اس پر ہم پہلے بھی روشنی ڈال چکے ہیں، مزید وضاحت کی کوشش کرتے ہیں۔ محترم غامدی صاحب کا فرمایا ہے کہ تبیین کا مطلب کلام کے اس فحوی کو بیان کرنا ہے جو ابتدا ہی سے کلام میں موجود ہو۔ کلام کے وجود میں آجانے کے بعد کیا جانے والا کسی بھی قسم کا تغیر تبیین نہیں کہلا سکتا۔
ابتدا ہی سے کسی سوال کے کلام میں موجود ہونے یا نہ ہونے کا کیا پیمانہ ہے، مکتب فراہی اس پر کوئی واضح راھنمائی فراہم نہیں کرتا اور اس کی وجہ ان کے ہاں کوئی واضح لینگویج تھیوری نہ ہونا ہے کیونکہ نہ یہ حضرات یہ بتاتے ہیں کہ لفظ کی معنی پر دلالت کے طرق کیا ہیں نیز باہمی اختلاف کی صورت کب کسے کس پر ترجیح ہوگی۔ خیر فی الوقت اس پہلو سے صرف نظر کیجئے۔
ہمارے نزدیک درج بالا اصول ایک مبہم اصول ہے۔ دو ہی باتیں ہیں: یا تو ابتدائے کلام میں مذکور لفظ سے ایک حکم ثابت ہوا یا نہیں ہوا۔
(1) اگر نہیں ہوا بلکہ کسی اضافی کلام یا قرینے کے ذریعے وضاحت کا محتاج ہے تو ایسی وضاحت یا بیان کو اصطلاحاً “بیان تفسیر” کہتے ہیں اور جب تک یہ وجہ ترجیح نہ آجائے حکم کی تکلیف بندے پر لازم نہیں آتی۔ اس قسم کا بیان تین صورتوں سے پیدا ہوتا ہے:
الف) متعلقہ لفظ متکلم کی خاص اصطلاح ہو جسے اس کے مزید کلام کے بغیر سمجھا نہ جاسکے (حنفی اصطلاح میں اسے “مجمل” کہتے ہیں، اس کی مثال مثلا صلوۃ ہے یا حج یا زکوۃ وغیرہ)
ب) لفظ مشترک یا مجازی معنی کا حامل ہو اور جب تک وجہ ترجیح نہ آجائے بات واضح نہ ہوسکے
ج) تیسری کو دلالت التزامی کہتے ہیں، فی الوقت اس سے سہو نظر کیجئے
(الف) اور (ب) میں مشترک بات یہ ہے کہ حکم اس وقت تک ثابت ہی نہیں ہوتا جب تک بیان کی صورت وجہ ترجیح یا وضاحت نہ آجائے (چاہے مزید کلام کی صورت ہو یا کسی لغوی قرینے کی بنیاد پر)۔ یہ وہ صورتیں ہیں جنہیں یوں کہا جاتا ہے کہ کلام میں ابتداء ہی سے ایسا سوال یا مشکل درپیش ہوتی ہے جو جواب کا متقاضی ہوتی ہے اور اسی لئے جواب آنے تک بندے پر حکم ثابت نہیں ہوتا۔ لہذا بیان تفسیر میں تغییر و تبدیل (یعنی تخصیص، تقیید، اضافہ و نسخ) کی صورت پیدا نہیں ہوتی۔
(2) دوسری صورت (یعنی جب لفظ سے ایک ابتدائی حکم ثابت ہوچکا ہو) میں جو بیان لایا جاتا ہے وہ ایک ثابت شدہ حکم کو یا کلی طور پر اٹھا لیتا ہے اور یا جزوی طور پر اس میں کمی و اضافہ کرتا ہے۔ حنفی اصطلاح میں اسے “بیان تبدیل” کہتے ہیں یعنی نسخ (جمہور کے نزدیک ایسی جزوی کمی بیشی تخصیص کہلاتی ہے)۔ اس صورت میں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ابتدائے کلام میں کوئی سوال پیدا ہوا یا نہیں کیونکہ یہ سوال دو میں سے کسی ایک حال سے خالی نہ ہوگا:
– وہ سوال اس نوعیت کا تھا جو اس بات کے بیان کا متقاضی تھا کہ حکم بعض افراد پر لاگو نہیں لیکن ان بعض افراد پر یہ واضح نہ تھا۔ یہ پہلی صورت ہے جسے اوپر بیان کردیا گیا۔
– وہ سوال اس نوعیت کا تھا جو بعض افراد پر حکم ثابت ہوچکنے کے بعد ان سے اس حکم کو زائل کرنے یا بڑھانے سے متعلق تھا۔ یہ دوسری صورت ہے۔ غامدی صاحب کی پوری کوشش کے بعد بقرۃ کے واقعے میں دئیے گئے حکم کی تبیین میں یہی نوعیت بن رہی ہے۔
الغرض ابتدائے کلام میں سوال مضمر تھا یا نہیں، یہ اس بحث سے غیر متعلق بات ہے کہ اسے بیان تغییر و تبدیل کہا جائے یا نہ کہا جائے۔ غامدیصاحب کے اصول کے مطابق بیان و تبیین صرف پہلی صورت میں بند ہونا چاھئے لیکن یہ دوسری صورت کو بھی تبیین ہی بنا لیتے ہیں۔ چنانچہ غامدی صاحب اور ان کے متبعین کی جانب سے ایک طرف درج بالا دوسری صورت کو تبیین کہتے رہنا اور دوسری جانب اصولیین پر چڑھائی کرتے ہوئے تبیین و بیان کو ترمیم، تغییر و نسخ سے الگ کہتے رہنا خلط مبحث پیدا کرنے کے سوا کچھ نہیں کیونکہ ایک سانس میں یہ جسے تبیین مان لیتے ہیں دوسرے سانس میں اس کا انکار کردیتے ہیں۔ یہ خلط مبحث ہمیں کسی صورت محترم برادر عمار خان ناصر صاحب کی کتاب “قرآن و سنت کا باہمی تعلق” میں بھی نظر آیا جہاں وہ ان الفاظ کو روانی کے ساتھ گویا ایک دوسرے کے مد مقابل فرض کرکے لکھتے رہے ہیں اور شافعی و حنفی نظاموں کا تقابل کرتے ہوئے یہ تاثر بھی پیدا کرتے ہیں گویا پیچھے سے چلی آنے والی بحث اسی نوعیت کی تھی۔
کمنت کیجے