ہجرت حبشہ سیرت مقدسہ کا ایک اہم واقعہ ہے۔ جس کا تقریباً ہر کتاب جو سیرت سے متعلق ہو میں ذکر ہوتا ہے۔ لیکن بالعموم اس واقعے کا کبھی گہرائی سے مطالعہ نہیں کیا گیا۔ اس کی وجوہات اور دیگر پہلوؤں پر سیرت کے لٹریچر میں کم لکھا گیا۔ اس کمی کو جناب عبد الستار خان صاحب نے پورا کیا ہے۔ عبد الستار خان صاحب کا تعارف معلوم نہیں ، نہ ہی کتاب میں اس بارے میں زیادہ معلومات ہیں۔ صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ عبد الستار خان صاحب جدہ میں مقیم ہیں اور اس کتاب کو مظفر اعجاز صاحب نے پاکستان میں متعارف کروایا ہے۔ اس کو نیشنل بک فاؤنڈیشن اسلام آباد نے شائع کیا ہے۔
مصنف نے بتایا کہ جدہ قیام کے دوران ان کے بلاک سے متصل بلاک میں حبشی بڑی تعداد میں آباد تھے اور اس کو حارۃ الحبوش یعنی کہ حبشیوں کا محلہ کہا جاتا ہے۔ وہاں عبد الستار صاحب کی حبشیوں سے ملاقاتیں ہوئیں جو دوستی میں بدل گئیں۔ حبشی لوگوں سے ان ملاقاتوں کے دوران ان لوگوں نے بتایا کہ ہم لوگوں کے آباؤ اجداد نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مہمان نوازی کی۔ وہ تقریباً پندرہ سال تک ہمارے مہمان رہے مگر ہماری اس خدمت کا کبھی بھی تفصیل سے ذکر نہیں کیاگیا۔ اس کے بعد ہی مصنف کی ملاقات حبشی اہل علم سے ہوئی تو یہ ہی شکایت وہاں سے بھی سننے کو ملی۔ کہا گیا کہ اگر یہ ہجرت حبشہ کی بجائے یمن یا عراق ہوتی تو مورخین اور سیرت نگاروں نے کئی کئی صفحات پر اس کی تفصیلات لکھی ہوتیں۔ یہاں سے مصنف کو اس موضوع پر لکھنے کا خیال آیا اور انہوں نے جب اس پر لکھنا شروع کیا تو انہوں نے اعتراف کیا کہ اس موضوع کے بارے میں کافی بے اعتنائی برتی گئی ہے۔ لہٰذا ان کی یہ تحقیق ایک ادائیگی قرض بھی ہے۔ مصنف نے اس خلا کو پر کیا ہے جو کے چودہ صدیوں سے قائم تھا۔ یہ تحریر سیرت کے لٹریچر میں ایک نئی جہت کی طرف بھی راہنمائی کرتی ہے۔
مصنف نے سب سے پہلے اس بات پر بحث کی ہے کہ اس ہجرت کا مقصد کیا تھا؟ ہمارے ہاں عمومی طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ مہاجرین حبشہ کفار کے مظالم سے تنگ ہو کر اپنی جان بچانے کے لیے حبشہ گئے۔ مصنف کہتے ہیں کہ یہ بات مکمل درست نہیں ہے. مصنف کہتے ہیں کہ اسلام میں دین کی حفاظت جان کی حفاظت سے بڑھ کر ہے۔ دوسرا اگر یہ ہجرت محض جان کی حفاظت کے لیے تھی تو کیا وجہ ہے کہ ہجرت مدینہ کے بعد ان مہاجرین حبشہ کو واپس نہیں بلایا گیا حالانکہ بدر اور احد وغیرہ میں مجا ہدین کی ضرورت بھی تھی۔ مہاجرین حبشہ کی مکمل واپسی غزوہ خیبر کے بعد ہوئی۔ مصنف کہتے ہیں کہ یہ مہاجرین حبشہ اپنی مرضی سے گئے تھے نہ ہی اپنی مرضی سے واپس آئے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مقصد اور حکمت عملی کے تحت ان کو حبشہ بھیجا تھا۔ دراصل یہ ایک اور اسٹرٹیجک مرکز کا قیام تھا جہاں سے اللہ تعالیٰ کے دین کا پیغام دنیا کو دیا جائے۔ یہ دعوت اسلام کو پھیلانے کی ایک حکمت عملی تھی اگر خدا نخواستہ مکہ مکرمہ میں کفا ر غالب آ جاتے ہیں تو اسلام کی تعلیمات کے ابلاغ کے لیے ایک اور مرکز موجود ہو۔ اپنے اس نظریے کی تائید میں مصنف نے ایک اہم نکتہ کی طرف نشاندھی کی ہے کہ اولین مہاجرین جن کی تعداد پندرہ یا اٹھارہ بنتی ہے اور مصنف نے ان کے اسماء گرامی بھی ذکر کیے ہیں میں قریش کے اشراف تھے۔ ان میں کوئی بھی غلام نہیں تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ یقینی تھا کہ قریش ان مہاجرین کا تعاقب ضرور کریں گے، بالفرض وہ کامیاب بھی ہو جائیں تو وہ زیادہ سے زیادہ انہیں مکہ مکرمہ واپس لے آئیں گے کیونکہ یہ سب مہاجرین اشراف تھے اور ان کے پیچھے ان کے قبیلے کی حمایت تھی، کفار ان کو قتل کرنے والا رسک نہیں لے سکتے تھے۔ جبکہ اس کے برعکس اگر یہ غلام ہوتے تو کفار قتل کرنے میں بھی کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہ کرتے۔ اس لیے اس ہجرت کے لیے اشراف کا انتخاب ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت تھا۔ دوسرا دعوت کے نکتہ نظر سے بھی یہ بات اہمیت کی حامل تھی کہ اشراف کی بات زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ حبشہ میں اگر اشراف مکہ اسلام کی دعوت پیش کرتے تو یہ زیادہ موثر ہوتی۔
مصنف نے یہ بھی بتایا ہے کہ حبشہ اور مکہ ایک دوسرے کے لیے اجنبی نہیں تھی بلکہ ان کے قدیم تجارتی روابط تھے اور سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جد جناب ہاشم نے اپنے بھائی جناب عبد شمس کو حبشہ بھیجا تاکہ وہ مکہ مکرمہ کے لیے محفوظ تجارتی راہداری کے حوالے سے بات کر سکیں۔ اس محفوظ تجارتی راہداری کے لیے انہوں نے اپنے دوسرے بھائی نوفل کو عراق اور خود شام کا سفر کیا۔
مصنف نے ایک اور سوال پر بھی بحث کی ہے کہ ہجرت کے لیے حبشہ کا انتخاب کیوں کیا گیا اور بھی متعدد علاقوں میں صحابہ کو بھیجا جا سکتا تھا جیسے طائف کا علاقہ تھا جہاں مختلف قبائل آباد تھے، مدینہ بھی ہو سکتا تھا۔ عراق ، یمن، شام اور مصر بھی بھیجا جا سکتا ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ ان سب جگہ کو چھوڑ کر حبشہ کا انتخاب کیا گیا جو کہ دور بھی تھا اور وہاں کی زبان بھی عربی تھی۔ اس کے برعکس یہ علاقے قریب بھی تھے اور کسی بھی وقت مہاجرین کو واپس بلایا جا سکتا تھا۔مصنف نے ہر علاقے کا جائزہ لیا ہے۔ جیسے کہ طائف یا مدینہ میں اس وقت مشرکین آباد تھے۔ جبکہ یمن اور عراق ایرانیوں کے ماتحت تھے۔ دوسری جانب مصر اور شام قیصر روم کے ماتحت تھے۔ اس لیے کسی بھی علاقے میں بھیجنا خطرے سے خالی نہیں تھا۔ حبشہ کا دور ہونا جہاں ایک کمزور پہلو تھا تو یہی اس کا مضبوط پہلو بھی تھا کہ وہاں تک مشرکین مکہ کی رسائی مشکل ہوتی جبکہ حبشہ نا تو ساسانی سلطنت کے ماتحت نہ ہی رومیوں کے ماتحت یہ آزاد اور خودمختار ملک تھا۔ مذہبی لحاظ سے حبشہ اسکندریہ کے کلیسا کے ماتحت تھا مگر سیاسی لحاظ سے یہ آزاد تھا۔ حبشہ جہاں آزاد و خودمختار تھا تو اس کا حکمران بھی عادل اور انصاف پسند تھا۔ اس کے ساتھ حبشہ ایک پر امن علاقہ بھی تھا ساتھ ہی یہ معاشی لحاظ سے بھی کافی مضبوط تھا۔ حبشہ کے انتخاب میں یہ سب پہلو مدنظر رکھے گئے ہوں گے اس لیے قریب کے علاقوں کو چھوڑ کر حبشہ کا انتخاب کیا گیا۔ دیکھا جائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حبشہ کا انتخاب کر کے دور اندیشی اور بصیرت کا ثبوت دیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے آس پاس کے علاقوں اور ان کے حالات سے پوری طرح باخبر رکھا ہوا تھا۔ اس انتخاب سے سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت اور بلند نگاہی کا ثبوت بھی ملتا ہے۔
حبشہ کے حالات کو جاننے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اور بھی ذرائع جن سے معلومات حاصل کی گئی ہوں گی۔ ان پر مصنف نے تین ذرائع کا ذکر کیا ہے۔ پہلا حبشی غلام ، دوسرے حبشہ سے آنے والے تجارتی قافلے اور اہل کتاب کے وفود جن کا عرب آنا جانا تھا جبکہ تیسرا ذریعہ سیدہ ام ایمن رضی اللہ عنہا تھیں جو کہ حبشہ سے تعلق رکھتی تھیں اور سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بہت قریب بھی تھیں۔ یہ ایک اہم ذریعہ ہے جس کی مصنف نے نشاندھی کی ہے۔ سیدہ ام ایمن رضی اللہ عنہا کے احوال پر بھی مصنف نے مختصر کلام کیا ہے اور بتایا ہے کہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ان کی زیارت کے لئے آیا کرتے تھے۔ سیدہ ام ایمن رضی اللہ عنہا کے احوال پر ڈاکٹر یسین مظہر صدیقی صاحب نے ایک مقالہ بھی لکھا ہے جس میں آپ رضی اللہ عنہا کے حالت زندگی اور سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آپ کے ساتھ قریبی تعلق کے بارے میں مزید معلومات مل سکتی ہیں۔
حبشہ کی طرف دو ہجرتیں ہوئیں ، پہلی میں پندرہ یا سترہ نفوس قدسیہ تھیں۔ جن میں سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اور ان کی زوجہ سیدہ رقیہ بنت رسول اللہ رضی اللہ عنہا ، سیدنا زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ، سیدنا عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ، سیّدنا معصب بن عمیر رضی اللہ عنہ ،سیدنا ابو حذیفہ بن عتبہ رضی اللہ عنہ ، سیدنا ابو سلمہ رضی اللہ عنہ اور ان کی زوجہ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا جو بعد میں ام المومنین بنیں شامل ہیں۔ پہلے قافلے کا امیر سیدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کو بنایا گیا۔ یہ قافلہ ابھی حبشہ پہنچا ہی تھا کہ مکہ میں تین اہم اور غیر معمولی واقعات پیش آئے۔ پہلا سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کا اسلام قبول کرنا پھر اس کے بعد سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا اسلام قبول کرنا جس نے کفا ر مکہ کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام سے مسلمانوں نے اپنی عبادات اعلانیہ کرنی شروع کی۔تیسرا اہم واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زبان اقدس سے مجمع عام کے سامنے سورہ النجم کی جس سے کفار پر ایسا رعب طاری ہوا کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ سجدہ میں گر گئے۔ مہاجرین حبشہ تک یہ خبر پہنچی کہ تمام اہل مکہ مسلمان ہو گئے ہیں۔ اس پر مہاجرین حبشہ نے اپنا قیام ترک کر کے مکہ مکرمہ واپس جانے کا فیصلہ کیا۔ ان میں سے کچھ لوگ واپس آ گئے جب یہ لوگ مکہ مکرمہ کے قریب پہنچے تو ان کو معلوم ہوا کہ اہل مکہ کے ایمان لانے کی خبر جھوٹ تھی۔ اب یہ لوگ واپس بھی نہیں جا سکتے تو ان لوگوں نے سرداران قریش کی پناہ لی۔ سیّدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ نے ولید بن مغیرہ کی پناہ لی مگر جلد ہی امان واپس لے لی تو ان کی ایک مجلس میں لبید شاعر کی ایک بات پر کفار سے بحث ہوئی تو کفار نے ان پر حملہ کیا اور ان کی ایک آنکھ زخمی ہو گئی تو ولید یہ سب دیکھ رہا تھا اس نے سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میری امان میں تم کو کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا تھا پھر کیوں واپس کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے ولید کو کہا کہ میری دوسری آنکھ بھی بے چین ہے کہ اس کو اللہ کی راہ میں زخمی کیا جائے ، میں نے تمہاری پناہ لوٹا کر اپنے آپ کو خدائے واحد کی پناہ میں دیا۔ سیدنا ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کو جناب ابو طالب نے امان دی اور کہا جاتا ہے کہ امان دینے کے بعد قریش نے اعتراض کیا تو ابو لہب نے اپنے بھائی کا ساتھ دیا کہ دستور کے مطابق اب یہ امان قائم رہے گی جس کی وجہ سے قریش کو پیچھے ہٹنا پڑا۔
کچھ عرصہ بعد دوسرا قافلہ حبشہ گیا جس میں مہاجرین کی تعداد سو کے قریب تھی اس میں غلام بھی شامل تھے اور ان پر سیدنا جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو امیر بنایا گیا۔ مصنف نے بیشتر مہاجرین کے اسماء گرامی لکھے ہیں۔ان میں سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا نام بھی لکھ دیا ہے جو کہ درست نہیں ہے کیونکہ اس وقت تک سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ مسلمان بھی نہیں ہوئے تھے اور پھر یہ ہی قریش کے نمائندے بن کر نجاشی کے دربار میں گئے تھے جیسا کہ اس واقعے کو تفصیل سے خود مصنف نے ذکر کیا ہے۔ لہٰذا یہ نام درست نہیں ہے۔دوسری ہجرت پہلی ہجرت سے زیادہ مشکل تھی، اس دفعہ مہاجرین کو مکہ سے نکلنے کے لیے مشقت اٹھانی پڑی۔ اس بار مشرکین نے رکاوٹیں کھڑی کیں کہ مسلمان ہجرت نہ کر سکیں۔ دوسری ہجرت کس سن میں ہوئی تو اس بارے کچھ سیرت نگار بعثت کے ساتویں اور کچھ نے نواں سال لکھا جبکہ چند نے معراج کے بعد ذکر کیا ہے۔ معراج کے بعد والی بات درست نہیں ، کیونکہ یہ عام الحزن کے بعد ہوئی اور شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب ابو طالب ہاشمی اپنے بیٹے سیدنا جعفر طیار رضی اللہ عنہ کو حبشہ تحائف بھیجا کرتے تھے اور زیادہ قوی بات یہی ہے کہ دوسری ہجرت چھٹے سال کے آخر یا ساتویں سال ہوئی تھی۔ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا جعفر طیار رضی اللہ عنہ کو خط دیا کہ اس کو نجاشی کو دینا اس میں ان کو دین حق کی دعوت اور مسلمانوں کی جماعت کا خیال رکھنے کو کہا گیا۔ سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ جو کہ یمن سے تعلق رکھتے تھے انہوں نے بھی ہجرت حبشہ کی مگر ان کی ہجرت اتفاقی تھی۔ ہجرت مدینہ کے بعد یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملنے کے لیے یمن سے روانہ ہوئے تو ان کی کشتی تیز ہوا سے بہک کر حبشہ جا پہنچی جہاں ان کی ملاقات سیدنا جعفر طیار رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ہوئی تو سیّدنا جعفر رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ انہیں سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہاں ٹھہرنے کا حکم دیا ہے تو سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بھی ان مہاجرین کے ساتھ ٹھہر گئے اور فتح خیبر کے بعد مدینہ منورہ پہنچے۔
مصنف نے اگلی بحث اس بات پر کی ہے کہ یہ ہجرت کس مقام پر ہوئی تھی۔ کیونکہ حبشہ ایک خطہ تھا۔ اب تین ممالک کا دعویٰ ہے کہ شرف میزبانی ان کی سرزمین کو حاصل رہا۔ اریٹیریا ، ایتھوپیا اور سوڈان۔ مصنف نے اس پر تحقیق کی ہے اور ایریٹیرین ، سوڈانی اور دیگر محققین کی تحقیقات پیش کی ہیں۔یہ تینوں ملک اس وقت کے حبشہ کا حصہ تھے۔ ایریٹریا اور ایتھوپیا ۱۹۹۱ تک ایک ملک تھا۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ یہ تین نہیں بلکہ دو آراء ہیں۔اس میں حتمی طور پر تو کسی جگہ کا تعین نہیں کیا جا سکتا لیکن زیادہ قوی بات یہی ہے کہ اس ہجرت کی منزل اریٹیریا یا ایتھوپیا تھی اور آج بھی ان ممالک میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے آثار پائے جاتے ہیں، دیگر تاریخی شواہد بھی اس کو تقویت دیتے ہیں۔ یہ مقدس قافلہ شعبیہ بندرگاہ سے روانہ ہوا اور اس کا رخ باضع بندرگاہ جس کو مصوع بھی کہا جاتا ہے تھی جو کہ حبشہ کی مشہور بندرگاہ تھی۔ اس بارے میں دوسری رائے ادولیس بندرگاہ کی بھی ہے یہ بھی حبشہ کی قدیم بندرگاہوں میں سے ہے جبکہ سوڈانی محققین کی رائے یہ ہے کہ یہ قافلہ سوڈان کے جزیرے الریح پر اترا اور پھر اس نے باضع کا سفر کیا۔ اس کے علاوہ سوڈانی محقق یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ یہ قافلہ سوڈانی بندرگاہ سواکن پر اترا تھا کیونکہ یہ بندرگاہ شعبیہ بندرگاہ سے سب سے زیادہ قریب تھا۔ اس میں مصنف نے تطبیق دی ہے کہ ممکن ہے کہ پہلی ہجرت باضع کی طرف ہو اور دوسری ادولیس بندرگاہ کی طرف اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس قافلے نے مشرقی سوڈان میں کچھ وقت قیام کیا ہو اور پھر یہ آگے تگرے کے علاقے میں گئے ہوں جو حبشہ کا مرکز تھا جہاں نجاشی مقیم تھے۔
ایک اور دلچسپ بات کہ اسلام کی اولین مسجد بھی مصوع کے مقام پر تعمیر ہوئی اور اس کے آثار آج بھی پائے جاتے ہیں یہ ایریٹریا میں مسجد صحابینا کے نام سے مشہور ہے۔ اس میں قبلے کا رُخ مسجدِ اقصیٰ کی طرف ہے کیونکہ تحویل قبلہ کے احکامات ہجرت مدینہ کے بعد آئے تھے اور جب ہجرت حبشہ ہوئی تو اس وقت قبلہ مسجد اقصیٰ ہی تھی۔ باضع کے رہائشیوں کا دعویٰ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے قدم رنجا فرمانے کے بعد مقامی لوگوں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔
مصنف نے یہ بھی بتایا ہے کہ درست لفظ نجاشی نہیں بلکہ نگاشی ہے۔ عربی میں گ کو ج پڑھا جاتا ہے اس لیے انہوں نے نگاشی کی بجائے نجاشی پڑھا۔ حبشہ کی زبان تگرے تھی اور وہاں کے حاکم کو نگاشی کہتے تھے۔ حبشہ کا درالحکومت اکسوم تھا جو آج بھی ایتھوپیا میں میں واقع ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن نگاشی کے پاس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پناہ لی وہ ایک صوبے کے نگاشی تھے یا پھر شہنشاہ حبشہ یعنی نگاشیوں کے نگاشی تھے۔ کیونکہ صوبے کے گورنر کو بھی وہ نگاشی کہا کرتے تھے۔ اس بارے میں بھی محققین کی دو آراء ہیں اور ان کے اپنے دلائل ہیں جبکہ زیادہ قوی یہی ہے کہ وہ ایک صوبے کے نگاشی تھے اور ان کا نام اصمحہ تھا۔ جن مورخین نے حبشی شہنشاہوں کے احوال جمع کیے ہیں تو ان میں کسی نگاشیوں کے نگاشی کا نام اصمحہ نہیں ہے۔ یہی دعویٰ ایتھوپیا کے کیتھولک کلیسا کا ہے کہ اصمحہ نام کا کوئی شخص شہنشاہ حبشہ نہیں ہوا۔ پھر یہ بھی ملتا ہے کہ نگاشی نے شروع میں ہی اسلام قبول کر لیا مگر انہوں نے اپنے اسلام کو مخفی رکھا کیونکہ ان کے دربار میں عیسائی ربیوں کی اکثریت تھی۔ جن لوگوں کا دعویٰ ہے کہ یہ نگاشیوں کے نگاشی تھے وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ ایک صوبے کا نگاشی کسی دوسرے ملک کے لوگوں کو اپنے ملک میں ٹھہرانے کا فیصلہ نہیں لے سکتا تھا۔ اس پر دوسری جانب سے یہ جواب دیا جاتا ہے کہ وہاں کے صوبائی نگاشی کافی با اختیار تھے اور وہ چند معاملات کے علاوہ کافی خود مختار تھے یعنی کہ موجودہ دور میں کنفیڈریشن والی صورتحال تھی۔
مہاجرین کا جائے مقام کون سی جگہ تھی۔ اس پر بھی مختلف آراء ہیں کچھ اکسوم کا نام لیتے ہیں جو کہ ایتھوپیا میں ہے اور کچھ دباروا کا نام لیتے ہیں جو آج کے ایریٹریا میں ہے۔ دباروا میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی قبریں بھی موجود ہیں جن کے بارے یقینی طور پر تو نہیں کہا جاسکتا مگر وہاں کے مقامی لوگوں کا دعویٰ ہے۔ اس قافلے کی جائے قیام کے حتمی مقام کے بارے میں کوئی بھی ٹھوس دلیل نہیں ہے لیکن زیادہ قرین قیاس یہ لگتا ہے کہ یہ قافلہ ساحلی پٹی کے گرد آباد ہوا ہو گا جو کہ ایریٹریا میں ہے۔ ممکن ہے یہ قافلہ اکسوم بھی گیا ہوا جہاں دارالحکومت تھا اور پھر وہاں کے نگاشی کی اجازت سے یہاں آباد ہوا ہو۔
جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا کہ حبشہ اور عرب کے درمیان تجارتی تعلقات پہلے سے قائم تھے۔ عرب سے جو چیز حبشہ میں سب سے زیادہ مشہور تھی وہ چمڑا تھا۔ اس لیے جب کفا ر کا وفد جو کہ عمرو بن العاص اور عبداللہ بن ربیعہ مخزومی پر مشتمل تھا اور مہاجرین کی واپسی کا مطالبہ لیکر آیا تھا اپنے ساتھ نجاشی اور باقی درباریوں کے لیے چمڑے کے تحائف لیکر آیا تھا۔ انہوں نے باقی درباریوں جن کی اکثریت عیسائی ربیوں پر مشتمل تھی کو دربار لگنے سے پہلے تحائف پیش کیے اور ان کو اپنی حمایت کے لیے راضی کر لیا۔ قریشی وفد کی خواہش تھی کہ نجاشی مسلمانوں کی بات سنے بغیر ان کو حوالے کر دے، درباریوں کی مدد اس لیے حاصل کی گئی مگر نجاشی نے اپنی انصاف پسندی کی وجہ سے مسلمانوں کو بلایا اور ان کی بات سنی اور قریش کے سفیروں کی بات نہ مانی اور ساتھ ہی ان کے تحائف بھی لٹا دئیے حالانکہ پہلے نجاشی کے مشیروں نے نجاشی کو یہی مشورہ دیا تھا کہ مسلمانوں کو واپس بھیج دینا چاہیے۔
حضرت اصمحہ نجاشی رحمتہ اللہ خود کافی آزمائش سے گزرے تھے۔ ان کے والد کو ان کے چچا نے درباریوں کے ساتھ ملکر قتل کروایا تھا۔ درباری ان کی جان کے دشمن تھے مگر ان کے چچا نے ان کو مارنے کی بجائے جلاوطن کردیا۔ چچا بھی جلد ایک حادثے میں ہلاک ہو گئے تو اس کی اولاد میں سے کوئی بھی حکومت چلانے کے لیے اہل نہیں تھا جبکہ اصمحہ کی اہلیت سے سب درباری واقف تھے۔ اس وقت آس پاس سے بھی دھمکیوں کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا اور حبشہ کو ایک مضبوط اور دور اندیش حاکم کی ضرورت تھی تو درباری آپ کے پاس گئے اور اپنے کیے پر نادم ہو کر آپ سے تخت سنبھالنے کی فرمائش کی یوں آپ کو حکومت واپس ملی۔ اس لیے جب آپ نے قریش کے سفیروں کے تحائف واپس کیے تو کہا کہ اس حکومت کے لیے خدا نے میری بادشاہی لوٹائی تھی تو اس نے مجھ سے کوئی رشوت نہیں لی تھی کہ اب میں اس بارے میں رشوت لوں۔ مہاجرین حبشہ کے قیام کے دوران بھی اصمحہ رحمۃ اللہ علیہ کے خلاف بغاوت ہوئی، اس بغاوت کو ناکام بنا دیا گیا۔ حبشہ میں مقیم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس بغاوت کے بارے میں کافی متجسس تھے اور انہوں نے اصمحہ کی کامیابی کے لیے دعائیں کیں۔ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے اس جنگ کی خبر براہ راست میدان میں جاکر لی، اور باقی مہاجرین کو خوشخبری سنائی کہ بغاوت ناکام ہو گئی ہے۔
حبشہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا قیام تقریباً پندرہ سال رہا۔ اس دوران کئی بچوں کی پیدائش ہوئی مصنف نے ان میں سے چند کا ذکر کیا ہے جیسے کہ سیدنا جعفر طیار رضی اللہ عنہ کے بیٹے سیدنا عبداللہ بن جعفر ، سیدنا عون بن جعفر اور سیدنا محمد بن جعفر رضی اللہ عنہم، اس کے علاوہ سیدنا حاطب بن حارث رضی اللہ عنہ کے محمد اور حارث کی ولادت بھی حبشہ میں ہوئی، سیدنا حاطب کا وصال حبشہ میں ہو گیا تو ان کی بیوی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بچوں کے ساتھ مدینہ آ گئیں، واپس آتے ہی ان کے بیٹے محمد رضی اللہ عنہ نے گرم ہانڈی الٹ دی جس سے ان کا بازو جل گیا۔ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا اور برکت سے سیدنا محمد بن حاطب رضی اللہ عنہ مکمل شفایاب ہو گئے۔ اس کے علاوہ نواسہ رسول سیدنا عبداللہ بن عثمان رضی اللہ عنہ کی ولادت بھی حبشہ میں ہوئی، مصنف نے مشہور قول ذکر کیا کہ وہ کم سنی میں انتقال کر گئے جبکہ اس بارے میں دوسری رائے بھی موجود ہے جو کہ دلائل و شواہد پر مبنی ہے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اور سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا ہجرت مدینہ کے بعد حبشہ سے واپس آ گئے اور سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کا وصال غزوہ بدر کے روز ہوا۔
اس کے ساتھ مصنف نے حبشہ میں انتقال فرمانے والے اصحاب کے ناموں کا بھی ذکر کیا ہے جو وہیں مدفون ہوئے۔ وفات پانے والوں میں حضرت عبیداللہ بن جحش کا ذکر مصنف نے الگ سے کیا اور مشہور قول کے مطابق وہ نصرانی ہو گئے تھے کو ذکر کیا ہے، یہ قول بھی تحقیق طلب ہے اور ان کا نصرانی ہونے کے بارے میں مجھے اطمینان نہیں ہے۔ کیونکہ آپ زمانہ جاہلیت میں موحد اور دین حنیف پر تھے ، آپ کا شمار اولین اہل ایمان میں ہوتا ہے۔ ام المومنین سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا پہلے آپ کے نکاح میں تھیں بعد میں آپ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجیت میں آئیں۔
مصنف نے یہ بھی لکھا ہے کہ حبشہ میں دوران قیام اصمحہ کے ہاں بچے کی ولادت ہوئی تو اس کو دودھ سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا نے پلایا۔
مصنف نے بتایا ہے کہ اموی دور میں جب اہل بیت کو تنگ کیا گیا تو انہوں نے بھی حبشہ ہجرت کی، مصنف نے ذکر نہیں کیا کہ اہلبیت کی وہ کون سی ہستیاں تھیں جنہوں نے ہجرت کی اور کس اموی خلیفہ کے دور میں وہ یہاں رہائش پذیر ہوئے۔ مصنف نے ایک اور بات لکھی کہ شاہ ایران یزدگرد کی بیٹی کا نکاح سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سے ہوا یہ بات بھی گو کہ مشہور ہے مگر تاریخی حقائق اس کے برعکس بیان کرتے ہیں۔
حضرت نجاشی رحمتہ اللہ علیہ کا شمار صحابہ میں ہوتا ہے تابعین میں ، اس پر بھی مصنف نے بحث کی اور یہی نتیجہ نکلا ہے کہ آپ کا شمار تابعین میں ہوتا ہے۔ آپ واحد ہستی ہیں جن کا سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غائبانہ نماز جنازہ پڑھایا۔
مصنف نے کچھ اور واقعات بھی بیان کیے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نجاشی رحمتہ اللہ علیہ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان تحائف کا تبادلہ ہوتا رہتا تھا۔ سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حبشہ سے آئے ہوئے وفود کی خصوصی تکریم کرتے اور خود مہمان نوازی فرماتے، جس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی کہ یہ کام ہم کرتے ہیں تو آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام فرماتے کہ انہوں نے ہمارے ساتھیوں کے ساتھ بھلائی کی ہے میں چاہتا ہوں کہ اپنے ہاتھوں سے ان کے ساتھ بھلائی کروں اور ان کے احسان کا اعتراف کروں۔
محترم عبد الستار خان صاحب کی یہ کاوش قابل تحسین ہے اور جس محققانہ انداز میں انہوں نے اپنی بات پیش کی ہے وہ بھی قابلِ قدر ہے۔ مصنف نے اپنی تحقیق میں حبشی محققین کی تحریریں پیش کی ہے لیکن ان حوالوں کو زیادہ بہتر انداز میں پیش کیا جانا چاہیے۔ مثلاً وہ کتاب کے کس صفحہ کو نقل کر رہے ہیں وہ کتاب کس نے شائع کی اس بارے میں واضح معلومات نہیں ملتیں وہ بس کتاب کے مصنف اور کتاب کا نام ذکر کرتے ہیں ۔ بلکہ انہوں نے تفہیم القرآن اور نعیم صدیقی صاحب کی کتاب محسن انسانیت سے بھی اقتباسات نقل کیے ہیں مگر یہ نشاندھی نہیں کی کہ یہ اقتباس کس جگہ سے نقل کر رہے ہیں۔ باقی عبد الستار صاحب نے ایک قرض ادا کیا ہے اور اس ہجرت کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے اور بتایا ہے کہ یہ واقعہ ناصرف غیر معمولی تھا بلکہ اس کی وجوہات اور نتائج بھی غیر معمولی تھے اور ایک غفلت جو اس واقعے کو ذکر کرتے ہوئے ہم سے ہوئی اس کا ازالہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ مصنف کے نتائج فکر سے اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے مگر انہوں نے جس طرح سیرت مقدسہ کے ایک اہم گوشے کو روشناس کیا ہے اس پر وہ داد کے مستحق ہیں۔ ایک کمی جو مجھے محسوس ہوئی وہ مہاجرین حبشہ کی تبلیغی سرگرمیوں کے بارے میں ذکر کا نہ ہونا ہے۔ جب پندرہ سال سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یہاں مقیم تھے تو یقیناً انہوں نے اللہ تعالیٰ کے دین کو وہاں کی مقامی آبادی تک پہنچایا ہو گا اور جن سیدنا جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے نجاشی کے سامنے حقانیت اسلام پیش کی ہو اور ان کو بھی قائل کیا ہو تو عام آبادی تک اسلام کا ابلاغ زیادہ آسان ہو گا۔ مصنف نے اس حوالے سے معلومات فراہم نہیں کیں۔ اس کے علاوہ بہت سے پہلو جو کہ قاری کے ذہن میں نہیں ہوتے ان سے آگاہی فراہم کی ہے۔ اللہ تعالیٰ مصنف کو جزائے خیر عطا فرمائے
کمنت کیجے