عہد جدیدیت میں انسان نے جو افکار اور اعمال پیدا کیے ہیں، ان میں عقل اور عقلیت کی حیثیت ہر لحاظ سے مرکزی ہے، اور عقلیت کا کوئی جدید تصور اور عمل تحریکِ تنویر کے تعینات سے باہر نہیں ہے۔ عقل کا تنویری تصور عقلِ محض کا ہے۔ عقلِ محض کے کارہائے نمایاں اس قدر محیرِ آدم ہیں کہ مسلمانوں نے ڈھنگ سے ابھی اس کا احاطہ بھی نہیں کیا ہے۔ بتدریج انسانی علم اور عمل کی اساسات عقلِ محض پر منتقل ہو چکی ہیں۔ جدید دنیا عقلِ محض کے کرشمات کا جلوہ ہے، اور اس عقل نے انسان کو بھی اندر باہر سے بالکل بدل کا رکھ دیا ہے۔
اس وقت ہمارے سامنے بطور مسلمان بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا ہم عقلِ محض کے متداول تصور کو قبول کر سکتے ہیں یا نہیں؟ یہ سوال اس لیے سامنے آتا ہے کہ روایت کے انہدام کے بعد، اور تجدد کے ظہور اور غلبے کے بعد مسلمانوں کی پیدا کردہ فکر اور ان کے ہر طرح کے علوم میں عقل کا کوئی مربوط تصور سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ تعلیم میں ان کو تدریسِ سائنس کی جس قدر ضرورت ہوتی ہے وہ نقل لگا کر یا ریس سے اپنی درسی کتابوں میں بھر لیتے ہیں، اور عقلِ محض کا خوف اس قدر ہے کہ تالیفِ قلب کے لیے درسی کتابوں کے شروع میں کچھ قرآنی آیات درج کر دی جاتی ہیں۔ ان آیات کا سائنسی متون سے کیا تعلق ہے، یہ نہ لکھنے والوں کو پتہ ہوتا ہے اور نہ پڑھانے والوں کو۔ ہمارے ہاں خوش فہمی یہ ہے کہ جس طرح آدمی کو کلمہ پڑھا کر مسلمان کیا جا سکتا ہے اسی طرح علوم اور اداروں پر بھی کچھ آیات کا دم کر کے انہیں بھی ”مسلمان“ کیا جا سکتا ہے۔ آخر کوئی یہ کس سے کہے کہ ایسا ہو نہیں سکتا۔
اس صورت حال میں یہ غلط فہمی بہت عام ہے کہ مسلمانوں کا اور کفار کا تصورِ عقل بھی مختلف ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ آدمی یہ کہے کہ مسلمانوں کی ٹانگیں سر پر ہوتی ہیں اور کافروں کی ٹانگیں دھڑ کے نیچے ہوتی ہیں۔ یا یہ کہ مسلمانوں کی کھوپڑی گول ہوتی ہے اور کافروں کی کھوپڑی چوکور ہوتی ہے۔ لیکن جب فزکس، کیمسٹری، بائیولوجی، کمپیوٹر یا طب پڑھانی ہو تو بھاگے بھاگے ادھر ہی جاتے ہیں۔ یہاں اس بات پر زور دینا ضروری ہے کہ دنیا کے سارے انسان جسم اور ملکاتِ شعور میں بالکل یکساں ہیں، لیکن مقاصدِ حیات میں، جو ارادی ہیں، لامحدود تنوع ہے۔ یعنی عقل میں سارے انسان ایک جیسے ہیں، اور مقاصدِ عقل اور مآل کار میں قطعی مختلف ہیں۔
گزارش ہے کہ جدید عہد میں مسلمان عقل کے جس تصور کو اختیار کر سکتے ہیں وہ عقلِ محض ہی کا ہے۔ عقلِ محض کی علوم میں کارفرمائی سے عقلیت کے ایسے تصورات سامنے لائے جا سکتے ہیں جو مذہبی عقیدے کے مؤید ہوں۔ عقلِ محض وجودی موقف کے طور پر جن جن قضایا کو تسلیم کرتی ہے ان کی نشاندہی کی جا سکتی ہے اور عقلی دلائل سے ہی ان کا توہم ہونا ثابت کیا جا سکتا ہے۔ مزید یہ کہ عقل اور اس کے زائیدہ علوم ہی ایسا دائرہ فراہم کرتے ہیں جو تمام انسانوں کے درمیان قابلِ اشتراک ہے۔ اگر مسلمان عقل کے کسی بین الانسان مشترک تصور سے لاتعلق رہتے ہیں تو وہ جدید دنیا کے کسی بھی شعبے میں شرکت کا امکان نہیں رکھتے۔ بطور مسلمان ہمیں عقلِ محض سے جو مسائل ہیں ان سے نبردآزما ہونے کا محل بھی یہی ہے، اور عقل تسلیم تک پہنچنے کا راستہ بھی یہیں سے نکلتا ہے۔ اور عقلِ محض کی شمولیت اور شراکت کے بغیر جدید مذہبی شعور کی تشکیل کا منصوبہ شروع ہی نہیں ہو سکتا۔ جدید مذہبی شعور اگر متمنی ہے کہ وہ عقل کے دائرہ کار کو پہلے سے متعین کر دے یا کسی طرح کی تحدیدات کو خارج سے عقلِ محض پر وارد کر دے تو یہ نادانی کی حد تک پہنچی ہوئی خوش فہمی ہے۔ عقل محض اس قدر جسور ہے کہ مذہب کی شہر پناہ سے باہر اپنی دنیا آباد کرتی ہے اور جہاں پناہ بنتے ہی وہ مذہب کو شہر پناہ سمیت نگل جاتی ہے۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ شہر پناہ کے دروازے کھول دیے جائیں اور عقلِ محض کے کارِ تعقل میں براہ راست شریک ہوا جائے اور عقل کا ہمارا جو بھی تصور ہے اسے وہاں آزمایا جائے۔ اگر ہمارا خیال ہے کہ ہمارا تصورِ عقل الگ سے ہو اور بالکل انوکھا ہو جو صرف ہمارے لیے ہی کارآمد ہو تو یہ محالات میں سے ہے، اور ہماری بہت گہری توہم پرستی کا سبب ہے۔ عقل اپنی تحدیدات یا عدم تحدیدات اپنے کارِ تعقل میں work out کرتی ہے اور صرف یہی اس پر وارد ہوتی ہیں۔ عقل کی ناصحانہ تحدیدات کا علم میں کوئی گزر نہیں ہے۔
تحریکِ تنویر میں عقلِ محض (Pure Reason) سے مراد یہ ہےکہ عقل اپنے آپ میں، اپنے تمام تر ملکات کے ساتھ، بطور فاعل علمی اپنے اور اس پوری کائنات کے روبرو، اور اپنے طریقۂ کار سمیت۔ تنویری عقل جب توہمات، اسطوریات، روایات اور وحی سے اپنے آپ کو ارادتاً منقطع کر لیتی ہے تو عقلِ محض ہونے پر فائز المرام ہو جاتی ہے۔ عقلِ محض کی تشکیل اور کارفرمائی کے لیے ضروری ہے وہ نفسی داعیات از قسم غضب اور شہوت سے بھی بالاتر ہو کر اپنے کام کو سامنے لائے۔ آگے چل کر تحریک تنویر کے آدرشوں میں رومانوی آرزوئیں بھی شامل ہو گئیں تو عقلِ محض کے اس تصور میں ایک heroism بھی داخل ہو گیا اور جدید انسان ایک غیرمعمولی جرأت کے ساتھ پوری کائنات کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو گیا۔ آج کی دنیا جدید انسان کی اسی حیرت انگیز جرأت سے پیدا ہوئی ہے۔ رومانوی اثرات کی وجہ سے جدید علوم اور افکار و اعمال میں ایک دھارا apocalypse کا شامل ہو گیا ہے، اور عقل محض کی پیدا کردہ جدید تہذیب کسی فرخندہ فرجامی سے بہرہ مند نہیں ہے۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ عقلِ محض مبدا (origin) کے معاملے میں سائل ہے اور انجام (end) کے معاملے میں ہائل۔ گزارش یہ ہے کہ عقلِ محض کا تصور اگرچہ کانٹ کا مانجھا ہوا ہے لیکن یہ ہر طرح کے علوم میں برابر جاری رہی ہے، اور جدید علم الکلام میں بھی یہی عقل کارفرما ہے۔
کمنت کیجے