فدا
بیسویں صدی کا انگریز فلسفی برٹرینڈرسل جس کے افکار گرچہ سرمایہ داری نظام کی طرف خمیدہ ہے، مگر بعض معاملات میں سوشلزم کی طرف مائل بھی نظر آتے ہیں۔ اُنہوں نے اپنی تحریروں میں ”انسانی ضروریات اور خواہشات“ کو ”آزادی“ سے خلط ملط کرکے پیش کیا ہے، جن کے درمیان گہری خلیج حائل ہے۔ وہ کہتا ہے کہ انتہائی تحریدی مفہوم میں آزادی کا مطلب ”ضرورتوں اور خواہشوں“ کی تکمیل میں بیرونی رُکاوٹوں کی عدم موجودگی ہے۔ اس تجریدی مفہوم کے حوالے سے قوت برداشت میں اضافہ، یا پھر ضروریات اور خواہشات میں کمی کرکے آزادی میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔
اِس تلخیص کے لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں، کہ ایسے جرثومے جن کی پوری زندگی شایدچند نانو سیکنڈ(Nanosecond) ”ایک سیکنڈ کا اربواں حصہ“ کے برابر ہوں، یا ایسے کیڑے جن کی عمر شاید چند دِن کی ہوں، مکمل آزادی سے ہمکنار ہوتے ہیں۔ کیونکہ موسمی حالات اُس کی ضروریات اور خواہشات کو یوں بدل دیتی ہے، کہ اُس کے پاس محال کے حصول کی ضرورت اور خواہش کے لیے کوئی لمحہ باقی نہیں رہتا۔ وہ مزید کہتا ہے: ”اِنسان بھی اسی قسم کی آزادی تک رسائی حاصل کرسکتا ہے۔ مگر حریصانہ طبیعت اور متجسس ذہن کے ہوتے ہوئے ایسا کرنے سے وہ عاری ہے۔ مثلاً: اگر ہم ایک شخص کو افریقہ کی جنگلوں سے اُٹھا کر نیویارک جیسے صنعتی اور ترقی یافتہ شہر میں لے آئیں، تو اُس کی مزید نئی ضروریات اور خواہشات اُسے آزادی سے کوسوں دور کرنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔ کیونکہ افریقہ کی جنگلوں میں وہ آسائشات موجود ہی نہیں، جن کی ضرورت یا خواہش اسے محسوس ہو۔ اب وہی شخص نیویارک میں سب سے پہلے اچھی خوراک و پوشاک، رہائش کے لئے خوبصورت بنگلہ، جنسی تسکین کے لئے خوبصورت بیوی، مفت علاج، پینے کا صاف پانی اور سیروتفریح کے لئے ایک عدد موٹرکار کی ضرورت محسوس کرے گا۔“
میری نظر میں رسل کی تحاریر: ”انسانی ضروریات“ کی حد تک تو درست ہے، جبکہ ”خواہشات“ اضافی ہے۔ کیونکہ خواہشات پر قابو پایا تو جاسکتا ہے، مگر بنیادی ضروریات کی عدم دستیابی میں زندگی گذارنا محال ہے۔
یوں تو ضرورتِ انسانی کی بنیادی اشیا مختلف خطوں میں معمولی فرق کے ساتھ ایک جیسی ہوتی ہیں۔ لیکن کھانا، لباس، صحت، تعلیم، صاف پانی، رہائش، جنس اور ولدیت کو ہم عام انسانوں کے لئے مشترکہ عالمگیر ضروریاتِ زندگی قرار دے سکتے ہیں۔ جن کی فکر سے مکمل آزادی مرد و زن کا بنیادی حق ہے۔ لیکن میری نظر میں سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے ان کی دسترسی کسی دیوانے کے سہانے خواب سے زیادہ اہمیت کا حامل نہیں ہے۔ بنیادی انسانی ضروریات کی درج بالا فہرست میں سے کسی ایک بھی عنصر کی عدم دسترسی آزادی کے مفہوم کو مفقود کرنے کے لئے کافی ہے۔
آزادی کی تاریخ میں انسانی ہاتھوں کی آزادی سرفہرست ہے۔ اِس لئے آج ہم دعویٰ کرسکتے ہیں، کہ انسانی ہاتھوں کی مکمل آزادی ہی دراصل انسانی تفکر اور شعور کی ارتقا کا سبب بنی تھیں۔
مرورزمانہ کے سنگ جاگیردارانہ اور بعداً آفاقی سرمایہ دارانہ نظام میں جوں جوں انسان مہذب ہوتا گیا، توں توں عام لوگوں، بالخصوص طبقہ زیریں مزارع و مزدور کی آزادیاں سلب ہوتی گئیں اور زرپرست، سہل انگار اور طفیلی اشرافیہ طبقہ جو اِس بدصورت نظام کا آلہ کار ہیں، حقیقی آزادی کی راہ میں حائل سب سے بڑی رُکاوٹ ثابت ہوتی گئیں۔ اِس دشتِ وحشت میں جتنا تہذیب کا قافلہ آگے بڑھتا گیا اُتنا ہی انسانی معاشروں میں آزادی کا مسئلہ شدیدتر ہوتا گیا۔
آفاقی سماج سرمایہ دارانہ نظام میں ریاستیں بے اختیار ہوتی ہیں اور کوئی بے اختیار ریاست آزادی میں اضافہ تو درکنار، البتہ اسے پستی میں دھکیلتا ضرور ہے۔ ان کرتے دھرتوں کی روا رکھے کرتوتوں کی وجہ سے حالات جب دگرگوں ہونے لگتا ہے، تب آخری حربے کے طور پر اپنے آقاؤں کی خوشنودی کے لئے سراُٹھائے بھوکے سرکش محنت کشوں کی سرکوبی کے لئے اپنے ہی بُنے ہوئے پیچیدہ قانونی جال کا سہارا لے کر ”آزادی“ کے دورازے کو مسدود کرنے کی کوششوں میں جُت جاتے ہیں۔
تاریخ گواہ ہے، کہ اس نوعیت کے انتہائی اقدام کی لپیٹ میں عورتیں مروجہ پدرسری نظام کی بدولت مردوں کی نسبت ہمیشہ زیادہ آئی ہیں۔ مارکسی فلسفہ ”مقدار کی معیار میں تبدیلی“ کے اصول کے مطابق ظلم و استحصال کی یہ تدریجات معمولی نوعیتوں کی وہ مقادیر ہیں جو طبقہ زیریں کے اذہان میں اکٹھی ہو رہی ہیں اور بالآخر جس کا ایک خوبصورت معیار(سوشلسٹ انقلاب) میں نمایاں ہونا ناگزیر ہے، جس کی طغیانی میں یہ نظام بے ارزش تنکے کی طرح بہہ جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فدا صاحب کوئٹہ کے رہائشی ہیں ۔ فلسفہ بالخصوص مارکسی فلسفہ میں مہارت اور دلچسپی رکھتے ہیں ۔
کمنت کیجے