عقل کی فعلیت اور حرکت
غزالی نے عقل کی فعلیت اور حرکت کو اپنی کتب میں مختلف جگہوں پر بہت تفصیل سے ذکر کیا ہے ۔ ہم یہاں ان کی کتاب ” مشکاۃ الانوار ” کے حوالے سے انکے عقل کی فعلیت کی بابت تصورات سے متعلقہ عبارات نقل کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں جو عقل کی حرکت کے متعلق غزالی کے افکار کو جاننے اور سمجھنے کے لئے کافی ہیں ۔ چنانچہ لکھتے ہیں :
” العقل يدرك غيره ويدرك صفات نفسه: إذ يدرك نفسه عالماً وقادراً: ويدرك علم نفسه ويدرك علمه بعلم نفسه وعلمه بعلمه بعلم نفسه إلى غير نهاية.”[1]
ترجمہ: عقل جس طرح دوسروں کو دیکھتی ہے خود کو بھی دیکھ سکتی ہے ۔ اپنی صفات کا ادراک رکھتی ہے ۔ اپنے نفس کا علم بھی اسکے ادراک میں ہوتا ہے اور علم کا علم بھی الی غیر النہایہ
” العقل يستوى عنده القريب والبعيد: يعرج في تطريفة إلى أعلى السماوات رقياً، وينزل في لحظة إلى تخوم الأرضين هوِياً. بل إذا حقت الحقائق و يكشف أنه منزه عن أن تحوم بجنبات قدسه معانى القرب والبعد الذى يفرض بين الأجسام، فإنه أنموذج من نور الله تعالى، ولا يخلو الأنموذج عن محاكاة، وإن كان لا يرقي إلى ذروة المساواة.”[2]
ترجمہ: عقل کے نزدیک قریب و بعید یکساں ہیں ۔وہ ایک ہی لمحہ میں آسمانوں کی سیر کرتی ہے اور یکدم زمین کی تہہ تک پہنچ جاتی ہے ۔فی الواقع اجسام میں جو قرب و بعد ہے وہ اسکے قریب بھی نہیں پھٹکتا کیونکہ وہ خدا کے سمندروں کا ایک نشان اور نمونہ ہے ۔اور نمونہ اپنے اصل کے مشابہ ہوتا ہے گو اس کے مساوی نہ ہو ۔
“العقل يتصرف في العرش والكرسى وما وراء حجب السماوات، وفي الملأ الأعلى والملكوت الأسمى كتصرفه في عالمه الخاص ومملكته القريبة أعنى بدنه الخاص. بل الحقائق كلها لا تحتجب عن العقل. وأما حجاب العقل حيث يحجب فمن نفسه لنفسه”[3]
ترجمہ: عقل عرش ، کرسی ، آسمان کے پردوں ، ملاء اعلی اور ملکوت میں اسی طرح تصرف کرتی ہے جس طرح اپنے عالمِ خاص اور قریب میں کرتی ہے ۔حقائق میں سے کچھ بھی عقل سے پردے میں نہیں الا یہ کہ عقل خود اپنے آپ سے پردے میں چلی جائے ۔
“العقل يتغلغل إلى بواطن الأشياء وأسرارها ويدرك حقائقها وأرواحها، ويستنبط سببها وعلتها وغايتها وحكمتها، وأنها ممّ خلق، وكيف خلق، ولِم خلق، ومِن كم معنى جمع وركّب، وعلى أى مرتبة في الوجود نزل، وما نسبته إلى خالقها وما نسبتها إلى سائر مخلوقاته”[4]
ترجمہ : عقل اشیاء کا اندورنی حصہ اور اسکے حقائق اور کیفیات معلوم کرتی ہے ۔ اسکے اسباب و علل معلوم کر کے اس پر حکم لگاتی ہے ۔اور یہ معلوم کرتی ہے کہ یہ شئی کس چیز سے اور کیونکر پیدا ہوئی ۔کتنی اشیاء سے مرکب ہے اور اسکا وجود میں کیا مرتبہ ہے ۔اور دیگر مخلوقات کی جانت اسکی کیا نسبت ہے ۔
“العقل يدرك المعلومات؛ والمعلومات لا يتصور أن تكون متناهية. نعم إذا لاحظ العلوم المفصلة فلا يكون الحاضر الحاصل عنده إلا متناهياً. لكن في قوته إدراك ما لا نهاية له”[5]
ترجمہ: عقل معقولات کا ادراک کرتی ہے ۔ اور معقولات لا متناہی ہیں ۔ اگرچہ جب علومِ متحصلہ کا لحاظ کرتی ہے اس سے جو علم حاضر ہوتا ہے وہ متناہی ہوتا ہے لیکن عقل میں غیر متناہی کے ادراک کی قوت موجود ہے ۔
غزالی کا عقل میں بالقوۃ غیر متناہی کو گرفت کرنے کی صلاحیت موجود ہونے کا بیان معنی خیز ہے ۔ اس سے اقبال کی غزالی پر تنقید محلِ نظر ہو جاتی ہے جو انہوں نے اپنے خطبہء اول میں غزالی پر کی ۔
علامہ اقبال اپنے پہلے خطبے “Knowledge and Religious Experience”میں غزالی اور کانٹ کے تشکیکی اشتراک کے بعد کی فکری حرکت میں فرق بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
ترجمہ: غزالی نے تجزیاتی فکر میں اس کی امید نہ پا کر صوفیانہ تجربے کی طرف رجوع کیا اور یوں مذہب کے لئے ایک الگ دائرہ کار دریافت کر لیا۔ نتیجتًہاس نے سائنس اور مابعد الطبیعیات سے الگ خود مکتفی حیثیت میں مذہب کے زندہ رہنے کے حق کو دریافت کر لینے میں کامیابی حاصل کر لی۔ تاہم صوفیانہ مشاہدے میں لامتناہی کل کی معرفت نے اسے فکر کی متناہیت اور نارسائی کا یقین دلا دیا۔ لہٰذا اس نے وجدان اور فکر کے درمیان ایک خط فاصل کھینچ دیا۔ وہ یہ جاننے میں ناکام رہا کہ فکر اور وجدان عضویاتی طور پر ایک دوسرے سے منسلک ہیں اور فکر متناہی اور غیر قطعی محض اس بنا پر نظرآتی ہے کہ وہ زمان متسلسل سے وابستہ ہے۔ یہ خیال کہ فکر لازمی طور پرمتناہی ہے لہٰذا اسی وجہ سے وہ لامتناہی کو نہیں پا سکتا، علم میں فکر کے کردار کے بارے میں غلط تصور پر قائم ہے۔
غزالی کی سوچ میں عقل و فکر اور وجدان کے درمیان علی الاطلاق حدِ فاصل کھینچی گئی ہونا یا عقل کا لامتناہی کو گرفت کرنے کی سکت سے عاری ہونامحلِ اعتراض بات ہے ۔ غزالی نے بیشتر جگہوں پر عقل کی فعلیت کے تحت اس بات کی تائید کی ہے کہ عقل لامتناہی کو گرفت کرنے کی سکت رکھتی ہے ۔ مشکاۃ الانوار میں عقل کی فعلیت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
“العقل یدرک المعقولات ، والمعقولات لا تتصور ان تکون متناھیۃ ، نعم اذا لاحظ العلوم المتحصلۃ فلا یکون الحاضر الحاصل عندہ الا متناھیا لکن فی قوتہ ادراک ما لا نھایۃ لہ “[7]
ترجمہ : عقل معقولات کو معلوم کرتی ہے اور معقولات لامتناہی ہیں لیکن جب وہ علومِ متحصلہ کا لحاظ کرتی ہے تو اس سے جو علمِ حاضر حاصل ہوتا ہے وہ بیشک متناہی ہوتا ہے لیکن اسکی قوت میں غیر متناہی کا ادراک موجود ہے ۔
چنانچہ ہمارے نزدیک غزالی کی طرف عقل کے غیر متناہی کو گرفت کرنے کی قابلیت سے عاری ہونے کے تصور کی نسبت درست نہیں ہے ۔
بہرحال سابق میں عقل کی فعلیت کے تحت جس قدر عبارات ذکر کی گئی ان سب کا تعلق عقلِ کلی سے ہے جس کا ایک جزو عقلِ استنباطی اور جزئی بھی ہے ۔ چنانچہ عقلِ استنباطی کو اس سے خارج جاننا درست نہیں ہے کیونکہ معقولات کا ادراک کرنا ، اسباب و علل کا علم رکھنا ، وجودات کے مراتب قائم کرنا اور اشیاء کے وجود و کیفیات تک رسائی حاصل کرنا عقلِ استنباطی ہی کے وظائف ہیں ۔
عقل میں اس قدر قوت ہونے کے باوجود اس سے معقولات میں غلطیاں کیوں سرزد ہوتی ہے ؟ اس کا جواب خود غزالی نے دیا ہے جس کی طرف سابقہ عبارت میں بھی اشارہ ملتا ہے کہ جب عقل خود سے حجاب میں چلی جائے تو حقائق کے ادراک کی قوت کھو دیتی ہے ۔لیکن اگر ایسا کوئی حجاب نہ ہو تو غلطی کو عقل کی جانب منسوب نہیں کیا جا سکتا بلکہ حقائق کے ادراک میں جو غلطی بظاہر عقل کی محسوس ہوتی ہے وہ اہلِ عقل کا شبہ ہوتا ہے بایں معنی کہ وہ اپنے وہمی افکار کو معقول سمجھنے لگتے ہیں ۔لکھتے ہیں :
“فإن قلت: نرى العقلاء يغلطون في نظرهم فاعلم أن فيهم خيالات وأوهاماً واعتقادات يظنون أحكامها أحكام العقل؛ فالغلط منسوب إليها.”[8]
ترجمہ : اگر تم کہو کہ ہم اہلِ عقل کو دیکھتے ہیں کہ وہ اپنی آراء میں غلطی کرتے ہیں تو جان لو کہ وہ ان کے اوہام اور خیالات ہوتے ہیں جنہیں وہ عقل کے احکام سمجھ کر غلطی سے اسکی جانب منسوب کر دیتے ہیں ۔
پھر حقیقتِ حال کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
“فأما العقل إذا تجرد عن غشاوة الوهم والخيال لم يتصور أن يغلط؛ بل رأى الأشياء على ما هى عليه، وفي تجريده عسر عظيم”[9]
ترجمہ : جہاں تک عقل کا سوال ہے تو جب وہ وہم اور خیال سے مجرد ہوتی ہے اسمیں غلطی متصور نہیں ہو سکتی ۔ بلکہ وہ اشیاء کو انکی حقیقت میں دیکھتی ہے ۔اگرچہ اسکی تجرید ایک مشکل امر ہے ۔
عقل کی آزادی
غزالی کا خیال ہے کہ انسان میں شہوات کا وجود عقل پر مقدم ہے اور عقل کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہے چنانچہ جو جس قدر ان شہوتوں سے چھٹکارا پاتا جائے گا اسکی عقل تجرید اور کمال کی طرف بڑھتی رہے گی اور اشیاء کے حقائق اس پر اسی قدر منکشف ہونے لگیں گے ۔ چنانچہ عقل کو اکتسابی علوم کے ذریعہ بھی شہوتوں کے چنگل سے نکالا جا سکتا ہے کہ معقولات کا علم حاصل کیا جائے اور غور و فکر کیا جائے کہ اشیاء کے حقائق کیا ہے اور پھر جن حقائق تک رسائی ممکن ہو جائے انکے مطابق عقلِ عملی کو حرکت دی جائے اور جو شہوات اسکی راہ میں رکاوٹ پیدا کریں انہیں زیر کیا جائے ۔ اور اسکے بالکل برعکس بھی ممکن ہے کہ عقل کو شہوتوں سے پاک کیا جائے یہانتک کہ حقائق ِ امور اپنے مبداءِ اصلی سے بلا اکتساب واضح ہونے لگیں ۔
غزالی کے نزدیک اگر عقل کو اپنے معروض کے لحاظ سے دیکھا جائے تو وہ صرف ان نفوس میں اپنے درجہء کمال کو پہنچتی ہے جو خدا کے چنیدہ ہوتے ہیں کیونکہ انکی عقلیں دیگر کی بنسبت شہوتوں سے سب سے زیادہ آزاد ہوتی ہیں لہذا وہ حقائقِ امور کے ادراک میں بھی سب سے زیادہ سریع ہوتی ہیں ۔ غزالی کی یہاں شہوت سے مراد وہ خواہشات نہیں ہیں جو انسان کی جسمانی ضروریات کے لئے ضروری ہوتی ہیں بلکہ وہ شہوتیں مراد ہیں جو ہوی کے ہم معنی ہیں ۔ میزان العمل میں عقل و خواہش کی معرکہء آرائی کا نقشہ کھینچنے کے بعد لکھتے ہیں :
“فإن قلت فهل من فرق بين الهوى والشهوة؟ قلنا لا حجر في العبارات، ولكن نعني الهوى المذموم ، من جملة الشهوات، دون المحمود. والمحمود من فعل الله تعالى، وهي قوة جعلت في الإنسان لتنبعث بها النفس لنيل ما فيه صلاح بدنه، إما بإبقاء بدنه أو بإبقاء نوعه، وإصلاحها جميعاً “[10]
ترجمہ: اگر تم پوچھو کہ ہوس اور شہوت میں کیا فرق ہے ؟ تو جواب یہ ہے کہ لفظی بحثوں میں پڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ہوی سے ہماری مراد خواہشات کا وہ حصہ ہے جو مذموم ہیں ۔پسندیدہ خواہشات اس میں شامل نہیں ہیں ۔ پسندیدہ خواہشات خدا کا فعل ہیں ۔اور وہ انسان میں رکھی گئی ایک قوت ہے جس کے ذریعے نفس میں بدن کی صلاح یا اسکی بقاء یا نوع کی بقاء اور اسکی اصلاح کی تحریک پیدا کرنا مقصود ہے ۔
حواشی:
[1] مشکاۃ الانوار و مصفاۃ الاسرار فی مجموعۃ رسائل الامام الغزالی ، الغزالی ، ص : 288 ، المکتبۃ التوفیقیۃ ، مصر
[2] ایضا، ص288
[3] ایضا،ص288
[4] مشکاۃ الانوار و مصفاۃ الاسرار فی مجموعۃ رسائل الامام الغزالی ، الغزالی ، ص :9 28 ، المکتبۃ التوفیقیۃ ، مصر
[5] ایضا ،ص : 289
[6] The Reconstruction of religious thought in Islam , Iqbal , page : 5 , DoDo press
[7] مشکاۃ الانوار و مصفاۃ الاسرار فی مجموعۃ رسائل الامام الغزالی ، الغزالی ، ص : 290 ، المکتبۃ التوفیقیۃ ، مصر
[8] مشکاۃ الانوار و مصفاۃ الاسرار فی مجموعۃ رسائل الامام الغزالی ، الغزالی ، ص :9 28 ، المکتبۃ التوفیقیۃ ، مصر
[9] ایضا ، ص: 289
[10] میزان العمل ، غزالی ، ص : 242 ، دارالمعارف ، مصر
کمنت کیجے