( یہ چند بکھرے ہوئے خیالات ہیں جنہیں عجلت میں قلم بند کیا جارہا ہے ۔شاید بعد میں انہیں باضابطہ مرتب کیا جاسکے۔ )
علامہ یوسف قرضاوی کی وفات بلاشبہ بیسویں صدی کے ایک عظیم وعبقری عالم کی وفات ہے۔کسی کی موت پر اس نوع کے الفاظ لکھنا ایک رسمی اور معمول کی بات ہے کہ بزم حیات سے ان کے اٹھ جانے سے ایک نہ پر کیا جانے والا خلا پیدا ہوگیا ہے، لیکن اسلامی فکر وتحقیق کی دنیا میں علامہ قرضاوی کی وفات سے واقعتا جو خلا پیدا ہوگیا ہے،دوردور تک یہ خلا پرہوتا نظر نہیں آتا؛اس کے باوجود کہ علمائے عرب و عجم میں ایسی شخصیات،کم ہی سہی، موجود ہیں جن کا پایہ فکر وتحقیق، وسعت مطالعہ اور طباعی وذہانت اسلاف کی عبقریت اور عظمت رفتہ کی یاد دلاتا ہے۔
علامہ قرضاوی میں بیک وقت اللہ تعالی نے ایسی نادر اور متضاد صفات و خصوصیات رکھ دی تھیں جن کا اجتماع عہد موجود کی منتخب شخصیات میں بھی کم نظر آتا ہے۔ان کی شخصیت میں روایت کی پختگی اور جدیدیت کی تازہ کاری دونوں عناصر پورے توازن کے ساتھ بہم آمیز ہوگئے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک طرف اسلامی تراث اور اسلامی فکری روایت پر ان کی گہری اور وسیع نگاہ تھی۔اور دوسری طرف وہ معاصر دنیا کے جدید علمی،فکری، سیاسی وسماجی اور فلسفیانہ رجحانات سے بخوبی آگاہ تھے۔(اس دعوی کے تفصیلی دلائل ان کی کتب و مقالات سے بآسانی دئے جاسکتے ہیں جس کا التزام اس مختصر تحریر میں ممکن نہیں ہے۔)۔یہی وجہ ہے کہ معاصر دنیا ئے شرق وغرب میں اسلامی فکری حلقوں پر ان کی فکر کے اثرات زیادہ وسیع سطح پر مرتب ہوئے۔ عرب و غرب میں مقیم اسلامی نشاۃ ثانیہ کی حسرت رکھنے والی نئ نسلوں کے روشن دماغ افراد ان کے حلقہ بگوشوں میں شامل ہوگئے۔ لیکن علامہ قرضاوی صرف اسلامی جدیدیت اور فکر اسلامی کے نقیب ہی نہیں تھے ، بلکہ عمل اسلامی یا اسلامک اکٹوزم کے میدان کے شہسوار بھی تھے۔انہوں نے قلمی معرکہ بھی برپا کیا اور عرب وغرب کے اصحاب اقتدار کے سامنے سینہ سپر بھی رہے۔اس لیے ان کا وجود احباب اور اغیار دونوں کی نگاہوں میں خار بن کر چبھتا رہا۔ جس طرح ان کی وسیع الفکری نے امت کے فکری شیرازے کو مجتمع کرنے کی کوشش کی ۔اسی طرح الاتحاد العالمی لعلما ء المسلمین کے ذریعے انہوں نے امت کے عملی شیرازے کو بھی جمع کرنے اور داخلی وخارجی دشمنوں کے خلاف امت کے اجتماعی وجود کو مستحکم کرنے کی کوشش کی۔ یہی وجہ ہے کہ کئ ممالک میں ان کے داخلے پر پابندی تھی کہ :
یہ بندہ وقت سے پہلے قیامت کر نہ دے برپا۔
قرضاوی رح کا اہم ترین وصف ان کی اسلامی روشن خیالی کی صفت تھی،بشرطیکہ اپنے درست سیاق میں اس روشن خیالی کو عیب نہ سمجھا جائے۔اس روشن خیالی کی مختلف جہات ہیں۔ جن میں سب سے اہم جہت فکر ونظر میں اعتدال وسطیت ہے۔ اس کے مظاہر مختلف موضوعات پر لکھی ہوئ ان کی کم وبیش تمام تحریروں میں نظر آتے ہیں۔
اس کی چند سرسری مثالیں دیکھیے جو اس وقت ذہن میں آرہی ہیں ۔
*سیاسی فکر کے حوالے سے اہل عرب وغرب کے مختلف سیاسی حلقوں نے انہیں نشانہ بنایا ۔لیکن ذرا ان کی کتابیں “من فقہ الدولہ” ، “فی فقہ الاقلیات المسلمۃ” دیکھیے۔ جن میں انہوں نے عصر حاضر میں اسلامی سیاست کو صرف نظری اور رومانویت پسندی کی اساس پر قائم کرنے کی بجائے عملی اور واقعیت پسندی کی بنیاد پر قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کی نظر میں تغیر پذیر زمانی ومکانی احوال کے نتیجے میں اسلامی فقہ کا جو شعبہ سب سے زیادہ اصحاب علم و فقہ کی توجہ کا مستحق ہے تھا وہ فقہ السیاسہ لیکن اس سے زیادہ اعتنا نہیں کیا جاسکا۔
مذکورہ کتاب کے علاوہ اپنی متعدد کتابوں میں انہوں نے اسلام کے سیاسی نظریات واحکام میں عصری تقاضوں کے مطابق تبدیلی پرزوردیا ہے اوراسلامی سیاسی تحریکات کے اندرپیدا ہونے والے شدت پسندانہ رجحانات کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ وہ صحوہ اسلامیہ یا اسلامی نشآۃ ثانیہ کے صرف خواب دیکھنے والوں میں ہی شامل نہیں تھے(جیسا کہ ان کی اس موضوع پرمتعدد تحریروں سے اندازہ کیا جاسکتا ہے) بلکہ اس خواب کی عملی تعبیر ڈھونڈنے والوںمیں سرفہرست تھے۔ لیکن رومان پسندی اوریوٹوپیائی فکری فضا سے مکمل طور پردامن کش ہوکر،جس نےموجودہ عہد کی اسلامی سیاسی تحریکات کی کوششوں اور قربانیوں کوحقیقت کی سرزمین پربارآور نہیں ہونے دیا۔ ان کے بعض سیاسی نظریات سے اختلاف کیا جاسکتا ہے ۔مثلاوہ اسرائیل میں استشہادی یا فدائی حملوں کے جواز کے قائل تھے یا سیکولرزم کووہ تقریبا مکمل طورپرمسترد کرتے تھے جس کا اظہار انہوں نے ’’العلمانیہ وجہا لوجہ’’ میں کیا ہے۔ راقم الحروف کا خیال ہے کہ اول الذکرمسئلے کے حوالے سے سعودی علما علامہ ابن باز وشیخ عثیمین وغیرہ کا موقف ہی صحیح ہے جواس کے عدم جواز پرمشتمل ہے۔ کیوں کہ تشدد کوکسی ایک خطے میں وہاں کی صورت حال کے مطابق جواز فراہم کرنا اس لیے خطرناک ہے کہ وہ صرف متعلقہ خطے تک ہی محدود نہیں رہتا۔ بلکہ وہ بہرصورت متعددی ہوتا ہے اس لیے سدا لذرائع اس کی عمومی ممانعت ہی بہتر ہے۔ اسی طرح سیکولرزم کومکمل طورپرمسترد کرنے کے بجائے وہ موقف زیادہ بہتر ہے جسے عالم عرب میں عبد الوہاب مسیری اور ہندوپاک میں متعدد علما بشمول سعید احمد اکبرآبادی اور پروفیسرمشیرالحق نے پیش کیا کہ مغرب کا کلی نوعیت کا سیکولرزم تویقینا اسلام سے متصادم ہے لیکن ایک پلرل سوسائٹی میں جزئی طورپراسے قبول کرنا ناگزیر ہے۔
مسلم خواتین کا مسئلہ :
مختلف موضوعات جن پرموجودہ عہد میں بحث ومناقشے کی مجلسیں گرم ہوتی رہی ہیں، ان میں سے ایک مسلم خواتین کے حقوق اور ان کے سماجی کردار کی بحث ہے۔ علامہ قرضاوی اس کے پرزور حامی تھے۔اجتماعی سرگرمیوں میں مسلم خواتین کی شرکت کووہ امت کے اجتماعی فلاح وبہبود کے لیے ضروری تصورکرتے تھے۔ انہوں نے لکھا کہ مسلم خواتین کے حوالے سے ہمارے غیرمعتدل رویوں نے نصف آبادی کومعطل کرکے رکھ دیا اور امت ان کی صلاحیتوں محروم ہوکررہ گئی۔ انہوں نے بے کم وکاست اپنا یہ موقف بھی پیش کرنے میں تامل سے کام نہیں لیا کہ مسلم خواتین اسلامی ریاست کی سربراہ ہوسکتی ہیں۔ بخاری کی جس حدیث( وہ قوم فلاح یاب نہیں ہوسکتی جس کی سیاسی سربراہی عورت کوحاصل ہو) میں اسکی ممانعت آئی ہے وہ اسے ایران کی اس کی وقت کی موجود صورت حال پرمحمول کرتے اوراس کی تعمیم کے قائل نہیں تھے۔ ’فتاوی معاصرہ‘ میںخواتین کے حوالے سے علامہ قرضاوی کے فتاوی کودیکھا جاسکتا ہے کہ کس طرح افراط وتفریط سے بچتے ہوئے انہوں نے پردہ، عورت و مرد کے درمیان باہمی اختلاط اور اس کے حدود،عورت کی ملازمت وغیرہ پراسلامی شریعت کے متوازن نقطہ نظر کواجاگرکرنے کی کوشش کی ہے۔ شیخ نہ اس اباحیت کے قائل تھے جس کے مظاہرجدید مغرب زدہ معاشروں میں نظرآتے ہیں اور نہ اس تنگ نظری کے جسے خصوصیت کے ساتھ سعودی عرب کے سلفی اوربرصغیر کے علما نے رواج دینے کی کوشش کی۔ خواتین کے حوالے سے طالبان کے موقف پرانہوں نے بے باکی کے ساتھ تنقید کی اوراسے غلط ٹھہرایا۔
فکری حلقوں کا جمود اور شیخ قرضاوی رح:
شیخ قرضاوی کی نگاہ میں صحوہ اسلامیہ یا اسلامی بیداری کی راہ میں خارجی اورداخلی دونوں نوع کی مشکلات حائل ہیں۔خارجی توظاہر ہے کہ اعدائے اسلام ہمیشہ اس کی گھات میں رہے ہیں لیکن داخلی مشکلات بھی کم نہیں ہیں۔ اسلام دشمن طاقتوں کوخود ہماری فکری وسیاسی حلقوں کے افراد اورجماعتوں کی تنگ نگاہی اورجمود فکرونظر نے اسلام اور اسلامی فکرکونشانہ بنانے کا موقع دیا ہے۔ اسلامی فکر کے حوالے سے حرفیت پسندی کی روش پرانہوں نے جابجا ماتم کیا ہے۔ ایک جگہ انہوں نے لکھا ہے ہمارے جمود پسند علما صدیوں قبل کی ذہنیت سے سوچنے کے عادی ہیں۔وہ آج کے سیاسی وسماجی تقاضوں کوپیش نظررکھ کرموجودہ مسائل پرغوروخوض کے قائل نہیں۔ امام ابوحنیفہ کی وفات کے صرف چند دہائیوں کے بعد اصحاب ابوحنیفہ نے ایک چوتھائی مسائل میں اختلاف کرڈالا۔ کسی کے اس حوالے سے سوال پ امام محمد نے فرمایا کہ اگرہمارے شیخ زندہ ہوتے وہ بھی ایسا ہی کرتے۔ اختلاف زمان ومکان کی بناپر فتوی میں تبدیلی کی پختہ روایت اسلامی فکری روایت کاحصہ تھی جوافسوس موجودہ عہد میں باقی نہیں رہی۔ خاص اس موضوع پربھی شیخ نےایک کتاب لکھی ہے۔(موجبات تغیر الفتوی فی عصرنا)
شیخ قرضاوی اور تفردات
شیخ قر ضاوی کے بارے میں بعض حلقوں کی طرف سے بار بار یہ بات دہرائی جاتی رہی ہے کہ وہ یقینا بڑے عالم تھے لیکن ان کے یہاں بہت سے تفردات پائے جاتے ہیں۔ یہ بات اگر عوامی حلقوں کی طرف سے کہی جائے تو کچھ باعثِ حیرت نہیں۔لیکن علما کے حلقوں کی طرف سے اس نوع کی باتیں یقینا حیرت انگیز ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اسلاف عظام میں وہ کون شخصیات ہیں جن کے یہاں تفردات نہیں پائے جاتے؟ اور انہیں کب عیب علم واجتہاد کی شخصیت کے منافی تصور کیا گیا؟ حضرت عبد اللہ ابن عباس، عبد اللہ ابن مسعود اور حضرت عائشہ رضوان اللہ علیہم سے شاہ ولی اللہ تک ہماری اسلامی فکری روایت کی کہکشاں میں جو شخصیات جگمگاتی نظر آتی ہیں، مختلف مسائل میں ان کے تفردات اصحاب علم میں معروف ہیں۔ تفرد پسندی یا اکثریت کے مقابلے میں منفرد رایے اختیار کرنے کو کبھی اسلامی فکری روایت کے مغایر تصور نہیں کیا گیا۔کیوں کہ یہ اس کی خمیر میں شامل ہے اور اس کی تشکیل و ارتقا میں بجائے خود اس کا اہم رول رہا ہے۔ اس گئے گزرے دور میں بھی اس کی شاندار مثالیں بر صغیر ہند کی علمی روایت میں بھی ملتی ہیں۔
البتہ اب مسلسل زوال فکر ونظر کے نتیجے میں موجودہ میں یہ بات ذہنوں میں پختہ ہو تی جاتی ہے کہ ماترک الاول للآخر یعنی اگلی نسلوں( اسلاف) نے پچھلی نسلوں کے لیے کام کی کوئ گنجائش نہیں چھوڑی ہے۔انہوں نے اسلامی فکر کو اتنی کامل و مکمل شکل میں پیش کردیا ہے کہ اب اس میں کوئ اضافہ یا تبدیلی ممکن نہیں ہے۔اب ہمارا کام عصری اسلوب میں بس ان کی تشریح و توضیح تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ اس ذہنی فضا میں یہ علمی روش معیوب ہوکر رہ گئ ہے۔ شیخ قرضاوی فرماتے ہیں کہ وہ اس کی بجایے اس یقین کے حامل ہیں کہ : کم ترک الاول للآخر’ اسلاف نے کتنی ہی ایسی چیزیں چھوڑی ہیں جنہیں بعد کی نسلوں کو انجام دینا ہے۔
شیخ قرضاوی اس اصول پر شدت کے ساتھ کاربند تھے کہ، خاص طور پر مجتہد فیہ مسائل میں، زمانی ومکانی تغیرات سے پیدا شدہ صورتحال کے پیش نظر، از سرنو غور اور ترتیب فکر کی گنجائش باقی رہتی ہے۔ مزید برآں شیخ اس بارےمیں ایک مضبوط اور بے لچک موقف رکھتےتھے کہ معاصر مسائل کو صرف کسی ایک مکتب فقہ کی تحدید والتزام کے ساتھ حل نہیں کیا جاسکتا۔ پیچیدہ سماجی، ثقافتی اور سیاسی نوعیت کے مسائل میں مختلف مکاتب فقہ سے استفادہ ناگزیر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس موقف کی صداقت ومعتبریت ہر زمان آشکارا ہوتی جارہی ہے۔اس کی متعدد مثالیں فتاوی لٹریچر میں موجود ہیں۔
جس کسی نے شیخ کی الحلال والحرام فقہ الزکاۃ، فتاوی معاصرۃ ، فی فقہ الاولیات اور اس نوع کی دیگر کتب کا مطالعہ کیا ہو، اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے کہ شیخ کسی معمولی سے معمولی اور سادہ مسئلے کو بھی سرسری انداز و اسلوب میں لکھنے کے عادی نہیں تھے ۔ہمارے معاصر اصحاب افتا جن مسائل کو چند سطروں میں( مثلا) “کما فی الدر المختار”، یا”کما فی العالمگیریہ” کہہ کر نمٹادیتے ہیں ، شیخ کا قلم ان مسائل میں بھی اکثر اوقات دسیوں صفحات تک پھیلتا چلا جاتا ہے۔ وہ ایک فتوی کو دلائل و براہین سے مزین ایک مکمل مقالے کی شکل دے دیتے ہیں۔ اس کا مقصد ظاہر ہے یہ ہے کہ متعلقہ مسئلے کا کوئ پہلو تشنہ نہ رہے۔ اور یہ الزام دینا آسان نہ ہو کہ شیخ نے تن آسانی سے کام لیا ہے۔ اس اعتراض میں یہ اعتراض بھی شامل ہے کہ شیخ کا رجحان حرام وحلال کے مسائل میں رخصتوں کی تلاش ہے۔ شیخ قرضاوی نے مختلف تحریروں میں اس کا جواب دیا ہے اور بتایا ہے کہ خود شریعت کا مزاج رسول اللہ نے یہی بیان کیا ہے: یسروا ولا تعسروا بشروا ولا تنفروا” ۔آسانی پیدا کرو ،تنگی پیدا مت کرو۔خوش خبری دینے والے بنو، عوام کو متنفر کرنے والے مت بنو۔
ان کے نتائج فکر سے اختلاف کی گنجائش تو ضرور باقی رہتی ہے لیکن اسی اسلوب میں جس کا شیخ نے اپنے فقہی آرا کی تشکیل و اظہار میں التزام کیا ہے۔
بہر حال امت کو درپیش پیچیدہ اور اہم تہذیبی مسائل پر غور وفکر اور ان کے حل کی تلاش کے حوالے سے شیخ قرضاوی کی فکر ایک معتدل اور متوازن منہج کی طرف رہنمائ کرتی ہے۔ ضرورت ہے کہ اس کے مختلف اہم پہلوؤں پر فکری مباحثے کو آگے بڑھانے کی کوشش جائے۔
کمنت کیجے