ڈاکٹر سہیل زبیری
بشکریہ ” ہم سب”
جب کائنات کا آغاز ہوا، اس وقت نہ جگہ تھی اور نہ وقت۔ زمان و مکاں سے مبرا۔ یہ تصور کرنا محال ہے کہ اتنی بڑی کائنات جو ہم اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں، جس میں کھربوں کہکشائیں ہیں اور ہر کہکشاں میں اربوں ستارے ہیں، وہ ایک نقطہ پر مرکوز تھی۔ اور پھر کائنات کا آغاز ایک بگ بینگ سے ہوا۔ نام کے برعکس، بگ بینگ سے یہ مطلب نہیں ہے کہ کائنات ایک بڑی آواز کے ساتھ دھماکے سے شروع ہوئی تھی۔ اس اصطلاح سے مراد یہ ہے کہ کائنات انتہائی تیزی سے پھیلنے لگی اور اب تک پھیل رہی ہے۔
کائنات کیسے پیدا ہوئی؟
کیوں پیدا ہوئی؟
اس کے آغاز کے پیچھے کیا محرکات تھے؟
یہ ابھی تک ایک معما ہے۔
کائنات کا پہلا سیکنڈ کائنات کی زندگی میں سب سے اہم ہے۔ ان ابتدائی لمحات میں جو کچھ ہوا اس نے بنیادی طور پر اس بات کا تعین کیا کہ یہ کس قسم کی کائنات ہوگی اور فطرت کے وہ کون سے قوانین ہوں گے جن کے تحت یہ کائنات اور اس میں موجود تمام مادہ اور توانائی اپنا سفر جاری رکھیں گے۔ یہاں ہم سب سے پہلے موجودہ نظریات کی بنیاد پر اس اہم سیکنڈ میں کائنات کے ارتقا کو پیش کرتے ہیں۔
کائنات کے سب سے ابتدائی لمحات بگ بینگ کے وقت سے لے کر اس وقت تک پھیلے ہوئے تھے، جو ایک سیکنڈ کے کھربویں حصے کے کھربویں حصے کے اربویں حصے کے برابر ہے۔ یہ ایک ناقابل یقین حد تک مختصر وقت ہے۔ یہ وہ دور ہے جب توانائی اور اس سے وابستہ اتار چڑھاؤ یعنی fluctuations، کا غلبہ تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ ہم کائنات کے ان بالکل ابتدائی لمحات کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ اس دور میں جو کچھ ہوا اسے اس وقت تک پوری طرح سمجھا نہیں جا سکتا جب تک کہ دو بڑے نظریات، کوانٹم میکانکس اور نظریہ اضافیت، (جو ان مضامین کی سیریز کا موضوع رہے ہیں ) کو ایک متحد نظریہ میں یکجا نہیں کیا جاتا۔ اس دور کو پلانک دور کہا جاتا ہے، جسے جدید کوانٹم میکینکس کے بانی میکس پلانک کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔
پلانک دور کے اختتام پر کائنات ایک الیکٹران کے سائز سے کھربوں گنا چھوٹی تھی۔ یاد رہے کہ الیکٹرون کا سائز ایک ملی میٹر کے کھربویں حصے کے برابر ہوتا ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب فطرت کی تمام قوتیں، کشش ثقل، برقی اور مقناطیسی قوتیں، نیوکلیائی قوت جو نیوکلیس کو آپس میں جوڑتی ہے، اور وہ کمزور قوت جو نیوکلیس سے ذرات کے اخراج کی اجازت دیتی ہے، یہ سب یکجا تھیں۔ یہ سب ایک ہی قوت کا پرتو تھیں۔
کائنات کی پیدائش سے وابستہ سب سے اہم یہ واقعہ وقوع پذیر ہوا کہ پلانک دور کے اختتام پر ایک انتہائی مختصر عرصے میں کائنات میں ایک ناقابل یقین حد تک توسیع ہوئی۔ یہ وہ وقت تھا جب کائنات صرف توانائی پر مشتمل تھی اور کسی قسم کے کوئی ذرات موجود نہیں تھے۔ اس وقت توانائی کی کثافت بہت زیادہ تھی۔ اس وقت درجہ حرارت اور دباؤ ناقابل یقین حد تک زیادہ تھا، بالکل اس طرح جیسے ایک پریشر کوکر میں بھاپ۔ اس دباؤ کے نتیجے میں کائنات بہت قلیل لمحے کے دوران انتہائی تیزی سے پھیلی۔ اس دور میں، جسے inflation کا دور کہا جاتا ہے، کائنات کے حجم میں 10 ^ 78 (یعنی ایک کے بعد 78 ) گنا اضافہ ہوا۔
اس ابتدائی دور میں، کائنات بے پناہ توانائی کے ساتھ انتہائی گرم تھی۔ یہ توانائی بڑے پیمانے پر ذرات اور ان کے مخالف ذرات جیسے الیکٹران اور پوزیٹرون کے جوڑے پیدا کر رہی تھی۔ پوزیٹرون ایک الیکٹران کا اینٹی پارٹیکل ہے۔ یہ ذرات تھوڑی دیر کے لیے موجود ہوتے ہیں اور پھر ایک دوسرے میں ضم ہو کر واپس توانائی میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ توانائی اور ذرات کا یہ تبادلہ ناقابل یقین حد تک بلند درجہ حرارت کے اس دور میں جاری رہا۔
یہ وہ دور ہے جب کچھ ایسا ہوا جس کے نتیجے میں مکمل طور پر الیکٹران جیسے ذرات پوزیٹرون جیسے مخالف ذرات پر حاوی ہو گئے، اس طرح الیکٹران اور پوزیٹرون کی تعداد میں یکسانیت ختم ہو گئی۔ اس نے اس کائنات کو وجود بخشا جو ہم آج دیکھتے ہیں۔ اگر، ہر ایک ذرہ کے لیے، متعلقہ اینٹی پارٹیکل موجود ہوتا، تو وہ ایک دوسرے میں ضم ہو کر توانائی میں تبدیل ہو رہے ہوتے، اور کسی ستارے، سیارے، انسان، درخت، سمندر کا وجود نہ ہوتا۔
ایک سیکنڈ کے اربویں حصے کے اختتام پر ، کائنات تقریباً ہزار ٹریلین ڈگری سینٹی گریڈ تک ٹھنڈی ہو چکی تھی اور اس دوران نظام شمسی سے بڑے سائز تک پھیل چکی تھی۔
فطرت کی تمام قوتیں ایک دوسرے سے جدا ہو گئیں۔ اب کشش ثقل کی نوعیت برقی اور مقناطیسی قوتوں سے بہت مختلف نظر آنے لگیں۔
جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، کائنات مزید ٹھنڈی ہوتی گئی۔ پہلے سیکنڈ کے اختتام تک، یہ اس حد تک ٹھنڈی ہو گئی تھی کہ چھوٹے ذرات، جیسے الیکٹران، پروٹون اور نیوٹران کی موجودگی ممکن ہو گئی۔ جیسے ہم آگے ذکر کریں گے، ایسے ذرات، فوٹون کی شکل میں توانائی کے ساتھ، مزید ارتقا کا سبب بنیں گے۔ جیسے جیسے کائنات تقریباً ایک ارب ڈگری تک ٹھنڈی ہوئی، یہ تقریباً دس نوری سالوں تک پھیل گئی۔
ظاہر ہے کہ صرف ایک سیکنڈ میں کئی نوری سالوں کی توسیع کا مطلب ہے کہ توسیع کی شرح روشنی کی رفتار سے کہیں زیادہ تھی۔
ابتدائی inflationکے دور کے بعد توسیع کی شرح کافی کم ہو گئی تھی۔ مثال کے طور پر ، کائنات اپنے وجود کے تقریباً تین سال بعد ہماری کہکشاں، ملکی وے کے سائز کے برابر تھی۔
جب کائنات ایک سیکنڈ پرانی تھی، تو یہ اتنی گرم تھی کہ پروٹون اور نیوٹرون پر مشتمل مستحکم نیوکلیس بننا ممکن نہیں تھا۔ اس وقت کائنات الیکٹران، پروٹون اور نیوٹرون جیسے ذرات پر مشتمل ایک سمندر کی مانند تھی۔
چند منٹوں کے بعد درجہ حرارت 1 بلین ڈگری تک گر گیا۔ اس درجہ حرارت پر ، پروٹان اور نیوٹرون مل کر ڈیوٹیریم کے مرکزے بنانے لگے۔ ڈیوٹیریم ہائیڈروجن کی ایک شکل ہے جس کا نیوکلیس ایک پروٹون اور ایک نیوٹران پر مشتمل ہے۔ ڈیوٹیریم نیوکلیس، ایک عمل کے ذریعے جسے نیوکلیو سنتھیسس کہتے ہیں، مل کر ہیلیم نیوکلیس بناتے ہیں، جس میں دو پروٹون اور دو نیوٹران ہوتے ہیں۔
پہلے تین منٹ کے بعد ، لاکھوں سالوں تک کوئی نیا عنصر نہیں بن سکا۔ کائنات صرف ہائیڈروجن اور ہیلیم کے مرکزوں اور توانائی پر مشتمل تھی۔ کائنات ابھی بھی اتنی گرم تھی کہ الیکٹران، پروٹون اور نیوٹرون ایک ساتھ مل کر ایٹم بنا نے کے قابل نہیں تھے۔
تقریباً 380,000 سال تک، الیکٹران، ہلکے عناصر کے مثبت چارج شدہ مرکزے، اور فوٹون کا کائنات پر غلبہ تھا۔ اس مدت کے اختتام پر ، درجہ حرارت 3000 ڈگری تھا۔ یہ تقریباً وہ لمحہ ہے جب الیکٹران، ہائیڈروجن کے مرکزوں کے ساتھ مل کر ہائیڈروجن ایٹم بنانے میں کامیاب ہوئے۔ روشنی (یا فوٹون) اب لمبی دوری کا سفر طے کر سکتی تھی۔ کائنات اب دھندلی نہیں رہی تھی۔ اب ایک ایٹمی دور کا آغاز ہو چکا تھا، جس میں ہائیڈروجن، پھر ہیلیم اور پھر مزید بھاری ایٹموں، مثلاً آکسیجن، کاربن، لوہے، اور دوسرے عناصر، کے بننے کی راہ ہموار ہو گئی۔
یہ وہ وقت تھا جب کائنات میں ہاہیڈروجن اور ہیلیم کے ایٹم ہر طرف بکھرے ہوئے تھے اور مختلف اطراف میں حرکت کر رہے تھے۔ کشش ثقل کی قوت نے ہائیڈروجن اور ہیلیم کے بادلوں کو اکٹھا کر کے ستارہ بنانے میں کافی وقت لگا۔ پہلے ستارے بگ بینگ کے تقریباً 180 ملین سال بعد بنے۔ ستاروں کے کور میں جوہری فیوژن کا عمل شروع ہوا، جس نے ستاروں کو روشنی اور حرارت دی۔ پہلی کہکشاؤں کے پیدا ہونے میں مزید 200 ملین سال لگے۔ اربوں سالوں میں، ستارے، کہکشائیں، اور کہکشاؤں کے جھرمٹ دیگر کائناتی اجسام جیسے پلسر، نیوٹران ستارے اور بلیک ہولز میں تبدیل ہوتے رہے۔
کہکشاؤں کی تشکیل کا عمل اب بھی جاری ہے۔ کہکشائیں کشش ثقل کے تحت آپس میں ضم ہو سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر ، ہماری کہکشاں، ملکی وے، قریب ترین کہکشاں، اینڈرومیڈا کہکشاں، سے تقریباً 2.5 ملین نوری سال کے فاصلے پر ہے۔ اتنی بڑی دوری کے باوجود، دونوں کہکشائیں ایک دوسرے کو کشش ثقل کی بدولت کھینچ رہی ہیں اور وہ تقریباً ایک سو کلو میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے ایک دوسرے کے قریب آ رہی ہیں۔ اس شرح سے، اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ دونوں کہکشائیں پانچ بلین سالوں بعد ٹکرا جائیں گی۔
یہ کافی حیران کن معلوم ہوتا ہے۔ کشش ثقل اتنی مضبوط کیسے ہو سکتی ہے کہ اتنی دور کسی کہکشاں کو اپنی طرف متوجہ کر سکے؟ لیکن کہکشاؤں کی مجموعی کمیت بہت زیادہ ہو سکتی ہے۔ ملکی وے تین سو بلین ستاروں پر مشتمل ہے اور اینڈرومیڈا کہکشاں میں تقریباً ایک ٹریلین ستارے ہیں۔ ان دونوں کے درمیان فاصلہ ملکی وے کے سائز سے صرف 25 گنا زیادہ ہے۔ اس طور دونوں کہکشاؤں کے درمیان کشش ثقل کی موجودگی ممکن ہو جاتی ہے۔
ہمارا سورج بگ بینگ کے تقریباً 9 ارب سال بعد پیدا ہوا۔ زمین سمیت سیاروں کا نظام بھی اسی وقت وجود میں آیا۔ چونکہ کائنات اب 13.8 بلین سال پرانی سمجھی جاتی ہے، اس سے ہمارے سورج کی عمر تقریباً 4.8 بلین سال اخذ کی جا سکتی ہے۔
زمین 4.6 بلین سال پہلے پیدا ہوئی تھی۔ پہلے 700 ملین سالوں تک، زمین کسی بھی قسم کی زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے بہت گرم تھی۔ درجہ حرارت آہستہ آہستہ ٹھنڈا ہوا اور زمین تقریباً 4 ارب سال پہلے زندگی کی پیدائش کے قابل ہو سکی۔ زمین پر موجود زندگی کے فوسل شواہد کے ساتھ قدیم ترین چٹانیں تقریباً 3.5 بلین سال پرانی ہیں، جو کائنات کی تخلیق کے 10 بلین سال بعد کی ہیں۔
ہمارے نقطہ نظر سے زمین پر زندگی کا آغاز، کائنات کی تاریخ کا ایک عہد ساز واقعہ تھا۔ ذرا تصور کریں کہ، ان تمام اربوں سالوں میں، کائنات کا مشاہدہ کرنے یا اس سے استفادہ کرنے کے لیے کوئی زمینی مخلوق موجود نہیں تھی۔
یہ ابھی تک ایک سربستہ راز ہے کہ ہمارے سیارے، زمین پر زندگی کی ابتدا کیسے ہوئی۔ یہ ایک معمہ ہے کہ وہ بکھرے ہوئے ایٹم کسی طور اس طرح اکٹھے ہو سکے کہ ان عناصر سے زندگی پیدا ہو سکی۔
زندگی کے تمام بنیادی تعمیراتی بلاکس، جیسے ڈی این اے، آر این اے، امینو ایسڈ، اور شکر، زندگی کی تخلیق کے لیے کیسے اکٹھے ہوئے؟
یہ ابھی تک ایک سائنسی راز ہے کہ زندگی ان عناصر سے کیسے برآمد ہوئی جن میں زندگی کے کوئی آثار نہیں تھے۔
زمین پر زندگی کے آغاز کے بارے میں بہت سے نظریات ہیں لیکن کوئی اتفاق رائے نہیں ہے۔ ایک قابل فہم نظریہ یہ ہے کہ زندگی کا آغاز ایک ’سوپ‘ سے ہوا۔ زمین کی پیدائش کے بعد ایسا ممکن ہوا کہ ایسے کیمیکلز سے بھرے سمندر بنے جن میں زندگی پیدا کرنے کے عناصر موجود تھے اور جو زندگی پیدا کرنے کے لیے اہم تھے۔ انہوں نے اتفاقیہ طور پر کسی وقت، زندگی کی سادہ ترین شکل، ایک زندہ سیل (cell) کو پیدا کیا۔ یہ ایک مفروضہ ہے، زندگی کے آغاز کا صحیح راستہ اب تک سائنسدانوں سے پوشیدہ ہے۔
اور پھر اس سیل (cell) سے انسان کا ارتقا کیسے ہوا؟ اس لمبے سفر کی پوری داستان کا ابھی علم نہیں۔ لیکن امید کی جا سکتی ہے کہ آئندہ سالوں میں ہم اس سوال کا جواب جان پائیں گے۔
کائنات کے بگ بینگ ماڈل کے ساتھ بہت سے مزید سوالات ذہن میں آتے ہیں۔
سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ بگ بینگ سے پہلے کیا تھا؟ کچھ کاسمولوجسٹ یہ استدلال کرتے ہیں کہ یہ ایک بے معنی سوال ہے کیونکہ بگ بینگ کے نتیجے میں جگہ اور وقت دونوں وجود میں آئے۔ اس لیے بگ بینگ سے پہلے کوئی وقت نہیں تھا۔ لیکن پھر یہ کہنے کا کیا مطلب ہے کہ کائنات 13.8 بلین سال پہلے پیدا ہوئی تھی؟ 14 ارب سال پہلے، یعنی بگ بینگ سے 200 ملین سال، پہلے کیا ہو رہا تھا؟ اس وقت، یہ سائنس کے سوال سے زیادہ مابعد الطبیعاتی سوال معلوم ہوتا ہے۔
پھر سوال یہ ہے کہ بگ بینگ کو کس چیز نے متحرک کیا؟ ایک بار پھر، موجودہ نظریات اس بنیادی سوال کا جواب دینے سے قاصر ہیں۔
ایک اور سوال یہ ہے کہ اگر کائنات پھیل رہی ہے تو یہ کس چیز میں پھیل رہی ہے؟ جب ایک غبارہ پھیلتا ہے تو اس کی دو جہتی سطح تیسری جہت میں پھیلتی ہے۔ ہماری کائنات تو تین جہتی ہے۔ کیا تین جہتی جگہ ایک ایسی جہت میں پھیل رہی ہے، جس کا ہم تصور نہیں کر سکتے؟ سائنسدان اس کا جواب دیتے ہیں کہ کائنات خالی جگہ میں نہیں پھیل رہی ہے، بلکہ پوری جگہ پھیل رہی ہے۔ یہ ایسی چیز ہے جس کو سمجھنا بیت دشوار لگتا ہے۔
پھر یہ کیسے ہے کہ 14 بلین سال پہلے پیدا ہونے والی کائنات کا قطر ایک کھرب نوری سال سے زیادہ ہے جب کہ طبیعیات کے معلوم قوانین کے مطابق کوئی بھی چیز روشنی کی رفتار سے زیادہ تیز نہیں چل سکتی؟ جواب یہ ہے کہ رفتار کی حد مادی اشیاء پر لاگو ہوتی ہے۔ یہ جگہ کی توسیع پر لاگو نہیں ہوتی۔
ایک سوال ذہن میں آتا ہے کہ کائنات میں تین جہتی جگہ اور ایک جہتی وقت کیوں ہے؟ یہ کب طے ہوا کہ ہماری کائنات چار جہتی ہونی چاہیے : تین جہتیں جگہ کے لیے اور ایک وقت کے لیے؟
کائنات کے سب سے بڑے رازوں میں سے ایک یہ ہے کہ کائنات کا تقریباً 95 فیصد حصہ ہماری نظروں سے اوجھل ہے۔ کائنات کا یہ بہت بڑا حصہ تاریک مادے اور تاریک توانائی پر مشتمل ہے۔ اس حیران کن نتیجے تک ہم کیسے پہنچے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر سہیل زبیری ٹیکساس اے اینڈ ایم یونیورسٹی میں کوانٹم سائنس کے Distinguished Professor ہیں اور اس ادارے میں کوانٹم آپٹکس کے شعبہ میں Munnerlyn-Heep Chair پر فائز ہیں۔
کمنت کیجے