Home » ۔”خدا کو ماننا فطری ہے” مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی گفتگو پر تبصرہ
شخصیات وافکار کلام

۔”خدا کو ماننا فطری ہے” مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی گفتگو پر تبصرہ

علم کلام کو لتاڑنے والے حضرات کی باتوں میں سے ایک یہ ہے کہ وجود باری پر یقین رکھنا بدیہیات میں سے ہے، لہذا متکلمین دلائل دے کر بے مصرف و غیر قرآنی کام کرتے ہیں۔ یہاں مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی کتاب “فلسفے کے بنیادی مسائل قرآن مجید کی روشنی میں” سے دو صفحات کا عکس دیا گیا ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ متکلمین ذات باری کے وجود پر دلائل قائم کرتے ہیں لیکن قرآن اس پر دلیل نہیں دیتا، قرآن کی نظر میں یہ مسئلہ ایسا اہم ہے ہی نہیں کہ اس پر دلائل دئیے جائیں اس لئے کہ قرآن کے مخاطبین بشمول مشرکین مکہ خدا کو مانتے تھے نیز خدا کو ماننا تو فطری ہے۔ یہاں آپ اس کے بدیہی بلکہ ابدہ البدیہیات ہونے کا دعوی فرمارہے ہیں۔ قابل غور بات یہاں یہ ہے کہ جو قرآنی آیت انہوں نے یہاں پیش کی ہے اس کا ان کی شہ سرخی کے دعوے سے کوئی تعلق نہیں۔ خود ان کے اپنے دعوے کے بقول اس آیت سے یہ بات نکلتی ہے کہ مشرکین مکہ خدا کو مانتے تھے۔ خدا کو ماننا ابدہ البدیہیات ہے، اس کے لئے انہوں نے کوئی عقلی و نقلی دلیل پیش نہیں کی۔ اس کے بعد آگے جاکر مولانا اصلاحی صاحب یہ بھی فرماتے ہیں کہ توحید کو ماننا فطری ہے، لیکن اس کے بہرحال انہوں نے اپنے تئیں قرآن سے دو دلائل بھی پیش کئے ہیں (نجانے یہ دلائل کیوں پیش کردئیے کیونکہ جو فطری تھا اس پر دلیل کی کیا ضرورت؟)۔ ان دونوں دلائل نیز “مشرکین خدا کو مانتے تھے” کے لئے جو آیات اور ان پر جو تبصرہ انہوں نے پیش کیا ہے اسے پڑھنے سے صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ ذات باری کے وجود کے بھی دلائل ہیں جو قرآن نے دئیے ہیں لیکن انہوں نے انہیں اس موضوع سے اپنی “شہ سرخی کے زور پر” خارج کردیا۔
مزے کی بات یہ ہے کہ اپنے مضمون “خدا پر ایمان” میں خود جناب غامدی صاحب نے بھی وجود باری پر دلیل قائم کر رکھی ہے جسکی ساخت یہ ہے:
– انسان مخلوق ہے
– مخلوق کے لئے خالق ہوتا ہے
ان کی دلیل کی صحت ایک طرف، اگر اسے متکلمین کی لگی بندھی اصطلاح میں ڈھال دیا جائے تو یہ یوں ہے:
– انسان حادث ہے
– حادث کے لئے محدث ہوتا ہے
اب اس کا کیا کیا جائے کہ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کے نزدیک تو متکلمین کے برخلاف قرآن اس موضوع پر دلائل ہی قائم نہیں کرتا لیکن غامدی صاحب دلیل قائم کررہے ہیں اور وہ بھی متکلمین کے طرز پر! غامدی صاحب نے اس عزم کا اظہار بھی فرمایا ہے کہ وہ الحاد کے مقدمے پر مفصل تبصرہ کریں گے۔ اگر اس کاوش میں وہ وجود باری پر قرآن سے دلیل لائے تو ان کے استاد محترم کے بقول یہ قرآن پر ایسی بات کہنا ہوگی جو قرآن میں ہے ہی نہیں کیونکہ قرآن نے تو اس موضوع پر دلائل ہی نہیں دئیے، بلکہ یہ مسئلہ ایسا ہے ہی نہیں کہ قرآن اس پر دلیل دے۔ چنانچہ اگر اصلاحی صاحب کی بات درست ہے تو غامدی صاحب کی جانب سے ایسے دلائل پیش کرنا گویا قرآن کو غور سے نہ پڑھنے کا نتیجہ ہوگا۔ پھر “فطری استدلال فطری استدلال” کہنے والوں سے یہ سوال ہے کہ اس صفحے پر مذکور آیت میں جو استدلال ہے، اس کے تام ہونے کے لئے کوئی قضیہ یا مقدمہ مفروض ہونا علمی شرط ہے یا نہیں؟ کیا وہ قضیہ بھی یہاں آیت میں لکھا ہوا ہے یا ایک متکلم کی طرح آپ اسے واضح کرنا ضروری سمجھتے ہیں؟ اور اگر آپ کی جانب سے اس وضاحت کے بعد بھی وہ قرآن کا فطری بیان ہی رہا تو متکلمین کی کاوش کے بعد وہ قرآن سے باہر اور غیر فطری کیسے ہوجاتا ہے؟
الغرض یہ ہے وہ خطابی گفتگو جو “قرآن کے فطری انداز” کے نام پر علم کلام کو لتاڑنے کے لئے کی جاتی ہے۔ قرآن کے بارے میں چونکہ مسلمانوں میں عقیدت پائی جاتی ہے تو علم کلام کے ناقدین اس عقیدت کو علم کلام کو لتاڑنے کے لئے خوب کیش کرتے ہیں۔

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں