Home » عالم حادث ہے
فلسفہ کلام

عالم حادث ہے

دلیل حدوث دو مقدمات سے عبارت ہے: 

1) حادث کے لئے محدث ہوتا ہے

2) عالم حادث ہے

یہاں ہم دلیل حدوث کے دوسرے مقدمے “عالم حادث ہے” کی متکلمین کے منہج پر وضاحت کرتے ہیں۔ حدوث عالم ثابت کرنے کے کئی مناہج ہیں، یہاں ایک طریقے کو تفصیل سے پیش کیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے “حادث” اور “عالم” کا مفہوم بیان کرنا ضروری ہے۔

– حادث کا مفہوم

حادث کا مفہوم دو طرح ادا کیا جاتا ہے: وہ جو مسبوق بالعدم ہو (یعنی وہ جو نہ ہو اور پھر ہو)، وہ جو مسبوق بالغیر ہو (یعنی جس سے ماقبل کوئی اور وجود ہو)۔ دونوں میں زیادہ فرق نہیں، ہم پہلے معنی کے لحاظ سے یہاں بحث کریں گے۔

– عالم کا مفہوم

عالم سے مراد ماسوا اللہ سب موجودات ہیں۔ یہ موجود یا جوہر ہوگا اور یا عرض۔

• جوہر (atom) کا مطلب وہ چھوٹی سے چھوٹی قابل تصور شے جو کسی مکان میں کسی مکانی شے کی احتیاج کے بغیر اس طرح پائی جائے کہ کوئی دوسرا جوہر اس مکان میں نہ سما سکے۔ کسی جوہر کے مکان میں پائے جانے کا جو کم از کم زمانی دور ہے، اسے “آن” (moment) کہہ لیجئے (چاہے اسے آپ سیکنڈ میں ماپیں یا نینو سیکنڈ سے بھی کسی چھوٹے لمحے میں)

• ایسے چند جواہر کے مجموعے کو جسم (extended substance) کہتے ہیں (چاہے وہ مجموعہ ایک جہتی سطح یعنی one dimensional ہی ہو)

• عرض (mode or accident) وہ شے جو وجود کے لئے جوہر کی محتاج ہو (جیسے کمیت، مقدار، رنگ خوشبو وغیرہ)۔ “عرض” از خود مکانی تصور نہیں بلکہ مکانی شے (جوہر و جسم) کو لاحق ہونے والی کیفیات ہیں

پس عالم کا مطلب وہ سب کچھ ہے جو متحیز یعنی مکان (space) سے متصف ہوسکے۔ وہ موجودات جو جوہر، عرض اور جسم ہیں، ان کا علم حسی مشاھدے (sensory       experience) سے متعلق ہے۔ یعنی متکلمین کے مطابق حواس کا تعلق ان موجودات سے ہے جو زمانی و مکانی ہیں۔ امام غزالی کتاب “الاقتصاد” میں موجودات کی تقسیم اس طرح کرتے ہیں:

• موجود یا متحیز (مکانی) ہوگا اور یا غیر متحیز

• جو متحیز ہے وہ یا سادہ ہوگا اور یا مرکب۔ اول الذکر جوہر ہے اور موخر الذکر جسم

• وہ موجود جو غیر متحیز ہے وہ یا متحیز کا محتاج ہوگا اور یا نہیں، اول الذکر کو عرض کہتے ہیں (موخر الذکر ذات باری تعالی ہے)

امام رازی اس تقسیم کو ذرا مختلف انداز سے بیان کرتے ہیں کہ موجود ہونے کے تین عقلی امکانات ہیں:

• متحیز ہونا، یہ موجود یا سادہ ہوگا اور یا مرکب، اول الذکر جوہر و موخر الذکر جسم ہے

• متحیز میں حال (یا اس کی کیفیت) ہونا، یہ عرض ہے

• نہ متحیز ہونا اور نہ اس کا حال ہونا

کانٹ ذدہ مفکرین کا ماننا ہے کہ جو وجود نہ متحیز ہو اور نہ کسی متحیز میں حال ہو وہ صرف وجود ذہنی ہوتا ہے نہ کہ وجود خارجی جبکہ یہ دعوی بلا دلیل اور وجود خارجی کی امکانی تقسیم ہی کے خلاف ہے۔ فی الوقت اس دعوے سے صرف نظر کرکے ہم مدعا کی جانب بڑھتے ہیں۔

– حدوث عالم کی دلیل

اسے درج ذیل مقدمات کی صورت بیان کیا جاسکتا ہے:

1) جسم اکوان سے خالی یا ماورا نہیں ہوسکتا اور جو اکوان سے خالی نہ ہو اس پر عدم جائز ہے

2) جس شے کو اکوان لاحق ہوں وہ حادث ہوتی ہے یا جس شے پر عدم جائز ہے وہ قدیم نہیں ہوسکتی

3) لہذا اجسام حادث ہیں

قارئین کی آسانی کے لئے ہم نکات کی صورت امور بیان کرتے ہیں۔

– پہلا قضیہ: جسم اکوان سے خالی نہیں ہوسکتا اور جو اکوان سے خالی نہ ہو اس پر عدم جائز ہے

1۔ کسی شے کا جسم ہونا اور اس کا کسی خاص حیز میں ہونا دو الگ امور ہیں۔ جیسا کہ بیان ہوا کہ جسم وہ موجود ہے جو کسی حیز میں (یعنی متحیز) ہو۔ جسم دراصل شے کے پھیلاؤ (extension) کو کہتے ہیں چاہے یکجہتی (one dimensional) ہو، اور یہ پھیلاؤ مکان کے وجود کو لازم ہے۔ جسم کے حیز میں ہونے (حصول الشیئ فی الحیز) کو “کون” کہا جاتا ہے۔ “کون” کو جسم کی ہونے کی کیفیات (یا اعراض) کے طور پر سمجھا جاسکتا ہے جیسے کہ کمیت یا مقدار، رنگ و خوشبو، ٹھنڈا و گرم وغیرہ۔ ہونے کی ان کیفیات (یا اعراض) کا مطلب یہ ہے کہ یہ امور انسانی مشاہدے میں آسکنے والی جمیع اشیا کے مابین ممکنہ طور پر مشترک امور میں سب سے عمومی امور (upper tips) کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان میں سب سے عمومی کیفیت شے کا متحیز ہونا ہے۔ یہ بات محال ہے کہ کوئی شے جسم ہو اور متحیز نہ ہو۔ پس چونکہ جسم کو حیز لازم ہے لہذا یہ “کون” سے خالی نہیں ہوسکتا۔

2۔ اکوان خارج میں ثابت ہیں، یعنی ہم مشاہدے سے علم حاصل ہونے پر سوفسطائیہ کی طرح شک نہیں کرتے اور نہ ہم یہ مانتے ہیں کہ “کون” (حصول الشیئ فی الحیز) نرا عقلی تصور یا کلی ہے جس کا وجود خارج میں متحقق نہیں۔ حسی مشاہدے میں آنے والی اشیا خارج میں مکان میں موجود ہیں، یہ ایک وجوی قضیہ ہے۔ اگر کوئی کانٹین کہے کہ “متحیز ہونا” ایک مقولے اور اس لئے وجود ذہنی کا نام ہے تو ہم کہتے ہیں کہ اسے مقولہ ماننے سے یہ لازم نہیں آتا کہ شے خارج میں متحیز نہیں جیسا کہ ہم الگ سے یہ ثابت کرچکے۔ پس جو شخص یہ مانتا ہے کہ حس میں آنے والی اشیا خارج میں موجود ہیں اور مکان بھی موجود ہے اس کے لئے “اکوان” کے وجو خارجی کا انکار ممکن نہیں۔ چنانچہ جو لوگ حدوث کو محض ادراک کی صفت سمجھتے ہیں نہ کہ وجود خارجی کی، انہیں نہ کون کا مطلب معلوم ہے اور نہ حادث کا۔

3۔ اکوان کی صورت حرکت و سکون ہے۔ پس پہلا قضیہ یہ کہہ رہا ہے کہ جس شے کو کون لاحق ہے وہ حرکت و سکون میں سے لازماً کسی ایک کیفیت کا شکار ہے۔ کسی جسم کے وجود کا تسلسل دو زمانوں میں اس کے موجود ہونے کے واقعے سے عبارت ہے اور دو لمحوں میں یہ وجود متحقق ہونے کے دو ہی امکانات ہیں:

• دو زمانوں میں ایک مقام پر ہونا، اور یا

• دو زمانوں میں دو الگ مقامات پر ہونا

اول الذکر کو سکون (rest) کہتے ہیں اور مؤخر الذکر کو حرکت (movement)۔ گویا سکون کا معنی پہلے مکان میں دوسری مرتبہ پایا جانا ہے جبکہ حرکت کا مطلب دوسرے مکان میں پہلی مرتبہ پایا جانا ہے۔ مشاہدے میں مسلسل موجود شے حرکت یا سکون میں سے لازماً کسی ایک سے دوچار ہوگی، بصورت دیگر وہ کسی ایک لمحے میں وجود میں آکر معدوم ہوچکی ہوگی۔

اسی بات کو دوسرے انداز سے یوں کہتے ہیں کہ ہر “کون” پر عدم جائز ہے۔ متحیز شے جس خاص حیز میں پائی گئی، اس خاص حیز میں اس کا پایا جانا یا واجب ہوگا اور یا ممکن۔ وہ خاص حیز جسم کے لئے واجب نہیں ہوسکتا کہ اس صورت میں پھر ہر جسم اسی حیز میں پایا جاتا اور ایسا ہونا محال ہے (یعنی ایک زمان میں ایک ہی مکان میں ایک سے زائد اجسام کا پایا جانا ممکن نہیں)۔ پس ماننا ہوگا کہ جسم کا کسی خاص حیز میں ہونا ممکن ہے نہ کہ واجب۔ کہنے کا مطلب یہ کہ جسم کا کسی خاص حیز سے خروج اور دوسرے میں انتقال جائز ہے نہ کہ محال۔ اور جو شے ممکن ہو اس پر عدم طاری ہونا جائز ہوتا ہے کہ ممکن کہتے ہی اس شے کو ہیں جو وجود اور عدم دونوں کو قبول کرے۔ ثابت ہوا کہ جو شے متحیز ہو اس پر عدم جائز ہے۔ متحیز کا متحرک و ساکن میں سے ایک حال پر ہونا اسی بات کا مظہر ہے کہ اس پر عدم جائز ہے۔

– دوسرا قضیہ: جو شے اکوان سے خالی نہ ہو وہ حادث ہوتی ہے یا جس شے پر عدم جائز ہو وہ قدیم نہیں ہوسکتی

4۔ حرکت و سکون میں سے ہر تصور دراصل دو حوادث (instances       or       occurrences) یا تبدیلی کا نام ہے، یعنی ہر شے جو حرکت و سکون سے دو چار ہے وہ لازما حوادثات (“عدم سے ہونے “اور پھر “ہونے کے بعد عدم کے بجائے ہونے”) سے دوچار ہے۔ کسی شے کو لاحق ہونے والا ایسا ہر حادثہ (occurrence) ایک واقعہ (event) ہے۔

5۔ متحیز (کون لاحق ہونے والا) وجود یا قدیم ہوگا اور یا حادث۔ اگر وہ قدیم ہو تو اس پر ہر صورت عدم محال ہوگا (چاہے یہ قدم بالذات ہو یا بالغیر) اور یہ اوپر بیان کردہ پہلے قضئے کے خلاف ہے۔ اگر وہ حادث ہے تو دو میں سے کسی ایک حال سے خالی نہ ہوگا:

الف) حوادث کی یہ سیریز لامتناہی ہے، یعنی ایک سے پہلے دوسرا اور اس سے پہلے تیسرا حادث اس طرح رونما ہوتا رہا کہ اس سلسلے کا کوئی آغاز نہیں۔ اسے حوادث لا اول لھا کہتے ہیں جو عالم کو قدیم ماننے ہی کی ایک صورت ہے

ب) عالم کے اندر ہوئے ان واقعات کی سیریز لامتناہی نہیں بلکہ اس کا کسی نکتے سے آغاز ہوا جس سے پہلے کوئی حادث موجود نہ تھا، اسے حوادث لھا اول کہتے ہیں

اگر یہ ثابت ہوجائے کہ حوادث لا اول لھا محال ہے (یعنی ان واقعات کی سیریز لامتناہی نہیں ہوسکتی) تو اس سے خود بخود یہ لازم آیا کہ ہر وہ شے جس پر اس علت یا وصف (یعنی کون لاحق ہونے) کا اطلاق ہو اس پر لازما یہ حکم بھی جاری ہوگا کہ وہ حادث (مسبوق بالعدم) ہے۔ اور چونکہ یہ وجہ پورے عالم پر جاری ہے لہذا اس سے ثابت ہونے والا نتیجہ اس پورے عالم کے بارے میں درست ہے۔ گویا عموم حکم کی وجہ عموم علت ہے۔ لہذا اس تقریر پر یہ اعتراض نہیں کیا جاسکتا کہ جب ہم نے عالم کے سب اجسام کا مشاہدہ ہی نہیں کیا تو ہمیں کیسے معلوم ہوا کہ سب حادث ہیں۔

6۔ حوادث لا اول لھا کو ماننے سے تضادات جنم لیتے ہیں اور جو بات تضاد کو لازم کرے اسے نہیں مانا جاسکتا۔ حوادث لا اول لھا یا قدیم عالم کا مطلب یہ ہے کہ اب تک لامتناہی حوادثات وقوع پزیر ہوچکے ہیں، امام غزالی اس سے برآمد ہونے والے تین تضادات بیان کرتے ہیں:

الف) قابل تقسیم لامتناہی

ماہرین طبعیات کا کہنا ہے کہ ہر سیارہ اپنے مدار میں چکر لگا رہا ہے جو ایک خاص دورانئے میں مکمل ہوجاتا ہے، مسلم فلاسفہ کا بھی یہی نظریہ تھا۔ مثلا زمین (“سیارہ الف” ) پر گزرنے والے وقت کے لحاظ سے زمین سورج کے گرد ایک سال میں اپنے مدار پر گھومتی ہے جبکہ ایک اور “سیارہ ب ” مثلا دو سال کی مدت میں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ب کا ایک چکر الف کے چکر سے زمانی لحاظ سے دو گنا طویل ہے۔ فلاسفہ کا ماننا تھا کہ اوپری افلاک کے سب سیارے ازل سے یونہی گھوم رہے ہیں، لہذا کائنات کے قدیم ہونے کا مطلب یہ ماننا ہے کہ اب تک سب سیارے لامتناہی چکر مکمل کرچکے ہیں۔ چنانچہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ب نے اب تک “لامتناہی” چکر مکمل کئے ہیں تو الف نے “دو گنا لامتناہی” مکمل کئے ہیں۔ لیکن یہ ایک لغو بات ہے کیونکہ لامتناہی قابل تقسیم نہیں ہوتا۔ اس کی مثال یوں بھی ہے کہ طوفان نوح کے زمانے تک جتنے حوادث گزرے وہ اب تک گزر چکنے والے حوادث سے کم تھے۔ لیکن دنوں اوقات تک گزرچکنے والے حوادث کی تعداد لامتناہی بھی ہے کہ اس سیریز کا کوئی آغاز نہیں۔ گویا دونوں واقعات کی سیریز (ازل سے طوفان نوح تک اور ازل سے اب تک) کم زیادہ بھی ہے اور لامتناہی بھی۔ یہ تضاد اس لئے جنم لے رہا ہے کیونکہ کائنات کو قدیم فرض کیا جارہا ہے۔

ب) مختلف اعداد پر محیط لامتناہی سلسلہ

اسی بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے امام صاحب کہتے ہیں کہ کسی سیارے کے اب تک مکمل شدہ چکروں کی تعداد کے چار ہی امکان ہیں اور چاروں غلط ہیں:

1) وہ عدد ایک جفت عدد (even number) ہوگا

2) یا وہ طاق عدد (odd number) ہوگا

3) یا دونوں ہوگا

4) اور یا دونوں نہیں ہوگا (یعنی نہ جفت نہ طاق)

تیسرا اور چوتھا امکان بداہتاً غلط ہیں۔ اگر پہلے امکان کی رو سے وہ عدد جفت ہے تو ایک مزید چکر کے بعد وہ طاق ہوجائے گا جس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ طاق ہونے سے ایک کم ہے اور اس اضافے کے بعد اپنے سے بڑے نمبر کے مساوی ہوجائے گا۔ یہی حال دوسری صورت حال کا ہے اور یہ دونوں لغو ہیں کیونکہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو شے لامتناہی ہو اس میں ایک نمبر کے اضافے اور کمی سے اپنے سے بڑے یا چھوٹے کے مساوی ہونے کا کیا مطلب؟

ج) عبور ہوجانے والا لامتناہی

تیسری وجہ امام غزالی یہ بیان کرتے ہیں کہ لامتناہی کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اسے عبور کرسکنا ممکن نہیں، اور جو عبور ہوکر مکمل ہوجائے وہ لامتناہی نہیں۔ اس کی مثال ہم یوں سمجھ سکتے ہیں کہ اگر ہم کسی ایسی نہر کے کنارے خاص مقام پر کھڑے ہوں جس میں پانی کسی لامتناہی دور مقام سے بہہ کر ہماری جانب آتا ہو تو وہ پانی کبھی ہم تک پہنچ نہیں سکتا۔ اسے سمجھنے کے لئے فرض کریں اس نہر کا کوئی نکتہ آغاز ہے جو ہم سے مثلا دو سو چالیس کلو میٹر دور ہے اور پانی ایک خاص رفتار (مثلا دس کلو میٹر فی گھنٹہ) سے مسلسل بہتا ہوا ایک دن (چوبیس گھنٹے) میں ہم تک پہنچ گیا۔ گویا اس پانی نے “متناہی فاصلے” کو چوبیس گھنٹے میں عبور کرلیا۔ اگر اس نہر کا نکتہ آغاز مثلا دو سو پچاس کلو میٹر دور ہو تو اسے کسی خاص لمحے میں ہم تک پہنچنے کے لئے ایک دن اور ایک گھنٹہ (پچیس گھنٹے کا وقت) درکار ہوگا۔ یعنی اگر نہر کے نکتہ آغاز کو دو سو چالیس سے تھوڑا پیچھے دھکیل دیا جائے تو اس کا پانی چوبیس گھنٹے بعد لمحہ حال میں ہم تک نہیں پہنچ سکے گا۔ اب اگر ہم اس نہر کے نکتہ آغاز کو مسلسل پیچھے دھکیلتے چلے جائیں یہاں تک کہ اس کا آغاز کسی لامتناہی مقام (یعنی ایسا مقام جسکی کوئی ابتدا نہیں) سے آرہا ہے تو اس کے پانی کا کسی بھی لمحے پر ہم تک پہنچنا محال ہوگاچاہے وہ کتنی ہی رفتار سے سفر کرے، کیونکہ جس بھی لمحے پر اس کا پہنچنا فرض کیا جائے اس لامتناہی نہر کے نکتہ آغاز کو اس کے ابتدائی مقام سے تھوڑا مزید پیچھے فرض کرنا ممکن ہے اور یوں اس کا پانی کبھی اس لامتناہی فاصلے کو عبور نہیں کرپائے گا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر عالم کے اندر ماضی میں رونما ہوئے حوادثات کی تعداد لامتناہی ہے تو زمانہ حال کا وجود ممکن نہیں کیونکہ اس کے لئے لامتناہی کا عبور ہونا ضروری ہے جو ممکن نہیں۔

بعض متکلمین اس پر دیگر وجوہات کا اضافہ بھی کرتے ہیں، مثلاً:

د) ازلی وجود مسبوق بالغیر نہیں ہوسکتا

حوادث لا اول لھا کا مطلب حوادث کی سیریز کا آغاز نہ ہونا یعنی ازل سے اس کا جاری ہونا ہے۔ ازل کا تصور مسبوقیت کو قبول نہیں کرتا جبکہ حدوث کا مطلب ہی مسبوقیت ہے، چاہے کسی دوسرے وجود کے اعتبار ہی سے کیوں نہ ہو۔ تو ازل میں شے کا حدوث متضاد تصور ہے۔ جس وجود سے قبل ایک اور وجود ہو وہ ازلی نہیں ہوسکتا اور اگر اس سے قبل کوئی وجود نہیں تو اسی کو حوادث لھا اول (یعنی پہلا حادث ہونا) کہتے ہیں۔ اس نوع کی دیگر وجوھات کتب کلام میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔

یہ نتائج اس بات کی دلیل ہیں کہ ماضی کے لامتناہی حوادث کی سیریز ممکن نہیں، بصورت دیگر متنوع تضادات کو ماننا لازم آتا ہے۔ چنانچہ قدم عالم سے محال امور لازم آتے ہیں اور جو شے محال کو لازم کرے وہ باطل ہوتی ہے۔ لہذا قدم عالم باطل ہے۔ ثابت ہوا کہ عالم حادث ہے۔

– خلاصہ بحث

اگر درج بالا بات عام الفاظ میں کہی جائے تو خلاصہ یہ ہے کہ:

• حسی مشاہدے سے ثابت ہے کہ خارج میں اشیا موجود ہیں جو تبدیلی (ایک کے بعد دوسرے حال) سے دو چار ہیں

• اگر عالم قدیم ہے تو واقعات کی یہ تعداد لامتناہی ہے

• لیکن لامتناہی واقعات سے تضاد لازم آتا ہے

• ماننا ہوگا کہ عالم قدیم نہیں بلکہ اس کا کوئی نکتہ آغاز ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ حادث ہے، یعنی معدوم تھا اور پھر موجود ہوا۔

مزید آسان الفاظ میں بات یوں ہے کہ جو موجود زمان و مکان سے متعلق ہے اس کا قدیم ہونا محال ہے۔ اس بحث سے معلوم ہوا کہ کانٹ کا سارا فلسفہ دراصل اس وجود سے متعلق ہے جسے حادث کہتے ہیں۔ اب بھلا یہ بھی کوئی بات ہے کہ حادث تو خارج میں موجود ہو لیکن محدث موجود ہونے و نہ ہونے کا ہمیں علم نہ ہو بلکہ وہ نرا امکان ہو؟ حاشا و کلا۔

متکلمین حدوث عالم کی اس دلیل کو یوں بیان کرتے ہیں کہ:

1) الجسم لا یخلوا عن الحوادث (جسم محل حوادث ہے)

2) مالا یخلوا عن الحوادث فھو حادث (جو محل حوادث ہو وہ حادث ہوتا ہے)

امام رازی نے حدوث عالم کی اس دلیل کو منظم انداز میں یوں پیش کیا ہے:

الف) جسم “اکوان” (کون کی جمع) سے خالی نہیں ہوسکتا

ب) “کون” حادث ہوتا ہے

ج) لہذا جسم حادث ہوتا ہے

قضیہ (ب) پھر دو قضایا پر مبنی ہے:

1) ہر کون پر عدم جائز ہے

2) جس شے پر عدم جائز ہو اس کا قدیم ہونا محال ہے

3) لہذا جس شے کو کون لاحق ہو اس کا قدیم ہونا محال ہے یعنی وہ حادث ہے۔

اگر کسی کو ان قضایا پر کوئی شبہ پیش کرنے کا ذوق ہو تو ایسا ذوق پورا کرنے سے قبل وہ امام رازی کی کتاب “نھایۃ العقول” کا متعلقہ باب ضرور ملاحظہ کرلے جہاں آپ نے 60 سے زیادہ صفحات صرف اس دلیل پر مختلف طرح کے دو درجن سے زائد اعتراضات بیان کرنے پر صرف کئے ہیں اور پھر ان پر جوابی بحث کی ہے۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں