Home » غامدی صاحب کا موقف : الہامی عذاب کا جدید اطلاق
شخصیات وافکار کلام

غامدی صاحب کا موقف : الہامی عذاب کا جدید اطلاق

صفتین خان 

استاذ غامدی کی مخالفت اور پرخار میں فقیہ شہر اور مولوی اہل یہود پر عذاب کے الہامی تصور پر ہی طنز کرنے لگے ہیں۔ ایک ایسا مرکزی خیال جو جا بجا پوری بائبل اور قرآن میں نظر آتا ہے۔ دونوں اہم ترین صحیفوں میں قانون رسالت کا تصور کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ ساری عمر مقدس اوراق کا مطالعہ کرنے والے جب اتنی سادہ سامنے کی حقیقت کو نہ سمجھ سکیں تو ان کے فہم کی صلاحیت قابلِ رحم ہے۔

ان کا یہ مؤقف کہ موجودہ حالات میں مسلمان اور اہل یہود دونوں اللہ کے عذاب کے قانون کی زد میں ہیں، کسی خود ساختہ نظریے یا ذاتی فکری اختراع پر مبنی نہیں ہے۔ یہ قرآن کے اصول، اس کے تاریخی بیانیے اور اس میں بیان کردہ خدائی قوانین کی ایک منطقی اور جامع تعبیر اور موجودہ تناظر پر اطلاق ہے۔

اہل یہود پر عذاب بائبل اور قرآن میں بنی اسرائیل کی عہد شکنی، انبیاء سے دشمنی اور فساد فی الارض کے نتیجے میں ان پر نازل ہونے والی ذلت و مسکنت اور عالمگیر نفرت کی پیش گوئیوں کا تسلسل ہے۔

قرآن نے نہ صرف یہود کے ماضی کے جرائم اور ان پر نازل ہونے والے عذاب کو بیان کیا ہے بلکہ ایک دائمی وعید بھی سنائی ہے کہ جب تک وہ اپنی سرکشی اور نافرمانی پر قائم رہیں گے، وہ اس عذاب کی زد میں رہیں گے۔

یہ عذاب کبھی کسی بیرونی طاقت کے ذریعے آیا جس نے انہیں غلام بنایا، کبھی اندرونی انتشار اور تفرقے کی صورت میں ظاہر ہوا، اور کبھی ان کی شہرت اور قبولیت کو عالمی سطح پر نقصان پہنچا۔

چودہ صدی قبل عرب کے ریگزاروں میں جب مذہبی امامت و قیادتِ عالم بنی یعقوب سے نکل کر ذریتِ ابراہیم کی دوسری شاخ، بنی اسماعیل (مسلمانوں) کو سونپی گئی، تو اُن پر بھی عذابِ خداوندی کا وہی قانون لاگو ہوتا ہے جو اہل یہود پر ہوتا تھا۔ اس لیے کہ خالق کی یہ سنت اٹل اور یکساں ہے، دائمی ہے۔ یہ عذاب منصبِ “خیر امت” کے تقاضوں سے روگردانی کا براہ راست شاخسانہ ہے۔

کوئی غلط فہمی میں نہ رہے اس اصول سے اہل فلس تین پر ہونے والے مظالم کا جواز و توجیہ دی جا رہی ہے یا حالیہ صہیونیت اور فارس کی کشمکش میں ظالم و مظلوم کی تعریف بدل گئی ہے۔ ایک معاملہ بیک وقت عذاب اور عدل دونوں کا پیمانہ بن سکتا ہے۔ اس کا فیصلہ میرٹ پر فریقین کا کردار متعین کرے گا۔

یہ مسلم امہ کی مجموعی ذلت و محکومی اور بے وقعتی کا نوحہ ہے۔ فلس تینیوں کی بے بسی، ان کا لہو لہو ہونا دراصل پوری امت مسلمہ کی اجتماعی بے وقعتی، نااتفاقی اور زوال کا بھیانک عکس ہے۔

ایک اعتراض یہ کیا گیا ہے ایسا ہر بیان خدا کے تکوینی امور میں مداخلت ہے۔ یہ تنقید محض خلط مبحث اور علمی مغالطہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے تکوینی (کائناتی قوانین و واقعات) اور تشریعی (احکامات و ہدایات) امور آپس میں گہرے طور پر پیوست ہیں۔ الہامی کلام خود ان قوموں کے احوال بیان کرتا ہے جنہوں نے اللہ کے تشریعی احکامات کی خلاف ورزی کی تو ان پر تکوینی طور پر عذاب نازل ہوا۔

جب کوئی مفکر تجزیہ کرتے ہوئے اسے بیان کرتا ہے تو وہ خدا کے تکوینی امور میں مداخلت نہیں کر رہا ہوتا۔ وہ اُس قانون الٰہی کی تفہیم اور اطلاق کی کوشش کر رہا ہوتا ہے جسے خود خدا نے کتابِ مبین میں بیان کیا ہے۔ یہ انسانی عقل کا فریضہ ہے وہ قرآن کی روشنی میں تاریخ اور حال کا مطالعہ کرے، اسباب و نتائج کا ادراک کرے، اور امت کو اس کی غلطیوں سے آگاہ کرے۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں