Home » سماجی میکانزم ( قسط نمبر 2)
تہذیبی مطالعات فلسفہ

سماجی میکانزم ( قسط نمبر 2)

ثقلین سرفراز

فرد کا وجودی و نفسیاتی میکانزم اُسے سماج سے تنہا نہیں ہونے دیتا، بلکہ سماج سے جوڑے رکھتا ہے۔ ہر فرد کا وجود مخصوص ساخت، منفرد مزاج، متنوع دلچسپیاں، اور خاص رجحانات لیے ہوتا ہے جن کی تکمیل سماج میں ہی ممکن ہوتی ہے۔ اگر وہ سماج سے ماورا ہونے کی کوشش کرے تو بہت جلد اُس کو پیچیدہ نفسیاتی مساٸل گھیر لیتے ہیں۔ گہرے تفکر کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر فرد سماج اور سماجی عمل سے نہ گزرے تو اُس کی نشوونما اور مخصوص صلاحیتیں سرے سے ماند پڑ جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر غوروفکر کرنے کے لیے اُس کے پاس معروض تو ہو گا لیکن اس کے تفکرِ معروض کا کس کو پتا چلے گا؟ چونکہ وہ سماج کا حصہ تو ہو گا نہیں، جب سماج میں شامل نہیں ہو گا تو اُس کی سماجی زبان بھی نہیں ہو گی لہذا وہ کس زبان میں اور کس جگہ اپنے تفکر و تجربات کو محفوظ کرے گا، یقیناً اس بات کا جواب نفی میں ہے۔ اسی بابت اگر ہم افریقہ کے جنگلوں میں بسنے والے لوگوں پر غور کریں جو کہ کسی حد تک جنگلی سماج بھی رکھتے ہیں، اُن کے وجود اور معاملاتِ زندگی کو مشاہدہ کرنے سے سب عیاں ہو جاتا ہے کہ سماج اور سماجی عمل کے بغیر فرد کس قدر کھوکھلا تصور ہوتا ہے۔

تعقل پسندی اور فرد کی حقیقی آزادی دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ مثال کے طور پر جب ہم یہ کہیں کہ فلاں سماج میں مہابیانیاٸی آٸیڈیالوجی راٸج ہے اور فرد آزاد ہے، یہ بیانیہ اپنی منطقی بُنتر میں کسی لطیفے سے کم نہیں ہو گا چونکہ جہاں مہابیانیاٸی آٸیڈیالوجی راٸج ہو گی وہاں آزادی کا تصور کرنا بھی محال ہے آپ اسے کسی بھی منطقی بنیاد پر آزاد نہیں کہہ سکتے۔ اگر اسی بات کو ہم اس طرح کہیں کہ فلاں سماج ماوراٸی آٸیڈیالوجی کی عملی صورت ہے اور وہاں تعقل پسندی بھی فروغ پا رہی ہے تو یہ متضاد بیانیہ بھی کسی وقعت کا حامل نہیں ہو گا۔ اگر ہم یہ کہیں کہ فلاں سماج میں فرد آزاد ہے تو ہمیں اس سوال کا فوراً سامنا کرنا ہو گا کہ کیا وہاں فرد آزادی سے اپنی مرضی سے بول سکتا ہے، یا اپنی مرضی کا لکھ سکتا ہے؟ اگر اس سوال کا جواب ہاں میں ہوا تو یقیناً ہم اپنے بیانیے میں کامیاب قرار پاٸیں گے۔ اسی بات کو اس طرح بھی نمایاں کیا جا سکتا ہے کہ تعقل پسندی فلاں سماج کی شناخت کا بنیادی حوالہ ہے تو یقیناً اس بات کے اثبات میں کہا جا سکتا ہے کہ فرد وہاں آزاد ہو گا تو اسی بنیاد پر یہ کہنا بھی صاٸب ہو گا کہ تعقل پسند معاشرے اپنی کُلیت میں فرد کی حقیقی آزادی سے عبارت ہوتے ہیں۔

ترقی پذیر سماج میں عموماً یہ بیانیہ سننے کو ملتا ہے کہ سماج دراصل فرد کی آزادی کو سماج کے تابع لاتا ہے جس سے شخصی آزادی ختم ہو جاتی ہے۔ یہ بات ایک پہلو سے درست ہے، چونکہ انسان جس سماج میں رہتا ہے اسی سماج کے اندر رہتے ہوئے زندگی گزارتا ہے۔ فرد کی آزادی اُنہی سماج میں ختم ہو کر رہ جاتی ہے جہاں ماوراٸی آٸیڈیالوجی اور بنیاد پرستی کا راج ہو۔ جو معاشرے معاصر تقاضوں سے ہم آہنگ ہوں یعنی التوا پر یقین رکھتے ہوں وہاں شخصی آزادی سلب نہیں ہوتی۔ میرا ایک بار پھر کہنا ہو گا کہ فرد کی حقیقی آزادی اس کی سماجی کلیت میں مضمر ہوتی ہے۔ سماجی کلیت کیا ہے؟ جب کسی شے کی موجودگی پورے سماج میں نظر آٸے تو وہ شے ایک طرح سے کُلیت کی نماٸندگی کرتی ہے یا اُس کے داٸرہ کار میں آ جاتی ہے چونکہ اُس شے کی موجودگی سماج کے کُل میں نظر آتی ہے یا اس سے عیاں ہوتی ہے، اپنی اس بات کے اثبات میں چند ایک مثالیں رقم کرتا ہوں۔
مثال کے طور پر جب ہم کسی ادارے کا تجربہ کرتے ہیں تو ہم اُس کے بارے میں ایک مجموعی تاثر رکھتے ہیں۔ اگر وہاں جمود کی فضا ہو گی تو ہم کہیں گے یہ ادارہ جمودی فضا سے اٹا ہوا ہے اگر وہاں آزادی کا خوشگوار احساس موجود ہو گا تو یقیناً یہی کہیں گے یہاں آزادی کا ماحول میسر ہے تو یہ ہماری راٸے معروضی نہیں بلکہ موضوعی ہو گی اور موضوعی یعنی کُلی ہو گی۔

ایک اور مثال سماجی کُلیت پر ملاحظہ کریں، جب ہم کسی ایسے سماج میں جاتے ہیں جہاں روشن خیالی کا دور دورہ ہو تو ہمارا اُس سماج کے بارے میں کیا تاثر بنے گا یا راٸے ہو گی؟ یعنی ہم یہی کہیں گے نا کہ فلاں سماج روشن خیالی سے عبارت ہے، وہاں تعقل پسندی کو اہمیت دی جاتی ہے، اسی کی بات کی جاتی ہے اور اسی کو فروغ حاصل ہے۔ یعنی لوگ سُنی سناٸی باتوں پر ایمان نہیں لاتے بلکہ لوگ خود سُنتے، دیکھتے ہیں، مشاہدہ کرتے ہیں اور اپنے تجربے سے اشیا کو گزار کر تعقلی بنیاد پر ہی کسی درست نتیجے پر پہنچتے ہیں۔ایک مثال یوں بھی دی جا سکتی ہے، کہ جب کوٸی فرد کسی سماج میں جاتا ہے تو وہاں جو آٸیڈیالوجی راٸج ہوتی ہے اُسی کی مجموعی راٸے بھی یقیناً اُسی کے مطابق ہو گی۔ یعنی ہم کہہ سکتے ہیں وہ سماج، ادارے، ماحول اور خطے کو جیسا اپنے تجربے میں پاٸے گا ویسی ہی اُس کے بارے میں اُس کی راٸے بھی ہو گی۔

ہر فرد فکری سطح پر آزاد ہوتا ہے لیکن وہی فکر جب سامنے لاٸے گا تو پھر اُس کا وجود سماج سے الگ نہیں رہے گا چونکہ وہ اپنی فکر سماج کے سامنے رکھ رہا ہوتا ہے تو وہی فرد آزاد تصور ہو گا جو اپنی سماجی فعلیت میں آزاد ہو گا اور عمل یا فعلیت سماج سے ماورا نہیں ہوتی۔ حقیقی معنوں میں اُنہی معاشروں کے افراد آزاد تصور کیے جاتے ہیں جو اپنی سماجی فعلیت میں آزاد ہوتے ہیں۔ اگر ہم آزادی کے مارکسی تصور کو ملحوظِ خاطر رکھیں تو سماجی فعلیت بھی پیداواری رشتوں سے جڑی ہوتی ہے معاشی آزادی کے بغیر آزادی کی معنویت کھوکھلی ہو کر رہ جاتی ہے۔ البتہ مارکسی تناظر سے ہٹ کر دیکھا جاٸے تو ہر سماج میں آزادی کا تصور مختلف ہے اور خاص کر لبرل معاشروں میں آزادی کا مفہوم وسیع معنوں میں مستعمل ہے، چونکہ لبرل معاشرے اپنے اقدار و اصول لچکدار بنیادوں پر وضع کرتے ہیں، وہاں افراد بنیادی طور پر اپنی فعلیت میں آزاد ہوتے ہیں۔
لبرل ازم اپنی بُنتر میں لچکدار اور وسیع نظام ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ لبرل ازم بھی معاشی حوالے سے سرمایہ دارانہ نظام پر یقین رکھتا ہے لیکن یہاں اس کی نظری و عملی دونوں سطح مراد ہیں، مُلک برطانیہ کو اس حوالہ سے بطورِ مثال کے پیش کیا جا سکتا ہے۔ سماجی میکانزم بنیادی طور پر افراد کے معاملات زندگی کی بابت میل جول کے نتیجے میں تشکیل پاتا ہے۔ جب کہ سماج کا ارتقا انسان کے تفکر و عمل اور مسلسل انسانی محنت کا نتیجہ ہوتا ہے۔

عقل کا جوہر خود اُسی کی اپنی منطقی حرکت ہے، عقل ریفلیکٹ کرتی ہے اور کنکریٹ یعنی خارجی دنیا کو اپنے اندر جذب کرتی ہے، دوسری سطح پر عقل کا جوہر فرد کی اپنی عملی فعلیت بھی ہے، چونکہ فرد کی عملی فعلیت بھی عقل کی منطقی حرکت سے راہنماٸی لیتی ہے۔یعنی انسان جو عمل کرتا ہے یا جسمانی محنت کرتا ہے وہ بذریعہ عقل راہنماٸی پاتا ہے اور عقل اپنا معروض خود تخلیق کرتی ہے۔ انسانی عقل ظاہر ہے سوچتی ہے، غور و فکر کرتی ہے اور فرد اپنی فکر کا اظہار زبان سے کرتا ہے اور زبان اپنی اصل میں سماج سے وجود پاتی ہے۔ سماجی تعامل، زبان کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ باختن زبان کے سماجی تفاعل کا قاٸل تھا اور زبان کی مکالمیتی خصوصیت کو خلقی کہتا ہے۔ یہاں باختن کی اس بات کی بنیاد پر سماجی میکانزم کو استحکام دینے والے پہلو کی وضاحت کروں گا۔
سماجی میکانزم میں زبان سب سے بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ زبان مفرد نہیں ہوتی بلکہ سماجی اور تکثیری ہوتی ہے۔ زبان اپنے میکانزم میں یعنی لانگ میں سماجی تفاعل کا پورا نظام سموٸے ہوتی ہے۔ زبان کا کردار ہی سگنی فاٸر کو شناخت دیتا ہے۔ اگر زبان نہ ہو تو سگنی فاٸڈ کا اظہار ممکن ہی نہیں ہے۔ لہذا زبان سماج میں ہر شے اور ہر پہلو کی شناخت کا حوالہ بنتی ہے۔ اس بات کی وضاحت میں ایک مثال رقم کرتا ہوں۔
مثال کے طور پر سماجی سطح پر جب ہمیں کسی شے کی ضرورت ہوتی ہے تو زبان ہی اس میں بطورِ معاون کا کردار ادا کرتی ہے۔ سماجی مکالموں میں زبان مستحکم ہونے کے ساتھ فروغ بھی پاتی ہے اس کے ساتھ یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ منڈی میں زبان کے کلچر کا عمل دخل وسیع سطح پر ہوتا ہے، چونکہ منڈی سماج ہی کا جُزو ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ اسی حوالہ سے جغرافیاٸی عصبیت بھی انسان کے لاشعور کا حصہ بن جاتی ہے اور یہی شے کلچرل حوالے سے سماجی میکانزم میں ضم ہو جاتی ہے۔حقیقی معنوں میں داخلی سطح پر ہی سماجی میکانزم میں بدلاٶ واقع ہوتا ہے، خارجی اثرات محض وقتی تغیر کا سبب بنتے ہیں۔ چونکہ سماجی میکانزم کی بنیادیں داخلی سطح پر کمزور ہوتی ہیں جب بھی ہوں، خارجی عوامل محض وقتی انتشار کا سبب بنتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ثقلین سرفراز صاحب مابعد جدید نقاد ہیں اور اسلامیہ یونیورسٹی بھاولپور میں ڈیپارٹمنٹ آف اردو میں تدریس کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں