Home » عقل و نقل کا تعارض اور متکلمین اہل سنت کی آراء
اسلامی فکری روایت عربی کتب کلام

عقل و نقل کا تعارض اور متکلمین اہل سنت کی آراء

(شیخ سلیمان بن صالح کی کتاب “موقف المتکلمین  من الاستدلال نصوص الکتاب والسنۃ ” کے ایک اقتباس کا اردو ترجمہ)

ترجمہ:۔مفتی شاد محمد شاد

متکلمین کا عقل کو نقل پر مقدم کرنا

متکلمین عقل کو اہمیت دینے میں حد سے تجاوز کرتے اور شریعت (نقل)کی تعظیم میں  کمی کرتے ہیں،اس بات پر سب سے واضح دلیل یہ ہے کہ متکلمین کسی بھی نص شرعی کو رد کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے،بلکہ  نص کو اُن عقلی قواعد سے خارج کردیا جاتا ہے جو متکلمین نے خود وضع کیے ہیں اور اُن عقلی قواعد کو خدا کی شریعت پر حاکم و فیصلہ کن بناتے ہیں، لہذا یہ حضرات اُسی کو ثابت مانتے اور صرف اُسی کو قبول کرتے ہیں جو عقلی قواعد کے موافق ہو،اور جو کچھ عقلی قواعد کے خلاف ہو،اُس کو رد کرکے اس کا انکار کرتے ہیں،بلکہ نظام کی رائے یہ ہے کہ  کبھی عقلی دلیل،خبر(نقل)کو منسوخ کردیتی ہے۔(تاویل مختلف الحدیث ص32)

متکلمین نے عقل کو شریعت پر مقدم کرنے کی بنیاد اس دلیل پر رکھی ہے کہ عقل ہی شریعت کے صحیح ہونے کی طرف راہنمائی کرتی ہے،اسی سے اللہ  تعالیٰ کی معرفت اور رسول کا سچا ہونا معلوم ہوتا ہے۔لہذا اگر (تعارض کے وقت)نقل کو عقل پر مقدم کیا جائےگا تو اس سے یہ لازم آئےگا کہ ”فرع“ کو”اصل“پرمقدم کیا گیا اور اس کی وجہ  سے ”اصل“باطل ہوجائےگا۔اور جب  اصل(عقلی دلیل)باطل ہوگیا جو فرع پر دلالت کرتا ہے تو فرع(نقلی دلیل)خوبخود باطل ہوجائےگا۔

اسی دلیل کو بہت سے متکلمین نے مختلف عبارات اور الگ الگ اسلوب میں بیان کیا ہے۔چنانچہ قاضی عبدالجبار”استواء علی العرش“کے مسئلہ پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”سمع اور نقل کے ذریعے اس مسئلے(استواء) پر استدلال کرنا ممکن نہیں ہے،کیونکہ نقل کی صحت خود اس مسئلے پر موقوف ہے۔یہ اس لیے کہ جب تک ہمیں یہ علم نہ ہو کہ قدیم ذات،عدل و حکمت والی ذات ہے،اُس وقت تک ہمیں نقل کی صحت کا علم حاصل نہیں ہوسکتا۔اور جب تک یہ علم نہ ہو کہ وہ ذات غنی اور کسی بھی چیز کی محتاج نہیں ہے ،اس وقت تک ہمیں اس کا عادل ہونا معلوم نہیں ہوسکتا۔اور جب تک ہمیں یہ معلوم نہ ہو کہ  وہ ذات جسم نہیں رکھتی ،اس وقت تک یہ پتہ نہیں چل سکتا کہ وہ غنی ہے۔لہذااس مسئلے پر نقل کے ذریعے استدلال کرنا کیسےممکن ہوسکتا ہے؟اور کیا یہ فرع کو اصل پر دلیل بناکر پیش کرنا نہیں ہے؟۔“(شرح الاصول الخمسۃ ص 226۔233۔262)

امام جوینی ؒ نے ”اصولِ عقائد“پر کلام کرتے ہوئے ان کی تین قسمیں بیان کی ہیں:

1۔وہ اصول جن کا ادراک عقل کے ذریعے ہوتا ہے،نقل کے ذریعے اُن اصولوں کے جاننے کا امکان نہیں ہے۔

2۔وہ اصول جن کا علم صرف نقل سے حاصل ہوتا ہے،عقل کے ذریعے ان کا ادراک ممکن نہیں ہے۔

3۔وہ اُصول جن کا ادراک عقل و نقل دونوں کے ذریعے سے ہوسکتا ہے۔

ہر ایک قسم پر کلام کرنے کے بعد آپؒ لکھتے ہیں:

”جب یہ مقدمہ ثابت ہوگیا تو اب ہر وہ شخص جو دین کا اہتمام کرتا ہے اور اپنی عقل پر بھی اعتماد کرتا ہے،اس پر لازم ہے کہ ہر اس مسئلے میں غور کرے جس میں نقلی دلائل موجود ہوں ۔ اگر ان دلائل کا مضمون عقلا محال و ناممکن نہ ہو اور نقلی دلائل  یقینی و قطعی ذرائع سےثابت ہوں، اُن کے اصول کے ثبوت میں کوئی احتمال نہ ہو اور نہ اس میں کسی تاویل کا احتمال ہو تو ایسے دلائل قطعی ہی ہوتے ہیں۔اگر نقلی دلائل قطعی ویقینی ذرائع سے ثابت نہ ہوں اور ان کا مضمون عقلا محال نہ ہواور ان کے اصول قطعی طور پر ثابت ہوں،لیکن اس میں تاویل کااحتمال موجود ہو تو ایسے دلائل کوقطعی نہیں کہا جائےگا،لیکن دیندار شخص  کا غالب گمان یہ ہوتا ہے کہ وہ چیز ثابت ہے جس کے ثبوت پر نقلی دلیل  دلالت کررہی ہے،اگرچہ وہ قطعی نہیں ہے۔اور اگر شرع (نقلی دلیل)کا مضمون  عقل کے مقتضیٰ کے خلاف ہو تو وہ یقینا مردود ہے،کیونکہ شریعت،عقل کے خلاف نہیں ہوتی،اور اس قسم(عقل کی مخالفت) میں  کسی قطعی نقلی دلیل کا ثابت ہونا ممکن نہیں ہے اور اس میں کوئی خفاء بھی نہیں ہے۔“(الارشاد للجوینی ص 359۔260)

اس عبارت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ علامہ جوینیؒ کےہاں کسی نص کا مضمون صرف اُس وقت قطعی ہوسکتا ہے  جب وہ ثبوت کے اعتبار سے بھی قطعی ہو اور دلالت کے اعتبار سے بھی قطعی ہو اور اس میں کسی طرح کی تاویل کا احتمال نہ ہو۔رہی بات اُن نصوص کی جو ثبوت کے اعتبار سے قطعی نہ ہوں تو وہ ”آحاد“ہیں اور امام جوینیؒ کے نزدیک  ایسی نصوص  سے درج ذیل شرائط کی موجودگی میں مضمون ومفہوم ثابت ہوسکتا ہے:

1۔ایسی نص کا مضمون  عقلا محال نہ ہو۔

2۔ایسی نصوص کے اُصول قطعی طور پر ثابت ہوں۔

3۔ایسی نصوص کے مقتضیٰ و معنی کو قطعی نہ کہا جائے۔

البتہ اگر نصِ شرعی ،عقل کے مخالف ہو تو وہ یقینا مردود ہے،کیونکہ جو چیز عقل کے خلاف ہوتی ہے وہ شریعت نہیں ہوسکتی،اس لیے کہ  شریعت ،عقل کے خلاف ہی نہیں ہوتی۔لہذا شریعت(نقل)اور عقل کے تعارض کے وقت  امام جوینیؒ شریعت کو تو رد کرتے ہیں،لیکن عقل کو رد نہیں کرتے۔

امام غزالیؒ کی رائے یہ ہے کہ ہر اُس چیز میں تاویل کی جائے جو عقلا محال و ناممکن ہو۔اس سے اُن کی مراوہ  چیز ہے جواُن عقلی اُصولوں کے خلاف ہو جن کی بنیاد پر امام غزالیؒ نے بہت سی ایسی باتوں کو رد کیا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اور رسول اللہ ﷺ نے اپنے لیے بطورِ صفت استعمال کی ہے۔

اگرچہ امام غزالیؒ کے ہاں ایسی کسی  قطعی نصِ شرعی  کے وجود کا تصور نہیں ہوسکتا جو عقل کے خلاف ہو، مگر اس کے باوجود اُن کا کہنا ہے کہ صفات سے متعلق بعض احادیث(جن کو امام غزالیؒ ”احادیث التشبیہ“کا نام دیتے ہیں)صحیح نہیں ہیں اور جو صحیح ہیں اُن کا مضمون قطعی نہیں ہے،بلکہ اُن میں تاویل کی گنجائش ہے۔(الاقتصاد فی الاعتقاد ص 133)

امام غزالیؒ اس موضوع پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں کہ عقل ونقل کے تعارض کے سلسلے میں لوگوں کے پانچ فرقے ہیں:

1۔پہلا فرقہ وہ ہے جو صرف منقولات کا اعتبار ولحاظ کرتا ہے۔

2۔دوسرا فرقہ وہ ہے جو صرف معقولات  کو ترجیح دیتا اور عقل ہی کا لحاظ کرتا ہے اور نقل کی طرف توجہ نہیں کرتا۔اس  فرقہ کے لوگ جب شریعت کی کوئی ایسی بات سنتےہیں جو ان کے  موافق ہو تو اُسے قبول کرتے ہیں اور اگر شریعت کی کوئی بات اُ ن کی عقل کے خلاف ہو تو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ صرف انبیاء کی ہی ضرورت تھی،(ہماری ضرورت نہیں ہے) جبکہ ہم پر لازم ہے کہ ہم خود کو عوام کی حد میں رکھے۔

3۔تیسرا فرقہ وہ ہے جو عقل کو اصل کا درجہ دیتا ہے اور منقولات کی طرف اُس کی توجہ کمزور ہوتی ہے،لیکن جب  کوئی ایسی نص سن لیتا ہے جس کا ظاہری مفہوم ،عقل کے خلاف ہو تو یہ فرقہ  اُس نص کا انکارکرتا ہے اور اس کے راوی  کی تکذیب کرتا ہے،سوائے اُس نقل کے جو تواتر سے منقول ہو جیسے قرآن،یا حدیث کے وہ الفاظ جن میں تاویل ہوسکتی ہو(تویہ لوگ اُسے قبول کرلیتے ہیں) اور جس نص کی تاویل اُن کے لیے مشکل ہو تو اس کا انکار کرتے ہیں اور اُس کی تاویل میں بہت دور تک جانے سے اجتناب کرتے ہیں،اور  یہ سمجھتے ہیں کہ تاویل میں بہت دور تک جانے سے بہتر ہے کہ تاویل کو قبول کرنے سے ہی توقف کیا جائے۔

4۔چوتھا فرقہ وہ ہے جنہوں نے منقولات کو اصل کا درجہ دیا ہے اور  یہ فرقہ معقولات میں زیادہ غور وخوض نہیں کرتا،چنانچہ ان پرعقلی محالات و ناممکنات واضح نہ ہوسکےاور ان کے ہاں ہر وہ چیز ممکن ہوسکتی ہے جس کا محال وناممکن ہونا معلوم نہ ہو،اگرچہ اس کا ممکن ہونا معلوم نہ ہو۔(قانون التاویل للغزالی 235۔238)

ان چار فرقوں کا تذکرہ کرنے اور ان پر نقد کرنے کے بعد امام غزالیؒ نے پانچویں فرقے کا ذکر کرکے ان کا منہج بیان کیا ہےاور اُسی کے طریقے کو راجح قراردیا ہے۔اس فرقے کا تعارف آپؒ نے یوں کیا ہے:

5۔پانچواں فرقہ  ایک متوسط  فرقہ ہے جو عقل اور نقل دونوں کی تحقیق و تفتیش کرتا ہے اور عقل ونقل دونوں کو اَہم اصول قراردیتا ہے۔یہ فرقہ عقل اور شرع(نقل)کے تعارض کا انکار کرتا ہے اور اسی بات کو حق سمجھتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ جس نے عقل کی تکذیب کردی ،اُس نے شریعت کی تکذیب کردی،کیونکہ عقل کے ذریعے سے ہی شریعت کی صداقت کا علم ہوتا ہے۔اگر شریعت کی صداقت پرعقلی دلیل نہ ہوتی تو  ہمیں سچے نبی اور نبوت کے دعویدار میں اور سچے اور جھوٹےمیں فرق کا پتہ نہ چلتا۔اور شرع(نقل)کے ذریعے عقل کی تکذیب کیسے کی جاسکتی ہے،جبکہ شریعت کا ثبوت عقل کے ذریعے ہی ہوتا ہے۔یہ فرقہ حق پر ہے اور یہی فرقہ درست منہج پرچلا ہے۔(قانون التاویل ص 238۔239)

اس طرح غزالیؒ نے  عقل کو شرع پر مقدم کرنےوضاحت کی ہے اور دلیل یہ دی ہے کہ عقل ہی وہ چیز ہے جو شرع کی صداقت کی طرف راہنمائی کرتی ہے،لہذا دلیل(عقل)میں طعن کرنے سے مدلول(جو کہ شرع ہےاس )میں طعن لازم آتا ہے۔

غزالیؒ کے شاگرد ابن عربیؒ نے بھی تقریبا اپنے شیخ کی رائے کو ہی بیان کیا ہے،چنانچہ آپؒ فرماتے ہیں:

”یہ بات درست نہیں ہے کہ شریعت میں کوئی ایسی چیز ہے جو عقل کے خلاف ہے،کیونکہ عقل ہی شرع کی صحت کی گواہی دیتی ہےاور اس طور پر شرع کا تزکیہ کرتی ہے کہ معجزہ ،رسول کی صداقت پر دلالت کرتا ہے،لہذا شرع کیسے ”تزکیہ کرنے والے“کے خلاف اور اس کی تکذیب کے لیے آسکتا ہے؟یہ عقلا محال ہے۔“(قانون التاویل لابن عربی ص 646)

اس قانون کی تہذیب وتنقیح کا اختتام امام رازیؒ پر ہوتا ہے،جنہوں نے اپنی کتابوں میں  اس قانون کا ذکر کیا ہے اور خالص عقلی اسلوب میں یہ بیان کیا ہے کہ تعارض کے وقت عقل کو نقل پر مقدم کیا جائےگا۔

امام رازیؒ نے”نہایۃ المعقول“میں اس بات پر کئی سوالات پیش کیے ہیں کہ کیا عقلیات میں نقلی دلیل سے استدلال کرنا جائز ہے اور یہ ذکر کیا ہے کہ عقلیات کئی اقسام پر مشتمل ہے۔اس کے بعد آپ نے تیسری قسم کی مثال میں رؤیتِ باری ،صفات اور وحدانیت جیسے مسائل کا تذکرہ کیا ہے اور اس قسم کے بارے میں لکھا ہے کہ :

”اس تیسری قسم میں نقلی دلائل سے استدلال کرنا مشکل ہے،کیونکہ اگر ہم یہ فرض کرلیں کہ  قطعی عقلی دلیل، نقلی دلیل کے ظاہری مفہوم کے خلاف ہے تو اہلِ تحقیق کے ہاں بالاتفاق نقلی دلیل میں تاویل کرنا ضروری ہے۔یہ اس لیے کہ جب  ظاہری مفہوم اور عقلی دلیل کے مقتضیٰ کو جمع نہ کیا جاسکتا ہو (اور دونوں میں تطبیق ممکن نہ ہو )تو اس کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں:

1۔یا تو عقل کی تکذیب کی جائیگی۔

2۔یا نقل میں تاویل کی جائیگی۔

(اگرعقل کی تکذیب کی جائیگی تو یہ درست نہیں ،کیونکہ)عقل کے بغیر نقل کا اثبات ممکن نہیں ہے اور صانع کے اثبات اور نبوت کی معرفت کا ذریعہ بھی عقل ہے،اگر اس کے باوجود(پہلی صورت اختیار کرکے)عقل کی تکذیب کی جائیگی تو اس سے یہ لازم آئےگا کہ نقل کی صحت ایسی چیز پر موقوف ہے جس کا فاسد و باطل ہونا جائز ہے۔ا س سے نقلی دلیل کی صحت قطعی و یقینی نہ رہے گی،لہذا عقل کو رد کرکے نقل کو صحیح کہنے سے نقل میں ہی  طعن وعیب لازم آتا ہے۔“

پھر امام رازیؒ نے یہ بیان کیا ہے کہ :”نقلی دلیل یقینی طور پر اس وقت اپنے مدلول کے وجود پر دلالت کرتی ہے جب نقلی  دلیل کے ظاہری مفہوم  کے خلاف عقلی دلیل نہ پائی جائے،ورنہ نقلی دلیل مطلوب کا فائدہ نہیں دے گی۔البتہ اگر ہم یہ واضح کردیں کہ عقل کا کوئی ایسا تقاضا موجود نہیں ہے جو نقلی دلیل کے ظاہر کے خلاف ہے (تو پھر نقلی دلیل مطلوب کا فائدہ دے گی)اور یہ بات (کہ عقل کا کوئی تقاضا، نقلی دلیل کے ظاہر کے خلاف نہیں ہے)دو طریقوں سے ثابت ہوسکتی ہیں:

1۔یا تو ہم اس بات پر قطعی عقلی دلیل قائم کردے کہ جو کچھ نقلی دلیل سے ظاہر ہورہا ہے وہ صحیح ہے،لیکن ایسی صورت میں نقلی دلیل سے استدلال کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

2۔یا ہم اُن لوگوں کے دلائل کو باطل قراردیں جو نقلی دلیل  کے ظاہری مفہوم کا انکار کرتے ہیں۔یہ دوسری صورت کمزور ہے،کیونکہ منکرینِ ظاہر نے جو کچھ ذکر کیا ہے  اگر وہ فاسد ہے تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہاں نقل کا اصلا کوئی معارض ہی نہیں ہوگا۔البتہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ چونکہ نقل کے معارضات پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے،اس لیے اُن کی نفی ضروری ہے۔لیکن ہم نے اس طریقے کو غلط قراردیا ہے۔اس لیے ہمیں قطعی دلیل قائم کرنی ہوگی کہ فلاں مقدمہ ،اِس نص کے معارض نہیں ہے اور نہ ہی فلاں دوسرا مقدمہ اس نص کے معارض ہے،ایسی صورت میں ہمیں لامتناہی اور نہ ختم ہونے والے مقدمات میں سے ہر مقدمہ پر یہ دلیل قائم کرنی ہوگی کہ یہ مقدمہ، نص  کے ظاہر کے خلاف نہیں ہے۔(اور ایسا کرنا ناممکن ہے)

لہذا یہ ثابت ہوگیا کہ ایسا کوئی طریقہ نہیں ہے جس سے یقینی طور پر معلوم ہوسکے کہ نقلی دلیل کے ظاہر کے خلاف اور معارض کوئی چیز نہیں ہےاور یہ بھی ثابت ہوگیا کہ  نقلی دلیل اُس وقت یقین کا فائدہ دیتی ہے جب یہ بات ثابت ہوجائے (کہ اس کے معارض کچھ بھی نہیں ہے)،لہذا نقلی دلیل کا مفید ہونا ایک غیر یقینی مقدمہ پر موقوف ہے اور وہ مقدمہ ”عقلی دلیل کا نہ ہونا“ہے ،اس لیے(دوسری صورت یعنی ) نقل میں تاویل ضروری ہے۔“(نہایۃ العقول للرازی ق/14۔درء التعارض 5/230۔233)

امام رازیؒ نے اس قانون کو دوسری جگہ زیادہ مختصر اسلوب میں بیان کیا ہے۔آپؒ لکھتے ہیں:

”جان لو! جب کسی چیز کے ثبوت پر قطعی عقلی دلیل قائم ہوجائے،پھر ہمیں ایسے نقلی دلائل مل جائے جن کا ظاہری مفہوم اس چیزکے خلاف ہو(جو عقلی دلیل سے ثابت شدہ ہے)تو وہاں چار حالتیں ہوسکتی ہیں:

1۔یا تو ہم عقل و نقل دونوں کے مقتضیٰ کی تصدیق کردیں۔اس سے دو نقیض اور متضاد چیزوں کی تصدیق لازم آئیگی جو کہ محال ہے۔

2۔یا عقل ونقل دونوں کی تکذیب کی جائے ،اس سے دو نقیض و متضاد چیزوں  کی تکذیب لازم آئیگی، یہ بھی محال ہے۔

3۔یا نقلی دلائل کے ظاہر کی تصدیق کرکے ،عقلی دلائل  کے ظاہر کی تکذیب کی جائے۔یہ باطل ہے،کیونکہ نقلی دلیل کے ظاہری مفہوم کو پہچاننا اُس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک  ہمیں عقلی دلائل سے صانع کا ثبوت،اس کی صفات،رسول کی صداقت پر معجزہ کی دلالت کی کیفیت اور محمد(ﷺ)کے ہاتھ پر معجزہ کا ظہور معلوم نہ ہو۔

اگر قطعی عقلی دلائل  کی مذمت اور ان میں طعن جائز ہے تو اس سے عقل  متہم و مشکوک ہوجائیگی  اور اس کی کوئی بات مقبول نہ ہوگی۔جب یہ بات ہے تو ان اصول (اثباتِ صانع  وصفات وغیرہ)میں بھی عقل کی بات مقبول نہیں ہوگی  اور جب یہ اصول ثابت نہ ہوں گے تو پھر نقلی دلائل بھی مفید نہ ہوں گے۔(کیونکہ نقلی دلائل کا مفید ہونا،ان اصولوں پر موقوف ہے۔)لہذا یہ ثابت ہوگیا کہ نقل کی تصحیح کے لیے عقل میں طعن کرنے سے عقل  ونقل دونوں میں طعن لازم آتا ہے جو کہ باطل ہے۔

جب یہ تینوں صورتیں باطل ہیں تو اس کے سوا کوئی رواستہ نہیں بچا کہ قطعی عقلی دلائل کا مقتضیٰ  درست اور ثابت ہے،جبکہ نقلی دلائل کے بارے میں کہا جائےگا کہ یا تو یہ صحیح نہیں ہیں یا صحیح ہیں،لیکن ان  کا ظاہری مفہوم مراد نہیں ہے۔“(اساس التقدیس ص 220۔221)

امام رازیؒ نے اپنی کئی کتابوں میں اس قسم کا کلام کیا ہے ۔ان کے علاوہ اشاعرہ  میں سے ایجیؒ اور عبد الحکیم سیالکوٹی وغیرہ نے بھی یہی رائے بیان کی ہے۔

مقصود یہ ہے کہ عقل و نقل کے تعارض کے وقت متکلمین  نے عقل کو ترجیح دی ہے اور اس کی وجہ وہ شبہ ہے جس کا ذکر اوپر ہوچکا ہے۔اہلِ سنت نے متکلمین کے اس کلام کے رد کی طرف کافی توجہ دی ہےاور اُن کے مزاعم وخیالات کو غلط ثابت کرکے اُن کے باطل ہونے اور ان سے لازم آنے والے مفاسد کو واضح کیا ہے۔ذیلی سطور میں ،میں اُن رُدود کا خلاصہ بیان کرتا ہوں جو متکلمین کے اس اصول پر کی گئی ہیں کہ تعارض کے وقت عقل کو نقل پر مقدم کیا جائےگا۔

تعارض کے وقت عقل کو نقل پر مقدم کرنے کے سلسلے میں متکلمین پر رد

سابقہ تفصیل سے یہ واضح ہوگیا کہ متکلمین نے اپنے دین کی بنیاد اس چیز پر رکھی ہے جو ان کی عقل و فہم کی تمنا وچاہت ہے اور انہوں نے شریعت کو اس کے تابع کردیا ہے،بلکہ  انہوں نے اپنی عقلوں کو اس بات کے لیے حاکم اور معیار بنایا ہوا ہے کہ اللہ کی شریعت کی کون سی چیز لینی ہے اور کون سی نہیں لینی۔(نقض المنطق ص 49)

فقیہ ابن سمعانی فرماتے ہیں:

”ہمارے اور اہلِ بدعت کے درمیان جو آڑ اور فاصلہ ہے وہ مسئلہ عقل ہے،اُنہوں نے اپنے دین کی بنیاد عقل پر رکھی ہے اور اتباع اور نقل کو عقل کے تابع بنادیا ہے۔“(صون المنطق للسیوطی ص 182)

پہلا وہ شخص جس نے عقل کو وحی پر مقدم کیا تھا وہ ابلیس ہے،جب اللہ نے اُسے آدم(علیہ السلام)کو سجدہ کرنے کا حکم دیا تو اُس نے مخالفت کی تھی۔اسی طریقے کو جہمیہ،معتزلہ اور متاخرین ِ اشاعرہ میں سے ان کے متبعین نے اور عام متکلمین نے اختیار کیا ہے۔

اہل سنت والجماعت نے اس منہج والوں پر رد کیا  اور اس سلسلے میں نمایاں شخصیت شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ  کی ہے ،جنہوں نے اپنی کئی کتابوں میں متکلمین پر رد کیا،بلکہ اس کے لیے الگ مستقل کتاب لکھی جو ”درء تعارض العقل والنقل“کے نام سے معروف ہے۔اسی طرح ابن قیم ؒ نے خصوصا اپنی کتاب ”الصواعق المرسلہ“میں بھی متکلمین پر رد کیا  ہے۔میں چند ایسی وجوہات ذکر کروں گا جن سے اس الحادی قانون کا باطل ہونا واضح ہوجائے گا  جس پر اہل کلام نے اپنے عقیدے کی بنیاد رکھی ہے۔اور انشاءاللہ اس قانون کا خطرناک ہونا اور اس کے قائلین کا باہمی تناقض وٹکراؤ اور اس سے لازم آنے والی چیزیں بھی واضح ہوجائیٰں گی۔یہ اموردرج ذیل وجوہات سے ظاہر ہوتے ہیں:

پہلی وجہ:

انہوں نے جو قانون ذکر کیا ہے ،وہ تین فاسد مقدمات  پر مبنی ہے، اور وہ مقدمات یہ ہیں:

پہلا مقدمہ:عقل اور نقل میں تعارض ثابت ہے۔

دوسرا مقدمہ: (عقل و نقل کے تعارض کی )تقسیم کو صرف اُن چار اقسام میں منحصر کرنا جن کا ذکر اوپر ہوچکا ہے۔

تیسرا مقدمہ:تین قسموں کا باطل ہونا،تاکہ چوتھی قسم ثابت ہوجائے۔

یہ مفروضہ مقدمات اور تقسیم اصل سے ہی باطل ہے ۔صحیح تقسیم یہ ہے کہ یوں کہا جائے:جب دو دلیلوں کے درمیان تعاض ہوجائے،خواہ دونوں نقلی دلائل ہوں،دونوں عقلی دلائل ہوں،یا ایک عقلی اور دوسری نقلی ہو، تو ایسی صورت میں یا تو دونوں دلائل قطعی ہوں گے یا دونوں ظنی ہوں گے یا ایک دلیل قطعی اور دوسری ظنی ہوگی۔

اگر دونوں دلائل قطعی ہوں تو ان میں  تینوں صورتوں(۱۔دونوں نقلی۔۲۔دونوں عقلی۔۳۔ایک نقلی، دوسری عقلی)میں سے کسی بھی صورت کے اندر تعارض نہیں ہوسکتا،کیونکہ قطعی دلیل وہ ہوتی ہے جس کا مدلول قطعی طور پر ثابت و مستلزم ہو، لہذا اگر دونوں میں تعارض ہوگا تو اس سے دو نقیضوں کا جمع ہونا لازم آئےگا اور اس کے ممتنع ہونے میں کسی عقل مند کو شک نہیں ہے۔

اگر ایک دلیل قطعی اور دوسری ظنی ہے تو قطعی دلیل مقدم ہوگی،خواہ وہ عقلی ہو یا نقلی۔

اگر دونوں دلائل ظنی ہوں تو کسی ایک کو ترجیح دی جائیگی اور راجح کو مقدم سمجھا جائےگا،خواہ وہ عقلی ہو یا نقلی۔

یہی صحیح تقسیم ہے ۔عقلی ونقلی دلائل میں تعارض کو ثابت کرنا اور پھر مطلقا عقلی دلیل کو مقدم کرنا واضح طور پر غلط ہے،کیونکہ یہ کہنا ممکن ہے کہ کبھی عقلی کو مقدم کیا جائےگااور کبھی نقلی دلیل کو،جو بھی قطعی ہو اُسے مقدم کیا جائےگا اور اگر دونوں قطعی ہیں تو وہاں تعارض ہی ممکن نہیں ہے اور اگر دونوں ظنی ہیں تو راجح کو مقدم کیا جائےگا۔(درء التعارض 1/78،80،87۔الصواعق المرسلہ 3/796،798)

دوسری وجہ :

رہی یہ بات کہ عقل ہی نقل کے لیے اصل ہے اور اصل میں طعن کرنے یا اُسے باطل کرنے سے نقل میں طعن کرنا اور اُسے باطل کرنا لازم آتا ہے تو اس بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ :

1۔عقل کے اصل ہونے کا مطلب یا تو یہ ہوگا کہ وہ ثبوت اور نفس الامر میں ہی اصل ہے۔

2۔یا یہ مطلب ہوگا کہ عقل اس طور پراصل ہے کہ ہمیں اس کے ذریعے شریعت کی صحت کا علم ہوتا ہے۔

پہلی صورت کا کوئی بھی عقل مند قائل نہیں ہوسکتا،کیونکہ جو چیز نفس الامر میں ثابت ہوجائے وہ ثابت ہی ہوتا ہے،خواہ سمع(نقل)سے ثابت ہوجائے یا اس کے علاوہ کسی ذریعے سے،اور خواہ ہمیں عقل کے ذریعےاس کے ثبوت کا علم ہو یا عقل کے علاوہ کسی ذریعے سے،یا ہمیں سرے سے اس کے ثبوت کا علم ہی نہ ہو،نہ عقل کے ذریعے نہ کسی اور ذریعے سے،کیونکہ  کسی چیز کا علم نہ ہونے سے اُس چیز کا معدوم ہونا ثابت نہیں ہوتا اور ہمارا حقائق سے لاعلم ہونا اس بات کی نفی نہیں کرتا کہ حقائق نفس الامر میں ثابت ہی نہیں ہے۔

اگر یہ مراد ہو کہ عقل اس سلسلے میں اصل ہے کہ اس سے ہمیں سمع کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور عقل ہمارے لیے شریعت کی صحت پر دلیل ہے تو اس کے جواب میں یوں کہا جائے گا کہ ہر وہ چیزجس کی معرفت عقل کے ذریعے سے ہوتی ہے،ضروری نہیں ہے کہ وہ سمع کے لیےاصل اور اس کی صحت پر دلیل ہو،کیونکہ عقلی معارف  تو بے شمار ہیں، اور سمع(نقل) کی صحت کا علم زیادہ سے زیادہ ایسی عقلی چیزوں پر موقوف ہوگا جن کے ذریعے رسول کی صداقت کا علم ہوجائے،حالانکہ تمام عقلی علوم سے رسول کی صداقت کا علم نہیں ہوتا،بلکہ رسول کی صداقت کا علم ایسی نشانیوں اور دلائل سے ہوتا ہے جواس بات پر دلالت کرتی ہیں۔

اسی سے ہمیں یہ معلوم ہوگیا کہ تمام معقولات ،نقل کے لیے اصل نہیں ہیں،لہذا اب اگر سمع ونقل کا معارض ایسی عقلی چیز ہے جس پر سمع ونقل کی صحت موقوف نہیں ہےتو اس عقلی چیز میں طعن  کرنے سے سمع میں طعن لازم نہیں آئےگا۔اور بعض عقلیات میں طعن کرنے سے تمام عقلیات میں طعن لازم نہیں آتا،جیسا کہ بعض سمعیات(منقولات)میں طعن کرنے سے تمام سمعیات میں طعن لازم نہیں آتا۔اسی طرح بعض عقلیات کی صحت سے تمام عقلیات کی صحت لازم نہیں آتی ،جیسا کہ بعض سمعیات کی صحت سے تمام سمعیات کا صحیح ہونا لازم نہیں آتا۔

لہذا تمام عقلیات یکساں نہیں  ہیں،بلکہ اُن میں سے بعض عقلیات  ایسی ہیں جن کو حق اور بعض  ایسی ہیں جن کو باطل کہاجاسکتا ہے۔(درء التعارض 1/87،90،145،191،۔5/377۔النبوات ص 67،68۔الصواعق المرسلہ 3/799،801،1067،1080)

تیسری وجہ:

اگر شرع اور عقل کے درمیان تعارض کو فرض کرلیا جائے تو بھی شرع کو مقدم کرنا ضروری ہے، کیونکہ عقل نے شرع کی تصدیق کی ہے اور اس تصدیق کا تقاضا اور  ضروریات میں سے ہے کہ شرع کی خبر کو قبول کیا جائے۔دوسری طرف شرع نے عقل کی ہر بات کی تصدیق نہیں کی اور نہ ہی شرع کی صداقت عقل کی ہر خبر پرموقوف ہے۔اگر اس مسلک و منہج کو اختیار کیا جائے تو یہ متکلمین کے منہج سے زیادہ صحیح ہے،جیسا کہ کہا گیا ہے کہ :”تمہارے لیے اتنی عقل کافی ہے جو تجھے رسول کی صداقت کی پہچان کرائےاور اس کے کلام کے معانی سکھائے،پھر اپنے اور رسول کے    درمیان معاملہ چھوڑدے۔“(جو رسول بتائے اس کو قبول کرے،خواہ عقل سے سمجھ میں نہ بھی آئے)

اور اس لیے بھی(شرع کو مقدم کرنا ضروری ہے )کہ عقل اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ رسول جو خبر دے اُس کی تصدیق اور جو حکم کرے اس کی اطاعت ضروری ہے۔اسی طرح عقل ،رسول کی صداقت پر مطلقا عام دلالت کرتی ہے،جبکہ عقل خود اپنے قضایا و مسائل پر عام دلالت نہیں کرتی۔اور اس لیے بھی کہ عقل بھی حس کی طرح غلطی کرتی ہے،بلکہ اس کی غلطی،حس سے زیادہ ہے۔

عقل اور شرع کے لیے یہ مثال بیان کی جاتی ہے کہ :

ایک عام آدمی کو کسی متعین مفتی کے بارے میں علم تھا،اس نے کسی دوسرے کی راہنمائی کی اور اُسے کہا کہ فلاں آدمی عالم و مفتی ہے۔اس کے بعد اس عام آدمی اور مفتی کے درمیان کسی مسئلہ میں اختلاف ہوگیاتو سائل/مستفتی پر لازم ہے کہ وہ مفتی کی بات کو ترجیح دے۔اگر وہ عام آدمی ،مستفتی کو کہے کہ: فلاں مفتی کے پہچاننے کے سلسلے میں ،میں ہی تمہارے لیے اصل ہوں،اگر تم  اختلاف کی صورت میں مفتی کے قول کو میرے قول پر مقدم کرتے ہو تو تم نے ایسے اصل کو رد کردیا جس کے ذریعے تمہیں مفتی کا علم ہوا تھا۔تو مستفتی ،اُس عام آدمی کو جواب دے کہ :جب تم نے یہ گواہی دی کہ فلاں شخص مفتی ہے تو اِس سے تم نے یہ بھی گواہی دیدی کہ اُس کی تقلید ضروری ہے،تمہاری تقلید ضروری نہیں ہے،اور اگر میں نے اس خبر وعلم میں(کہ فلاں مفتی ہے)تمہاری موافقت کی ہے تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ میں نے تمام مسائل میں تمہاری موافقت کردی،اور جس مسئلہ میں تم نے مفتی(جو کہ تم سے زیادہ عالم ہےاس)کےساتھ اختلاف کیا ہے،اُس مسئلہ میں اگر تم غلطی پر ہو تو اس سےیہ لازم نہیں آتا کہ تم اِس علم و خبر میں بھی غلط ہو(جو تم نے مجھے دی تھی کہ)فلاں مفتی ہے۔

عقل کو یہ علم ہے کہ رسول اُس خبر کے سلسلے میں غلطی سے محفوظ و معصوم ہے جو وہ اللہ سے لیکر ہمیں دیتا ہے،رسول کا اس بارے میں غلطی پر ہونا درست نہیں ہے۔لہذا ایک عام آدمی جو مفتی کے قول کو اُس کے مخالف شخص کے قول پر مقدم کرتا ہے،اُس سے زیادہ اولیٰ و ضروری یہ ہے کہ معصوم شخصیت کے قول کو اُس کے مخالف عقلی دلیل  پر مقدم کیا جائے۔(درء التعارض 1/138،139۔الصواعق المرسلہ 3/807،809)

چوتھی وجہ:

عقل کو ادلہ شرعیہ پر مقدم کرنا ناممکن ومتناقض ہے،جبکہ ادلہ شرعیہ کو عقل پر مقدم کرنا ممکن و مستعمل ہے۔لہذا پہلی  صورت نہیں،بلکہ دوسری صورت اختیار کرنا ضروری ہے۔اور یہ اس لیے کہ کسی چیز کا عقل کے ذریعے معلوم ہونا یا معلوم نہ ہونا اُس چیز کی لازم صفت نہیں ہے،بلکہ یہ ایک اضافی و نسبتی بات ہے،جیسے زید کو اپنی عقل سے ایسی بات کا علم ہے جو بکر کی عقل میں نہیں ہے اور انسان کو ایک حالت میں اپنی عقل کے ذریعے کسی ایسی بات کا علم ہوتا ہے جس سے وہ دوسری حالت میں جاہل ہوتا ہے۔

وہ مسائل  جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان میں عقل و شرع باہم متعارض ہیں ،وہ سب ایسے ہیں کہ ان میں عقلاء مضطرب ہیں اور سب کسی ایک بات پر متفق نہیں ہیں کہ عقل کا تقاضا یہ ہے،بلکہ اگر کسی امر کے بارے میں ایک یہ کہتا ہے کہ عقل اس کو ثابت کرتی یا واجب کرتی ہے یا عقل اسے گوارا کرتی ہے تواُسی امر کے بارے میں دوسرا کہتا ہے کہ  عقل اس کی نفی کرتی یا اسے محال سمجھتی ہے یا اسے منع کرتی ہے۔اس سے بڑھ کر یہ اختلاف کسی امر کے علوم ضروریہ میں سے ہونے اور امرِ بدیہی ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں بھی ہوجاتا ہے، اگر ایک کہتا ہے کہ اس امر کو ہم بدیہی طور پر جانتے ہیں(اور یہ ضرورتِ عقلیہ میں سے ہے)تو دوسرا کہتا ہے کہ یہ امر بدیہی طور پر معلوم نہیں ہے۔مثلا اکثر عقلاء کہتے ہیں کہ  ہمیں بدیہی طور پر معلوم ہے کہ جب تک کوئی چیز ہمارے سامنے نہ ہو اور اس کا معاینہ نہ کیا جائے اس وقت تک اس کو دیکھنا ناممکن ہے،جبکہ عقلاء کی ایک جماعت کہتی ہے کہ مقابلہ و معاینہ کے بغیر بھی کسی چیز کو دیکھنا ممکن ہے۔

تمام عقول یکساں اور خود واضح وظاہر نہیں ہیں اور نہ ہی لوگوں کے پاس اس پر کوئی معلوم دلیل موجود ہے،بلکہ عقول میں اختلاف و اضطراب پایا جاتا ہے،اس کے باوجود اگر عقل کو شرع پر مقدم کیا جائےگاتو لوگوں کو ایسی چیز کے حوالے کرنا لازم آئےگا جس کے ثبوت و معرفت کا کوئی راستہ نہیں ہےاور نہ ہی لوگوں کااس پر اتفاق ہے۔جہاں تک شرع کی بات ہے تو وہ بذات خود  صادق کا قول ہےاور یہ شرع کی ایک ایسی  لازم  صفت ہےجو لوگوں کے احوال کے بدلنے سے نہیں بدلتی،اس کا علم بھی ممکن ہے اور لوگوں کو اس کی طرف پھیرنا بھی ممکن ہے۔اسی طرح قرآن مجید میں بھی یہ تصریح آئی ہے کہ تنازع و اختلاف کے وقت لوگوں کو کتاب و سنت کی طرف پھیرا جائے،لوگوں کی  آراء و قیاسات کی طرف نہ پھیرا جائے،جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ :

{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا} [النساء: 59]

ترجمہ:”اے ایمان والو!اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی بھی اطاعت کرو اور تم میں سے جو لوگ صاحبِ اختیار ہوں ان کی بھی۔پھر اگر تمہارے درمیان کسی چیز میں اختلاف ہوجائے تو اگر واقعی تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہوتو اُسے اللہ اور رسول کے حوالے کردو،یہی طریقہ بہترین ہےاور اس کا انجام بھی سب سے بہتر ہے۔“

(الرد علی الجہمیۃ للدارمی ص 308،309۔درء التعارض 1/146،156،159،192،194۔التسعینیہ لشیخ الاسلام 5/308،309۔الاستقامۃ لشیخ الاسلام 1/50۔الصوارق المرسلہ 3/823،826)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں:

”جس چیز کا علم صریح عقل سے ہوجائے وہ کبھی بھی شرع کے معارض نہیں ہوسکتی،بلکہ عقلِ صریح،نقلِ صحیح کے کبھی بھی معارض نہیں ہوسکتی۔جن مسائل میں عام  طور پر لوگ اختلاف کرتے ہیں،میں نے ان میں غور کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ جوباتیں صریح نصوص کے خلاف ہیں وہ محض فاسد شبہات ہیں جن کا باطل ہونا عقل سے معلوم ہوتا ہے،بلکہ عقل کے ذریعے ان(مخالف باتوں) کی ایسی نقیض کے ثبوت کا علم ہوتا ہے جو شرع کے موافق ہے۔

اس قسم کا غور میں نے بڑے اصولی مسائل میں کیا،جیسے توحید اور صفات کے مسائل،تقدیر،نبوت اور آخرت وغیرہ کے مسائل،مجھے پتہ چلا کہ جوچیز صریح عقل سے معلوم ہے ،سمع ونقل اس کا ہرگز مخالف نہیں ہے،بلکہ جس نقل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اُس(صریح عقل)کے خلاف ہے وہ یا تو موضوع حدیث ہوتی ہے یا اس کی دلالت(اپنے مفہوم پر)ضعیف ہوتی ہے،اگر صریح عقل نہ بھی تو ایسی نقل دلیل بننے کی صلاحیت نہیں رکھتی،پھر جب اس کے خلاف صریح عقلی دلیل موجود ہو تو یہ نقل  کیسے دلیل بن سکتی ہے؟

ہمیں علم ہے کہ انبیاء ایسی خبر یں نہیں دیتے جو عقلا محال ہوں،البتہ جن باتوں میں عقل حیران ہو اس کی خبر دیتے ہیں،لہذا وہ ایسی چیز کی خبر نہیں دیتے کہ عقل جس کی نفی کرے،بلکہ ایسی چیز کی خبر دیتے ہیں جس کی معرفت سے عقل عاجز ہو۔“(درء التعارض 1/147)

حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ یہ دلیل دیکر شرع کے معارض ہیں کہ شرع،عقل کے خلاف ہے،یہ لوگ خود اپنی عقلیات میں مختلف ومتناقض ہیں،ان میں سے بعض نے یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ ان کی عقلیات فاسد ہیں۔(نقض التاسیس 2/149،219)

فاسد عقلیات میں سے ان کا یہ کہنا بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ چھ جہات میں سے کسی بھی جہت میں نہیں ہے اور ان میں سے ایک قلیل جماعت کا یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ نہ اس جہاں کے اندر ہے نہ باہر۔(الارشاد للجوینی ص 39،42۔اساس التقدیس ص 15،102۔المحصل للرازی ص 227۔نقض التاسیس 1/54)

اسی قسم میں سے یہ ہے کہ اشاعرہ  جو تناقض کے مرتکب ہیں ،یہ لوگ رؤیتِ باری تعالیٰ کے قائل ہیں،لیکن اس کی صفتِ علو کی نفی کرتے ہیں۔(نقض التاسیس 3/221۔ المحصل للرازی ص 272۔المواقف ص 308)

اسی طرح ان کا یہ کہنا کہ موسیٰ(علیہ السلام)نے اپنے رب کا کلام بغیر کسی آواز و حروف کے سنا تھا۔(قواعد العقائد للغزالی ص 59۔المحصل للرازی ص 250،252)

اس کے علاوہ وہ مسائل جن سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے صریح عقل کی مخالفت کی ہے۔(التسعینیہ 5/306،309)

لہذا یہ لوگ ایک طرف اللہ کی شریعت کو بزعمِ خود یہ دلیل دیکر رد کرتے ہیں کہ شریعت،صریح عقل کے خلاف ہے،تو دوسری طرف  یہ لوگ ایسے مسائل بیان کرتے ہیں  جن کے بارے ہر عاقل جانتا ہے کہ وہ مسائل  بدیہی طور پر عقل کے خلاف ہیں۔

پانچویں وجہ:

اُن کی دلیل کا رد بالکل اُسی طرح کیا جائے جیسے انہوں نے دلیل دی ہے۔اُن کو کہا جائے کہ  جب عقل و نقل میں تعارض ہو تو نقل کو مقدم کرنا ضروری ہے،کیونکہ دونوں کے مدلول ومفہوم  کو جمع کرنے سے دو متضاد چیزوں کا جمع ہونا لازم آتا ہے  اور دونوں کی تکذیب سے دو نقیضوں  کی تکذیب لازم آتی ہے(یہ دونوں صورتیں ناممکن ہیں)اور عقل کو نقل پر مقدم کرنا بھی ناممکن ہے،کیونکہ  عقل ،نقل کی صحت پر اور اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ  رسول جو خبر دے اُسے قبول کرنا واجب ہے۔اب اگر ہم نےنقل کو باطل قراردیا تو ہم عقل کی دلالت کو باطل قرار دیں گے اور جب ہم نے عقل کی دلالت کو باطل کردیا تو عقل میں یہ صلاحیت ہی نہیں رہی کہ وہ نقل کے معارض ومقابل بن سکے،کیونکہ  جو چیز دلیل نہ بن سکے وہ کسی دوسری چیز کی معارض بھی نہیں بن سکتی۔لہذا عقل کو نقل پر مقدم کرنے سے عقل ہی میں طعن  لازم آتا ہے،کیونکہ اس (تقدیمِ عقل)سے اس کے لوازم و مدلول کی نفی ہوگئی۔

جب عقل کو نقل پر مقدم کرنے سے عقل ہی میں طعن لازم آگیااور عقل میں طعن کرنا خود عقل کی دلالت و راہنمائی کو منع کرتا ہےاور عقل کی دلالت میں طعن کرنے  سے عقل کے معارضہ و مقابلہ میں طعن لازم آتا ہے تو (مسلسل لازم ہونے والی ان تین باتوں کی وجہ سے )عقل و نقل کے معارضہ کے وقت عقل کو مقدم کرنے سے معارضہ باطل ہوجاتا ہے۔ عقل کا ایسی چیز کے ساتھ معارضہ کرنا جس کے حق ہونے پر خود عقل دلالت کرتی ہے،یہ بات عقل کی دلالت میں تناقض پیدا کرتی ہےاور اسی سے عقل کی دلالت میں فساد لازم آتا ہے۔

جب عقل نے سمع (نقل)کی دی ہوئی ہر خبر کی تصدیق کردی ہےاور پھر عقل کہے کہ سمع نے حق کے خلاف خبر دی ہے،تو اس سے  عقل نے خود سمع کےلیے یہ گواہی دی کہ اسے قبول کرنا واجب ہے اور پھر یہ گواہی بھی دی کہ اسے قبول کرنا واجب نہیں ہےتو اس سے خود عقل کی گواہی و تزکیہ میں طعن و خرابی لازم آگئی۔بالآخر عقل کا سمع کے معارض بننا صحیح نہ رہا۔

اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ اس سے تو عقل کی اُس شہادت میں طعن لازم آگیا جس کے ذریعے اس نے رسول کی صداقت کی گواہی دی تھی۔

اس کے جواب میں کہا جائےگا کہ یہ بات پہلے گزرچکی ہے کہ یہ اُس وقت ہوسکتا ہےکہ جب عقل ونقل میں تعارض کو فرض کرلیا جائے،جبکہ یہ بات فریق مخالف کے سامنے اپنے دعوی سے ذرا نیچے ہوکر کہی گئی ہے،ورنہ حق بات یہ ہے کہ  عقلِ قطعی و نقلِ قطعی میں تعارض ممکن ہی نہیں ہے۔

اور یہ بات بھی ہے کہ جو عقلی دلائل سمع(نقل)کے معارض ہیں،وہ اُن عقلی دلائل کے علاوہ ہیں جن سے رسول کی صداقت معلوم ہوتی ہے،اگرچہ دونوں میں ایک بات قدر مشترک ہے کہ دونوں کا تعلق عقل سے ہے۔لہذا جب اُس عقلی دلیل کو باطل قراردیا گیا جو سمع کے معارض ہے تو اس سے معقولات کی محض ایک قسم کو باطل کہنا لازم آتا ہے،تمام معقولات کو باطل نہیں کہا گیا۔(درء التعارض 1/170،173۔الصواعق المرسلہ 3/853،855۔ایثار الحق علی الخلق ص 123)

امام دارمیؒ فرماتے ہیں:

”جب ہم نے دیکھا کہ ہمارے،تمہارے اور تمام بندگانِ نفس کی معقولات مختلف ہیں اور ہر چیز میں ہمیں اس کی کسی حد کی واقفیت حاصل نہیں ہے تو بہترین اور ہدایت والا راستہ یہ ہے کہ ہم تمام معقولات کو رسول اللہ ﷺ کے امر اور صحابہ کی  اُن معقولات کی طرف پھیر دیں جو ان کے درمیان معروف تھیں،کیونکہ وحی اُن کے سامنے نازل ہوتی رہی ہے تو اُن کو ہم سے اور آپ سے زیادہ تاویل کا علم تھا، لہذا ہمارے ہاں معقول وہ ہے جو صحابہ کے طریقے اور روِش کے موافق ہو اور جو ان کے مخالف ہو وہ مجہول ہے اور صحابہ  کے منہج اور طریقہ کار کی معرفت  انہی آثار اور منقولات سے  ہوگی۔“(الرد علی الجہمیہ للدارمی ص 309)

چھٹی وجہ:

یہ کہنا کہ اگر نقل ،عقل کی مخالفت کرے تو یہ نقل میں  ہی طعن و خرابی کی دلیل ہے اور یہ  طعن یا خرابی یا تو نقل کی سند میں ہوگی یا  متن میں۔چنانچہ جب نقل، عقل کی مخالفت کرے تو یہ نقل میں فساد کی دلیل ہے یا تو نقل کے ثبوت میں فساد ہوگا،مثلا ناقل جھوٹا ہوگا یا اس سے غلطی ہوئی ہوگی۔یا(متن میں فساد ہوگا مثلا)متکلم کی مراد و مطلب پر لفظ کی دلالت معلوم نہ ہوگی۔یہ بات کہنا  ایک باطل گمان ہے۔

یہ زعم اس لیے باطل ہے کہ جب عقل،نقل کی مخالفت کرے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ  نقل کی  مخالفت پر عقل کی دلالت ہی باطل ہے،کیونکہ عقل کے مقدمات باطل ہیں۔یہ اس لیے کہ جو عقلی دلائل ،نقل کے مخالف ہیں،اُن کے مقدمات میں  طوالت،خفاء،اشتباہ اور ایسا اختلاف و اضطراب پایا جاتا ہے جو اُن مقدمات میں فساد کو پیدا کرتا ہے اور یہ فساد ادلہ نقلیہ میں پائے جانے والے فساد سے بڑا ہے۔

اور(مخالف عقلی دلائل کے مقدمات اس لیے بھی باطل ہیں کہ )امورِ الٰہیہ اور یوم آخرت کی تفاصل کے بارے میں عقل کوئی مستقل دلیل نہیں ہے،لہذا اس بارے میں عقل کی ایسی کوئی بات قبول نہیں ہوگی جس کی تصدیق و موافقت  شرع نہ کردے،کیونکہ شرع ایسی معصوم شخصیت کا قول ہے جو نہ غلطی کرسکتی ہے ،نہ جھوٹ بول سکتی ہے۔جبکہ لوگوں کی آراء میں تساقط ،اختلاف وتناقض پایا جاتا ہے۔لہذا اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ ان بلند مرتبہ مطالبِ الٰہیہ  میں مجھے اپنی رائے اور عقل پر اعتماد نہیں ہے نہ ہی ان لوگوں(متکلمین)کی بات پر اعتماد ہے جو باہم متناقض  اور ایک دوسرے کے مخالف ہیں،بلکہ مجھے معصوم رسولوں کی بات پر اعتماد ہے،لہذا اگر ان(متکلمین)کی بات کا تزکیہ معصوم شخصیت(رسول)کی طرف سے نہ ہوا ہو تو میں ان لوگوں کی بات قبول نہیں کروں گا۔تو اس آدمی کا یہ کلام زیادہ درست اور عقلمندوں کے زیادہ لائق ومناسب ہے،بنسبت اس کے کہ رسول کی خبروں کا معارضہ ایسی آراء و معقولات سےکیا جائے جو عموما جہل و گمراہی پر مبنی ہوتی ہیں۔

یہ سابقہ تفصیل بھی فریق مخالف کے سامنے ایک درجہ نیچے اتر کربیان کی گئی ہے،ورنہ حقیقت میں   جو چیز شرع کے مخالف ہو اس کا باطل ہونا معلوم ہے جس میں کسی مسلمان اور اللہ کی شریعت کی تعظیم کرنے والے کو شک نہیں ہوسکتا۔(درء التعارض 1/174،175،186،189)

ساتویں وجہ:

عقل کو نقل پر مقدم کرنے سے درج ذیل امور لازم آتے ہیں :

1۔اللہ تعالیٰ کی آیات و اسماء میں زندقہ والحاد لازم آتا ہے،کیونکہ جو شخص(عقل کو مقدم کرکے)نقل کو بالکل چھوڑ دے تو یہ بات اُسے کفر،نفاق اور الحاد کی طرف لے جاتی ہے اور جو شخص(عقل کو مقدم کرنے کے ساتھ ساتھ)نقل کو بھی  نہ چھوڑے تو وہ تناقض کا شکار ہوجاتا ہے اور عقلِ صریح کو چھوڑنے والا ہوجاتا ہے اور اس کے کلام میں تناقض وفسادظاہر ہوجاتا ہے۔۔(درء التعارض 5/322،۔6/3۔الصواعق المرسلہ 4/1353)

2۔اس کے لوازمات میں سےایک یہ ہے کہ  رسول اللہ ﷺ نے اللہ ،ملائکہ ،کتابوں ،رسولوں اور یوم آخرت کے بارے میں جو خبر دی ہے اس کی کوئی  حقیقت نہ ہو،وہ نہ علم  ہو  اور نہ ہی  ہدایت ۔ بلکہ یہ عقل کبھی  مرض میں مبتلا کرتی ہے،لیکن شفاء نہیں دیتی۔گمراہ کرتی ہے،ہدایت نہیں دیتی۔ضرر دیتی ہے،نفع نہیں دیتی۔فساد پیدا کرتی ہے،لیکن اصلاح نہیں کرتی۔(درء التعارض 5/357،366۔الصواعق المرسلہ 3/1065،1067،1122،1127)

3۔اس کی وجہ سے شرع پر اعتماد کمزور ہوجاتا ہے،بلکہ اس کی حقیقت رسول کو رسالت کے مقتضیٰ و موجب سے معزول کرنا ہے اور رسول کو (عام لوگوں کے سامنے )ایسا قراردینا ہے جیسےابوحنیفہؒ کا تقابل شافعیؒ کے ساتھ اور احمد بن حنبلؒ کا تقابل مالکؒ کے ساتھ۔(درء التعارض 5/252،321،345۔التسعینیہ 5/307)

4۔عقل کو نقل پر مقدم کرنے سے دونوں کا ابطال لازم آتا ہے،جیسا کہ اس کی تفصیل پہلے گزرچکی ہے۔

اس سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ  انحراف وگمراہی کی ابتداء رائے کو نص پرمقدم کرنے سے ہوتی ہے اور جن معقولات کا لوگ دعوی کرتے ہیں اُن کا کوئی ضابطہ نہیں ہے،بلکہ عقلِ انسانی میں ایسے شکوک وشبہات اور خواہشات پیدا ہوسکتی ہیں جو اُسے راہ رست  سے ہٹادے،جن کی وجہ سے انسان غیرمعقول کو معقول اور معقول کو مجہول گمان کرنے لگتا ہے۔

شریعت کے معارض  جو بھی عقلیات ہیں وہ محض خیالات واوہام ہیں۔(درء التعارض 1/52،183،۔5/7۔243۔7/37۔الصواعق المرسلہ 3/1046،1052)

اگر عقل کو شرع پر مقدم کرنے کی اجازت دیدی گئی تو ہر شخص کو یہ قدرت حاصل ہوجائیگی کہ وہ  شرع پر یقین و اعتماد  نہ  رکھے  اور یہ  در حقیقت شیاطین وکفار کا فعل ہے۔چنانچہ آپ دیکھیں گے کہ  جو لوگ اپنی عقل کے ذریعے شرع کی مخالفت کرتے ہیں  وہ لوگ ایسی نصوص کو ناپسندکرتے اور ان کو رد کرتےہیں جو ان کی آراء و خواہشات کے خلاف ہوں ۔اسی لیے جو شخص اللہ کی خبر  کو اپنی  رائے کے ذریعے رد کرتا یا اُسے نسخ کرتا ہے وہ ملحد وکافر ہے۔(درء التعارض 5/208،218،257۔الصواعق المرسلہ 3/1036،894۔4/1353)

عقل کو نقل پر مقدم کرنا ایسا منہج ہے جو اہل کلام کو اپنے سلف یعنی شیاطین،فلاسفہ  اور مشرکین سے ورثہ میں ملاہے،ورنہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ اپنی عقل کےذریعے شرع کی مخالفت نہیں کرتے تھے اور نہ اُن میں کوئی ایسا تھا جوتعارض کے وقت  عقل کو نقل پر مقدم کرنے کا قائل تھا۔(درء التعارض 5/229۔الفرقان بین الحق والباطل 5/29،28۔نقض التاسیس 2/347،351۔الصواعق المرسلہ 3/1052،1060)بلکہ جب ان کو تعارض محسوس ہوتا تو وہ اپنی افہام کو ہی قصور وار سمجھتے اور متہم کرتے تھے اور اس بارے میں پوچھتے رہتے تھے ،یہاں تک کہ  اس بات کا ازالہ ہوجاتا تھا جس کو وہ اپنی عقل کے یا اپنے رب کی شریعت کے معارض سمجھےتھے۔

یہی طریقہ اختیار کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے،جیسا کہ  ابن سمعانیؒ فرماتے ہیں کہ :

”ہمارے اوپر لازم ہے کہ جو بات ہمیں سمجھ میں آجائے اُس کی تصدیق  کرکے اور اس پر ایمان لاکر اُسے قبول کرے اور جو بات ہمیں سمجھ میں نہ آئے اُسے بھی مان کر اور فرمان بردار ہوکر قبول کرلیں۔“(الحجۃ فی بیان المحجۃق/35۔صون المنطق ص 182،183)

لہذا مؤمن پر یہ اعتقاد رکھنا واجب ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جو بھی خبر دی ہے وہ حق و سچ ہےاور اس میں کوئی ایسی خبر نہیں ہے جو قطعی عقلی یا قطعی نقلی دلیل کے خلاف  ہو۔اور  جس چیز کے بارے میں بھی  یہ گمان کیا جاتا ہے کہ وہ رسول کی خبر کے خلاف ومعارض ہےوہ باطل دلائل  اور فاسد شبہ ہے،ورنہ وہ رسول کے خبر کے مخالف نہ  ہوتی۔

اسی لیے بدیہی طور پر یہ معلوم ہے کہ دین اسلام میں مخلوق پر یہ واجب ہے کہ وہ رسول پر مطلق،عام اور یقینی ایمان لائے اور اس کی ہر خبر کی تصدیق کرے اور رسول جو بھی حکم و امر کرے اس کی اطاعت کرےاور (یہ اعتقاد رکھے کہ )جو چیز بھی رسول کے خبر کے معارض ہے وہ باطل ہے۔

اس سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ رسول جو خبر دے ،اس کی تصدیق کو کسی شرط پر معلق کرنا ممکن نہیں ہےاور  نہ ہی یہ تصدیق کسی مانع کے نہ ہونے پر موقوف ہے،لہذا اگر کوئی  شخص یو ں کہے کہ:”  میں رسول پر ایمان لاتا ہوں،بشرطیکہ میرا والد یا میرا شیخ مجھے اجازت دے،یا یوں کہے کہ میں اپنے والد یا شیخ کے منع کرنے تک رسول پر ایمان لاتا ہوں۔“ تو ایسا شخص بالاتفاق مؤمن نہیں ہے۔اسی طرح جو یہ کہتا ہو کہ :” جس بات کی صداقت میرے سامنے ظاہر ہوگئی ہے  یا جس بات کا ادراک میری عقل کو ہوچکا ہے ،میں صرف اُسی پر ایمان  لاتا ہوں ،اور اگرچہ میں رسول کی دی ہوئی ہر خبر کی تصدیق کرتا ہوں،لیکن  جو بات میری عقل کے خلاف ہے میں اس کو رد کرتا ہوں۔“   تو یہ شخص بھی تناقض کا شکار ہے،اس کی عقل فاسد اور یہ خود ملحد ہے اور یہ شخص ایسے لوگوں میں داخل ہے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ :

{وَإِذَا جَاءَتْهُمْ آيَةٌ قَالُوا لَنْ نُؤْمِنَ حَتَّى نُؤْتَى مِثْلَ مَا أُوتِيَ رُسُلُ اللَّهِ اللَّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ سَيُصِيبُ الَّذِينَ أَجْرَمُوا صَغَارٌ عِنْدَ اللَّهِ وَعَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا كَانُوا يَمْكُرُونَ} [الأنعام: 124]

ترجمہ:”اور جب ان کے پاس کوئی آیت آتی ہے تو یہ کہتے ہیں کہ :ہم  اس وقت تک ہرگز ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ اس جیسی چیز خود ہمیں نہ دے دی جائے  جیسی اللہ کے پیغمبروں کو دی گئی تھی۔حالانکہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ اپنی پیغمبری  کس کو سپرد کرے،جن لوگوں نے مجرمانہ باتیں کی ہیں ان کو اپنی مکاریوں کے بدلے میں اللہ کے پاس جاکر ذلت اور سخت عذاب کا سامنا ہوگا۔“

{فَلَمَّا جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ فَرِحُوا بِمَا عِنْدَهُمْ مِنَ الْعِلْمِ وَحَاقَ بِهِمْ مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ} [غافر: 83]

ترجمہ:”چنانچہ جب ان کے پیغمبر  ان کے پاس کھلی کھلی دلیلیں لیکر آئے تب  بھی وہ اپنے اس علم پر ہی ناز کرتے رہے جوان کے پاس تھا،اور جس چیز کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے،اُسی نت ان کو آگھیرا۔“

اور جو شخص اپنی رائے کے ذریعے رسول کی لائی ہوئی باتوں کی مخالفت کرتا ہے ،در ذیل  آیات میں اس کا بھی حصہ ہے :

{كَذَلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ مُرْتَابٌ} [غافر: 34]

ترجمہ:”اسی طرح اللہ ان تمام لوگوں کو گمراہی میں ڈالے رکھتا ہے جو حد سے گزرے ہوئے شکے ہوتے ہیں۔“

{الَّذِينَ يُجَادِلُونَ فِي آيَاتِ اللَّهِ بِغَيْرِ سُلْطَانٍ أَتَاهُمْ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللَّهِ وَعِنْدَ الَّذِينَ آمَنُوا كَذَلِكَ يَطْبَعُ اللَّهُ عَلَى كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ} [غافر: 35]

ترجمہ:”جو اپنے پاس کسی واضح دلیل کے آئے بغیر اللہ کی آیتوں  میں جھگڑے نکالا کرتے ہیں ۔یہ بات اللہ کے نزدیک بھی قابلِ نفرت ہے اور ان لوگوں کے نزدیک بھی جو ایمان لے آئے ہیں۔اسی طرح اللہ ہر متکبر جابر شخص کے دل پر مہر لگادیتا ہے۔“

 

مفتی شادمحمدشاد

مفتی شادمحمدشاد، جامعہ دارالعلوم کراچی سے فقہ وافتاء کے متخصص ہیں، اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے کلیہ اصول الدین سے ایم فل مکمل کیا ہے۔
Shadkhan654@gmail.com

فیصد کمنٹس

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں

  • محترم مفتی شاد صاحب ابن تیمیہ کے کسی مخصوص کلامی نظریہ کے رد یا تائید پر جس انداز سے ابو زہرہ جیسی بلند پایہ علمی شخصیت نے ابن تیمیہ پر اپنی کتاب میں بعض مقامات پر جس عالمانہ شان سے ان سے ا ختلاف کرتے ہوئے جو منہج اختیار کیا ہے جس کی آپ کو بھی تقلید کرنی چاہیے۔آپ نے تو اس کی ابتدا ہی باطل جیسے لفظ سے کی ہے اصول تحقیق کے مطابق اس طرح سے استدلال محقق کی کمزوری کی غمازی کرتا ہے اسی طرح سے مولانا ابو الحسن علی ندوی کی کتاب تاریخ دعوت و عزیمت میں ابن تیمیہ کی شخصیت پر ان کے سب سے ضخیم مقالہ کو بھی پیش نظر رکھیں علما کو اسی طرح علمی دنیا میں قبولیت ملتی ہے ۔

    • محترم سلیم رضا صاحب!
      تبصرے کے لیے شکریہ
      یہ تحریر کوئی مستقل اور میری ذاتی نہیں ہے، بلکہ یہ شیخ سلیمان بن صالح کی کتاب “موقف المتکلمین من الاستدلال نصوص الکتاب والسنۃ ” کے ایک اقتباس کا اردو ترجمہ ہے۔ اس لیے جو کچھ مصنف نے لکھا ہے، میں نے وہی کچھ اردو میں ڈھال دیا ہے۔

  • ایک اشکال باقی رہ جاتا ہے کہ متکلمین نے جن اصول پر عقل کو مقدم رکھا ان اصولوں کا رد اتنا آسان تھا تو نقل کو ترجیح دینا ان کا ہی اولین حق بنتا ہے کیونکہ معرفت الہی و علوم عقلیہ و نقلیہ میں وہ رد کرنے والوں سے فائق ہیں الٰہیات میں شرعی نقطہ نظر ہی ان کا منہج رہا ہے فلاسفہ و ملاحدہ کا رد ان کا مقصود اصلی تھا اس صورت میں عقل کو مقدم کرنے سے وہ ملاحدہ کی تائید کیسے کر سکتے ہیں؟!