ایک تحریر میں بتایا گیا کہ صوفیا کے ہاں مراتب وجود چھ تنزلات یا درجات پر ہیں (لاتعین، وحدت، واحدیت، عالم ارواح، عالم مثال اور عالم ناسوت)، ہر نچلا درجہ اوپری درجے سے کم حقیقی یا زیادہ اعتباری ہے۔ زمان و مکان سے متعلق عالم ناسوت جس میں ہم موجود ہیں سب سے آخری مرتبہ وجود ہے جو از روئے نصوص فنا ہوجائے گا۔ پھر امور عالم ارواح کی جانب لوٹ جائیں گے جو مراتب وجود میں اس عالم ناسوت سے زیادہ حقیقی ہے۔ یعنی اس عالم ناسوت کی کیفیات عالم ارواح میں زیادہ حقیقی صورت میں موجود ہیں۔ جو کچھ عالم ناسوت میں جسم پر وارد ہوسکتا ہے وہ عالم ارواح میں زیادہ شدت کے ساتھ وارد ہوسکتا ہے، مثلاً یہاں کسی کی زبان کٹ جائے تو واپس نہیں آتی لیکن وھاں آجائے گی (قرآن مجید میں آیا کہ جہنمیوں کی جلد جل جانے کے بعد بدل دی جائے گی وغیرہ)۔ صوفیا اپنی اصطلاح میں مقام کا لفظ عالم ناسوت کے لئے بولتے ہیں اور عالم ارواح کو احوال کہتے ہیں۔ اس لئے ان کے ہاں یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ جنت و دوزخ احوال ہیں نہ کہ مقام۔ حال کی اصطلاح اختیار کرنے کی وجہ یہ ہے کہ انسان پر غلبہ احوال کی کیفیات کو عام جسمانی کیفیات سے زیادہ مؤثر مانا جاتا ہے۔
صوفیا کا کلام سمجھنے میں غلط فہمی کی وجہ دراصل جسم و روح کے دو تصورات میں فرق نہ کرنا ہے۔ ایک تصور فلاسفہ کا ہے جو جسم اور روح میں دوئی کے قائل ہیں۔ دوسرا تصور صوفیا کا ہے جو جسم اور روح دونوں کو مراتب وجود میں ایک مرتبہ کہتے ہیں جن میں دوئی نہیں ہے بلکہ اجسام کے حقائق عالم مثال و ارواح سے ہوتے ہوئے مرتبہ واحدیت میں اعیان ثابتہ ہیں۔ اعیان ثابتہ درحقیقت اصل اور زیادہ حقیقی اور عالم ناسوت کے اجسام ان کی نقل اور اعتباری ہیں، یہ اجسام اپنے سے ماقبل ان حقائق کے مظاہر ہیں۔ چنانچہ جب پہلے معنی میں جنت و دوزخ کے مقام نہ ہونے کا قول کہا جاتا ہے تو اس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ جنت دوزخ موھومی چیزیں ہیں نہ کہ حقیقی۔ صوفیا کے ہاں چونکہ عالم ارواح زیادہ حقیقی و ٹھوس مرتبہ وجود ہے، اس لئے ان کے ہاں یہ مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔
صوفی فکر کے مطابق مراتب وجود میں کسی ایک درجے میں شے کی حقیقت اور دوسرے درجے میں اس کی نمائندگی یا مظہر صورتاً مختلف ہوسکتے ہیں۔ اس کی مثالوں میں شیخ ابن عربی احادیث میں مذکور یہ امور پیش کرتے ہیں :
الف) آپﷺ نے فرمایا کہ میرے حجرے اور ممبر کا درمیانی حصہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے
ب) ایک حدیث میں قبر کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ اور جہنم کے گھڑوں میں سے ایک گھڑا قرار دیا گیا ہے
ج) اسی طرح حدیث میں دریائے نیل اور فرات کو جنت کی نہریں بتایا گیا ہے
ان امور سے شیخ ابن عربی یہ استدلال کرتے ہیں کہ ایک شے ایک عالم میں کسی دوسرے عالم کی شے کا مظہر بننے کا ذریعہ بن سکتی ہے جیسے آپﷺ کے ممبر اور حجرے کا درمیانی حصہ اس دنیا میں اخروی جنت کے باغ کا مظہر ہے اگرچہ ظاہری صورت میں یہ زمین کے قطعوں جیسا ہی ایک قطعہ ہے لیکن اپنی حقیقت میں وہ کچھ اور ہے۔ حقائق ایک مرتبہ وجود سے دوسرے میں تحول کرتے ہیں، تاہم عالم ناسوت کے اندر جس صورت میں وہ ظاہر ہوتے ہیں وہ صورتیں دوسرے عالم میں ان کے حقائق سے مختلف ہوتی ہیں اور اسی بنا پر ایک شخص اپنے اچھے اعمال کو دوسرے عالم میں عمدہ اشیا کی صورت جبکہ برے اعمال کو مثلاً سانپ بچھو کی صورت دیکھ سکتا ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دھلوی نے متعدد احادیث سے استدلال کرتے ہوئے عالم مثال و ارواح کے امور کو بیان کیا ہے۔ مثلا قیامت کے احوال میں آتا ہے کہ اعمال اللہ کے حضور پیش ہوکر بندے کی سفارش کریں گے، موت کو مینڈھے کی صورت لاکر ذبح کیا جائے گا، آپﷺ نے قبلے کی دیوار کے رخ جنت و دوزخ کو ملاحظہ کیا اور آپ نے پھلوں کا خوشہ لینے کو ہاتھ بڑھایا تو جہنم کی آگ کی تپش کو محسوس فرمایا۔ الغرض نصوص میں ایسے کئی امور بیان ہوئے ہیں۔
اس اصول پر صوفیا کے ہاں کہا جاتا ہے کہ جنت و دوزخ بطور احوال، نہ کہ بطور اخروی صورت، اس دنیا میں بھی جاری ہیں البتہ وہ معنی و احوال یہاں مختلف صورت میں ظاہر ہونے کی بنا پر سالک کو اس کا علم نہیں ہوپاتا۔ جسے آخرت کہتے ہیں تو وہ مراتب کے مابین حائل برزخ کے پردوں کے اٹھ جانے اور حقائق کے کشف سے عبارت ہے اور اشیا اپنی اصل حقیقتوں کے ساتھ ظاہر ہوجائیں گی اور لوگ اپنے اعمال کو ان کی حقیقی صورتوں میں دیکھ لیں گے۔ اسی بنا پر صوفیا سالک کی تربیت کے لئے یہ مراقبہ کراتے ہیں کہ جہنم صرف عقوبت خانہ نہیں ہے بلکہ وہ دل میں بھی موجود ہے اور جنت صرف کوئی باغ نہیں ہے بلکہ دل میں موجود ہے جیسے صبر و شکر سے دل مطمئن اور برائی سے بے چین و مضطرب ہوجاتا ہے۔ چنانچہ وہ اس احساس و حال کو بڑھانے کی تربیت کراتے ہیں یہاں تک کہ جنت سے انس اور دوزخ سے وحشت محسوس ہونا معقول و مشہود ہو جائے۔ تاہم یہ مراقبہ و تربیت کی چیزیں ہیں نہ کہ عقائد کی۔
واللہ اعلم
کمنت کیجے