Home » مشاجرات میں اصحاب جمل کا حکم ۔ امام ابومعین نسفی کی رائے
اسلامی فکری روایت تاریخ / جغرافیہ شخصیات وافکار

مشاجرات میں اصحاب جمل کا حکم ۔ امام ابومعین نسفی کی رائے

ہم نے کہا تھا کہ اہل سنت کے ایک اصول کی رو سے اصحاب جمل کے مقابلے پر حضرت علی رضی اللہ عنہ مصیب کے مفہوم میں حق پر اور مخالفین اجتہادی خطا پر تھے جبکہ خود اہل سنت ہی میں سے دیگر علماء کے ہاں مقبول دوسرے اصول کی رو سے دونوں مساوی طور پر مصیب تھے۔ لیکن جیسا کہ ہم نے عرض کیا تھا کہ بعض لوگ گھر پر بیٹھ کر اپنی پسند کی آراء کا نام جمہور و اجماع رکھ کر اسے اجماع بنا لیتے ہیں، تو بعض لوگوں کا خیال ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مخالفین کو باغی کہنا گویا اہل سنت کا اجماعی موقف ہے۔ یہ بات گھر سے بنائے ہوئے اجماع کی ایک مثال ہے (اس دلیل سے یہ حضرات دراصل اس مسئلے کے قطعی ہونے کا تاثر دینا چاہتے ہیں)۔ یہاں اس مسئلے پر ہم ایک بلند پایہ حنفی متکلم امام ابومعین نسفی (م 511 ھ) کی علم کلام پر تفصیلی کتاب “تبصرۃ الادلة” کی عبارت بطور مثال پیش کرتے ہیں۔ ماتریدی کلام میں امام صاحب کا مرتبہ کسی صاحب علم سے مخفی نہیں۔ حنفی امام کی عبارت بطور خاص ہم اس لئے پیش کررہے ہیں کیونکہ مسائل فروعیہ میں دو میں سے کسی ایک مجتہد کا مصیب ہونا یہ احناف کا جانا مانا موقف ہے۔ امام صاحب بحث کی ابتدا کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

فاما الکلام فی قتال اصحاب الجمل فنقول: ان علیا کان ھو المصیب فی ذلک
مفہوم: جہاں تک اصحاب جمل کے ساتھ قتال کی بات ہے تو اس میں علی مصیب تھے
پھر آپ حضرت علی کے موقف کے دلائل و تکییف بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
فاما امر طلحة والزبیر فقد کان خطا عندنا غیر انھما فعلا ما فعلا عن اجتھاد وھما کانا من اھل الاجتھاد اذ ظاھر الدلائل یوجب القصاص علی قاتل العمد واستئصال شافة من قصد سلطان اللہ بالتوھین ودم امام المسلمین بالاراقة
مفہوم: جہاں تک طلحہ اور زبیر کے عمل کا تعلق ہے تو ہمارے نزدیک وہ خطا تھی لیکن انہوں نے جو کچھ بھی کیا اجتہاد کی بنیاد پر کیا اور وہ دونوں اہلِ اجتہاد میں سے تھے، (اسے اجتہاد اس لئے کہا) کیونکہ بظاہر دلائل یہ تقاضا بھی کرتے ہیں کہ جان بوجھ کر قتل کرنے والے پر قصاص واجب ہوتا ہے کہ جو شخص سلطان اللہ کی توہین کا ارادہ کرے اور مسلمانوں کے امام کا خون بہائے اس کی بیخ کنی کردی جائے
آپ اس بات کو بھی بیان کرتے ہیں کہ جن لوگوں کے نزدیک فروعی مسائل میں حق ایک سے زیادہ ہوتا ہے ان کے نزدیک سب مجتہد چونکہ مصیب ہوتے ہیں اس لئے انہوں نے حضرت علی و اصحاب جمل دونوں کو مصیب کہا، تاہم حنفی اصول میں یہ روا نہیں:
بعض متکلمی اھل الحدیث کان یقول: کل من کان منھم مبنیا علی الاجتھاد وکل مصیب، فکان علی رای ھذا کلھم مصیبون اذ کان من مذھبہ ان کل مجتھد فی فروع الدین مصیب، عندنا وان لم یکن کذلک وکان ھو المصیب دون غیرھم الا انھم لم یبلغوا فی خطئھم مبلغ الفسق
مفہوم: اہلِ حدیث گروہ کے بعض متکلمین یہ بھی کہتے تھے کہ ان میں سے ہر ایک کا عمل اجتہاد پر مبنی تھا اور ہر مجتہد مصیب ہے۔ اس رائے کے مطابق وہ سب حضرات مصیب تھے کیونکہ اس رائے کی رو سے دین کی فروعات میں اجتہاد کرنے والا ہر شخص مصیب ہوتا ہے۔ البتہ ہمارے نزدیک یہ بات ایسے نہیں ہے (کیونکہ ہمارے یہاں فروعی مسائل میں بھی ایک ہی حق ہوتا ہے، اس لئے) ان میں سے ایک ہی مصیب تھا نہ کہ دونوں، تاہم دوسرے کی خطا اس حد تک نہیں پہنچتی کہ انہیں فاسق قرار دیا جاسکے۔
یہاں یہ بھی غور کیجئے کہ امام صاحب کہہ رہے ہیں متکلمین کا وہ گروہ جو اہل حدیث سے ہے وہ سب کو مصیب اس لئے کہتے ہیں کیونکہ یہ مسئلہ فروعات دین میں سے ہے اور ان کے نزدیک فروعات میں حق متعدد ہونے کی وجہ سے سب مجتہد مصیب ہوسکتے ہیں۔ امام صاحب کو اس رائے کے اس پہلو پر اعتراض نہیں ہے کہ اس گروہ کے نزدیک یہ مسئلہ فروعات میں سے ہے بلکہ وہ اس کا فروعی ہونا قبول کررہے ہیں۔ البتہ حنفی اصول کے پیش نظر آپ اپنے موقف کی ہم آہنگی کو واضح کرتے ہیں کہ ہمارے نزدیک چونکہ فروعات میں بھی حق ایک ہی ہوتا ہے لہذا ایک ہی کو مصیب کہا جائے گا۔ اس اصولی نکتے کو ہم نے اپنی ویڈیو میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ جن لوگوں نے امام صاحب کی یہ کتاب پڑھی ہے وہ جانتے ہیں کہ امام نسفی جب “اہل حدیث متکلمین” کہتے ہیں تو اس میں شافعی و مالکی متکلمین کی روایت کے حضرات بھی شامل ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں