ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر کئی کتابوں کی مصنفہ ہیں۔ مسلم تاریخ کے مختلف پہلوؤں پر ان کی کتابیں ایک مستند حوالہ ہیں۔ تاریخ کے ساتھ ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر صاحبہ نے علم سیرت کے بارے میں بھی لکھا ہے۔ ان کی کتاب “سیرت نگاری آغاز و ارتقاء” پر اس سے پہلے گفتگو ہو چکی۔ “سیرت نگاران مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ” ان کی علم سیرت پر دوسری کتاب ہے۔ جس میں ایک ہزار سال میں سیرت طیبہ پر ہونے والے کام کا ایک تعارف ہے جن میں نمائندہ سیرت نگاروں کے احوال اور ان کی تالیف پر گفتگو کی گئی ہے۔ ڈاکٹر نگار صاحبہ نے مقدمہ میں لکھا ہے کہ ہمارے ہاں تاریخ سیرت ، تدوین سیرت اور سیرت نگاروں کے حالات اور ان کے منہج و اسلوب پر اُردو میں مواد کم ہے۔ تو یہ کتاب اس کمی کو پورا کرنے کی ایک کوشش ہے۔ اس کتاب کو ڈاکٹر صاحبہ کے اپنے اشاعتی ادارے قرطاس نے شائع کیا ہے۔ مقدمہ میں ڈاکٹر صاحبہ نے واضح کر دیا ہے کہ انہوں نے علم سیرت کے بنیادی سوالات کہ سیرت اور مغازی کا معانی کیا ہیں ان کا ماخذ کیا ہے۔ حدیث اور سیرت کا کیا تعلق ہے اور یہ دونوں کیسے مختلف ہیں کو نہیں چھیڑا ۔ ان کے اوپر وافر مقدار میں مواد موجود ہے بلکہ خود ڈاکٹر صاحبہ کی پہلی کتاب سیرت نگاری: آغاز و ارتقا میں بھی ان باتوں کو زیر بحث لایا جا چکا ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ نے اس کتاب کو دس ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ہر باب میں ایک صدی اور اس کے نمائندہ سیرت نگار کا تذکرہ ہے۔ہر باب کی دو یا زائد فصلیں ہیں۔ فصل اول میں اس صدی کی اجمالی تاریخ اور اس میں سیرت نگاری کے حوالے سے کام کا تعارف ہے جبکہ فصل دوم یا سوم نمائندہ سیرت نگار اور ان کی تالیف کا ذکر ہے۔
ڈاکٹر نگار صاحبہ نے باب اول میں اس عام خیال کا ذکر کیا کہ مسلمانوں نے تاریخ نویسی کی طرف توجہ دوسری صدی ہجری میں کی۔ اس پر ڈاکٹر صاحبہ کا کہنا ہے کہ یہ بات درست نہیں بلکہ پہلی صدی کے وسط سے ہی تاریخ نویسی پر کام شروع ہو گیا تھا۔ جہاں تک سیرت مقدسہ کی بات ہے تو اس بارے میں ڈاکٹر صاحبہ نے بتایا کہ قرآن مجید کے فرمان جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی کو اسوہ حسنہ قرار دیا ہے۔ تو اس فرمان کے بعد سیرت مقدسہ کا مطالعہ مسلمانوں کی دینی ضرورت بھی بن جاتی ہے۔ پھر قرآن مجید میں تاریخی واقعات نے بھی مسلمانوں کی تاریخ کی طرف توجہ دلائی۔ یوں تاریخ و سیر کا مسلمانوں میں آغاز پہلی صدی ہجری میں ہی ہو چکا تھا۔ بلکہ کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اس بابت درس ہوا کرتے کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی خصوصیت تھی، جیسے کہ سیدنا عقیل بن ابی طالب رضی اللہ عنہ انساب کے عالم تھے اور مسجد نبوی میں انساب کے حوالے سے ان کا درس ہوتا تھا۔۔سیدنا طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ غزوہ احد کے بارے میں بہت تفصیل سے بتاتے تھے۔ سیدنا عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ غزوہ بدر میں ابو جہل کے قتل ہونے کا واقعہ بہت تفصیل سے بتاتے تھے۔ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا واقعہ افک کے بارے میں تفصیل سے بتاتی تھیں۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا باقاعدہ درس ہوتا تھا جس میں تفسیر قرآن کے ساتھ ایک دن درس سیرت ہوتا تھا۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اپنے بیٹوں کو خصوصی طور پر سیرت کا درس دیتے تھے۔ تابعین میں حضرت عروہ بن زبیر رحمہ اللہ کا درس بھی مسجد نبوی میں ہوتا تھا۔ ڈاکٹر صاحبہ نے بتایا ہے کہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے وقت مدینہ منورہ میں تقریباً تیس ہزار صحابہ کرام موجود تھے۔ یوں سیرت النبی کا آغاز مدینہ میں ہوئی اور انہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے شروع ہوا۔
ڈاکٹر صاحبہ نے بتایا کہ مدینہ منورہ میں کئی علمی و فکری مجالس کا معمول تھا۔ جس میں مجلس القلادہ بھی جس میں کئی صحابہ و تابعین شامل ہوتے تھے۔ ایک زمانے میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ بھی اس کے رکن تھے جب وہ شام چلے گئے تو وہ مدینہ سے آنے والوں سے اس مجلس کے احوال پوچھا کرتے تھے۔ بعد میں مروان کی دور امارت میں ایک ناخوشگوار واقعے کے بعد یہ مجلس بند ہو گئی۔
اس باب میں کئی شخصیات جو کہ فن سیر و مغازی کی تعلیم دیتی تھیں ان کا ذکر ہے۔ جن میں سے کچھ شخصیات جو کہ تابعین میں سے ہیں کا حواشی میں مختصر تعارف بھی کروایا گیا ہے۔ جن میں
سعید بن سعد بن عبادہ
سہل بن ابی خثمہ
سعید ابن مسیب
عبید اللہ ابن کعب
شامل ہیں۔ ان کے بارے میں یہ حواشی گو کہ مختصر ہیں مگر کافی اہم ہیں۔ جن سے ان کی شخصیت کا ایک تعارف اور ان کی دینی خدمات کے بارے میں شناسائی ہو جاتی ہے۔
اس کے بعد نمائندہ سیرت نگار کے طور پر پہلا تعارف سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے فرزند حضرت ابان بن عثمان رحمہ اللہ کا ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ نے مندرجہ سیرت نگاروں کو صدی بہ صدی کا نمائندہ سیرت نگار شمار کیا ہے
پہلی صدی ہجری
۱.ابان بن عثمان
۲.عروہ بن زبیر
دوسری صدی ہجری
۳. محمد بن اسحاق
تیسری صدی
۴. الواقدی
۵. محمد ابن سعد
چوتھی صدی
۶. محمد ابن جریر طبری
پانچویں صدی
۷. ابنِ عبدالبر
۸. ابنِ حزم
چھٹی صدی
۹. قاضی عیاض
ساتویں صدی
۱۰. ابو الربیع سلیمان بن موسیٰ الکلاعی
آٹھویں صدی
۱۱. ابنِ کثیر
نویں صدی
۱۲. ابنِ خلدون
دسویں صدی
۱۳. محمد بن یوسف الصالحی
۱۴. احمد بن ابو بکر القسطلانی
حضرت ابان رحمہ اللہ اولین سیرت نگار ہیں۔ آپ کی والدہ کا نام ام عمرو بنت جندب تھا۔ آپ عبدالملک بن مروان کے زمانے میں مدینہ منورہ کے عامل بھی رہے۔ یہ عہدہ آپ کو اتفاقاً ملا، کیونکہ پہلا گورنر یحییٰ بن حکم جو کہ عبدالملک کا چچا تھا بغیر اطلاع دیئے عبدالملک کے پاس وفد کی صورت میں شام گئے۔ عبدالملک نے ناراض ہو کر ابان رحمہ اللہ کو مدینہ منورہ کا عامل بنایا۔ آپ سات سال تک عامل رہے۔
ابان رحمہ اللہ کا شمار فقہاء مدینہ میں ہوتا تھا۔ آپ حضرت سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے فقہی و اجتہادی مسلک کے ترجمان تھے۔ اہل علم کے درمیان یہ بحث پائی جاتی ہے کہ اولین سیرت نگار کون ہے۔ اس بارے میں محمد بن اسحاق اور امام زہری کے نام بھی پائے جاتے ہیں لیکن زیادہ محقق بات یہ ہے کہ یہ شرف حضرت ابان رحمہ اللہ کو حاصل ہے۔ کچھ وجوہات کی بنا پر آپ کی تالیف منظر عام پر نہ آ سکی جس کی وجہ سے آپ کا ذکر تذکرہ نگاروں کی نظر سے اوجھل ہو گیا۔ ڈاکٹر نگار صاحبہ کی بھی یہی رائے ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ نے بتایا ہے کہ حضرت ابان کے ذکر کے حوالے سے بعد میں بھی مورخین نے مکمل تحقیق نہیں کی۔ حتی کہ شاہ معین الدین احمد ندوی نے عہد اموی کے علوم و فنون کا ذکر کیا مگر ابان کا تذکرہ نہیں کیا۔ اُردو دائرہ معارف اسلامیہ کے مقالہ نگار نے بھی کتاب المغازی کے مصنف کے حوالے سے غلط اندازہ لگایا کہ اس کے مصنف ابان بن عثمان بن یحیی ہیں حالانکہ دراصل اس کے مصنف ابان بن عثمان بن عفان ہیں۔ ابان بن عثمان بن یحیی کا مختصر ذکر بھی ڈاکٹر صاحبہ نے حاشیہ میں پیش کر دیا ہے۔
حضرت ابان کی یہ کتاب ۸۲ ہجری میں مکمل ہو چکی تھی۔ کیونکہ اس وقت ولی عہد سلیمان بن عبدالملک نے مدینہ آمد پر دس کاتبوں کے ذریعے اس کو نقل کروایا مگر اس میں انصار کے مناقب دیکھ کر سلیمان بددل ہوا کیونکہ انصار نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی حفاظت میں غفلت برتی تھی۔ سلیمان نے یہ عبدالملک کے سامنے بھی ذکر کی تو عبدالملک نے بھی کہا کہ ہم ایسی کتاب کو کیوں لائیں جس میں ہماری کوئی فضیلت نہیں۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ کتاب کافی ضخیم تھی جس کو نقل کرنے کے لیے دس کاتبوں کی مدد لی گئی ۔ دوسرا اس سے حضرت ابان رحمہ اللہ کی علمی دیانت داری کا بھی ثبوت ملتا ہے کہ انہوں نے انصار کے فضائل کو کسی رنجش کی وجہ سے نہیں چھپایا۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت ابان رحمہ اللہ کی یہ کاوش کسی حکومتی دباؤ سے آزاد تھی۔
دوسرے سیرت نگار حضرت عروہ بن زبیر رحمہ اللہ ہیں جو کہ حواری رسول حضرت سیدنا زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ کے بیٹے اور حضرت سیدہ اسما بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا آپ کی والدہ ہیں۔ حضرت عروہ نے جنگ جمل میں شرکت نہیں کی جس میں ان کے والد سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تھے۔ آپ اپنے بھائی سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے مگر جب سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ حجاج کی فوج کے ہاتھوں شہید ہوئے تو یہ عبدالملک بن مروان کے پاس شام چلے گئے ۔ عبدالملک کے ساتھ آپ کی دوستی بھی تھی اور اس کے ساتھ سسرالی رشتہ بھی تھی۔ عبدالملک کی پھوپھی آپ کے نکاح میں تھی۔ عبدالملک نے آپ کو امان عطاء کی جس کے بعد آپ مدینہ آ گئے۔ آپ نے سیاست سے کنارہ کش رہے کر حدیث ، فقہ اور علم المغازی میں کمال حاصل کیا۔ آپ فقہ و فتوی میں سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے خصوصی تلامذہ میں سے تھے۔ اس کے علاوہ آپ نے حضرت سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ ، حضرت سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ، حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ ، ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا، حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ ، حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ، حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ، حضرت سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ ، حضرت سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ ، ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور حضرت سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے اکتساب علم حاصل کیا۔ مسجد غمامہ کے قریب آپ کا مدرسہ کتاب عروہ کے نام سے تھا جہاں آپ لوگوں کو تعلیم دیتے تھے۔ آپ کا شمار مدینہ کے ممتاز فقہاء میں ہوتا ہے۔ آپ کا شمار بھی کئی لوگوں نے اول سیرت نگار میں سے کیا ہے۔
حضرت عروہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں واقعات کو بیان کرنے میں سند کی پابندی نہیں کی، لیکن جن واقعات کا تعلق غزوات سے نہیں وہاں آپ نے سند بیان کی جبکہ غزوات کے بارے انہوں نے واضح کر دیا ہے کہ یہ معلومات انہوں نے ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے حاصل کیں۔ آپ کی کتاب المغازی کو کئی تلامذہ نے آپ سے روایت کیا ہے جن میں ابولاسود اس کے خاص راوی ہیں۔ ہند کے عالم ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی نے ابولاسود کی روایت سے اس کتاب کو جمع کیا ہے۔ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ مکمل کتاب ہے مگر اس کا بیشتر حصہ محفوظ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کا اردو ترجمہ ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور نے شائع کیا ہے جو کہ ڈاکٹر اعظمی کے مرتب کردہ نسخے کا ہی ترجمہ ہے۔
اس کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ جہاں ہمیں یہ علم سیرت کی تدوین کے مراحل سے آگاہ کرتی ہے تو اس کے ساتھ ہی ہمیں اس صدی کی تاریخ کے بارے میں بھی ایک جھلک پیش کرتی ہے۔ مصنفہ کیونکہ خود ایک مورخہ بھی ہیں تو اس حوالے سے انہوں نے جامعیت سے ہر صدی کی اجمالی تاریخ کو بھی ذکر کیا ہے۔ دوسری صدی ہجری کے بارے میں انہوں نے بتایا ہے کہ وہ ہنگامہ خیز صدی کیونکہ ایک طرف اقتدار بنو امیہ سے بنو عباس کو منتقل ہوا تھا تو دارلخلافہ بھی شام سے عراق چلا گیا تھا۔ پھر اموی عہد کی عربیت اور سادگی کی جگہ اب ایران کے پر تعیش اور پر تکلف تمدن نے حاصل کر لی تھی۔ یہ فقط مقتدر خاندان کی تبدیلی نہیں تھی بلکہ اس نے ثقافتی ڈھانچے کو بھی تبدیل کیا۔ کیونکہ عجمیوں کا بنو عباس کو اقتدار دلانے میں ہاتھ تو عجمی تمدن بھی اس معاشرے میں نفوذ کر گیا ہے۔
دوسری طرف مسلم اندلس جو پہلے مرکزی خلافت کا حصہ تھا۔ اب خود مختار ہو گیا۔ وہاں پر اموی اقتدار قائم ہو گیا۔ جس کو ہشام بن عبدالملک کے پوتے عبدالرحمان نے قائم کیا۔ مسلم اندلس علم و فضل کی سرزمین بن گیا بعد میں یورپی نشاۃ ثانیہ نے بھی مسلم اندلس کے علم و فن سے بھرپور فائدہ اُٹھایا۔
دوسری صدی ہجری میں مدینہ میں سیرت نگاری کا کام جاری رہا۔ اس کے ساتھ ساتھ بصرہ ، کوفہ، شام اور یمن میں دوسری صدی کے سیرت نگاری کے سلسلے کو جاری رکھنے والے سیرت نگاروں کے بارے میں معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ اس فصل میں ڈاکٹر صاحبہ نے نمائندہ سیرت نگاروں کے علاوہ بھی ضمنی طور پر سیرت نگاروں کا ذکر کیا ہے۔ جن میں
مدنی سیرت نگاروں میں
۱.قاسم بن محمدؒ
۲. عاصم بن عمر بن قتادہؒ
۳. جعفر بن محمود انصاری مدنیؒ
۴. شرجیل بن سعدؒ
۵. یعقوب بن عتبہؒ
۶.عبداللہ بن ابی بکرؒ
۷.یزید بن رومانؒ
۸. ابو الاسودؒ
۹.داؤد بن الحسینؒ
۱۰.موسی بن عقبہؒ
بصری سیرت نگاروں میں
۱. ابوالمعتمر سلیمان بن طرخان تیمیؒ
کوفی سیرت نگاروں میں
۱. عامر بن شراحیل شعبیؒ
۲.عمرو بن عبداللہ السبیعیؒ
شامی سیرت نگاروں میں
۱. محمد ابن شہاب زہریؒ
یمنی سیرت نگاروں میں
۱. وہب بن منبہؒ
۲. معمر بن راشدؒ
ان سیرت نگاروں کے مختصر تذکرہ اور ان کی علمی زندگی کے علاوہ اس باب میں مصنفہ نے بصرہ ، کوفہ اور یمن کی تاریخ کے اوپر بھی کچھ مختصر مگر ٹھوس معلومات فراہم کی ہیں۔ جس سے ان علاقوں کی تاریخ کے بارے میں بھی آگاہی حاصل ہوتی ہے۔
چودہ نمائندہ سیرت نگاروں کے علاوہ بھی یہ سولہ سیرت نگار ہیں جن کے بارے میں تعارف اس کتاب کا حصہ ہے۔
دوسری صدی کے نمائندہ سیرت نگار کے طور محمد بن اسحاق اور ان کی کتاب المغازی کا تفصیلی ذکر ہے۔ ابنِ اسحاق فارسی النسل تھے۔ ان کے دادا یسار ابنِ خیار عین التمر کی جنگ میں گرفتار ہو کر مدینہ آئے۔ محمد بن اسحاق تیس سال مدینہ منورہ میں رہے جہاں انہوں نے قاسم بن محمد ، ابان بن عثمان، محمد بن علی بن حسین المعروف امام باقر ،ابو سلمہ بن عبدالرحمن بن عوف، عبدالرحمن بن ہرمر الاعرج، نافع مولی عبداللہ بن عمر، محمد بن مسلم بن شہاب زہری وغیرہ سے علم حاصل کیا اس کے علاوہ انہوں نے عاصم بن قتادہ ،عبداللہ بن ابی بکر سے بھی علم حاصل کیا۔ یزید بن رومان کے حلقہ درس میں بھی رہے۔ اسرائیلیات کے بارے میں معلومات وہب بن منبہ سے حاصل کیں۔
ڈاکٹر صاحبہ نے بتایا کہ محمد بن اسحاق پر قدری ہونے کا الزام بھی لگا مگر ان کا قدری فرقے سے دور کا واسطہ بھی نہیں تھا۔ ان کے بارے میں تشیع کا قول بھی ملتا ہے کہ یہ حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو حضرت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ پر ترجیح دیتے تھے۔ یہاں تشیع کا معانی رفض نہیں ہے اس لیے صحاح ستہ کے مصنفین نے ان کی روایت لی ہے۔ محمد بن اسحاق کو دو مستند بزرگوں کی مخالفت برداشت کرنی پڑی ایک امام مالک بن انس دوسرے ہشام بن عروہ۔ امام مالک کی بابت یہ بھی ملتا ہے کہ ان سے ابنِ اسحاق کی صلح ہو گئی تھی جب وہ عراق جانے لگے۔ آپ بغداد کے اولین باشندوں میں سے تھے۔ خلیفہ ابو جعفر منصور کے عہد میں بغداد کی بنیاد رکھی گئی تو آپ نے یہاں سکونت اختیار کی۔ ان کا انتقال بھی بغداد میں ہوا۔
ڈاکٹر صاحبہ نے ابنِ اسحاق کے بارے میں علماء کی آراء کو بھی نقل کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ سیرت و مغازی میں معتبر جبکہ روایت حدیث کے معاملے ان کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔
محمد بن اسحاق نے اپنی سیرت کو تین اجزاء میں تقسیم کیا ہے۔ اس سے پہلے اس کی مثال نہیں ملتی
المبتدا پہلا ہے۔ یہ ماقبل اسلام کی تاریخ ہے۔ اس میں ابتدائے آفرینش سے لیکر حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام تک ، پھر عہد جاہلیت کے یمن کی تاریخ ، عرب قبائل اور ان کی اصنام پرستی کی تاریخ اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریبی اجداد اور اہل مکہ رسوم و عقائد کو بیان کیا گیا ہے
دوسرا حصہ المبعث کے عنوان سے ہے۔ جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مکی زندگی ، بعثت ، ہجرت اور مدنی زندگی کے پہلے سال کی مہمات کا ذکر ہے۔ اس میں انہوں نے اسانید کا اہتمام کیا ہے۔ اس حصے میں سابقون الاولون کی فہرست ، مہاجرین حبشہ کی فہرست ، بیعت عقبہ اولی و ثانیہ میں شامل اصحاب کی فہرست اس کے ساتھ انصار و مہاجرین کے درمیان مواخات کی فہرست فراہم کی ہے۔
تیسرا حصہ المغازی کے عنوان سے ہے۔ اس میں سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدنی زندگی سے لیکر وصال تک کی تاریخ ہے۔
محمد بن اسحاق نے اپنی اس کتاب کو لکھنے کے لیے صحابہ کی اولادوں کے پاس جا کر ان سے واقعات سنے۔ انہوں نے خود ان جگہوں کا دورہ کیا جہاں سیرت کے واقعات پیش آئے اور وہاں پر موجود لوگوں سے معلومات اکٹھی کیں۔ کتب سماویہ کے علاوہ انہوں نے سرکاری دستاویزات تک بھی رسائی حاصل کی اور ان کو اپنا ماخذ بنایا۔
محمد بن اسحاق نے غیر مسلموں کی تاریخ کے بیان میں غیر مسلم علماء سے روایت لی۔ ابنِ اسحاق کا اسلوب مورخانہ تھا۔ انہوں نے اپنی کتاب میں اسرائیلیات کو بھی شامل کیا جس پر ان پر نقد بھی ہوا۔ اس کتاب کا علامہ ابنِ اثیر جزری نے کثرت سے حوالہ دیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب ان کے پاس موجود تھی۔ ساتویں صدی ہجری میں اس کا فارسی زبان میں ترجمہ ہوا۔ قاضی اطہر مبارکپوری کے مطابق اس کا ایک قلمی نسخہ جناب خالد اسحاق مرحوم کے کتب خانے میں بھی موجود تھا۔ڈاکٹر حمید اللہ نے اس کتاب کو ڈھونڈ کر اس کو ترکی سے شائع کروایا جو کہ ان کا بہت بڑا علمی کارنامہ ہے۔
محمد بن اسحاق سے پندرہ شاگردوں نے یہ کتاب روایت کی ہے۔ ان سب کا ذکر ڈاکٹر صاحبہ نے کیا ہے۔ ڈاکٹر حمید اللہ نے یونس بن بکیر اور محمد بن سلمہ کی روایت کو اکٹھا کیا ہے۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ بھی کئی مترجمین نے کیا ہے جن میں سے ڈاکٹر حمید اللہ کا ترجمہ قرطاس نے بھی شائع کیا ہے۔ سیرت ابنِ اسحاق فن سیرت میں منفرد مقام کی حامل ہے بعد کے زمانے میں جس نے بھی سیرت پر قلم اٹھایا اس نے ابنِ اسحاق کی خوشہ چینی کی
تیسری صدی ہجری سیاسی استحکام کے لحاظ سے ملے جلے حالات البتہ علمی لحاظ سے یہ بہت اہم صدی ہے۔ اس ہی دور زندیقیت نے قدم رکھا۔ قرامطہ کا ظہور ہوا پھر معتزلہ کی وجہ سے بھی علمی و فکری سرگرمیوں کا عروج رہا۔ ساتھ ہی محدثین کی تالیفات بھی سامنے آ رہیں تھیں۔ یورپ میں مسلم اندلس بھی علم و ادب اپنا حصہ ڈال رہا تھا۔ تاریخ نویسی کے لحاظ سے بھی اس صدی میں بھرپور کام ہوا۔
سیاسی لحاظ سے ایک بڑی تبدیلی مرکز خلافت کا بغداد سے سامرا منتقل ہونا پھر ۵۷ سال بعد دوبارہ بغداد کا دارلخلافہ بننا۔
اس زمانے میں سیرت نگاری کا کام بھی جاری رہا اور کئی مورخین نے سیرت کے حوالے سے کتابیں لکھیں۔ ڈاکٹر صاحبہ نے یہاں سترہ شخصیات کا تعارف پیش کیا ہے جن میں واقدی اور محمد بن سعد تو نمائندہ سیرت نگار ہیں۔ جبکہ باقی پندرہ شخصیات یہ ہیں
۱. ابو حذیفہؒ
۲. عبدالرزاق بن ہمامؒ
۳.عبدالملک بن ہشام حمیریؒ
۴.ابن عائذؒ
۵.خلیفہ بن خیاطؒ
۶.ابن قتیبہ
۷. حماد بن اسحاق
۷.محمد بن عیسی ترمذیؒ
۹.ابوذرعہ
۱۰.اسماعیل بن اسحاقؒ
۱۱. ابراہیم بن محمد بن سعید کوفی
۱۲. ابراہیم بن اسحاق بن ابراہیم
۱۳. یعقوبی
۱۴.محمد بن یحیی مروزیؒ
۱۵. عبدالملک بن حبیب سلمیؒ
ان میں امام ترمذیؒ کی شمائل ترمذی معروف کتاب ہے جس کے متعدد اردو تراجم ہو چکے ہیں۔ مولانا محمد زکریا کاندھلوی نے اس کی شرح بھی لکھی ہے۔ خلیفہ بن خیاط کی تاریخ اور ابن قتیبہ کی کتاب المعارف کا اردو ترجمہ قرطاس نے شائع کیا ہے۔ جبکہ تاریخ خلیفہ بن خیاط کا ایک اردو ترجمہ حارث پبلی کیشنز نے بھی شائع کیا ہے۔ عبدالرزاق بن ہمام صنعانی صاحب مصنف ہیں۔ ان کی کتاب المغازی ان کی حدیث کی کتاب المصنف کا حصہ ہے۔ ان میں تشیع پایا جاتا تھا مگر یہ غلو سے کام نہیں لیتے تھے۔ عبدالملک بن ہشام حمیری ایک اہم سیرت نگار ہیں انہوں نے سیرت ابنِ اسحاق کی تہذیب کی۔ ابنِ اسحاق کے کئی اشعار کو حذف کیا۔ سیرت ابنِ ہشام کو اتنی شہرت ملی کہ سیرت ابن اسحاق سے زیادہ اس کو اہمیت حاصل ہو گئی۔ سیرت ابنِ ہشام کی شرح علامہ سہیلی نے الروض الانف کے نام سے لکھی۔ اس شرح کو ضیاء القرآن پبلی کیشنز نے چار جلدوں میں شائع کیا ہے۔ سیرت ابنِ ہشام کا بھی اردو ترجمہ ہو چکا ہے۔ یعقوبی اس لیے بھی اہم ہیں کہ وہ شیعہ تھے ان کا طرزِ فکر جدا ہے۔ تاریخ یعقوبی کا بھی اردو ترجمہ ہو چکا ہے۔ ابراہیم بن محمد بن سعید کوفی بھی شیعہ ہیں۔ ان کتاب المناقب و المثالب کا ڈاکٹر صاحبہ نے ذکر کیا ہے مگر معلوم نہیں کہ یہ کتاب اب موجود بھی ہے یا نہیں۔باقی شخصیات کے بارے میں بھی ڈاکٹر صاحبہ نے مختصر گفتگو کی ہے۔
تیسری صدی کے نمائندہ سیرت نگار کے طور پر پہلا تذکرہ محمد بن عمر الواقدی کا ہے۔ واقدی کی پیدائش مدینہ منورہ میں جبکہ وفات بغداد میں ہوئی۔ واقدی کا ذریعہ معاش گندم فروشی تھا لیکن اپنی جود و سخا کے باعث ہمیشہ تنگ دست رہے۔ جب یہ فوت ہوئے تو ان کے کفن دفن کا انتظام مامون الرشید نے کیا۔ واقدی جب بغداد کے مغربی علاقے سے مشرقی علاقے میں منتقل ہونے تو ایک سو بیس اونٹوں پر ان کی کتابیں لادی گئیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کے پاس کتب کا کس قدر وسیع ذخیرہ تھا۔ واقدی پر شیعہ کا الزام لگایا گیا مگر ڈاکٹر صاحبہ نے بتایا کہ اس الزام کو سچ ثابت کرنے کے لیے کوئی ثبوت نہیں پایا جاتا۔ واقدی کے بارے میں ائمہ کی آراء میں اختلاف ہیں۔ دونوں آرا کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ روایت حدیث میں واقدی ضعیف جبکہ تاریخ میں ثقہ ہیں۔ جبکہ ان کے شاگرد محمد بن سعد جن کو کاتب الواقدی کہا جاتا ہے حدیث اور تاریخ دونوں میں ثقہ مانا گیا ہے۔ واقدی نے اپنی کتاب المغازی میں سب سے زیادہ سیرت ابنِ اسحاق سے استفادہ کیا ہے۔ فراہمی معلومات میں ابنِ اسحاق سے زیادہ ان میں دقت نظری پائی جاتی ہے۔ واقدی نے سیرت و مغازی کے ساتھ بین الاقوامی قانون کے حوالے سے بھی اپنی تحقیقات پیش کی ہیں جو کہ ان کی خصوصیات میں شمار ہوتی ہے۔ واقدی کے کام کو امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب الام میں محفوظ کیا ہے۔ واقدی کی کتاب پہلے مخطوطات کی شکل میں تھی۔ انیسویں صدی میں فان کریمر نے کلکتہ سے اس کے بعض اجزاء شائع کروائے۔ مستشرق جے ولہاوزن نے اس کا جرمن زبان میں ترجمہ کیا۔اس کتاب کا اردو ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔
اس صدی کے دوسرے نمائندہ سیرت نگار محمد بن سعدؒ ہیں جو کہ واقدی کے شاگرد ہیں۔ اس کے علاوہ اپنے عہد مشہور محدثین سے علم حاصل کیا جن میں امام وکیع بن الجراح ، سفیان بن عینیہ ، فضل بن دکین قابل ذکر ہیں۔ آپ حدیث اور تاریخ دونوں میں ثقہ مانے گئے۔
محمد بن سعد کی کتاب طبقات الکبری کی دو جلدیں سیرت پر ہیں ۔ اس کے بعد باقی جلدوں میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین کے حالات و کوائف درج ہیں ۔ ڈاکٹر نگار صاحبہ نے ابن سعد کی طبقات الکبری کے تعارف میں یہ اہم بات لکھی ہے کہ
ابن سعد بالواسطہ طور پر اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ تمام انبیاء کی نبوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نبوت کی تمہید تھی، تمہیدی نبوتوں کے بیان سے ختم نبوت کی عظمت اور حقیقت مکمل طور پر سامنے آ سکتی ہے
اس کے علاوہ ڈاکٹر صاحبہ نے محمد بن سعد کی اس سیرت کے مضامین کا جائزہ لیا ہے اور بتایا ہے کہ انہوں نے بہت محنت اور عرق ریزی سے معلومات اکٹھی اور فراہم کی ہیں۔
ابنِ سعد کے ماخذ میں ایام جاہلیت اور کی تاریخ کے سلسلے میں ان کا مآخذ ہشام بن محمد بن سائب کلبی ہے۔ ابنِ سعد نے اس بات کا اعتراف کیا کہ بعض محدثین نے کلبی کو ضعیف کہا ہے۔ مدنی دور کے بارے میں ان کا بڑا مآخذ ان کے استاد واقدی ہیں۔ اس کے علاوہ بھی انہوں نے اپنے زمانے میں دستیاب دیگر کتب سیرت سے استفادہ کیا جن میں سیرت ابنِ اسحاق ، موسی بن عقبہ وغیرہ کی کتابیں ہیں۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ دارالترجمہ جامعہ عثمانیہ حیدر آباد دکن نے کیا ہے۔ طبقات ابنِ سعد ہمیشہ سے سیرت نگاروں اور محدثین کا نہایت مستند ماخذ رہی ہے۔
چوتھی صدی سیاسی لحاظ سے منفرد نوعیت کی حامل ہے۔ اس وقت تین مسلم ریاستیں عالمی نقشے پر قائم تھیں ۔ عباسی سلطنت جس کا مرکز بغداد تھا۔ اندلس کی اموی سلطنت جس کا مرکز قرطبہ اور مصر کی فاطمی سلطنت جس کا مرکز قاہرہ تھا۔ ڈاکٹر صاحبہ نے یہاں عباسی خلافت کے اوپر مختصر تبصرہ کیا ہے اور اس کو پانچ ادوار میں تقسیم کیا ہے۔
دور عروج : یہ سو سال کا دور ہے جس میں اس خاندان کو قوت و اقتدار حاصل تھا
دور انحطاط: جب ترکی مملوکوں کی وجہ سے خلافت کمزور ہو گئی ۔ یہ بھی تقریباً سو سال کا دور بنتا ہے
غلبہ بنی بویہ: یہ دور تقریباً ایک سو پندرہ سال تک رہا جب بنی بویہ بغداد میں مسلط ہو گئے۔ جس میں عباسی خلیفہ کا سیاسی اثر بالکل ختم ہو گیا
غلبہ سلاجقہ: آل سلجوق کا غلبہ، اس میں طاقت سلطان کے پاس چلی گئی مگر عباسی خلیفہ کی حالت بنی بویہ کی نسبت کچھ بہتر تھی۔ یہ تقریباً ایک سو چالیس سال تک کا عرصہ ہے۔
آخری صدی: سلاجقہ کے زوال کے بعد چھیاسٹھ سال تک عباسی خلیفہ آزاد رہا۔ اس کا خاتمہ سقوط بغداد پر ہوا۔
چوتھی صدی کے نمائندہ سیرت نگار کے طور پر ابنِ جریر طبری کا ذکر ہے۔ آپ صوبہ طبرستان میں پیدا ہوئے ۔ والد خوشحال تھے اس لیے فکر معاش سے آزاد رہ کر اپنے علمی سفر کا آغاز کیا۔ مختلف علاقوں میں علماء سے علمی فیض حاصل کیا۔ طبرستان میں شیعیت کا زور تھا۔ آپ نے یہاں شیخین رضی اللہ عنہم کے مناقب پر کتاب لکھی۔ یہاں پر مخالفت کے باعث آپ کو بغداد آنا پڑا۔ بغداد اس زمانے میں علم و فن کا مرکز تھا۔ یہاں بھی مسلکی اختلافات کے باعث آپ کو مخالفت برداشت کرنا پڑی۔ بالخصوص حنابلہ آپ کے بہت خلاف تھے کیونکہ آپ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو فقیہ نہیں مانتے تھے ان کو فقط محدث مانتے تھے۔ طبری کی اپنی حیثیت کے تین پہلو ہے۔ ایک بطور مفسر ، دوسری بطور مورخ اور تیسری بطور فقیہ
ابنِ جریر طبری کی تاریخ امم الملوک شہرت کی حامل ہے۔ اس میں سیرت طیبہ کے واقعات کو امام طبری نے تفصیل سےبیان کیا ہے۔ امام طبری بہت کم اپنی رائے دیتے ہیں وہ مختلف فیہ روایات کو نقل کر کے خود الگ ہو جاتے ہیں۔ اپنے منہج کی انہوں نے اپنی تاریخ کے مقدمے میں وضاحت کر دی ہے کہ اس کے مواد انہوں نے اپنی طرف سے کوئی ملمع سازی نہیں کی۔ جیسے ناقلین سے روایات پہنچی ان کو درج کر دیا ہے۔
تاریخ طبری کی تلخیص بھی کی گئی اور کئی لوگوں کی تحریف کا بھی یہ نشانہ بنی۔اس کے مختلف زبانوں میں ترجمے ہوئے ہیں ۔ اس کا اردو ترجمہ ہو چکا ہے۔
ڈاکٹر صاحبہ نے امام طبری کے دیگر تراث علمی کا بھی ایک مختصر تعارف پیش کیا ہے اور ان کی باقی تالیفات جن میں سے کئی امتداد زمانہ سے ضائع ہو چکی ہیں ان کا بھی ذکر کیا ہے۔
پانچویں اور چھٹی صدی ہجری میں ڈاکٹر صاحبہ نے مسلم اندلس میں سیرت نگاری کا جائزہ لیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی مسلم اندلس کی مختصر تاریخ بھی ذکر کی ہے۔ اس کے مختلف ادوار کا ذکر کرکے اس دور کی علمی تاریخ کا ذکر کیا ہے۔ ہمیں نظر آتا ہے کہ جب مسلم اندلس اپنی وحدت برقرار نہیں رکھ سکا اور مختلف ٹکڑوں میں بٹ گیا لیکن اس کے باوجود وہاں پر علمی سرگرمیاں جاری رہیں۔ پانچویں صدی ہجری کے باب میں عباسی سلطنت کے بارے میں ڈاکٹر صاحبہ نے بتایا کہ وہاں بھی علمی سرگرمیاں عروج پر تھیں ۔ بغداد کا مدرسہ نظامیہ اس ہی عہد میں قائم ہوا۔ خود اس وقت کے عباسی خلفاء میں سے قادر باللہ صاحب علم تھا اور صاحب تصنیف تھا۔خلیفہ قائم بامر اللہ بھی علم کا اچھا ذوق رکھتا تھا۔ دوسری جانب محمود غزنوی کا دربار بھی علماء ، ادباء اور شعراء سے بھرا ہوا تھا۔ علمی لحاظ سے یہ صدی بہت زرخیز تھی۔ ڈاکٹر صاحبہ نے یہاں نمائندہ سیرت نگاروں کے ساتھ ساتھ اور بھی کئی اہل علم کا ذکر کیا ہے۔ جس میں سے درجہ ذیل کے بارے میں معلومات حواشی میں فراہم کی ہیں
۱. ابن الفرضیؒ
۲.ابو عبداللہ الحمیدیؒ
۳. ابنِ بشکوالؒ
۴.ابنِ عبد ربہ صاحب عقد الفرید. عقد الفرید کا اردو ترجمہ قرطاس سے شائع ہو چکا ہے
۵. ابن الواقشیؒ جو الباجی کے نام سے بھی معروف
۶. الرشاطیؒ
۷. امام سہیلیؒ
پانچویں صدی کے پہلے نمائندہ سیرت نگار کے طور پر علامہ ابن عبدالبرؒ کا تذکرہ ہے۔ آپ عربی النسل تھے اور قرطبہ میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد کا شمار قرطبہ کے فقہاء اور محدثین میں ہوتا تھا۔ علامہ ابن عبدالبر کے زمانے میں اندلس میں داخلی انتشار بڑھ چکا تھا۔ مسلم اندلس کئی ریاستوں میں بٹ چکا تھا۔ اس افراتفری نے علامہ ابنِ عبدالبر کی زندگی پر بھی کافی اثر ڈالا آپ قرطبہ سے نکل کر بطلیوس گئے پھر بلنیسیہ گئے۔ ان کا بیٹا اشبیلیہ میں قید ہوا تو اس کو چھڑوانے کے لیے اشبیلیہ گئے پھر دانیہ اور شاطبہ گئے۔ علامہ ابنِ عبدالبر نے لمبی عمر پائی اس لیے اپنی زندگی میں اپنی اولاد اور شاگردوں کی مفارقت کا صدمہ اٹھانا پڑا۔ علامہ ابنِ عبدالبر پہلے ظاہری مسلک کی جانب رجحان رکھتے تھے۔ پھر انہوں مالکی مسلک اختیار کیا۔ بعض مسائل میں شوافع کے ہم نوا تھے۔ علامہ ابنِ عبدالبر نے سیرت پر الدرر فی اختصار المغازی والسیر کتاب لکھی ایسے ہی صحابہ کے حالات پر آپ کی کتاب الاستیعاب کافی شہرت کی حامل ہے۔
سیرت پر علامہ ابن عبدالبر کی کتاب کا بنیادی ماخذ موسی بن عقبہ کی مغازی اور سیرت ابنِ اسحاق ہے۔علامہ ابنِ عبدالبر کی کتاب کا ابنِ اسحاق سے کافی مطابقت رکھتی لیکن ساتھ ساتھ انہوں نے موسی بن عقبہ اور ابن ابی خثیمہ سے بھی استفادہ کیا ہے۔
علامہ ابن عبدالبرؒ نے ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو اولین اسلام لانے والوں میں شمار کیا ہے ساتھ یہ بھی لکھا کہ وہ کم سن تھیں۔ رمضان کے روزوں کی فرضیت کے حوالے سے علامہ ابن عبدالبر نے لکھا کہ یہ ہجرت کے پہلے سال فرض ہوئے جبکہ عمومی رائے ہے کہ اٹھارہ ماہ بعد فرض ہوئے۔
علامہ ابن عبدالبر کی کتاب سے ان کے شاگرد شیخ ابنِ حزم نے بھرپور استفادہ کیا۔ اس کے علاوہ ابن سید الناس نے اپنی کتاب عیون الاثر فی فنون المغازی والشمائل والسیر میں ان کی کتاب کو بطور مآخذ کے پیش کیا ہے
پانچویں صدی کے دوسرے نمائندہ سیرت نگار شیخ ابن حزم ظاہریؒ ہیں۔ شیخ ابن حزم کی زندگی میں کئی نشیب و فراز آئے۔ ان کے والد منصب وزارت پر فائز تھے۔ ابھی ابنِ حزم چودہ سال کے تھے اندلس میں اموی حکومت کو زوال آ گیا۔ جس سے ابنِ حزم اور ان کے والد دونوں متاثر ہوئے۔ والد کے انتقال کے بعد ابنِ حزم کے بیس سال بہت مشکل گزرے انہیں قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں۔ علامہ ابن حزم پہلے شافعی تھے پھر ظاہری مسلک کو اختیار کیا۔ علامہ ابنِ حزم اپنی رائے کے اظہار میں بہت سخت تھے۔ اپنے نظریات کو پھیلانے میں وہ کوئی نرمی اور مداہنت سے کام نہیں لیتے تھے۔ جس کی وجہ سے فقہاء اور علماء سے ان کے اختلافات شدت اختیار کر گئے۔ یہاں تک اشبیلیہ کے حکمران معتضد بن عباد نے ابنِ حزم کی بہت سی تصانیف نذر آتش کر دیں۔ آپ کثیر التصانیف تھے۔ ان کے بیٹے کے بیان کے مطابق ان کی کتابیں ان کے خط میں چار سو جلدوں میں موجود تھیں جو کہ اسی ہزار صفحات بنتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ نے ان کی کچھ تصانیف کا تعارف کروایا۔
ان کے مداحین اور مخالفین دونوں کی کمی نہیں تھی۔ ایک بڑا نام قاضی ابو بکر بن العربی نے ان پر شدید تنقید کی ہے۔
سیرت پر علامہ ابن حزمؒ نے جوامع السیرہ کے نام سے کتاب لکھی جس میں اختصار اور معروضیت پائی جاتی ہے۔ ابن حزم نے سیرت کے دو مباحث علامات نبوت اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق و عادات پر خصوصی توجہ دی ہے۔ابن حزم نے یہ کتاب اپنے تلامذہ کے لیے مرتب کی تاکہ وہ ایک مستند ماخذ سے استفادہ کر سکیں۔ اس کتاب کے بنادی مآخذ میں ایک تاریخ خلیفہ بن خیاط ہے جبکہ دوسری ابوحسان زیادی کی کتاب ہے۔بدقسمتی سے ابو حسان زیادی کی کتاب اب ناپید ہے البتہ تاریخ خلیفہ بن خیاط کے بارے میں پہلے عرض ہو چکا کہ اس کا اردو ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ علامہ ابنِ حزم کے اسلوب پر بات کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ان کے ہاں بہت زیادہ احتیاط پائی جاتی ہے وہ سخت انتقاد اور تفتیش کے بعد واقعات کو رقم کرتے ہیں۔ ان کے انداز میں قطعیت بھی پائی جاتی ہے۔ ہجری تقویم کے لحاظ سے ان کی رائے ہے کہ وہ ربیع الاول جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت فرمائی کو پہلا مہینہ قرار دیتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ نے جوامع السیرہ روایت کرنے والے چھے اہل علم کا بھی ذکر کیا ہے
چھٹی صدی کے نمائندہ سیرت نگار کے طور پر ڈاکٹر صاحبہ نے قاضی عیاض مالکیؒ اور ان کی کتاب الشفاء کا انتخاب کیا ہے۔
قاضی عیاضؒ کا شمار چوٹی کے مالکی فقہاء اور محدثین میں ہوتا ہے۔ آپ سبتہ میں پیدا ہوئے تعلیم قرطبہ حاصل کی پھر سبتہ کے قاضی مقرر ہوئے ۔ داخلی انتشار کے باعث آپ کو سبتہ چھوڑنا پڑا ۔ آپ مراکش چلے گئے اور وہاں ہی انتقال ہوا۔ قاضی عیاض کی بائیس کتابوں کی ڈاکٹر صاحبہ نے فہرست دی ہے۔ معلوم نہیں کہ ان میں سے کتنی موجود ہیں اور کتنی مفقود۔ قاضی عیاض مالکی کی کتاب الشفاء کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ مختلف مسالک کے علماء نے اس سے استفادہ کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ نے میرزا باقر شیرازی کے حوالے سے بتایا کہ علماء امامیہ نے اس کتاب سے بکثرت اقتباسات نقل کیے۔
کتاب الشفاء چار حصوں پر مشتمل ہے۔
پہلے حصے میں اللہ تعالیٰ کے جانب سے قول و فعل کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرتبہ عظیمہ کا بیان ہے۔ اس کے چار ابواب ہیں
دوسرے حصے میں سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان حقوق کا بیان ہے جو مخلوق پر عائد ہوتے ہیں ۔ اس کے بھی چار ابواب ہیں
تیسرے حصے میں ان امور کا ذکر جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق روا اور مناسب یا ناروا اور نامناسب ہیں۔ اس کے بھی دو ابواب ہیں
چوتھا حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوپر سب و شتم والے کے بارے میں احکامات کے متعلق ہے۔ اس کے بھی دو ابواب ہیں۔
کتاب الشفاء کا پہلا مآخذ قرآن مجید ، دوسرا احادیث ، تیسرا آثار صحابہ اور تابعین ہیں ۔ اس کے ساتھ کتب تاریخ جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کے واقعات بیان ہوئے وہ بھی آپ کا ماخذ ہیں۔ اسرائیلیات میں سے ان روایات کو آپ نے قبول نہیں کیا جو قرآن مجید اور احادیث کے خلاف ہیں جیسے کہ اوریا کی بیوی والا قصہ یا پھر ہاروت و ماروت کے بارے میں روایات ۔ احادیث کی قبولیت و عدم قبولیت کے حوالے سے قاضی عیاض نے خاص اصول قائم کیے ہیں جن سے ان کے محدثانہ مقام کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس کتاب کو قبولیت عامہ حاصل ہوئی اور ڈاکٹر صاحبہ نے اس کی متعدد شروحات و تلخیصات کا بھی ذکر کیا ہے۔ کتاب الشفاء کا دو سے زائد مترجمین کے قلم سے اردو ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔
ساتویں صدی سیاسی لحاظ سے کافی مایوس کن تھی۔ عالم اسلام فتنہ تاتار کی لپیٹ میں تھا۔پہلے خوارزم شاہی سلطنت کا خاتمہ ہوا تو پھر سقوط بغداد کا سانحہ بھی رونما ہوا ۔سقوط بغداد فقط سیاسی نہیں بلکہ علمی سانحہ بھی تھا جس کی وجہ سے کئی کتب خانے تباہ ہو گئے۔ البتہ اس کے بعد بھی تین جگہ مسلمان برسر اقتدار تھے۔ ہند میں خاندان غلاماں ، اناطولیہ میں عثمان خان نے علاقائی حکومت کا آغاز کیا۔ جبکہ مصر پر ممالیک کی حکومت تھی۔ جس خلافت عباسیہ کا سایہ بغداد میں غروب ہوا قاہرہ میں ملک بیبرس نے اس کو بحال کر دیا گو کہ اختیار ممالیک کے پاس تھا لیکن خلافت کا ادارہ پھر سے قائم ہو گیا۔
ساتویں صدی کے نمائندہ سیرت نگار کے طور پر ابوالربیع سلیمان بن موسیٰ الکلاعیؒ کا انتخاب کیا گیا ہے۔ جو اندلس کے رہنے والے محدث اور ادیب تھے۔ آپ نے شہر مرسیہ سے نو میل دور انیشیہ میں عیسائیوں کے خلاف جہاد کرتے ہوئے شہادت پائی۔ آپ کی پانچ تصانیف کا ڈاکٹر صاحبہ نے ذکر کیا ہے۔
سیرت پر سیلمان بن موسیٰ الکلاعی کی کتاب کا نام الاکتفا بما تضحنہ من مغازی رسول اللہ و الثالثۃ الخلفاء ہے۔ اس کتاب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور خلفاء ثلاثہ کے دور کی فتوحات کا ذکر ہے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا دور اس میں شامل نہیں کیونکہ اس دور میں فتوحات ملکی کا باب بند رہا۔
کلاعی کے مآخذ میں ابنِ اسحاق ، ابن ہشام اور موسی بن عقبہ کی کتابیں ہیں ۔ اس کے علاوہ طبری ، مسعودی ، تاریخ یعقوبی اور زبیر بن ابی بکر القاضی بھی کلاعی کے مآخذ ہیں۔ اس کے علاوہ اعثم کوفی ، ابن جبیش کی کتابوں سے بھی فتوحات کے باب میں مدد لی ہے۔کلاعی نے اپنی کتاب میں طویل قصائد اور اشعار لکھے ہیں جو عرب مزاج سے موافق ہیں۔
آٹھویں صدی میں مصر و شام میں سیرت نگاری کے حوالے سے جو ترقی ہوئی اس کا ذکر ہے۔ کیونکہ ممالیک مصر کا اقتدار مستحکم تھا۔ اس سیاسی استحکام کے ساتھ علمی و تحقیقی سرگرمیوں میں بھی ترقی ہوتی رہی۔ اس باب میں نمائندہ سیرت نگار تو علامہ ابنِ کثیرؒ ہیں لیکن ان سے پہلے ڈاکٹر صاحبہ نے اس صدی کی دیگر اہل علم شخصیات اور ان کی علمی خدمات کا مختصر تعارف پیش کیا ہے۔ جن میں
۱. ابن سید الناسؒ اور ان کی تصنیف عیون الاثر
۲. عبدالمومن دمیاطیؒ
۳. حافظ ابن القیمؒ الجوزیہ کی زاد المعاد
زاد المعاد کے بارے میں ڈاکٹر صاحبہ نے تین صفحات میں اس کے مضامین اور اس کی مقبولیت پر گفتگو کی ہے۔ یہ یقیناً ایک اہم کتاب ہے۔ بلکہ جیسے میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحبہ نے جیسے پچھلی صدیوں میں ایک سے زائد نمائندہ سیرت نگاروں کا انتخاب کیا ہے۔ تو یہاں حافظ ابن القیم الجوزیہ اور ان کی تصنیف زاد المعاد اس قابل تھی کہ ان کو بھی نمائندہ سیرت نگار کے طور پر پیش کیا جاتا۔
حافظ ابن کثیرؒ کا نام اسمعیل اور کنیت ابوالفداء تھی۔ ان کے اساتذہ کی فہرست طویل ہے مگر سب سے اہم شیخ ابنِ تیمیہ اور دوسرے علامہ مزی ہیں۔ آپ اپنے شیخ ، علامہ ابنِ تیمیہؒ کے حامیوں میں سے تھے۔ ڈاکٹر صاحبہ نے حاشیہ میں علامہ مزیؒ جو کہ حافظ ابن کثیر کے سسر بھی تھے کا تعارف پیش کیا ہے۔اس کے ساتھ شامی مورخ و محدث علامہ ابن البر زالیؒ کا تعارف بھی حاشیہ میں پیش کیا گیا ہے ۔حافظ ابن کثیر تفسیر و حدیث کے امام تھے۔ آپ نے متنوع موضوعات پر کتب تحریر کیں۔ جن میں سے انیس کا تعارف ڈاکٹر صاحبہ نے کروایا ہے۔ ان میں سے بیشتر امتداد زمانہ کے نظر ہو گئیں۔ البتہ ان کی تفسیر اور تاریخ میں کتاب البدایہ والنہایہ کو کافی شہرت ملی۔ البدایہ والنہایہ میں سیرت طیبہ کے متعلق بھی تفصیل سے لکھا ہے۔ اس کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شمائل اور دلائل النبوۃ کے تحت تفصیلات فراہم کی ہیں ۔ آپ نے متقدمین سیرت نگاروں سے استفادہ کیا ہے۔ جن میں عروہ بن زبیر ، ابنِ شہاب زہری شامل ہیں ۔ آپ دابستان مدینہ کے زیادہ قریب تھے۔ اس کے علاوہ سیرۃ ابنِ اسحاق سے بھی استفادہ کیا ہے۔ واقدی بھی آپ کے مآخذ میں سے ہے۔ قاضی عیاض مالکی ، محمد بن سعد ، خلیفہ بن خیاط ، طبری اور سعید بن یحیی اموی بھی آپ کے مآخذ میں سے ہیں ۔ علامہ ابن کثیر کے حالات میں ایک جگہ ڈاکٹر صاحبہ نے ان کو حنبلی لکھا ہے جبکہ درست یہ ہے کہ وہ شافعی تھے ممکن ہے یہ کتابت کی غلطی ہو۔البدایہ والنہایہ کا تاریخ ابنِ کثیر کے نام سے اردو ترجمہ ہو چکا ہے۔
نویں صدی میں سقوط غرناطہ کا اندوہناک واقعہ ہوا۔ اندلس میں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ ہو گیا۔ ڈاکٹر صاحبہ نے علامہ ابنِ خلدونؒ کو اس صدی کے نمائندہ سیرت نگار قرار دیا ہے۔
علامہ ابن خلدونؒ کی پیدائش تیونس میں ہوئی۔اس وقت اندلس سے مسلم اقتدار کا سورج غروب ہو رہا تھا اور رفتہ رفتہ مسلم ریاستوں پر عیسائیوں کا قبضہ ہو رہا تھا۔ تو علامہ ابنِ خلدون نے تیونس سے ہجرت کی۔ وہ مختلف درباروں سے وابستہ رہے۔ وہ غرناطہ میں بھی دو سال رہے۔ بعد میں وہ سیاسی ہنگاموں سے الگ ہو گئے تیونس میں تلمسان کے قلعہ سلامہ میں ان کو خاندان سمیت ٹھہرایا گیا۔ یہاں انہوں چار سال گزارے۔ یہاں انہوں نے اپنے مشہور عام مقدمہ لکھا ۔ یہ خالصتاً ایک original work تھا۔ وہ پھر مصر چلے گئے یہاں جامع الازہر میں درس دیتے اور مذہب مالکی پر فتویٰ بھی دیتے ۔ ان کے دروس میں علامہ ابنِ حجر عسقلانی اور علامہ مقریزی بھی شریک ہوتے۔ مصر میں قیام کے دوران انہوں نے اپنے بیوی اور بچوں کو تیونس سے بلایا تو کشتی کے حادثے میں ابن خلدون کو جائیداد ، بیوی اور بچوں کا دکھ سہنا پڑا ۔ آپ کی تیمور سے بھی ملاقات رہی اور اس کے ساتھ رہے۔ ان پر ایک تنقید یہ کی جاتی ہے کہ حمص میں جب تیمور نے خون خرابا اور مظالم ڈھائے تو انہوں نے اس کو روکنے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔شائد وہ اپنی جان کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتے تھے۔
جہاں تک سیرت کی بات ہے تو علامہ ابنِ خلدونؒ نے اس میں اختصار کو ملحوظ خاطر رکھا ہے۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ کہیں اہم تفصیلات رہ گئیں۔ انہوں نے متقدمین مورخین اور معاصر سیرت نگاروں کو اپنا ماخذ بنایا۔ علامہ ابنِ خلدون کا تاریخ ابنِ خلدون لکھتے ہوئے مقصد سیرت نگاری نہیں تھا وہ بربروں کی تاریخ سے ابتداء کرنا چاہتے تھے مگر مقدمہ لکھتے ان کا ارادہ بدل گیا
دسویں صدی کے پہلے نمائندہ سیرت نگار محمد بن یوسف الصالحی الشامیؒ ہیں۔ ان کے حالات زندگی کے بارے میں زیادہ معلومات دستیاب نہیں۔ اتنا پتہ چلتا ہے کہ مختلف علوم میں مہارت تھی۔ ان کی دیگر کتب کی فہرست بھی ڈاکٹر صاحبہ نے مہیاء کی ہے۔
سیرت پر آپ کی تالیف سبل الھدی والرشاد فی سیرت خیر العباد جو کہ سیرت شامیہ کے نام سے معروف ہے۔ اس کو سیرت کا دائرہ المعارف کہا جا سکتا ہے۔ یہ سیرت پر سب سے مبسوط کتاب مانی جاتی ہے۔ اس کتاب کی تصنیف میں احادیث ان کی شروحات اس کے علاوہ سیرۃ ابنِ ہشام سے لیکر امام سیوطی تک کے زمانے کی کتب سیرت آپ کے پیش نظر تھیں۔ امام جلال الدین سیوطی آپ کے استاد تھے۔ یہ کتاب بارہ جلدوں پر مشتمل ہے جس کے مضامین کا جلد وار خاکہ ڈاکٹر صاحبہ نے دیا ہے۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ صحیح روایات کے ساتھ اس میں ضعیف روایات بھی آ گئی ہیں حالانکہ امام صالحی کا انتقادی رویہ ہمیں کتاب میں نظر آتا ہے۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ ذوالفقار علی ساقی نے کیا ہے جس کو زوایہ پبلشر نے شائع کیا ہے۔
علامہ صالحی کے تذکرے کے ضمن میں شیخ حسین بن دیاربکری، علامہ احمد شہاب الدین خفاجی اور علامہ علی بن برہان الدین حلبی کا بھی مختصر ذکر حواشی میں کر دیا گیا ہے
آخری نمائندہ سیرت نگار علامہ احمد بن ابی بکر القسطلانیؒ ہیں۔ آپ مستند محدث اور سیرت نگار ہیں۔ آپ کے اساتذہ میں علامہ ابنِ حجر عسقلانی اور علامہ سخاوی قابل ذکر ہیں۔ حاجی خلیفہ نے آپ کی چھبیس کتابوں کا ذکر کیا ہے۔ جن میں صحیح بخاری کی شرح ارشاد الساری اور سیرت پر آپ کی کتاب المواھب اللدنیہ ہے۔ مواہب لدنیہ کے متعدد اردو تراجم ہو چکے ہیں۔ مواہب کو کتب سیرت میں نہایت درجہ حاصل ہے۔ علامہ شبلی کہتے ہیں کہ یہ مفصل کتاب ہے مگر اس میں موضوع روایات موجود ہیں۔ علامہ قسطلانی کی اس کتاب کا بھی ڈاکٹر صاحبہ نے مختصر جائزہ لیا ہے اور بتایا ہے کہ انہوں نے شیخ ابنِ تیمیہ سے قبر رسول کی زیارت کے سلسلے میں اختلاف کیا ہے۔ اس کے علاوہ میلاد کے جواز پر بھی بات کی ہے، استغاثہ اور توسل کے جواز پر بھی لکھا ہے۔ اس کی شرح علامہ زرقانی نے کی ہے۔ علامہ زرقانی پر بھی ڈاکٹر صاحبہ نے ایک مختصر حاشیہ میں ان کا تعارف کروایا ہے۔ علامہ قسطلانی کی علامہ سیوطی سے معاصرانہ چشمک تھی۔ علامہ سیوطیؒ نے مواہب لدنیہ کے بارے میں کہا کہ یہ ان کے شاگرد علامہ صالحیؒ کی سیرت شامیہ کا چربہ ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ کہتی ہے کہ اگر ہم مواہب لدنیہ اور سیرت شامیہ کے مواد کا جائزہ لیں تو علامہ سیوطی کا الزام کافی حد تک درست معلوم ہوتا ہے۔
ڈاکٹر صاحبہ کی یہ کتاب بیشک بہت اہمیت کی حامل ہے۔ لیکن اس میں کچھ کمی محسوس ہوئی بالخصوص ڈاکٹر صاحبہ کو اپنے مقدمہ میں وضاحت کرنی چاہیے کہ ان کا نمائندہ سیرت نگار کے انتخاب کی کیا وجہ ہے۔ یہ یقیناً مصنفہ کا حق ہے کہ وہ کسی سیرت نگار کو نمائندہ قرار دیں مگر ان کا پیمانہ اور اصول کیا ہیں ۔ اس کی اگر وہ مقدمہ میں وضاحت کر دیتیں تو زیادہ اچھا ہوتا۔
اس کے ساتھ ہم دیکھتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحبہ نے کئی اہم کتابوں اور مصنفین کو چھوڑا ہے۔ جیسے کہ مسعودی جو کہ تاریخ میں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں ۔ اس کے علاوہ علامہ ابنِ جوزیؒ کا فقط ذکر ہے لیکن ان کی سیرت پر ایک عمدہ کتاب الوفا باحوال المصطفی موجود ہے۔ جس کا اردو ترجمہ علامہ اشرف سیالویؒ نے کیا ہے۔ اس کے علاوہ علامہ ابن جوزی کی ایک مختصر کتاب “الانبی الاطہر سیرت خیر البشر” بھی ہے جس کا اردو ترجمہ مفتی علیم الدین نقشبندی نے کہا ہے۔ اس کے ساتھ حافظ مغلطائیؒ کی سیرت پر کتاب موجود ہے جس کا اردو ترجمہ عمران نظامی صاحب نے کیا ہے۔ حافظ ابن الملقن الشافعیؒ کی سیرت پر کتاب موجود ہے جس کا حافظ عظیم صفدر نے ترجمہ کیا ہے اور عکس پبلیکیشنز نے شائع کیا ہے۔اس کے علاوہ امام سیوطی کی خصائص الکبری بھی قابلِ ذکر ہے۔ اس کا بھی اردو ترجمہ غلام معین الدین نعیمیؒ نے کیا ہے کا ذکر نہیں ہے۔ یقیناً ڈاکٹر نگار صاحبہ کے سامنے یہ کتابیں ہوں گی۔ اگر وہ مقدمہ میں اس کی وضاحت کر دیں کہ ان کو شامل نہ کرنے کی وجوہات کیا ہیں تو یہ زیادہ مفید ہو گا۔ ہم ڈاکٹر صاحبہ کا یہ حق دوبارہ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ اپنے ذوق سے کسی کو نمائندہ سیرت نگار قرار دیں۔ بس اپنے اس ذوق کی وجہ ذکر کر دیں
ڈاکٹر صاحبہ کی یہ کتاب فقط سیرت نگاروں کی تاریخ نہیں بلکہ یہ مسلمانوں کی علمی تاریخ کی بھی ایک تصویر پیش کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ہمیں یہ بھی نظر آتا ہے کہ سیاسی حالات میں اتار چڑھاؤ کے باوجود مسلمان کس قدر سنجیدگی سے علم سیرت کی خدمت کرتے رہے۔ ڈاکٹر نگار صاحبہ کی اس کتاب کو ۲۰۲۳ میں صدارتی ایوارڈ بھی ملا۔ جس کی یہ کتاب حقدار ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ کی کتاب میں سیرت پر کام کرنے والے طالب علموں کے لیے بہت مفید سی معلومات ہیں جن کی مدد سے ان کے کام میں نکھار آئے گا۔
کمنت کیجے