پاکستان ایک مذہبی ریاست ہے اور یہاں عوام کی مذہب سے وابستگی بھی انتہائی جذباتی حد تک ہے۔ کیوں کہ اس ملک کی بنیاد ہی مذہب کے نعرے پر رکھی گئی تھی۔ چنانچہ وطن عزیز کے معرض وجود میں آنے سے اب تک یہ موضوع زیر بحث چلا آرہا ہے کہ “یہاں مذہب کا کردار کیا ہو گا؟” بانیان ریاست نے قیام وطن کی تحریک میں مذہب کا نعرہ خوب استعمال کیا اور عوامی سطح پر مذہبی نعروں سے سے عوامی خون کو خوب مشتعل کیا۔ تقسیم کی مخالفت کرنے والے مسلم زعماء کو اغیار کا ایجنٹ اور زرخرید کے خطاب دے کر عوام کو ان کے خلاف استعمال کیا۔ گو کہ تقسیم وطن کے فورا بعد انہوں نے زمینی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے، مذہبی نعروں سے جان چھڑانے کی کوشش کی، اور ملک کو سیکولر ریاست کے طور پر آگے بڑھانے کی جد و جہد شروع کی۔
لیکن بعد میں معاملہ ان کے ہاتھ سے نکل چکا تھا اور وہی مذہبی نعرے ان کے خلاف استعمال ہونے لگے۔ وہی نعرے جو کسی زمانے میں باچا خان، مولانا آزاد، مولانا مدنی وغیرہ جیسے مسلم زعماء کے خلاف استعمال کر کے انہیں ملک و ملت اور مسلم قوم کے مفاد میں رکاوٹ تصور کرایا جاتا رہا، مرور زمانہ کے ساتھ ان نعروں کے موجدین اور ان کے متبعین کو اسی انداز سے بلیک میل کیا جانے لگا، اور اب تک کیا جا رہا ہے۔ بلکہ اب تو یہ پوزیشن بن چکی ہے کہ قومی سطح کی سیاسی جماعتیں جو مختلف ادوار میں حکمران رہ چکی ہیں، وہ بھی اپنی مخالف سیاسی جماعتوں کے خلاف انہی مذہبی جذباتی نعروں کا استعمال کرتی رہتی ہیں۔ چنانچہ حالات حاضرہ کا جائزہ لیتے ہوئے بلا تفریق یہ کہنا بجا ہے کہ پاکستانی تاریخ میں گزشتہ چند برسوں سے قومی سطح پر سیاست میں نمایاں کردار ادا کرنے والی جماعتوں مسلم لیگ، پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف اور جمیعت علماء اسلام نے نہ صرف اپنے سیاسی حریفوں کو زیر کرنے کے لیے ان کے خلاف ان مذہبی نعروں کا استعمال کیا بلکہ خود بھی ان کا شکار ہوئے ہیں۔
انصاف کے نقطہ نگاہ سے اس مسئلے پر غور کرنے سے یہ کہنا بھی درست ہے کہ ان جماعتوں میں اپنی سیاسی شان و شوکت بڑھانے اور فریق مخالف کو نیچہ دکھانے کی غرض سے ان نعروں کا سب سے کم استعمال پیپلز پارٹی نے کیا ہے جبکہ سب سے زیادہ مسلم لیگ نے ان کا سہارا لیا ہے۔ جمیعت علماء اسلام جو کسی زمانے میں ایک معتدل سیاسی جماعت سمجھی جاتی تھی، جس کا جھکاو پیپلز پارٹی جیسی جماعتوں کی طرف تھا اب وہ بھی مسلم لیگ کے نقش قدم پر چل پڑی ہے۔ جمیعت علماء اسلام نے ان نعروں کے غلط استعمال کا جرم سب سے پہلے قومی اتحاد کی تحریک میں کیا تھا، جس کے نتیجے کے طور پر ملک کو (مرد مومن مرد حق) ضیاء الحق کا مارشل لاء نصیب ہوا۔عوامی رہنما جناب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی ہوئی۔ اس کے بعد جمیعت علماء تقسیم ہو گئی، جمیعت علماء کے سیاسی ذہن رکھنے والے اہل علم و کارکنان مولانا فضل الرحمن کے ساتھ اکٹھے ہو گئے، اور اس گناہ کو دھونے کی کسی قدر کوشش کی۔ اور اب ماضی قریب کے سیاسی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ جب سے مولانا فضل الرحمن کی قاضی حسین احمد صاحب کے دور میں جماعت اسلامی اور بعد ازاں مسلم لیگ سے دوستی اور تعاون کا سلسلہ بڑھا اور مضبوط ہوا ہے تب سے مولانا کے افکار پر ان نعروں کاخوب اثر ہوا ہے۔ اسی طرح اس سے پہلے اور درمیان کا عرصہ جمیعت کے خلاف یہ نعرے استعمال ہوتے رہے، مگر جمیعت علماء بڑی حد تک اس جرم سے محفوظ رہی تھی۔
ممکنہ طور پر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ شاید اب جماعت میں نظریاتی سیاست کے بجائے وقتی سیاست کا غلبہ ہے۔ مولانا کا حالیہ بلاسفیمی کیس کے حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کے فیصلے پر رد عمل بھی اس بات کی گواہی دیتا ہے۔ مولانا کے بیان سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ فیصلے کو پڑھے بغیر ، کیس کی تفصیلات کو جانے بغیر انہوں نے یہ بیان دیا ہے، یا ان سے دلوایا گیا ہے۔ یا پھر مولانا معاملے کی تفصیلات و پیچیدگیوں سے تو واقف ہیں، مگر پاپولر سیاست کی مجبوری اور پنڈی کو پریشرائز کرنے کے لیے یہ بیان دیا، گو کہ ہمیں یہ بدگمانی ہی لگتی ہے، کہ مولانا کی بات بہر حال ہم سیاست سے نابلد لوگوں کے لیے رہنما ہوا کرتی ہے۔ بہر سو اگر یہ بدگمانی درست ہے تو پھر بھی مولانا جیسی شخصیت کو ایسا سطحی بیان درجہ دوم و سوم کی قیادت سے دلوانا چاہیے تھا۔
اس وقت ان قوانین پر بحث و تمحیص قانونی اور انسانی حقوق کے نقطہ نظر سے زیادہ گروہی نقطہ نظر سے ہو رہی ہے۔ گذشتہ طویل عرصہ سے یہاں اہل مذہب اور لبرل طبقہ متحارب فریقین کے طور پر نمایاں نظر آرہے ہیں لیکن ان میں سے ہر ایک نے ان قوانین کو اپنے گروہی مفادات کے لیے ہی استعمال کیا ہے۔ اہل مذہب نے ان قوانین کے تحفظ کےنعرے کے ذریعے عوام میں اپنی طاقت مضبوط کرنے کی کوشش کی ہے جبکہ دوسری طرف این جی اوز، لبرل و سیکولر طبقات نے ان قوانین کے خلاف پروپیگنڈے کے ذریعے عالمی سطح پر اپنی ساکھ مستحکم کر نے اور کسی درجے میں اپنی معاشی قوت مضبوط کرنے کی مساعی کی ہے۔ موجودہ کیس میں بھی جس طرح این جی اوز کے کارندوں اور لبرل ازم کے پیروکاروں نے جس طرح کا رد عمل دیا، اور جس طرح اپنے مستقبل کے اہداف کی طرف اشارات کیے، وہ دراصل مغرب سے فنڈ ریزنگ اور سی وی کو بہتر کرنے کی ہی ایک کوشش ہے۔
اس مفاداتی کشمکش میں ان قوانین کی پیچیدگی، حساسیت پر کوئی سنجیدہ بحث نہیں ہو پاتی، جو چند ایک اہل علم کسی درجے میں یہ علمی کوشش کرتے بھی ہیں تو ان کی آواز اس شور و غوغا میں دب جاتی ہے۔ جب کہ حقیقی مظلوم اور بے گناہ لوگ خوار ہو جاتے ہیں۔
اس وقت ان امور پر ایک سنجیدہ علمی مکالمے کی ضرورت ہے، تاکہ یہ قوانین اپنی روح کے ساتھ موجود رہیں، اور کوئی بے گناہ محض کسی ذاتی رنجش ، یا کسی کے مفادات کی خاطر ظلم کی چکی میں نہ پسے۔ کتنے ہی ایسے عاشق رسول ، دین دار لوگ ہیں، جو اس وقت ان قوانین کی پیچیدگیوں کی وجہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ جمیعت علماء اسلام کے لیے تو لاہور کے قاری عبد الشکور (حفظ کا مدرس ، حفظ کا مدرسہ چلانے والا، فاضل دیوبند کا بھتیجا، ایک بڑے عالم کا بیٹا ) کا کیس بطور نمونہ موجود ہے۔
جمیعت علماء کے ایک محب کے طور پر عرض کروں گا کہ جمیعت علماء اسلام کو چاہیے کہ ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب۔ مولانا زاہد الراشدی صاحب جیسے اصحاب فکر ونظر کی سربراہی میں ایک علمی و فکری فورم بنائے، جو ان امور کو دیکھ کر اپنی رائے دے۔ اس میں صاحبزادہ مفتی اسعد محمود اور ان نوجوان رفقاء بھی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ تاکہ ہم جیسے طالب علموں کی درست رہنمائی ہو سکے۔
کمنت کیجے