Home » شیخ ابن عربی اور خاتم الاولیاء کا مفہوم
تصوف شخصیات وافکار کلام

شیخ ابن عربی اور خاتم الاولیاء کا مفہوم

ایک محترم نے سوال کیا ہے کہ شیخ اکبر نے کتاب “فصوص الحکم” میں خاتم الاولیاء کے ایک منصب کا ذکر کیا ہے اور اسے یہ کہہ کر خاتم الانبیاء سے افضل قرار دیا ہے کہ خاتم الانبیاء چاندی کی اینٹ جبکہ خاتم الاولیاء سونے کی اینٹ ہے نیز وہ خود کو خاتم الاولیاء کہتے ہیں۔ یہاں چند سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ شیخ کہتے ہیں کہ نبوت ختم ہوگئی جبکہ ولایت جاری رہنے والی ہے۔ اگر ولایت ہمیشہ جاری رہے گی تو پھر وہ خود خاتم الاولیاء کس طرح ہو سکتے ہیں؟ شیخ اکبر کی یہ مراد تو نہیں ہو سکتی کہ ان پر سلسلہ ولایت کا خاتمہ ہوگیا ہے اور ان کے بعد کوئی ولی پیدا نہیں ہوگا۔ اس کا تو یہی مطلب سمجھ میں آتا ہے کہ ولی تو آتے رہیں گے لیکن کسی کا مرتبہ نہ شیخ اکبر کے برابر ہوگا نہ ان سے بڑھ کر۔ مزید براں وہ حضرت مسیح علیہ السلام کو بھی خاتم الاولیاء کہتے ہیں۔ یعنی ان کی آمد ثانی کے ساتھ سلسلہ ولایت کا بھی کلی خاتمہ ہو جائے گا۔ تو کیا خاتم الاولیاء ایک سے زیادہ بھی ہو سکتے ہیں؟

تبصرہ

کسی مفکر کے اقوال کو اس کی فکر کے اصولوں میں رکھ کر سمجھا جانا چاہئے۔ شیخ کی فکر کے درج ذیل متعلقہ اصول ان مسائل کو سمجھنے میں مفید ہیں:

1) ہر نبی الله کے اسماء میں سے بعض کا مظہر اتم ہوتا ہے جبکہ سب اسماء کے مظہر اتم محمدﷺ ہیں۔ اس بات کا بیان کتاب “فصوص الحکم” کا سینٹرل تھیم ہے۔

2۔ اپنے جسد عنصری کے لحاظ سے محمدﷺ اگرچہ سب انبیاء سے آخر میں ہیں، لیکن اپنی حقیقت کے لحاظ سے سب سے اول ہیں۔ آپﷺ کے لئے ہی سب سے پہلے شریعت مقرر ہوئی جیسا کہ حدیث میں آیا کہ میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم علیہ السلام جسد و روح کے مابین تھے۔ سب انبیاء کو اپنے زمانوں میں جو شریعتیں عطا ہوئی وہ اصلاً آپﷺ ہی کی شریعت میں سے تھیں، سب انبیاء آپﷺ کے نائب تھے اور پچھلی امتیں اصلاً آپ کی امت باطنہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔

3۔ ولایت الله کی معرفت کی بنا پر اس کے ساتھ مقامات قرب سے عبارت ہے، نبوت شرعی احکام کی تکلیف مقرر ہونے سے جبکہ رسالت ان احکام کو لوگوں تک پہنچانے سے۔ شریعتوں کا یہ تقرر بندوں کے لئے اپنے رب کے قرب کے حصول کا ذریعہ مقرر کرنا ہے۔ رسول اللهﷺ ان تینوں مناصب کے جامع و خاتم حقیقی ہیں۔

4۔ آپﷺ پر نبوت و رسالت ختم ہوگئی کیونکہ شارع کی جانب سے تشریع یعنی احکام مقرر کرنے کا عمل مکمل ہوگیا۔ لیکن ولایت ختم نہیں ہوئی بلکہ وہ تاقیامت چلے گی کہ الله نے اپنا قرب و معرفت عطا کرنا بند نہیں کردیا۔ اسمائے الہیہ کے تناظر میں شیخ اسے یوں بیان کرتے ہیں کہ “ولی” الله کا ایک اسم ہے جس کی تجلی جاری رہتی ہے جبکہ “نبی” یا “رسول” الله کے اسماء میں کوئی اسم نہیں اس لئے یہ منصب ختم ہوگیا۔

5۔ امتیوں کو الله کے اسماء کا ہر فیض بواسطہ نبی ملتا ہے اور اس لئے اسے ولایت کے مقامات میں سے وہی فیض ملتا ہے جو اس کے نبی کے مقامات میں شامل ہو۔ اسی لئے شیخ کہتے ہیں کہ حضرت خضر علیہ السلام کسی ایسے نبی کے امتی تھے جن کے ہاں تکوینی امور پر کشف کا سلسلہ جاری تھا اور جس کے سبب حضرت خضر کو ان امور پر اطلاع ہوئی جو حضرت موسی علیہ السلام کی شریعت میں روا نہ تھا۔ امتی کے پاس اپنے نبی کی اطاعت کئے بغیر حصول ولایت کا کوئی ذریعہ نہیں۔ اسی لئے شیخ ابن عربی انبیاء کی ولایت کو “ولایت شمسیة” کہتے ہیں اور اولیاء کی ولایت کو “ولایت قمریة” کہ چاند سورج ہی سے روشنی مستعار لیتا ہے۔

6۔ مشہور محدث و صوفی حکیم ترمذی (م 320 ھ) کا کہنا تھا کہ آپﷺ کی ایک خاص صفت “خاتم” ہونا ہے جو آپﷺ کی امت میں ہونے والے اولیاء میں سے بھی کسی کو عطا ہوگی اس لئے کہ امتیوں کو اپنے نبی کے مقامات کی وراثت ملتی ہے (حکیم ترمذی نے مسائل ولایت میں لگ بھگ ڑیڑھ سو سوالات مقرر کئے تھے اور ان کا گمان تھا کہ ان کا جواب خاتم الاولیاء دے گا۔ ان سب سوالات کا جواب شیخ ابن عربی نے “الفتوحات المکیة” میں دیا ہے)۔ کیونکہ آپﷺ کے سوا کوئی نبی خاتم نہ ہوئے، اس لئے پچھلی امتوں میں کوئی خاتم الاولیاء نہ ہوا لیکن اس امت میں ہوگا (شیخ کے ہاں خاتم الاولیاء کے علاوہ “خاتم المجتہدین” نیز “خاتم الاولاد” وغیرہ کا بھی تصور ہے۔ شیخ نے ایک مقام پر امام مہدی کو بھی خاتم ولایت لکھا ہے)۔

7۔ شیخ کہتے ہیں کہ آپﷺ سے جاری ہونے والی ولایت کے دو سلسلے ہیں: ولایت عامہ محمدیہ یا ولایت کبری اور ولایت خاصہ محمدیہ۔ ولایت عامہ کا مطلب وہ ولایت ہے جو پچھلے انبیاء کے واسطے ان کے امتیوں میں چلتی رہی۔ ولایت خاصہ کا مطلب وہ ولایت ہے جو براہ رست رسول اللهﷺ سے آپ کے امتیوں میں چلتی ہے۔ رسول اللهﷺ کی امت میں پچھلے انبیاء کے قلوب پر بھی اولیاء ہوتے ہیں۔ شیخ کا گمان ہے کہ وہ ولایت خاصہ کے خاتم تھے، جبکہ حضرت عیسی علیہ السلام آخری دور میں آکر ولایت عامہ کو ختم کرنے والے ہوں گے، ان کے بعد کوئی ولی نہ ہوگا۔ خاتم ولایت خاصہ ہو یا خاتم ولایت عامہ، ہر ایک آپﷺ ہی کا نائب ہے۔ اس تفصیل کی صورت گری ذیل کے نقشے میں کی گئی ہے۔

8۔ خاتم ولایت خاصہ ہونے کا کیا مطلب ہے؟ بعض نے کہا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ تمام اسماء کی جس جامعیت کے آپﷺ حامل تھے اس خاص جامعیت کے اولیاء کے شیخ خاتم تھے اور ان کے بعد آپﷺ کے قلب پر یعنی اس جامعیت کا حامل کوئی ولی نہ ہوگا اگرچہ پچھلے انبیاء کے قلوب پر اولیاء ہوتے رہیں گے جس سلسلے کو حضرت عیسی علیہ السلام آکر ختم کردیں گے۔ بعض نے کہا کہ اس کا مطلب ایک خاص درجے کی جامعیت کی حامل شخصیت کا سلسلہ ختم ہوجانا ہے، اگرچہ اس سے کم درجے والے اولیاء ولایت خاصہ میں بھی جاری رہیں گے۔

9۔ نبی کے مقابلے پر نبی آتا ہے اور غیر نبی کے مقابلے پر غیر نبی۔ نبی کی جہت ولایت خود اس کی اپنی جہت نبوت سے افضل ہوتی ہے نہ یہ کہ غیر نبی کی جہت ولایت بھی نبی کی جہت نبوت سے افضل ہوتی ہے۔ شیخ کہتے ہیں کہ جس نے اس معاملے کو خلط ملط کیا وہ جاہل ہے۔

10۔ سونے کی اینٹ اور چاندی کی اینٹ والی جس بات کا حوالہ دیا گیا وہاں خاتم الاولیاء اپنی ہی دو جہات کے بارے میں گفتگو کررہا ہے۔ شیخ کی عبارت اس معاملے میں بالکل صاف ہے، یہ ان کی عبارت کا سوء فہم ہے کہ وہ سونے کی اینٹ خاتم الاولیاء کو اور چاندی کی اینٹ خاتم النبیینﷺ کو کہہ رہے ہیں۔ اس سوء فہم کی وجہ سے گرد و غبار پھیل گیا ہے۔

ان سب امور کی تفصیل کے لئے ہماری کتاب “شیخ ابن عربی کا تصور نبوت اور عقیدہ ختم نبوت” کے باب نمبر 8 (مقامات سعادت کی ترتیب) اور 12 (ناقدین کی پیش کردہ عبارات) کا مطالعہ مفید ہوگا۔

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں