حبیب اللہ ضیاء
عرب معاشرت میں مختلف تہذیبوں اور اقوام کے اثرات کی وجہ سے بہت سی تحریفات اور فسادات پیدا ہوگئے تھے جن کی اصلاح کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے اس مقصدِ عظیم کے لیے پانچ اہم اصلاحات کی ضرورت محسوس کی گئی تاکہ متوارث دین اپنی اصل حالت میں واپس آ سکے۔
یہ پانچ اصلاحات درج ذیل ہیں:
1 پہلی قسم ترمیم:
اس میں بعض روایات اور رسومات میں تبدیلی کی گئی جو رسوم اور عادات مفید اور صالح تھیں انہیں برقرار رکھا گیا، جبکہ جو مفسد اور نقصان دہ تھیں، انہیں ختم کردیا گیا۔ اس طرح اسلام نے معاشرتی اور مذہبی رسومات میں اخذ اور رد کا عمل کیا تاکہ معاشرہ میں اصلاح اور بہتری آئے۔
2 دوسری قسم تعطیل:
یعنی دین میں جو تحریفات اور بگاڑ پیدا ہوگئے تھے، انہیں مکمل طور پر ختم کردیا گیا۔ جو غیر اسلامی یا غلط عقائد اور اعمال لوگ اختیار کرچکے تھے، ان کا راستہ روک دیا گیا اور ان کی گنجائش کو مکمل طور پر ختم کردیا گیا۔
3 تیسری قسم تقریر:
اس میں صالح اور مفید روایات اور اعمال کو بغیر کسی تبدیلی کے اپنی اصل حالت میں باقی رکھا گیا۔ جو رسوم یا عبادات اصل دین کے مطابق تھیں اور ان میں کوئی فساد نہیں تھا، انہیں جوں کا توں برقرار رکھا گیا۔
4 چوتھی قسم تجدید:
اس میں بعض اعتقادی اور عملی مسائل جو وقت کے ساتھ متروک ہوگئے تھے یا جنہیں نظر انداز کیا کیا گیا تھا، انہیں دوبارہ زندہ کیا گیا۔
5 پانچویں قسم تشریع:
اس میں حالات کے مطابق نئی قانون سازی کی گئی۔ جب حالات بدل گئے اور نئی ضروریات سامنے آئیں تو ان کے مطابق نئی ہدایات او قوانین بنائے گئے۔
تفصیل کے لیے حجۃ اللہ البالغۃ جلد اول۔ صفحہ ٢١٨ پڑھیے اس طرح “التشريع الإسلامي” کے عنوان کے تحت متعلقہ کتب میں بھی مطلوبہ تفصیلات مل سکتی ہیں ۔
استرقاق اور غلامی کا مسئلہ بھی ان اصلاحات کے تناظر میں دیکھا جائے گا ڈاکٹر مصطفیٰ الشكعة اپنی کتاب “إسلام بلا مذاهب” میں اس موضوع پر تفصیل سے گفتگو کرتے ہیں اور غلامی کی سات اقسام بیان کرتے ہیں، جو اس وقت کی عرب معاشرت میں رائج تھیں، وہ سات اقسام درج ذیل ہیں
1 جنگی قیدی:
جنگ کے دوران دشمن کے لوگ پکڑے جاتے تھے تو ان قیدیوں کو غلام بنا لیا جاتا تھا ۔
2 اغوا شدہ افراد:
جو لوگ کو اغوا کیے جاتے تھے تو پھر انہیں غلام بنا لیا جاتا تھا۔
3 مجرم کو غلام بنانا:
کسی مجرم کو سزا کے طور پر غلام بنا دیا جاتا تھا۔
4. مقروض کو غلام بنانا :
جو لوگ قرض ادا کرنے کے سے قاصر ہوتے تھے انہیں غلام بنا دیا جاتا تھا یعنی مقروض کے قرض کا حساب چکانے کے لیے انہیں غلام بنا دیا جاتا تھا
5 غریب والدین کا اپنی اولاد کو بیچنا:
غریب والدین اپنی اولاد کو غربت کے باعث بیچ دیتے تھے اور اس طرح ان بچے کو غلام بنا دیا جاتا تھا۔
6 رضاکارانہ غلامی:
اپنے کسی فائدے کے لیے بعض لوگ رضاکارانہ طور پر غلامی کا طوق اپنے گلے میں ڈالتے تھے
7. باندیوں کی اولاد:
باندیوں کی اولاد بھی غلام ہوا کرتی تھی۔
إسلام بلا مذاهب ۔ صفحہ ٦٨
اسلام نے غلامی کی ان سات اقسام میں سے صرف پہلی قسم یعنی جنگی قیدی کو باقی رکھا اور اس کے علاوہ تمام اقسام کا مکمل خاتمہ کیا۔
جنگی قیدی کا مسئلہ، خاص حکم اور عام حکم
خاص حکم:
جب حکومت کسی قیدی کو قتل کرنا ضروری سمجھے اور قیدی کو قتل کرنا قرین مصلحت ہو تو قیدی کو قتل کیا جا سکتا ہے لیکن یہ خاص حکم ہے عام حکم نہیں ہے
عام حکم:
عام حکم کے تحت سات طریقے اختیار کیے جا سکتے ہیں:
پہلا طریقہ:
یہ ہے کہ قید کی حالت میں ان سے اچھا برتاؤ کیا جائے۔
دوسرا طریقہ :
یہ کہ قتل یا دائمی قید کے بجائے ان کو غلام بنا کر افراد مسلمین کے حوالہ کردیا جائے۔
تیسرا طریقہ:
یہ کہ جزیہ لگا کر ان کو ذمی بنا لیا جائے۔
چوتھا طریقہ:
یہ کہ ان کو بلا معاوضہ رہا کردیا جائے۔
پانچواں طریقہ:
یہ کہ مالی معاوضہ لے کر انہیں چھوڑا جائے۔
چھٹا طریقہ:
یہ کہ رہائی کی شرط کے طور پر کوئی خاص خدمت لینے کے بعد چھوڑ دیا جائے۔
ساتواں طریقہ:
یہ کہ اپنے ان آدمیوں سے جو دشمن کے قبضے میں ہوں ان کا تبادلہ کرلیا جائے۔
ان سات طریقوں میں پہلے چار طریقے احسان میں شامل ہیں جبکہ باقی تین طریقے فدیہ کے تحت آتے ہیں
تفصيل کے لیے تفہیم القرآن سورہ محمد ۔ آیت نمبر ٤
اسلام نے اس ایک قسم کو باقی کیوں رکھا؟
ڈاکٹر محمود عباس العقاد اپنی کتاب “حقائق الاسلام” میں لکھتے ہیں کہ اسلام نے غلامی کا آغاز نہیں کیا ہے بلکہ غلاموں کو آزادی دلانے کا آغاز کیا ہے۔
حقائق الاسلام ۔ صفحہ ١٥٨
دوسری بات یہ ہے کہ اسلام کسی بھی زمانے کے ٹرینڈ اور اسپرٹ کی مخالفت نہیں کرتا بلکہ اس کے ساتھ رہ کر اصلاحات کرکے آگے بڑھنے کی راہ ہموار کرتا ہے چونکہ غلامی اجتماعی زندگی، تمدن اور معاشرت کا مستقل جزو نہیں ہے اور نہ ہی یہ ایک مستقل مسئلہ ہے غلامی ایک عارضی نظام تھا جو مخصوص معاشی، سیاسی، اور سماجی حالات کے تحت قائم ہوا مختلف تہذیبوں اور معاشروں میں غلامی مختلف شکلوں میں رائج رہی لیکن یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں تھا جو ہمیشہ کے لیے انسانی تمدن کا حصہ بن جائے اس لیے اسلام نے غلامی کے رائج عارضی نظام کو مکمل طور پر فوراً ختم کرنے کی بجائے اس وقت کے سماجی، سیاسی، اور اقتصادی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے عارضی طور پر باقی رکھا غلامی کے نظام کا خاتمہ ایک سنگین چیلنج تھا کیونکہ اس وقت کے معاشرتی، اقتصادی اور جنگی حالات میں غلامی کو ایک مستحکم اور مستقل نظام سمجھا جاتا تھا مختلف طاقتیں اور قوتیں غلامی کے نظام کو اپنے مفادات کے لیے برقرار رکھتی تھیں اسلام نے اس مشکل صورت حال میں تدریجی طریقے سے اس نظام کو اصلاحات کے ذریعے ختم کرنے کی حکمت عملی اختیار کی تاکہ اسلام اور اس کے پیروکار نقصان سے بچ سکے
ایک مثال :
کبھی کبھار حکمت عملی کے تحت کچھ چیزوں کو اپنانا پڑتا ہے تاکہ دشمن یا مخالف قوتوں کی طرف سے ہونے والے ردعمل سے بچا جا سکے نیوکلیئر بم کی مثال لیجئیے جس میں طاقتور ملکوں کو اپنی سکیورٹی اور دفاع کے لیے یہ ہتھیار بنانے کی مجبوری پیش آتی ہے چاہے وہ بنیادی طور پر امن پسند کیوں نہ ہوں اسلحہ اور بارود انسانیت کی تباہی ہے لیکن آج کے دور کے مہذب اور ترقی یافتہ ممالک ایک دوسرے سے سبقت لے رہے ہیں
غلامی کا سبب فریق مخالف ہے:
غلامی کے نظام میں اسلام خود دلچسپی نہیں رکھتا بلکہ اسلام اسے ناپسندیدہ سمجھتا ہے اور غلاموں کو ازاد کرنا ہی اسلام کی اصل تعلیمات ہیں لیکن حالات کی مجبوری کی وجہ سے غلامی کے نظام کو اپنانا پڑتا ہے اسلام میں غلام بنانے کی صرف اجازت دی گئی ہے یہ کوئی مستحب یا واجب نہیں بتایا گیا
مولانا محمد شفیع عثمانی صاحب لکھتے ہیں:
یہاں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ جنگی قیدیوں کو غلام بنانے کا حکم صرف اباحت اور جواز کی حد تک ہے یعنی اگر اسلامی حکومت مصالح کے مطابق سمجھے تو انہیں غلام بنا سکتی ہے ایسا کرنا مستحب یا واجب فعل نہیں ہے بلکہ قرآن و حدیث کے مجموعی ارشادات سے آزاد کرنے کا افضل ہونا سمجھ میں آتا ہے اور یہ اجازت بھی اس وقت تک کے لئے ہے جب تک اس کے خلاف دشمن سے کوئی معاہدہ نہ ہو اور اگر دشمن سے یہ معاہدہ ہوجائے کہ نہ وہ ہمارے قیدیوں کو غلام بنائیں گے نہ ہم ان کے قیدیوں کو، تو پھر اس معاہدہ کی پابندی لازم ہوگی، ہمارے زمانے میں دنیا کے بہت سے ملکوں نے ایسا معاہدہ کیا ہوا ہے، لہٰذا جو اسلامی ممالک اس معاہدے میں شریک ہیں ان کے لئے غلام بنانا اس وقت تک جائز نہیں جب تک یہ معاہدہ قائم ہے۔
معارف القرآن ۔ سورہ محمد ۔ آیت نمبر ٤
اس اقتباس سے یہ معلوم ہوا کہ اسلام غلامی کو پسند نہیں کرتا بلکہ بوجہ مجبوری اسے اپناتا ہے جبکہ غلام کو آزاد کرنا ہی اصل تعلیمات ہیں اور اس کا تعلق خالص فریق مخالف کے ساتھ ہے اگر فریق مخالف اس کو ترک کرتا ہے تو اسلام بدرجہ اولیٰ اس کو ترک کرنے کا قائل ہے جس طرح انسویں صدی کے بعد غلامی کا رواج ختم ہوا تو اسلام اپنی تعلیمات کی روشنی میں اس خاتمے کا سب سے پہلا موید ہے ۔
کمنت کیجے