیں کیونکہ اسقاط حمل کی فکر “عمل جنسیت کے حق” کو “افزائش نسل کی ذمہ داری” سے الگ قرار دینے کے مفروضے پر مبنی ہے، یعنی اس فکر میں جنسیت کا حق افزائش نسل کی ذمہ داری کی ادائیگی کے لئے نہیں بلکہ بذات خود مقصود و مطلوب ہے اور افزائش نسل کی ذمہ داریوں کے تناظر میں اس حق پر کوئی قدغن عائد نہیں کی جاسکتی۔ لہذا یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اسقاط حمل کی یہ بحث عورت کے “انسان” یا “مجرم” ہونے کے مابین خط امتیاز کو واضح کرنے والی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ایک صدی سے زیادہ طویل فیمینسٹ تحریکوں کے لئے یہ “بنیادی” بحث رہی ہے۔ وقت و حالات گزرنے کے ساتھ اگرچہ اس کے جواز کے لئے استدلال تبدیل کیا جاتا رہا لیکن اس کا عنوان ایک ہی رہا: “میرا جسم میری مرضی”۔
انسانی حقوق کے تحت اختیار کئے جانے والے معاشرتی عمل کے نتیجے میں آزادی و مساوات کے نام پر عورت کو ایک طرف اپنی نسوانیت (faminity) مردانیت (manhood) میں ضم کرنے کی ترغیب دی گئی تو دوسری طرف نئے علمیاتی تناظر پر مبنی پالیسی سازی کے ذریعے گھریلو ترجیحات کے خلاف جانبدارانہ رویہ اختیار کرتے اور اسے نامعقول قرار دیتے ہوئے عورت کو مرد کی ذمہ داریاں اٹھانے پر مجبور کیا گیا اور مارکیٹ میں آزادانہ شرکت کے حق کے نام پر اسے مذہب کے فراہم کردہ مالی حقوق و تحفظات (جیسے کہ نان نفقہ و رہائش کے تحفظ وغیرہ) سے محروم کردیا گیا۔ چنانچہ آج یورپ و امریکہ میں کروڑوں خواتین اپنے نفقے کی ذمہ داری خود اٹھانے پر مجبور ہوگئی ہیں اور بدکاری کو جواز فراہم کرنے والی اس معاشرت میں بدکاری سے پیدا ہونے والے بچوں کی بڑی اکثریت کی ذمہ داری بھی ان کنواری ماؤں کو اکیلے ہی اٹھانا پڑتی ہے۔ خواتین کے ساتھ روا رکھی جانے والی مزید سفاکی یہ ہے کہ ان معاشروں میں ان کی ایک بڑی تعداد نکاح (یعنی سوشل recognition) اور کسی قانونی مالی تحفظ کے بغیر ہی مردوں کے ساتھ زندگیاں گزارنے اور ان کے بچے پیدا کرنے پر مجبور ہوگئی ہیں۔ شادی کے بعد زندگی بھر ساتھ نبھانے والے کسی مناسب مرد کی تلاش ان معاشروں کی اکثریت خواتین کے لئے ایک خوشنما خواب بن چکا ہے اور اس کی تلاش میں ایک اوسط رنگ روپ والی خاتون کو اوسطاً کئی مردوں کے ساتھ روابط اختیار کرکے انہیں آزمانا پڑتا ہے کہ شاید کوئی عمر بھر ساتھ نبھانے کو تیار ہو! مرد و زن کے مابین فروغ مساوات کے نعرے کو پروان دینے والے ان معاشروں میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ مردوں نے ساڑھیاں یا فراک پہننا شروع کردیا ہو بلکہ خاتون ہی کو وہ لباس اختیار کرنے کی ترجیحات پر اکسایا و مجبور کیا گیا جو مردوں نے اختیار کررکھا تھا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ مفروضہ تھا کہ انسانی تاریخ میں انسان کا مکمل اظہار مرد ہونے میں ہوا ہے، عورت کا تاریخی اظہار غیر معتبر لہذا غیر مقصود ہے۔ پس عورت جس قدر مرد بننے کا فیصلہ کرلے وہ اسی قدر معتبر ہوجائے گی۔

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں