Home » علم کلام سے اشتغال کی شرعی حیثیت
اسلامی فکری روایت کلام

علم کلام سے اشتغال کی شرعی حیثیت

 

(امام ابو الحسن اشعری کے رسالہ ’’استحسان الخوض فی علم الکلام’’ کا اردو ترجمہ)

مترجم: مولانا مفتی شاد محمد

بسم الله الرحمن الرحيم

الحمد لله رب العالمين وصلى الله على سيدنا محمد وعلى ءاله وصحبه وسلم

[رسالے کی سند]:

امام جمال الدین ابو الحسن بن ابراہیم بن عبداللہ القریشی نے ہمیں خط کے ذریعے اجازت دیتے ہوئے فرمایاہے کہ سن600ہجری،شوال کی آٹھویں تاریخ کومنگل کے دن بغداد کے سوق سلطان کی مسجد میں  امام فخر الدین ابو المعالی محمد بن ابی الفرج بن محمد بن برکۃ الموصلی پڑھارہے تھے اور میں نے سنا۔اُن سے پوچھا گیا کہ 573 ہجری میں مقامِ رباط(جو ”رباط بربھیریہ“کے نام سے معروف ہے اور مدینۃ السلام کے مشرق میں واقع ہے)میں جب آپ کی ملاقات امام صدوق،ابومنصور مبارک بن عبداللہ بن محمد بغدادی سے ہوئی تو آپ نے اُن سے پڑھا؟تو امام فخرالدین نے اس بات کا اقرار کیا۔انہوں نے فرمایا کہ مجھ سے امام حافظ جمال الدین ابوالفضل عبدالرحیم بن احمد بن محمدبن ابراہیم بن خالد معروف بابن اخوۃنے سن 542ہجری میں بیان کیا ہے۔وہ فرماتے ہیں کہ مجھے شیخ ابوالفضل محمد بن یحیٰ ناتلی نے مقامِ مازندان میں اپنے گھر اندرپڑھایا۔ان کو شیخ ابونصر عبدالکریم بن محمد بن ہارون شیرازی نے،ان کو شیخ علی بن رستم نے،ان کو علی بن مہدی نے بیان کیا۔وہ فرماتے ہیں کہ میں نے شیخ المشائخ ابولحسن علی بن اسماعیل اشعری رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ :

[امام اشعریؒ کا کلام]:

تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے اور درود  ہو نبی محمدپر،آپ کی پاکیزہ آل پراور آپ کے ان منتخب اصحاب پر جو امامت کے درجے پر فائز ہے۔

اما بعد!

لوگوں کی ایک جماعت نے جہالت کو اپنا ”سرمایہ“بنایا ہوا ہے،اس لیے دین میں غوروفکر کرنا ان کے لیے بڑا بھاری اور بوجھل عمل بن گیا ہےاور ایسے لوگ آسانی اور تقلید کی طرف مائل ہوگئے ہیں۔جو لوگ دین کے اصولوں میں غوروفکر کرتے ہیں،یہ لوگ اُن پر لعن طعن کرتے ہیں اور ان کی طرف گمراہی کی نسبت کرتے ہیں۔ایسے(جاہل)لوگوں کا گمان یہ ہے کہ حرکت وسکون میں  یا عرض   و رنگوں  میں یا کائنات اور جزء(جوقابل تقسیم نہ ہو)میں یا بلاواسطہ انتقال مکانی (طفرہ)اور باری تعالیٰ کی صفات میں کلام کرنا بدعت وگمراہی ہے۔(طفرہ کا نظریہ نظام کی طرف منسوب ہے جس کی رو سے اجسام کا ایک نقطہ مکانی سے اس طرح کسی دوسرے نقطہ مکانی کی طرف منتقل ہونا ممکن ہے کہ وہ درمیان میں آنے والے نقطہ ہائے مکان سے نہ گزرے ہوں)۔

ان لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر اس قسم کی ابحاث رشدوہدایت کا ذریعہ ہوتیں تو آپﷺ ،آپ کے خلفاء اور صحابہ ضرور اس قسم کی ابحاث میں کلام کرتے۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ آپﷺ نے اپنی وفات سے قبل ہی تمام دینی امور میں کافی وشافی کلام فرماکر ہردینی امر کی مکمل وضاحت کردی ہے اور اپنے بعد کسی کے لیےایسے دینی امور میں کلام کی گنجائش نہیں چھوڑی،جن امور کی مسلمانوں کو ضرورت ہو یا جو امور اللہ کے قریب لے جانے والےاور اللہ کی ناراضی سے دور لے جانے والے ہوں۔

جب آپﷺ سےاس قسم کی ابحاث میں کلام کرنا منقول نہیں ہے تو معلوم ہوا کہ ان ابحاث میں پڑنا بدعت ہے اور اس کی ترغیب دینا گمراہی ہے،کیونکہ اگر یہ کوئی خیر کا عمل ہوتا آپﷺسے نہ چھوٹتا اور آپﷺاس میں ضروری کلام فرماتے۔

ان لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ ابحاث دو حالتوں سے خالی نہیں:

1۔یا تو آپﷺ اور آپ کے صحابہ کو ان ابحاث کا علم تھا،لیکن اس کے باوجود انہوں نے سکوت اختیار کیا اور ان ابحاث میں کلام نہیں کیا۔

2۔یا آپ ﷺ اور آپ کے صحابہ کو ان ابحاث کا علم ہی نہ تھا،بلکہ وہ ان ابحاث سے لا علم تھے۔

اگر آپﷺ اور آپ کے صحابہ کو ان ابحاث کا علم تھا،اس کے باوجود انہوں نے کوئی کلام نہیں کیا،بلکہ خاموشی اختیار کی تو ان کی طرح ہمارے لیے بھی سکوت اختیار کرنے کی گنجائش ہے اور یہ گنجائش بھی ہے کہ ان کی طرح ہم بھی ان ابحاث میں غوروفکر کو ترک کردے۔بلکہ اگر یہ کوئی دینی امر ہوتا وہ  لوگ اس میں کبھی سکوت اختیار نہ کرتے۔

اور اگر یہ کہا جائے کہ آپ ﷺاور آپ کے صحابہ کو ان ابحاث کا علم ہی نہ تھا تو ان کی طرح ہمارے لیے بھی یہ گنجائش ہے کہ ہم ان ابحاث سے جاہل ولاعلم رہیں۔بلکہ اگر یہ کوئی دینی امر ہوتا تو وہ لوگ اس سے کبھی  لاعلم نہ ہوتے۔

لہذا دونوں صورتوں میں ان ابحاث میں کلام کرنا بدعت اور ان میں غوروفکر کرنا گمراہی ہے۔

یہ ان دلائل کا خلاصہ ہے جن سے یہ لوگ اپنے اس دعوی پر استدلال کرتے ہیں کہ اصولِ دین میں غوروفکر کو ترک کیا جائے۔

شیخ ابولحسن اشعری ؒ فرماتے ہیں کہ ان لوگوں کو تین طرح سے جواب دیا جاسکتا ہے:

پہلا جواب:

ان لوگوں پر سوال کو ہی اُلٹ دیا جائے کہ آپﷺ نے تو یہ بھی نہیں فرمایا کہ جو شخص ان ابحاث میں غور کرے،اُسے بدعتی قراردو۔اس سے تو یہ لازم آتا ہے کہ آپ لوگ ہی بدعتی وگمراہ  ہیں،کیونکہ آپ لوگوں نے ایسی چیز(اہل کلام کو بدعتی وگمراہ کہنے)میں کلام کیا،جس میں آپﷺنے کلام نہیں کیا اور تم لوگوں نے ایسے شخص کو گمراہ قراردیا جس کو آپﷺ نے گمراہ نہیں فرمایا۔

دوسرا جواب:

ان لوگوں کو یہ کہا جائے کہ جو امور تم نے ذکر کیے ہیں،یعنی جسم،عرض،حرکت،سکون اور طفرہ وغیرہ،ان سے آپﷺ لاعلم نہ تھے۔بلکہ آپ ﷺکو ان کا علم تھا،اگرچہ آپﷺ نے ان میں سے ہر امر میں الگ اور متعین طور ہر کلام نہیں فرمایا۔اسی طرح صحابہ میں سے جو فقہاء تھے وہ بھی ان امور سے ناواقف نہ تھے،البتہ تم لوگوں نے ان امور کو معین کرکے ذکر کردیا،جبکہ قرآن و سنت میں ان امور کے اجمالی طور پراصول موجود ہیں۔

[دوسرے جواب  کی تفصیل ]

حر کت و سکون میں (غوروفکراور)کلام کرنے کی اصل قرآن میں موجو ہے اور یہ دونوں(حرکت وسکون)چیزیں توحید پردلالت کرتی ہیں۔اسی طرح اجتماع و افتراق بھی ہیں۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قصے میں  سیاروں،سورج اور چاند کے غروب ہونے کی خبر دی ہے جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ان میں سے کوئی بھی چیز”الٰہ“نہیں ہوسکتی اور جو چیزغروب ہوتی ہے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتی ہے وہ ”الٰہ“نہیں ہوسکتی۔

اصولِ توحید میں کلام کرنا بھی کتاب اللہ سے ماخوذ ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

{لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَتَا} [الأنبياء: 22]

”اگر آسمان و زمین میں اللہ کے سوا دوسرے خدا ہوتے تو دونوں درہم برہم ہوجاتے۔“

یہ مختصرکلام اس حجت ودلیل پر تنبیہ ہے کہ اللہ ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔توحیدپرحجت ودلائل  پیش کرنے میں متکلمین جو کلام کرتے ہیں وہ سارا کلام اسی آیت کی طرف لوٹتا ہے اور اللہ تعالیٰ کےان  ارشادات کی طرف  بھی کہ:

 {مَا اتَّخَذَ اللَّهُ مِنْ وَلَدٍ وَمَا كَانَ مَعَهُ مِنْ إِلَهٍ إِذًا لَذَهَبَ كُلُّ إِلَهٍ بِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ} [المؤمنون: 91]

”نہ تو اللہ نے کوئی بیٹا بنایا ہےاور نہ اس کے ساتھ کوئی اور خدا ہے،اگر ایسا ہوتا تو ہرخدا اپنی مخلوق کو لیکر الگ ہوجاتااور پھر وہ ایک دوسرے پرچڑھائی کردیتے۔“

{أَمْ جَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكَاءَ خَلَقُوا كَخَلْقِهِ فَتَشَابَهَ الْخَلْقُ} [الرعد: 16]

”یا ان لوگوں نے اللہ کے ایسے شریک مانے ہوئے ہیں جنہوں نے کوئی چیز اسی طرح پیدا کی ہو جیسے اللہ پیدا کرتا ہے۔“

متکلمین نے توحید کے بیان میں جو دلائل بیان کیے ہیں،ان کا مرجع یہ آیات ہیں جو ہم نے ذکر کردی ہیں۔اسی طرح وہ مکمل کلام جو توحید وعدل کی فروعات کی تفصیل بیان کرتا ہے وہ بھی قرآن سے ماخوذ ہے۔

موت کے بعد کی زندگی کے بارے میں کلام کرنا اور اس کو محال سمجھنا بھی قرآن میں موجود ہے، جس کے بارے میں عقلاءِ عرب اور ان سے پہلے لوگوں کا اختلاف تھا،یہاں تک وہ حیران ومتعجب ہوئے اور کہنے لگے :

{أَإِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا ذَلِكَ رَجْعٌ بَعِيدٌ} [ق: 3]

”بھلا کیا ہم مرکھپ جائیں  اور مٹی ہوجائیں گے(اس وقت ہمیں پھر زندہ کیا جائےگا)یہ واپسی تو ہماری سمجھ سے دور ہے۔“

{هَيْهَاتَ هَيْهَاتَ لِمَا تُوعَدُونَ} [المؤمنون: 36]

”جس بات سے تمہیں ڈرایا جارہا ہے وہ تو بہت ہی بعید بات ہے۔“

{مَنْ يُحْيِ الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيمٌ} [يس: 78]

”ان ہڈیوں کو کون زندگی دےگا جب وہ گل چکی ہوں گی۔“

{أَيَعِدُكُمْ أَنَّكُمْ إِذَا مِتُّمْ وَكُنْتُمْ تُرَابًا وَعِظَامًا أَنَّكُمْ مُخْرَجُونَ} [المؤمنون: 35]

”بھلا بتاؤ! یہ شخص تمہیں ڈراتا ہے کہ جب تم مرجاؤ گے اور مٹی اور ہڈیوں میں تبدیل ہوجاؤگے تو تمہیں دوبارہ زمین سے نکالا جائےگا؟۔“

ان کے اس کلام کے مقابلے میں موت کے بعد کی زندگی کے امکان پر قرآن میں جو دلیل پیش کی گئی ہے وہ اس بات کی تاکید کرتی ہے کہ موت کے بعد کی زندگی  عقل کے موافق اور ممکن ہے۔چنانچہ جو لوگ موت کے بعد کی زندگی کا انکار کرتے تھے،اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو ان کے خلاف دلیل وحجت سکھائی اور آپﷺ نے دو الگ قسم کی جماعتوں کے خلاف دو الگ قسم کی دلیل پیش کی:

1۔ان میں سے ایک  گروہ وہ تھا جو اس بات کا قائل تھا کہ ہرچیز کو پہلی بار اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے،لیکن یہ لوگ دوسری بارکی حیات اور حشر کے منکر تھے۔

2۔دوسرا گروہ ایسا تھا جو پہلی بار کی تخلیق کا بھی منکر تھا اور یہ کہتا تھا کہ یہ عالَم قدیم ہے۔

پہلے گروہ کے خلاف اللہ تعالیٰ نے یہ دلائل پیش فرمائے:

{قُلْ يُحْيِيهَا الَّذِي أَنْشَأَهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيمٌ} [يس: 79]

”کہہ دو!ان کو وہی زندگی دےگا جس نے انہیں پہلی بار پیدا کیا تھا اور وہ پیدا کرنے کا ہر کام جانتا ہے۔“

{وَهُوَ الَّذِي يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ} [الروم: 27]

”اور وہی ہے جو مخلوق کی ابتداء کرتا ہے،پھر اسے دوبارہ پیدا کرےگا اور یہ کام اس کے لیے بہت آسان ہے۔“

{كَمَا بَدَأَكُمْ تَعُودُونَ} [الأعراف: 29]

”جس طرح اس نے تمہیں ابتداء میں پیدا کیا تھا،اسی طرح تم دوبارہ پیدا ہوگے۔“

ان آیات کے ذریعے پہلے گروہ کو یہ تنبیہ کی گئی کہ جو ذات  کسی سابقہ مثال ونمونے کے بغیر پہلی بار تمہیں پیدا کرسکتا ہے،وہ ذات اسی عمل پر دوبارہ بطریق اولیٰ قادر ہے۔اور دوسری بار کی تخلیق اللہ تعالیٰ پر تمہارے عرف کے مطابق زیادہ آسان ہے،کیونکہ باری تعالیٰ کی نسبت سے اس پر ایک چیز کی تخلیق دوسری چیز کی تخلیق سے زیادہ آسان ہونے کی کوئی بات نہیں ہے۔(بلکہ وہ ہر چیز کی تخلیق پربلاکسی مشقت کے قادر ہے۔)

بعض حضرات نے یہ بھی کہا ہے کہ اس آیت(وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ)میں ”علیہ“کی ضمیر خلق یعنی مخلوق کی طرف لوٹتی ہے۔یعنی موت کے بعد کی حیات تم لوگوں پر پہلی بار کی زندگی سے زیادہ آسان اور ہلکی ہے،کیونکہ پہلی بار کی حیات  میں  ولادت،تربیت،ناف کاٹنا،کپڑے میں باندھنااور دانتوں کا نکلنا وغیرہ ایسی چیزیں ہوتی ہیں جو باعثِ الم و تکلیف ہوتی ہیں،جبکہ دوسری بار کی حیات میں یہ سب چیزیں نہیں ہوں گی،بلکہ اس میں سب کچھ یکبارگی ہوگا، اس لیے فرمایا کہ دوسری بات کی حیات تمہارے لیے زیادہ آسان ہے۔

یہ وہ دلائل تھے جو پہلے گروہ کے خلاف پیش کیے گئے،جو تخلیق اول کا قائل تھا،لیکن موت کے بعد کی حیات کا منکر تھا۔

دوسرا گروہ، جس نے پہلی بار کی تخلیق اور دوسری بار کی زندگی کا انکار کرکے عالم کے قدیم ہونے کا قول اختیار کیا تھا،اس پر بات یہاں سے مشتبہ ہوگئی کہ انہوں کہا کہ:ہم نے حیات کو گرم اور تر  پایا ہے،جبکہ موت کو سرد اور خشک پایا ہے اور یہی (سرد وخشک ہونا)مٹی کی طبیعت ہے۔تو یہ کیسے ممکن ہے کہ حیات(جس کی طبیعت میں گرمی اور تری ہےوہ)مٹیاور بوسیدہ ہڈیوں کے ساتھ جمع ہوجائے اور ٹھیک ٹھیک مخلوق بن جائے؟کیونکہ دو ضدین ایک دوسرے کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتے۔اس گروہ نے  اسی وجہ سے موت کے بعد کی زندگی کا انکار کیا۔

میری جان کی قسم!دو ضدین ایک دوسرے کے ساتھ ایک ہی محل یا ایک ہی جہت میں جمع نہیں ہوسکتے اور نہ ہی دونوں کسی ایسی چیز میں جمع ہوسکتے ہیں جو چیز خود ایک محل میں موجود ہو،لیکن  دو ضدین دو الگ الگ جگہوں میں اس طرح جمع ہوسکتے ہیں کہ دونوں ایک دوسرے کے قریب  قریب اور مجاور ہوں۔

دوسرے گروہ کے خلاف اللہ تعالیٰ نے دلیل پیش کرتے ہوئے فرمایا:

{الَّذِي جَعَلَ لَكُمْ مِنَ الشَّجَرِ الْأَخْضَرِ نَارًا فَإِذَا أَنْتُمْ مِنْهُ تُوقِدُونَ} [يس: 80]

”وہی ہے جس نے تمہارے لیےسرسبز درخت سے آگ پیدا کردی ہے،پھر تم ذرا سی دیر میں اس سے سلگانے کا کام لیتے ہو۔“

اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر اس سلسلے میں ایسی چیز کے ذریعے رد فرمایا جوچیز  ان کے علم و مشاہدے میں تھی کہ آگ ،جو خشک اور گرم ہے،ایسے سرسبز درخت سے نکلتی ہے جس کی طبیعت میں سردی اور تری(برودت ورطوبت)ہوتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے پہلی بار کی تخلیق کو دوسری بار کی تخلیق کے لیے دلیل بناکر پیش کیا،کیونکہ یہ آیت اس بات پر دلیل ہے کہ حیات،مٹی اور بوسیدہ ہڈیوں کے قریب اور مجاورہوسکتی ہے،جس کو اللہ تعالیٰ نے ٹھیک ٹھیک مخلوق بناکرپیدا کردیا اور فرمایا:

{كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِيدُهُ} [الأنبياء: 104]

”جس طرح ہم نے پہلی بار تخلیق کی ابتداء کی تھی،اسی طرح ہم اسے دوبارہ پیدا کردیں گے۔“

جو لوگ دہریہ تھے اور یہ کہتے تھے کہ ہر حرکت سے پہلے حرکت ہوتی ہےاور کوئی دن ایسا نہیں ہے جس سے پہلے دن نہ ہو۔اسی طرح جو یہ کہتے ہیں کہ ہرجزء (جس کی کوئی انتہاء نہیں ہے)کا نصف ہوتا ہے۔ان لوگوں پر رد کے سلسلے میں متکلمین جو کلام کرتے ہیں  اس کی دلیل سنت رسول ﷺ میں ملتی ہےکہ آپﷺ نے فرمایا:” بیماری کا کسی دوسرے کو لگ جانا  اور  بدشگونی لینا کوئی چیز نہیں ہے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کو سن کر ایک صحرا نشین نے کہا : اے اللہ کے رسول ،پھر ایسا کیوں ہے کہ جو اونٹ اتناصاف ستھرا اور نشیط ہوتاہےگویا کہ ہرن ہے ، لیکن جب وہ خارش زدہ اونٹوں میں داخل ہوجاتا ہےتو اس کو بھی خارش لگ جاتی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تو یہ بتلاؤ کہ پہلے اونٹ کو کس نے خارش زدہ کیا ہے ؟[صحيح البخاري-كتاب الطب۔رقمالحديث: 5717]

یہ سن کر اعرابی خاموش ہوگیا ،کیونکہ اس کو آپﷺ کی عقلی دلیل نے جواب دینے سے عاجز کردیا تھا۔

جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ کوئی حرکت ایسی نہیں ہوتی،جس سے پہلے حرکت نہ ہو۔ان کو ہم کہتے ہیں کہ اگر یہی بات ہے تو اس سے ايك  بھی حرکت ثابت نہ ہوگی،کیونکہ جس چیز کی انتہاء نہیں ہوتی،اس سے کوئی چیزوجود پذیر نہیں ہوسکتی۔

اسی طرح ایک آدمی کہنے لگا: میری عورت نے ایک کالا بچہ جنا ہے۔(یعنی اس کےنسب میں شبہ کا اظہار کیا) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں؟اس نے جواب دیا: ہاں۔ پوچھا:کون سے رنگ کے ہیں؟ جواب دیا: سرخ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:کیا کوئی خاکستری بھی ہے؟ جواب دیا: ہاں، خاکی رنگ کا بھی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے پوچھا:پھر یہ کہاں سے آ گیا؟، بولا: شاید کسی رگ نے یہ رنگ کھینچ لیا ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(یہاں بھی ہو سکتا ہے)تمہارے لڑکے میں بھی کسی رگ نے یہ رنگ کھینچ لیا ہو۔[ صحيح البخاري-كتاب الطلاق، رقم الحديث: 5305]

یہ وہ طریقہ ہے جواللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو سکھایا کہ ہر چیز کو اس کی نظیر اور مثل کی طرف لوٹائے اور یہ اُن تمام صورتوں میں ہمارے لیے ایک اصول ہے جہاں ہم شبیہ اور نظیر کی بنیاد پر فیصلہ کرتے ہیں۔

اسی سے ہم ان لوگوں کے خلاف بھی استدلال کرتےہیں جو کہتے ہیں کہ اللہ بھی مخلوق کی طرح جسم رکھتا ہے۔ہم کہتے ہیں کہ اگر ایک چیز دوسری چیز کے مشابہ ہے تو اس کی دو حالتیں ہوسکتی ہیں:

1۔یا دونوں چیزوں میں تمام جہات سے یکسانیت و مشابہت ہوگی۔

2۔یا دونوں میں بعض جہات سے مشابہت ہوگی۔

اگر اللہ تعالیٰ ہر جہت سے مخلوق کے مشابہ ہے تو اس سے یہ لازم آئےگا کہ اللہ تعالیٰ تمام جہات سے حادث ہو۔اور اگر اللہ تعالیٰ بعض جہات میں مخلوق کے مشابہ ہے تواس سے یہ لازم آئےگا کہ  جس جہت میں اللہ تعالیٰ،مخلوق کے مشابہ ہے،اُس جہت میں اللہ تعالیٰ حادث ہو،کیونکہ جس جہت میں دو چیزیں ایک دوسرے کے مشابہ ہوتی ہیں ، اُس جہت میں دونوں کا حکم بھی ایک ہوتا ہے۔اور یہ ناممکن و محال  ہے کہ جو حادث ہے وہ  قدیم ہوسکے یا جوقدیم  ہے وہ حادث ہوسکے۔(مخلوق حادث اور اللہ تعالیٰ قدیم ہے،اس لیے دونوں میں مشابہت بھی نہیں ہے۔)اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

{لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ} [الشورى: 11]

”کوئی چیز اس کے مثل نہیں ہے۔“

اور دوسری جگہ فرمایا:

{وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ} [الإخلاص: 4]

”اور اس کے جوڑ کا کوئی نہیں ہے۔“

رہی اس بات کی اصل کہ جسم کی انتہاء ہوتی ہے اور جزء تقسیم نہیں ہوتا تو وہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے کہ :

{وَكُلَّ شَيْءٍ أَحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُبِينٍ} [يس: 12]

”اور ہم نے ایک واضح کتاب میں ہر ہر چیز کا پورا احاطہ کررکھا ہے۔“

جس چیز کی انتہاء نہ ہو،اس کا شمار کرنا ناممکن ہےاور یہ بھی محال ہے کہ ”شیء“یعنی جزء تقسیم ہو،کیونکہ اس سے یہ لازم آئےگا کہ وہ ایک نہیں ،بلکہ  دو چیزیں ہیں،حالانکہ یہ خبردیدی گئی  ہے کہ  ان دونوں پر عدد واقع ہوچکا ہے۔(عدد اور گنتی کے بعد وہ چیزتقسیم ہوکرزیادہ نہیں ہوسکتی۔)

اس جہان کو پیدا کرنے والے کا ہر فعل اپنے قصد واختیار سے ہوتا ہے اور اس سے نہ چاہتے ہوئے کوئی فعل صادر نہیں ہوتا۔اس کی اصل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے کہ:

{أَفَرَأَيْتُمْ مَا تُمْنُونَ (۔) أَأَنْتُمْ تَخْلُقُونَهُ أَمْ نَحْنُ الْخَالِقُونَ} [الواقعة: 58، 59]

”ذرا یہ بتلاؤ کہ جو نطفہ تم ٹپکاتے ہو۔کیا تم اسے پیدا کرتے ہو یا پیدا کرنے والے ہم ہیںَ؟۔“

کفار یہ نہ کہہ سکے کہ  وہ اپنی خواہش و تمنا سےپیدا کرتے ہیں،کیونکہ اگر وہ اپنے اس دعوی کے ساتھ اولاد کی تمنا کرتے اور وہ نہ ہوتی یا وہ اولاد کو ناپسند کرتے اور اولاد ہوجاتی (تو وہ جھوٹے ثابت ہوجاتے ) لہذا اس آیت کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ان کو اس بات پر تنبیہ کردی کہ خالق وہ ہوتا جس کے ارادے واختیار سے مخلوقات پیدا ہوں۔

نظرواستدلال میں مخالف پر نقض وتوڑ پیش کرنے کی اصل اور دلیلسیدنا محمدﷺ کی سنت سے ماخوذ ہے۔وہ اس طرح کہ ایک بار  آپﷺ کی ملاقات ایک موٹے پوپ سے ہوئی تو آپﷺ نے اس سے فرمایا:میں تجھے اللہ کی قسم دیکر پوچھتا ہوں کہ کیا تم اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ  تورات میں  ایسی کوئی بات پاتے ہو کہ اللہ تعالیٰ موٹے پوپ سے نفرت کرتا ہے؟تو پوپ یہ سن کر غصہ ہوا اور کہنے لگا کہ اللہ نے کسی بھی انسان پر کچھ بھی نازل نہیں کیا۔اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

{قُل مَنْ أَنْزَلَ الْكِتَابَ الَّذِي جَاءَ بِهِ مُوسَى نُورًا وَهُدًى لِلنَّاسِ} [الأنعام: 91]

”کہہ دو کہ وہ کتاب کس نے نازل کی تھی جو موسیٰ لیکر آئے تھے،جو لوگوں کے لیے روشنی اور ہدایت تھی۔“

[المقاصد الحسنة للسخاوي (ص: 208)]

اس پر اللہ تعالیٰ نے قریب سے رد فرمایا، کیونکہ تورات ”شیء“ہے اور موسی علیہ السلام ”بشر“ہےاور پوپ اس بات کا قائل تھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر تورات نازل کی ہے۔

اسی طرح جن لوگوں کا گمان یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ یہ وعدہ کیا ہے کہ کسی رسول پر اس وقت تک ایمان نہ لائیں جب تک وہ  ایسی قربانی لیکر نہ آجائے جسے آگ کھا جائے۔ان کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

{قُلْ قَدْ جَاءَكُمْ رُسُلٌ مِنْ قَبْلِي بِالْبَيِّنَاتِ وَبِالَّذِي قُلْتُمْ فَلِمَ قَتَلْتُمُوهُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ} [آل عمران: 183]

”تم کہو کہ :مجھ سے پہلے تمہارے پاس بہت سے پیغمبر کھلی نشانیاں بھی لیکر آئے اور وہ چیز بھی جس کے بارے میں  تم نے کہا ہے۔پھر تم نے انہیں کیوں قتل کیا،اگر تم واقعی سچے ہو۔“

اس آیت کے ذریعے ان کے ساتھ مناقشہ کیا اور ان کے خلاف دلیل بیان کردی۔

مخالف کے مغالطہ کے ازالہ  کرنے کا اصول اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے ماخوذ ہے کہ :

{إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ} [الأنبياء: 98]

”یقین رکھو کہ تم اور جن کی تم اللہ کو چھوڑ کرعبادت کرتے ہو وہ سب جہنم کا ایندھن ہے۔“

جب یہ آیت نازل ہوئی اور عبداللہ بن زبعریٰ کو اس کی خبر پہنچی ،جو سخت جھگڑالو قسم کا مخالف تھا۔اس نے کہا:رب کعبہ کی قسم! میں محمد پر غالب آؤں گا۔رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا: اے محمد! کیاآپ اس بات کے قائل نہیں ہیں کہ عیسیٰ،عزیر اور فرشتوں کی بھی عبادت کی گئی ہے۔(لہذا اس آیت کی وجہ سے وہ بھی جہنم کا ایندھن بنیں گے۔)یہ سن کر آپﷺ خاموش ہوگئے اور یہ خاموشی جواب سے عاجز ہونے کی وجہ سے نہ تھی،بلکہ آپﷺ اُس کی جہالت پر حیران تھے،کیونکہ آیت میں ایسی کوئی بات نہیں تھی  جس سے یہ لازم آئے کہ عیسیٰ،عزیر علیہم السلام اور فرشتے بھی اس آیت میں داخل ہیں،کیونکہ آیت میں ”وماتعبدون“(یعنی جن کی تم عبادت کرتے ہو)ہے،”وکل ماتعبدون“(یعنی وہ سب جن کی تم عبادت کرتے رہے ہو)نہیں ہے۔

لیکن ابن زبعریٰ ،آپﷺ کو مغالطہ میں ڈالنا چاہتا تھا،تاکہ اپنی قوم کو اس وہم میں مبتلا کرسکے کہ اس نے آپﷺ کے ساتھ حجت بازی کرکے غلبہ حاصل کرلیا ہے۔اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:

{إِنَّ الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِنَّا الْحُسْنَى أُولَئِكَ عَنْهَا مُبْعَدُونَ} [الأنبياء: 101]

”جن لوگوں کے لیے ہماری طرف سے بھلائی پہلے سے لکھی جاچکی ہے،ان کو اس جہنم سے دور رکھا جائےگا۔“

جب آپﷺ نے یہ آیت پڑھی تو مشرکین نے شور مچانا شروع کردیا،تاکہ ان کی غلطی اور عاجزی واضح نہ ہو اور یہ کہنے لگے کہ ہمارا الٰہ بہتر ہے یا وہ،یعنی عیسیٰ علیہ السلام؟اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائی:

{وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا إِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ يَصِدُّونَ (۔) وَقَالُوا أَآلِهَتُنَا خَيْرٌ أَمْ هُوَ مَا ضَرَبُوهُ لَكَ إِلَّا جَدَلًا بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ} [الزخرف: 57، 58]

”اور جب ابن مریم کی مثال دی گئی تو تمہاری قوم کے لوگ یکایک شور مچانے لگےاور کہنے لگے کہ ہمارے معبود بہتر ہیں یا وہ؟انہوں نے تمہارے سامنے یہ مثال محض کٹ حجتی کے لیے دی ہے،بلکہ یہ لوگ ہیں ہی جھگڑالو۔“

[خلاصہ]

حاصل یہ ہے کہ اوپر جو آیات ہم نے ذکر کردی ہیں،یا ان کے علاوہ وہ آیات جو ہم نے ذکر نہیں کی،ان میں علم کلام کے تفصیلی مسائل کے لیے اصل اور دلیل موجود ہے،اگرچہ کتاب و سنت میں ہرمسئلہ متعین طور پر موجود نہیں ہے،کیونکہ آپﷺ اور آپ کے صحابہ کے دوور میں جو بھی عقلی مسئلہ متعین طور پر زیرِ بحث آیا،آپﷺ اور آپ کے صحابہ نے اس میں کلام کیا،جیسا کہ سابقہ تفصیل سے معلوم ہوا۔

تیسرا جواب:

جن مسائل کے بارے میں یہ لوگ سوال کررہے ہیں ،ان کا تفصیلی علم آپﷺ کو حاصل تھا اور آپﷺان سے لاعلم نہ تھے،البتہ یہ مسائل آپﷺ کے زمانے میں متعین طور پر پیش نہیں آئے تھے کہ آپﷺ ان کے بارے میں کلام کرتے یا خاموشی اختیار فرماتے،جبکہ ان مسائل کے اصول قرآن و سنت میں موجود ہیں۔اور ان میں سے جو مسئلہ پیش آگیا تھا اور اس کا  تعلق دین  وشریعت سے تھا تو آپﷺ کے صحابہ نے اس میں کلام بھی کیا اور اس میں غور وفکر کرکے بحث ومباحثہ  اور مجادلہ ومناقشہ بھی کیا۔جیسے میراث کے مسائل میں عول کا مسئلہ اور دادی کی وراثت کا مسئلہ وغیرہ۔اور (طلاق کے سلسلے میں)لفظِ حرام ،لفظِ بائن اور البتۃ کا لفظ استعمال کرنا اور (بیوی کو یہ کہنا کہ)تمہاری رسی تمہارے کندھے پر ہے۔اس کے علاوہ وہ مسائل جن کا ذکر بار بار ہوتا ہے۔یہ مسائل صحابہ کے دور میں اور ان کے بعد پیش آئے اور ان میں سے ہر مسئلہ میں آپﷺ سے کوئی نص منقول نہیں ہے،کیونکہ اگر ہر مسئلہ میں آپﷺ کا فرمان موجود ہوتا تو آپﷺ کے صحابہ ان مسائل میں اختلاف نہ کرتے اور یہ اختلاف اب تک باقی نہ رہتا۔

اگرچہ ان مسائل میں سے ہر مسئلہ میں آپﷺ سے کوئی نص منقول نہیں ہے،لیکن صحابہ اور علماء نے اجتہاد کرکے ان مسائل کو اُن دوسرے مسائل پرقیاس کیا،جن میں قرآن یا سنت کی نص موجود تھی۔

یہ تو اُن نئے فروعی مسائل کے احکام  تھے جن کوشریعت کے ایسے احکام پر قیاس کیا گیا جو خود فروعات ہیں اور اُن کا  جاننانقل  اور رسول  کے بغیر ممکن نہ تھا۔رہے وہ نئے مسائل جو اصولِ دین کے سلسلے میں پیش آئے ،تو ہرعقلمند مسلمان کو چاہیے کہ وہ ایسے مسائل کے احکام کو دوسرے ایسےاصولوں  کی طرف لوٹائے(اور ان کے لیے ایسے اصولوں کو بنیاد بنائے )جوعقل،حِس اور بداہت کے اعتبار سے متفقہ اصول ہوں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ  شریعت کے جن مسائل کا جاننا سمع ونقل پر موقوف ہے،اُن مسائل(کا حکم معلوم کرنے کے لیے ان ) کو شریعت کے ایسے اصولوں کی طرف پھیرا جائے جن کے ادراک کا ذریعہ سمع ونقل ہے۔اور عقلی  وحسی مسائل کو اپنے ہی باب کی طرف لوٹایا جائےگا۔(یعنی عقلی مسائل کو عقلی اصولوں کی طرف اور حسی مسائل کو حسی اصولوں کی طرف)اور عقلی مسائل کو نقلی مسائل کے ساتھ یا نقلی مسائل کو عقلی مسائل کے ساتھ مخلوط نہ کیا جائے۔

اگر آپﷺ کے زمانے میں  خلقِ قرآن،جزء(جو قابل تقسیم نہ ہو)اور طفرہ کے مسائل انہی الفاظ کے ساتھ پیش آتے تو آپﷺ ضرور ان میں کلام کرتے اور ان کی مکمل وضاحت فرماتے،جیسے آپﷺ نے اپنے زمانے کے دیگر پیش آمدہ متعین  مسائل میں کلام فرمایا۔

[مانعین کے ساتھ مناظرہ]

پھر ان کو یہ کہا جائے کہ آپﷺ سے اس بارے میں کوئی نص منقول نہیں ہے کہ قرآن مخلوق ہے یا غیر مخلوق۔پھر تم کیوں کہتے ہو کہ قرآن غیر مخلوق ہے؟

اگر یہ لوگ جواب دے کہ بعض صحابہ اور تابعین نے ایسا کہا ہے۔(کہ قرآن غیرمخلوق ہے۔)تو ان کو کہا جائے گا کہ اس سے یہ لازم آئےگا کہ وہ صحابی یا تابعی بدعتی وگمراہ ہے،کیونکہ اس نے ایسی بات کہہ دی جو آپﷺ نے نہیں کہی۔

اگر کہنے والایوں کہے کہ میں اس مسئلہ(خلق قرآن)میں توقف اختیار کرتا ہوں ،نہ یہ کہتا ہوں کہ قرآن مخلوق ہے اور نہ یہ کہتا ہوں کہ قرآن غیر مخلوق ہے۔اس کو جواب دیا جائےگا کہ آپ  توقف اختیار کرنے میں بھی بدعتی اور گمراہ ہیں،کیونکہ آپﷺ نے یہ بھی نہیں فرمایا کہ اگر میرے بعد یہ مسئلہ پیش آئے تو اس میں توقف اختیار کرو اور اس میں کچھ بھی  نہ بولو ۔اور نہ ہی آپﷺ نے یہ فرمایا کہ جس نے قرآن کو مخلوق یا غیر مخلوق کہا ، اس کو کافر یا گمراہ قراردو ۔

ذرا یہ بتادیں!اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اللہ تعالیٰ کا علم مخلوق ہے۔کیا تم اس کے جواب میں بھی توقف اختیار کروگے؟اگر یہ لوگ کہے کہ : نہیں،(ہم توقف نہیں کریں گے)توان کو کہا جائےگا کہ آپﷺ اور آپﷺ کے صحابہ نے تواس مسئلہ میں بھی کوئی کلام نہیں کیا۔(پھر تم کیوں کلام کرتے ہو؟)

اسی طرح اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ تمہارا رب شکم سیر ہے،یا سیراب ہے،یا کپڑے پہنتا ہے یا بغیر کپڑوں کے ہے،یا ٹھنڈا ہے،یا زرد رنگ کا ہے،یا تر ہے،یا جسم ہے،یا عرض ہے یا خوشبو سونگھتا ہے یا نہیں سونگھتا۔یا یہ سوال کرے کہ کیا اس کی ناک،دل،جگر،تلی ہے؟کیا وہ ہرسال حج کرتا ہے؟کیا وہ گھڑسواری کرتا ہے یا نہیں؟کیا وہ غمزدہ ہوتا ہے یا نہیں؟اور اس جیسے دوسرے مسائل کے بارے میں پوچھے تومناسب یہ ہے کہ آپ اس کو جواب دینے سے خاموشی اختیار کریں،کیونکہ آپﷺ اور آپﷺ کے صحابہ نے ان مسائل میں کوئی کلام نہیں کیا۔یا آپ ایسے شخص کے سامنے خاموشی اختیار نہیں کریں گے(بلکہ اس کے ساتھ کلام کریں گے)تو پھر آپ ضرور  اپنے کلام کے ذریعے یہ وضاحت کریں گے کہ ان میں سے کسی بھی بات کا اطلاق باری تعالیٰ کی ذات پر کرنا درست نہیں ہے اور اس کے یہ یہ دلائل ہیں۔

اگر وہ کہے کہ میں ایسے سائل کو کوئی جواب نہیں دوں گا،بلکہ اس کے سامنے خاموش رہوں گا، یا اس کو چھوڑ دوں گا یا اس کے پاس سے اُٹھ کر کھڑا ہوجاں گا یااس کو سلام نہیں کروں گا یا جب وہ بیمار ہوجائے تو اس کی عیادت نہیں کروں گا یا جب وہ مرجائے تو اس کی نماز جنازہ میں شریک نہیں ہوں گا۔تو اُس کو جواب دیا جائے کہ آپ نے جو امور ذکر کیے ہیں(سلام نہ کرنا ،عیادت نہ کرنا وغیرہ)ان سب میں آپ بدعت و گمراہی کے مرتکب ہورہے ہیں،کیونکہ سروردوعالمﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ جو انسان یہ سوالات کرےاس کو کوئی جواب نہ دو،اور نہ ہی آپﷺ نے  ان امور کا تذکرہ کیا ہے جو آپ نے بیان کیے ہیں۔لہذا اگرآپ ایسا کریں گے تو آپ بدعتی ہوں گے۔آپ حضرات اُس شخص کے بارے میں کیوں سکوت اختیار نہیں کرتے جو قرآن کو مخلوق کہتا ہے؟آپ ایسے شخص کو کیوں کافر قرار دیتے ہیں؟حالانکہ آپﷺ سے ایسی کوئی صحیح روایت مروی نہیں ہے جس میں قرآن کو غیرمخلوق کہا گیا ہو یا جو شخص قرآن کو مخلوق کہتا ہےاس کو کافر کہا گیا ہو۔

اگر یہ لوگ کہے کہ چونکہ امام احمد بن حنبل ؒ نے قرآن کو غیر مخلوق کہا ہے اور جو قرآن کو مخلوق کہتا ہے ،اس کو کافر قراردیا ہے۔(اس لیے ہم بھی اسی کے قائل ہیں)تو ان کو کہا جائےگا کہ امام احمد بن حنبلؒ اس بارے میں خاموش کیوں نہ رہیں؟

اگر یہ لوگ  یوں کہے کہ کیونکہ  عباس عنبری،وکیع،عبدالرحمان بن مہدی اور فلاں فلاں اشخاص نے قرآن کو غیر مخلوق کہا ہے اور یہ کہا ہے کہ جو قرآن کو مخلوق کہے وہ کافر ہے۔ان کو کہا جائےگا کہ یہ حضرات(عباس عنبری اور وکیع وغیرہ)ایسے معاملے میں خاموش کیوں نہ رہیں،جس میں آپﷺ خاموش تھے؟ اگر یہ لوگ جواب دے کہ یہ اس لیے کہ عمرو بن دینار،سفیان بن عیینہ ،جعفر بن محمد رضی اللہ عنہم اور فلاں فلاں حضرات نے کہا ہے کہ قرآن نہ خالق ہے اور نہ مخلوق۔ان کو کہا جائےگا کہ ان حضرات نے اس سلسلے میں کیوں خاموشی اختیار نہیں کی ،جس میں آپﷺ نے کچھ نہیں فرمایا؟

اگر یہ حضرات اس سلسلے میں صحابہ یا ان کی جماعت کا حوالہ دیتے ہیں تو یہ محض ضد و عناد ہے،کیونکہ ان کو یہ کہا جائےگا کہ جس امر میں آپﷺ نے کوئی کلام نہیں کیا اور نہ ہی یہ فرمایا کہ خلقِ قرآن کے قائل کو کافر قراردو،ایسے معاملے میں صحابہ کرام نے کیوں خاموشی اختیار نہیں فرمائی؟اگر یہ لوگ کہے کہ علماء کے لیے ضروری ہے کہ ہر نئے پیش آمدہ مسئلہ میں کلام کرے ،تاکہ لاعلم لوگوں کو اس مسئلے کا حکم معلوم ہوسکے۔ان کو کہا جائےگا کہ یہی تو ہم آپ سے چاہتے تھے۔اب آپ کلام کو کیوں منع کرتے ہیں؟آپ جب چاہیں کلام کرتے ہیں اور جب آپ کے پاس کہنے کو کچھ نہیں بچتا تو آپ کہتے ہیں کہ ہمیں کلام سے منع کیا گیا ہے اور اگر آپ چاہیں تو اپنے سے قبل کے لوگوں کی بلا کسی حجت و بیان کے تقلید کرتے ہیں۔یہ تو محض شہوت اور من مانی ہے۔

پھر ان لوگوں کو یہ کہا جائے کہ آپﷺ نے تو منت،وصیت اور غلام کی آزاد کے مسائل ی اور مناسخہ(میراث کی ایک بحث ہے )کے حسابات کےسلسلے میں بھی کلام نہیں کیا اور نہ ہی آپﷺ نے اس سلسلے میں کوئی کتاب تصنیف کی ہے ،جیسا کہ مالک،ثوری،شافعی اور ابوحنیفہ(رحمہم اللہ)نے کیا ہے۔(آپ کے اصول کے مطابق)اس سے یہ لازم آئےگا کہ یہ سارے حضرات بدعت اور گمراہی کے مرتکب تھے،کیونکہ انہوں نے ایسا عمل کیا جو آپﷺ نے نہیں کیا تھا اور انہوں نے ایسی بات کہہ دی جو بعینہ آپﷺ نے نہیں فرمائی اور انہوں نے ایسی تصنیفات کیں جو آپﷺ نے نہیں کی اور انہوں نے ایسے شخص کو کافر بتایا جو قرآن کو مخلوق کہتا ہے،حالانکہ آپﷺ نے ایسا نہیں فرمایا۔

یہ جو کچھ ہم نے ذکر کردیا،یہ  ہر اُس عقلمند کے لیے کافی ہے جو ضدی ومعاند نہ ہو۔

الحمدللہ رسالہ مکمل ہوا

مفتی شادمحمدشاد

مفتی شادمحمدشاد، جامعہ دارالعلوم کراچی سے فقہ وافتاء کے متخصص ہیں، اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے کلیہ اصول الدین سے ایم فل مکمل کیا ہے۔
Shadkhan654@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں