Home » دینِ اسلام اور عرب ثقافت
سماجیات / فنون وثقافت کلام

دینِ اسلام اور عرب ثقافت

ڈاکٹر خضر یسین

دین کا مخاطب و مکلف “انسان” ہے، عرب و عجم اور بدویت و حضارت عمرانی مطالعات کے عنوانات ہیں جنہیں تخصص کے لیے متعین کیا گیا ہے، یہ انسان کی مطالعاتی مجبوری ہے اور اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ جہاں تک دینی احکام و اخبار اور دین کے مناسک عبادات کا تعلق ہے تو ان میں سے کوئی ایک شے بھی ایسی نہیں ہے جسے عرب یا عجم کی تہذیب و ثقافت کا ورثہ قرار دیا جا سکتا ہو۔ عرب و عجم کی علاقائی تہذیب و ثقافت یہی وجہ ہے کہ آج بھی ایک دوسرے سے ممتاز و منفرد ہے نظر آتی ہیں۔
دین اسلام انسان کی یونیورسل فطرت کو خطاب کرتا ہے اور اس کے احکام و اخبار اور مناسک عبادات یونیورسل ہیں۔ انسان جب اس کی یونیورسل ازم کو نظر انداز کرتا ہے تو اپنے اس انحراف کو علاقائی تہذیب و ثقافت کی ڈھال کے پیچھے چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔
الائمة من قريش دین حکم نہیں ہے اور نہ منزل من اللہ اخبار میں سے کوئی خبر ہے۔ یہ اسلام کی یونیورسل ازم کے بالمقابل علاقائیت کی ڈھال ہے۔ ممکن ہے کہ وقتی مقتضیات اس کا سبب ہوں۔ لیکن جب اس خبر یا حکم کو منزل من اللہ دین کا حصہ بنایا گیا تو علاقائیت کا عفریت بوتل سے باہر نکل آیا اور پھر آج تک بوتل میں واپس بند نہ ہو سکا ہے اور نہ کیا جا سکا۔
اسی طرح آنجناب علیہ السلام دین کے بالکل ویسے ہی مکلف و مخاطب ہیں جیسے کوئی دوسرا انسان ہے۔ آنجناب علیہ السلام کا امتیازی وصف یہ کہ آپ علیہ السلام دین کے پہلے مکلف و مخاطب ہیں اور امتی آپ علیہ السلام کی اطاعت و اتباع میں دین کا بالواسطہ مکلف و مخاطب ہے۔ دین کی اس یونیورسل ازم کے بالمقابل علاقائیت نے آنجناب علیہ السلام اطاعت و اتباع کو ضائع کر دیا اور “میرا فہم دین” ایک دینی فضیلت بن گیا۔ اب وہ فہم بھی دین بن گیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شعور مبارک میں کبھی آیا تھا اور نہ آ سکتا تھا۔
مسلمان علماء نے علاقائی رسوم و رواج اور روایات کی رعایت وہاں بھی ضروری بنا دی جہاں حکم الله پوری قوت و شدت کے ساتھ موجود ہے۔ حکم الله ایک یونیورسل حکم ہے جس پر کیوں اور کس لیے کا سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔ حکم الله کی یونیورسل ازم کو اس وقت علاقائیت کی ڈھال کے پیچھے چیلنج کیا جاتا ہے جب اس کے موضوع کو “محل اجتہاد” بنایا جاتا ہے۔ مدرسے یا حوزوی زبان میں کہوں تو “منصوص علیہ موضوع” کو محل اجتہاد بنانا دیا جاتا ہے۔ لیکن منزل حکم کے موضوع کو محل اجتہاد بنانا یا ماننا فی نفسہ ایک مفسدہ ہے جسے علاقائیت کے عفریت نے اسلام کی عالم گیریت کے خلاف اجتہادی ایکٹیویٹی بنا دیا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ کا تصور آپ کو کسی منزل من اللہ حکم کے عارضی اور علاقائی ماننے کی راہ ایک دائمی رکاوٹ ہے، اگر آپ اللہ اور اللہ کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں۔ عربی مبین ہو یا ام القرٰی کا حوالہ، خدا کا کلام، خدا کا حکم اور خبر من الله، المختصر ہر وہ شے کی نسبت رب العالمین کی طرف ہو وہ عالم گیر ہے۔ اسے علاقائی بنانے اور ماننے کی ہر کوشش فساد فی الارض ہے۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں