خزیمہ ظاہری
جس بنیاد پر اہلِ ظاہر (ائمہ ظاہریت، امام ابن حزم وغيرہ) کے اصول (دلائل الأحكام) باقی فقہاء سے الگ ہوتے ہیں، وہ تعلیلِ احکام کا مسئلہ ہے کہ شرعی احکامات کی ایسی علّت ہوتی ہے جو آگے (دیگر احکام میں) منتقل ہو سکے..؟ ظاہریہ کے نزدیک اسکا جواب نفی ہے.
اور اسکے ساتھ ہی مقاصدِ شریعت اور حِکمتِ شریعت کی بھی نفی ہو جاتی ہے.
اس بنیاد پر پہلے قیاس کا انکار کیا گیا کیونکہ اسکی بنیاد تعلیلِ حُکم پر ہے. پھر اگلے مرحلے پر مصالحِ مرسلہ کا انکار ہوا کیونکہ انکا تعلق بھی خالص مقصدیت اور تعلیل سے ہے.
تیسرے مرحلے پر پہنچ کر جس چیز کا انکار لازم آتا ہے، وہ ہے سدِّ ذرائع، اور اسکا سبب بھی یہ ہے کہ سد ذرائع کی بنیاد مصلحتوں پر رکھی جاتی ہے.
یوں ایک ہی مسئلے (تعلیلِ احکام) کی بنیاد پر اہلِ ظاہر قیاس، مصالح اور سد ذرائع سے الگ ہو جاتے ہیں. جبکہ یہ تینوں چیزیں دیگر فقہاء کے ہاں اصول (دلائل الأحكام) کی حیثیت رکھتی ہیں اور جنکے ہاں ان تینوں میں سے مصالح اور سد ذرائع کی حجیت تسلیم نہیں کی جاتی. (أحناف اور شوافع وغيرہ). تو انکے ہاں بھی بہت سے احکام کی بنیاد مصلحت و سد ذریعہ پر رکھی گئی ہے کیونکہ اصل بنیاد (تعلیلِ احکام) ان سب کے ہاں مشترکہ طور پر مقبول ہے.
اس اختلاف کا اثر اگلے مرحلے پر پہنچ کر یہ ہوتا ہے کہ فی نفسه نصوص (آیات و احادیث) سے استدلال و استنباط کا سارا منہج ہی الگ ہو جاتا ہے اور اسکے ساتھ ساتھ دینی نصوص کی عام تفسیر و تشریح کا منہاج بھی جدا ہو جاتا ہے.
لہذا اس اختلاف کے بعد جب اہلِ ظاہر کے ہاں اجتہاد کیا جاتا ہے تو اسکے پیچھے نہ تو مقصدیت ہوتی ہے اور نہ حکمت. اور اسکی بنیاد پر سامنے آنے والی علّتِ حُکم کا بھی انکار کر دیا جاتا ہے. چنانچہ حافظ ابن القيم نے اسی بنیاد پر اعلام الموقعين میں ایک طویل بحث درج کی ہے.
ایسی صورت میں جب مقصد و حِکمت سے الگ ہو کر اجتہاد کیا جا رہا ہوتا ہے تو ہم ذرا سی جرأت کے ساتھ کہ سکتے ہیں کہ جمہور فقہاء کے نزدیک با مقصد جبکہ اہلِ ظاہر کے نزدیک بے مقصد اور مبنی بَر جمود اجتہاد پایا جاتا ہے جسے اجتہاد تو کہا جا سکتا ہے لیکن حِکمت و مقصد کی بنیاد پر لاگو ہونے والے مسائل میں اسکا نام “بے مقصد اجتہاد” رکھنے میں کوئی عیب نہیں ہے.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خزیمہ ظاہری صاحب فیکلٹی آف اصولِ دین ، ڈیپارٹمنٹ آف حدیث ، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں پی ایچ ڈی کے طالب علم ہیں ۔
کمنت کیجے