تبصرہ: ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر
(شعبہ تصنیف و تالیف، جامعہ کراچی)
ماقبل تاریخ کا دور نِری تاریکی میں ہوتا اگر کتب سماویہ اور اکتشافاتِ اثریہ ان کی طرف کچھ نہ کچھ رہنمائی نہ کرتے۔ لہٰذا جب پہلی صدی ہجری کے وسط سے مسلمانوں نے تاریخ نویسی شروع کی تو انھوں نے قدیم اقوام و ملل کے حالات کی کھوج لگانے میں بڑی جدوجہد کی۔ ایک طرف تو کچھ قرآنی تفصیلات تھیں جو پند و نصائح یا عبرت انگیزی کے لیے بیان کی گئی ہیں، دوسری طرف اسرائیلیات اور روایاتِ رومیہ و یونانیہ بھی تھیں لیکن ان کے علی الرغم ایک ماخذ اور تھا اور وہ تھے اکتشافاتِ اثریہ (Archaeological Discoveries)۔
ایک عام تاثر یہی ہے کہ مسلمانوں نے ان آثار کو نہ ہی علم کے طور پر لیا اور نہ فن کے طور پر ترقی دی، یہ مستشرقین تھے جنھوں نے اس راہِ پُرخار میں دولت اور عمر کی نقدی کھپائی، اس موضوع پر گراں قدر اضافے کیے، کتابیں لکھیں، سفر اختیار کیے، اور اس کے علاوہ یونانی اور رومی تصنیفات سے ؛ جو عہدِ عتیق کے حالات سے پُر ہیں، انتخاب و خلاصہ کیا۔ یہاں تک کہ قرآن نے جن اقوام و بلاد کا ذکر کیا ہے ان کے کھنڈرات کا مشاہدہ کیا، ان کے کتبات کو حل کیا اور ان سے نتائج مستنبط کیے جو بعض اوقات درست اور بعض اوقات مضحکہ خیز حد تک غلط ثابت ہوئے۔
تاہم ان مستشرقین سے ہزار سال قبل خود متقدمینِ عرب اور غیر عرب مسلم مورخین، سیاحوں اور جغرافیہ دانوں نے اکتشافات و آثار کے حوالے سے جو گراں قدر تصانیف چھوڑیں، ان پر ہماری نظر نہیں ہے اور یہ اپنے تراثِ علمی سے ناواقف ہونے کی وجہ سے ہے جو انتہائی افسوس ناک ہے۔
تیسری صدی ہجری کے ابو عبیدہ معمر بن المثنیٰ، ہشام کلبی، ابن ہشام اور ابن حائک ہمدانی نے قدیم سامی اقوام کی تاریخ بیان کرتے ہوئے جس طرح آثار و کتبات سے اخذ و قبول کیا، اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ مبرد، ابو البختری اور یاقوت حموی نے جس طرح علم الآثار کی مدد سے عہدِ عتیق کی تاریخ مرتب کی وہ قابل ذکر ہے۔ یہ شواہد آج بھی موجود ہیں اور ان مورخین کی بیشتر کتب طبع ہوچکی ہیں جن سے فیض اٹھانے والے فیض اٹھا رہے ہیں۔
پھر جب اٹھارہویں صدی عیسوی سے مغربی مورخین اور سیاحوں نے اس وادی میں قدم رکھا تو اسی کا غلغلہ مچ گیا اور سابقہ خدمات فراموش کردی گئیں۔مغربی محققین نے علم الآثار میں بڑی دلچسپی لی لیکن ان کے بے محابہ قیاسات نے تاریخ کی کتنی خدمت کی، اس کا اندازہ لگانا باقی ہے۔
اگر ہم اپنی زبان (اردو) کی بات کریں تو عہدِ عتیق کی اثری تاریخ پر سب سے گراں قدر تصنیف سید سلیمان ندوی “تاریخ ارض القرآن” ہے۔ اس کے علاوہ انبیائے سابقہ اور اممِ بائدہ کی جو تاریخیں لکھی گئی ہیں وہ زیادہ تر مذہبی اور تبلیغی ادبیات کا حصہ ہیں، ان میں اعلیٰ درجے کا انتقادی مذاق تلاش کرنا عبث ہے۔
اب نوجوان محقق اور استاد حافظ محمد شارق صاحب کی کتاب “انبیاء کرام علیہم السلام کی تاریخ قرآن اور علم الآثار کی روشنی میں” کا مسودہ دیکھنے کا موقع ملا۔ اس میں انبیاء کرام کی تاریخیت کو قرآن اور علم الآثار کی روشنی میں ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
اب تک انبیاء کرام علیہم السلام پر اردو زبان میں جو کتابیں لکھی گئی ہیں، وہ قصص الانبیاء کے عنوان سے مذہبی نکتہ نظر سے لکھی گئی کتب ہیں۔ ان کا مقصد بھی تبلیغی ہے، جبکہ زیرِ نظر کتاب کے مصنف کا مقصد اثری شواہد سے انبیاء کی تاریخیت (Historicity) کو ثابت کرنا ہے۔ اپنی کتاب میں مغربی مورخین کی تحقیقات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انھوں نے بعض مروجہ خیالات سے الگ رائے پر اصرار بھی کیا ہے۔ مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کس فرعون کی بیوی نے گود لیا اور پرورش کی؟
عام طور پر یہ مانا جاتا ہے کہ وہ رعمیسس ثانی کی بیوی تھیں لیکن مصنف کے مطابق تھوتموسس دراصل “فرعونِ موسیٰ” تھا اور اس کی بیوی حتشِب سوت کو وہ خاتون بتاتے ہیں جس نے موسیٰ علیہ السلام کی پرورش کی۔ تھوتموسس دوم کی ایک بیوی کا نام Iset تھا جو بائیبل کی روایات کی رو سے آسیہ کے مماثل ہے۔
اسی طرح وہ مختلف پیغمبروں مثلاً حضرت صالح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ (علیہم السلام) وغیرہ کے حالات کا کھوج لگاتے ہیں۔ کنعانی کون تھے؟ سامی اقوام سے کیا مراد ہے؟ مختلف انبیاء کن ادوار میں آئے؟ ان کے مقامات کی تحقیق اور ہجرتوں کا احوال علم الآثار کی روشنی میں تلاش کرتے ہیں۔ اردو زبان میں اس شعبہ میں بہت کم لکھا گیا ہے لہٰذا حافظ محمد شارق کی زیرِ نظر تصنیف کی علمی حلقوں میں پذیرائی کی توقع ہے۔ امید ہے ان کا یہ علمی اور تحقیقی سفر جاری رہے گا۔
؎ اللہ کرے مرحلۂ شوق نہ ہو طے
یہ کتاب چاہئے