Home » مصلحت پسندی اور اسلام
ادیان ومذاہب تاریخ / جغرافیہ کلام

مصلحت پسندی اور اسلام

طلحہ نعمت ندوی

انسان مصلحت پسند ہے، بلکہ مصلحت پسندی اس کی فطرت میں شامل ہے، چنانچہ وہ اس کے مطابق اپنے کاموں میں تبدیلی لاتا ہے اور اس طرح دوسروں کے ساتھ زندہ رہنے کا حق حاصل کرتا ہے۔
دوسری طرف اللہ تعالی کے مطالبات ہیں جو انسانوں کی مصلحت سے کبھی کبھی ٹکراتے ہیں اور مصلحت کبھی کبھی ان سے دستبردار ہونے کا مطالبہ کرتی ہے۔ تقریبا ہر قوم میں مذہب کا تصور یا اپنے کچھ نہ کچھ نظریات موجود ہیں جس سے اس کا قومی اور ملی وجود قائم ہے، اگر وہ ختم ہوجائیں تو اس کی شناخت مٹ جائے۔ ایسی صورت میں جب کسی دوسری قوم کا دباؤ پڑتا ہے اور وہ کمزور ہوکر اس کا مقابلہ نہیں کر پاتی تو اس کے پاس دو ہی صورتیں رہ جاتی ہیں، یا وہ غالب قوم کا مطالبہ قبول کرلے، اپنے تشخص سے دستبردار ہوجائے اور اس طرح اپنا ملی وجود کھو بیٹھے یا اس کے مقابلہ میں سینہ سپر ہوجائے اور اپنے قومی شناخت کے خاتمہ کو اپنے وجود کا خاتمہ تصور کرتے ہوئے خود کو اس کے لیے قربان کر دے۔ ایک تیسری صورت بھی بعض حالات میں ممکن ہوتی ہے کہ حالات کے مطابق جہاں تک ممکن ہو ان کے رنگ میں خود کو ڈھالنے کی کوشش کرے اور وقت ملنے پر پھر اپنے قدیم راستہ پر واپس آجائے۔
دنیا کی تاریخ اگر اٹھا کر دیکھی جائے تو تقریبا ان تمام قومی تحریکات اور فکری اداروں نے ایسا ہی کیا ہے جن کا وجود باقی ہے اور ان کی کوئی قومی جماعتی شناخت ہے۔
ان کے افراد ذاتی طور پر بھی ایسا ہی کرتے ہیں اور وقت پڑنے پر ان کی قومی وملی قیادت بھی یہی فیصلہ کرتی ہے۔
یہودیت جس طرح آج برسر اقتدار ہے وہ کسی سے مخفی نہیں لیکن ہزاروں سال کی مظلومیت کی طویل تاریخ میں انہوں نے اپنا وجود کس طرح بچاکر رکھا، کیا وہ اسی شناخت کے ساتھ ہمیشہ رہے یا دور مظلومیت میں اپنے بہت سے شعائر اور مذہبی فرائض کو ترک کیا جس سے ان کا وجود بچ سکا۔ ہندوستان میں ہندؤوں کی تاریخ پر غور کیا جائے کہ مسلمانوں کے ایک ہزار سالہ دور میں وہ کس طرح یہاں رہے تو معلوم ہوگا کہ ان کو اپنے بہت سے مسائل میں سمجھوتہ کرنا پڑا، اور آج انہیں جن ظواہر پر اصرار ہے نصف صدی قبل تک ان کے یہاں ان کی کوئی حیثیت نہیں تھی، اگر مسلمانوں کے دور اقتدار میں وہ ان چیزوں پر اصرار کرتے تو اپنا وجود کھو دیتے، اور یہی حال آج بھی ان کا مسلم ممالک میں ہے، کہ وہاں انہیں ان مظاہر پر اصرار نہیں ہے، اس طرح ایک ہی قوم دو جگہوں پر دو الگ الگ تصورات سے وابستہ ہے کیوں کہ وہاں اس کا وجود وبقا اسی پر موقوف ہے،اس لیے ایسا کرنا کوئی معیوب نہیں ہے جیسا کہ مسلم وغیر مسلم دانشوروں کی بڑی تعداد کا کہنا ہے کہ اسلام اپنی طاقت کے دور میں وہ نہیں معلوم ہوتا جو اپنی کمزوری کے دور میں نظر آتا ہے، دوسری طرف ان بہت سے حرفیت پسند علماء کے لیے بھی اس میں سبق ہے جو کسی بھی حال میں فقہی جزئیات سے ذرہ برابر ہٹنا گوارا نہیں کرتے اور مسلمانوں کی شہادت اور جان کی قربانی کو ان ظواہرپر ترجیح دیتے ہیں۔
یہ سچ ہے کہ ہم کسی طرح اپنے ان مذہبی اصولوں سے دستبردار نہیں ہوسکتے جن کو چھوڑدینا ہمارے لیے دینی وملی خود کشی کے مرادف ہے، لیکن بہت سے ظواہر بھی ایسے ہیں جن پر اصرار کہیں کہیں ہمارے ملی وجود کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
ہماری تاریخ میں اس کی دسیوں مثالیں موجود ہیں کہ انسانی اور مسلم جانوں کے تحفظ کی خاطر مصلحت کو مقدم رکھا گیا اور ایسی چیزوں کی اجازت دے دی گئی جو کلی طور پر تو نہیں لیکن جزوی طور پر اسلام کے مزاج سے ہم آہنگ نہیں تھیں۔
میدان جنگ سے فرار پر اسلامی تعلیمات میں سخت وعید آئی ہے، لیکن حضرت خالد بن الولید غزوہ موتہ میں مسلمانوں کی بقیہ فوج کو بچا کر لے آنے میں کامیاب ہوگئے تو اس پر دربار نبوت سے ان کی تحسین کی گئی جب کہ مسلمان سخت ناراض تھے، حالاں کہ ان کے لیے لڑکر شہید ہوجانے کا اچھا موقع تھا۔
اسی طرح حضرت حذافہ السہمی نے ایک رومی ظالم بادشاہ کی پیشانی کو بوسہ دے کر چالیس مسلمانوں کی جان بچالی تو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے واپسی پر نہ صرف ان کی تحسین فرمائی بلکہ خود ان کی پیشانی کو بوسہ دیا۔ جب کہ وہ اسلام کا عہد زریں اور دور عروج تھا،اور چالیس مسلمانوں کی شہادت سے کوئی بڑا فرق نہیں ہوتا، نیز یہ بھی ممکن تھا کہ سیدنا عمر اس کے مقابلہ میں ایک لشکر روانہ فرماکر اس کی سرزنش فرماتے، لیکن چالیس مسلمانوں کی قدر ان کی نگاہ میں کس قدر تھی اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگانا مشکل نہیں۔
یقینا شہادت مطلوب ہے لیکن اپنا ملی وجود باقی رکھنا اور دنیا میں توحید کا پیغام عام کرنا بھی اور شرک سے دنیا کو پاک کرنا بھی بعثت انبیاء کا اساسی مقصد ہے، اور تخلیق انسانی سے اللہ تعالی کا مقصود بھی یہی ہے، اگر جزئی مسائل ومباحث پر اصرار کے مقابلہ میں شہادت کو ترجیح دی جائے تو یہ مقصود الہی پورا نہیں ہوسکتا۔
لیکن سوال یہ ہے کہ ہم کہاں اور کن حالات میں اس طرح کے اقدام کو قبول کرسکتے، اور اسلام کی وہ کون سی اساسات ہیں جن سے ہم بطور مصلحت مجبوری میں دستبردار ہو سکتے ہیں۔
یہ فیصلہ مختلف حالات میں اجتماعی غور و فکر کا متقاضی ہے۔ ورنہ عام حالات میں سپر اندازی قومی تحریک کے لیے سخت نقصان دہ اور بزدلی کا پیش خیمہ بلکہ قومی روح کے لیے پیام موت ثابت ہوتی ہے۔
جہاں حالات کے تقاضے ہیں وہاں یہ بھی اپنی جگہ قرآنی حقیقت ہے کہ دیگر مذاہب بالخصوص یہود ونصاری ہم سے اس وقت تک مطمئن نہیں ہوسکتے جب تک کہ ہم ان کی ہر رائے نہ قبول کرلیں بلکہ بصورت دیگر اپنے مذہبی اصولوں سے ہی دستبردار نہ ہو جائیں، قرآن پاک نے ایسے یقینی لب ولہجہ میں یہ بات کہی ہے کہ شبہہ کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی اور اسلام کی پوری تاریخ اس کی گواہ ہے، یہی حال دیگر مذاہب کا بھی ہے۔
اس لیے اجتماعی غور و فکر، ترجیحات کے تعین اور اپنے ملی تشخص اور اپنے دین پر پورے اعتماد کے ساتھ اور سامنے والے کے مزاج کو پیش نظر رکھتے ہوئے بہت سے مسائل میں سمجھوتہ کیا جاسکتا ہے، لیکن اگر ایسے حالات پیش آجائیں جہاں اپنا ملی تشخص اور قومی وجود خطرہ میں پڑنے کا اندیشہ ہو یا ہمارے اصول دین میں اس کی گنجائش بالکل نہ ہو تو ایسی صورت میں قربانی دینے کے لیے تیار رہنا ہی بہتر ہے، اور اسی میں اس دین کی بقا کی ضمانت ہے اور تاریخ سے اس کی تصدیق بھی ہوتی ہے۔
اگر کہیں ایسے حالات ہوں کہ اجتماعی طور پر اپنے دین وایمان کی حفاظت ظاہری طور پر تو نہیں البتہ خفیہ طور پر ممکن ہو تو پھر ایسا ہی کرنا اور اس دوران خاموشی سے اس صورت حال کے ازالہ کی جدوجہد میں مشغول رہنا بہتر معلوم ہوتا ہے اور بہت سی قوموں نے اپنا وجود اسی طرح باقی رکھا ہے۔
انفرادی طور پر تو جان بچانے کے لیے کلمہ کفر بھی زبان سے ادا کیا جاسکتا ہے جب کہ دل مطمئن ہو اور کوئی مستقل پابندی نہ ہو لیکن اجتماعی طور پر ایسا کرنا بہ ظاہر ملی وقومی وجود کو سخت نقصان پہنچا سکتا ہے۔
بہت سے لوگوں کو اپنی تہذیب پر بھی اصرار رہتا ہے، حالاں کہ سچ یہ ہے کہ ضرورت کے وقت تہذیب کو مذہب پر قربان کردینے میں کوئی حرج نہیں، تہذیب کو بچانے کے لیے مذہب کا سودا نہیں کیا جاسکتا خاص طور پر اصول مذہب میں کسی طرح کا سمجھوتہ ممکن نہیں۔ ایسی صورت میں ترجیحات کا تعین زمان ومکان کے اعتبار سے مختلف ہو سکتا ہے جو دانشوران قوم کی غوروفکر کا متقاضی ہوتا ہے۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں