Home » سائنس اور مذہب کے خطے
انگریزی کتب تہذیبی مطالعات سائنس

سائنس اور مذہب کے خطے

 

تبصرہ: عرفان ندیم

The Territories of Science and Religion

(سائنس اور مذہب کے خطے )

مصنف : پیٹر ہیریسن

پبلشر : یونیورسٹی آف شگاگو پریس، شکاگو ، لندن

سن اشاعت : 2015

ضخامت : 350

کتاب کی شروعات دیباچہ سے کی گئی ہیں جو تین صفحات پر مشتمل ہے ۔ دیباچہ میں مصنف نے کتاب کا تعارف، پس منظر اور گیفرڈ لیکچرز (Gifford Lectures ) کا تعارف  کروایا ہے ۔ اس کے بعد  بتایا ہے کہ  لفظ “سائنس ” اور “مذہب”  ماضی میں کن معانی میں استعمال ہوتے تھے او ر آج ان کا استعمال کن معانی میں ہو رہا ہے ۔

کتاب کل چھ ابواب پر مشتمل ہے ، ہر باب کو مزید ذیلی عنوانات میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ چھٹے باب کے بعد اختتامیہ ہے  اور اس کے بعد اظہار تشکر کا عنوان  ہے جس  میں کتاب کی تدوین واشاعت میں معاونین کا شکریہ ادا کیا گیا ہے ۔اس سےا گلے صفحے پر مخففات کی تفصیل دی گئی ہے ۔ اس سے اگلا صفحہ کتاب میں دیے گئے مختلف گرافس کی وضاحت کے لیے مختص ہے ۔

صفحہ نمبر 239 سے 292 تک حوالہ جات کا تذکرہ ہے ۔ مصنف نے حوالوں کا اہتمام کتاب کے آخر میں کیا ہے ۔ اس کے بعد مراجع و ماخذ کا اندراج ہے جو 293 سے 329 صفحات پر مشتمل ہے ۔مصنف نے مراجع و ماخذ کو بنیادی اور ثانوی ماخذات میں تقسیم کیا ہے ۔

سب سے آخر میں انڈیکس دیا گیا ہے جو 330 سے 350 صفحات تک جاتا ہے ۔

 

تفصیلی تبصرہ

پیٹر ہیریسن  29  ( Peter Harrison) نومبر 1955 میں آسٹریلیا میں پیدا ہوئے ، ابتدائی تعلیم آسٹریلیا سے حاصل کی ، ماسٹر کی ڈگری ییل  یونیورسٹی (Yale University )امریکہ  اور آکسفورڈ یونیورسٹی (University  of  Oxford )سے حاصل کی۔ پی ایچ ڈی کی ڈگری یونیورسٹی آف کوئینز لینڈ  (University of  Queensland ) اور ڈی لیٹ کی ڈگری یونیورسٹی آف آکسفورڈ (University  of  Oxford )سے حاصل کی ۔

اکڈیمک کیرئیر کا آغاز آسٹریلیا کی بونڈ یونیورسٹی (Bond University )سے کیا اور وہاں پروفیسر آف ہسٹری اور فلاسفی کی حیثیت سے  تدریس کی ۔ 2007 سے 2011 تک یونیورسٹی آف آکسفورڈ  (University  of  Oxford )میں سائنس اور ریلیجن کےموضوعات بطور پروفیسر پڑھایا ، آکسفورڈ قیام کے دوران ہیریس مانچسٹر کالج( Harris Manchester Collage)   میں بطور فیلو اور لین ریمسے سینٹر(Lan Ramsey  Centre) میں سینئر ریسرچر کے طور پر بھی خدمات سرانجام دیں ۔2015 میں یونیورسٹی آف کوئینز لینڈ  (University of  Queensland )میں انسٹی ٹیوٹ فار ایڈوانس اسٹڈیز ان ہیومینیٹیز  (Institute for advance studies in humanities )کا افتتاح کیا ۔2003 میں سینٹینری ایوارڈ (Centenary Award )حاصل کیا ۔2011میں یونیورسٹی آف ایڈنبرگ(University  of  Edinburg)  میں گیفرڈ لیکچرز (Gifford Lectures )کے لیے  انتخاب ہوا ۔

گیفرڈ لیکچرز(Gifford Lectures ) سالانہ لیکچرز کی ایک سیریز ہے جس  کا آغاز 1887 میں آدم گیفرڈ (Adam Gifford ) کی خواہش پر ہوا ، ان لیکچرز کا مقصد سماج میں نیچرل تھیالوجیNatural Theology (خدا کا علم ) کا تصور عام کرنا ہے۔ سکاٹش اکڈیمیا  Scottish Academia  میں گیفرڈ لیکچرز (Gifford Lectures )  کے لیے انتخاب بہت اعزاز کی بات سمجھا جاتا ہے ، یہ لیکچر اسکاٹ لینڈ کی مختلف یونیورسٹیز جن میں  ایس ٹی اینڈریوز(ST Andrews University )  ، یونیورسٹی آف گلاسگو(University of Glasgow)  ، یونیورسٹی آف ابرڈین(University of Aberdeen)  اور یونیورسٹی آف ایڈنبرگ (University  of  Edinburg)  شامل ہیں ، دیے جاتے ہیں ۔

یہ لیکچرز اس ارادے سے دیے جاتے ہیں کہ بعد میں ایڈیٹنگ کے بعد ان کی اشاعت کا اہتمام کیا جائے گا۔ ان لیکچرز پر مشتمل اب تک تھیالوجی ، فلاسفی اور مذہب و سائنس کے باہمی تعلق کے موضوع پر اب تک کافی کتب شائع ہو چکی ہیں ، اب تک 174 نامور اہل علم ان موضوعات پر لیکچرز دے چکے ہیں جن میں 18 خواتین لیکچررز بھی شامل ہیں ۔

پیٹر ہیریسن  ( Peter Harrison) نے 2011 میں  یونیورسٹی آف ایڈنبرگ (University  of  Edinburg)  میں گیفرڈ لیکچرز(Gifford Lectures ) ڈیلیور کیے ، ان لیکچرز کو بعد میں ترمیم و اضافے کے ساتھ کتابی صورت میں شائع کیا گیا جس کا عنوان The Territories of Science and Religion رکھا گیا ۔ یہ کتاب انہی لیکچرز پر مشتمل ہے ۔

پیٹر ہیریسن نے اس کتاب میں مغربی فکرکے تناظر میں مذہب اور سائنس کے باہمی تعلق کا جائزہ لیا ہے ، مصنف نے صرف عیسائی مذہب کی بنیاد پر اپنا مقدمہ استوار کیا ،دیگر مذاہب اور ان کے پیرو کاروں کا سائنس کے بارے میں کیا نکتہ نظر ہے اور وہ مذہب و سائنس کے باہمی تعلق کو کس نظر سے دیکھتے  ہیں مصنف نے ان پہلووں سے مکمل احتراز کیا ہے ۔ اس لیے یہ کتاب من حیث المجموع سائنس اور عیسائیت کی تاریخ اور ان  کے باہمی تعلق کے گرد گھومتی ہے ۔ مصنف کے  موضوع کو صرف عیسائیت تک محدود کرنے کی وجہ سے موضوع کی تشنہ طلبی قابل فہم ہے ۔ اس لیے دوران تبصرہ ہم بھی صرف سائنس اور عیسائیت تک محدود رہنے کے قانونا پابند ہیں ۔

مغربی معاشروں میں مذہب اور سائنس کی بحث  ہمیشہ سے معرکۃ الآرا رہی ہے ، جدید سائنس کا ظہور سترھویں صدی کا لازمہ ہے ، یہ وہ دور تھا جب مغربی سماج صنعتی انقلاب کی زد میں تھا ، یورپ نئی انگڑائی لے رہا تھا ، سلطنت برطانیہ کی سرحدوں میں سورج غرب نہیں ہو تا تھا ۔برصغیر ، امریکہ اور دنیا کے دیگر خطوں سے لوٹی ہوئی دولت سے یورپ  سائنسی مہمات پر بے دریغ سرمایہ خرچ کر رہا تھا ۔صنعتی انقلاب اور سرمائے کی بہتات نے ان سائنسی پروجیکٹس کو کامیابی سے ہمکنار کیا اور مغربی سماج   سائنسی عروج کے ایک نئے عہدمیں داخل ہونا۔

قرون وسطیٰ کا یورپ عیسائیت کی آغوش میں پروان چڑھا تھا ، عیسائیت کو یورپ کا سرکاری مذہب ڈکلیئر کیا گیا ، عیسائیت جو اپنی شروعات میں ہی بدعات و  خرافات کا شکار ہو چکی تھی، مرورایام کے ساتھ اپنی اصلی شناخت کھو  بیٹھی ، صلیبی جنگوں کے بعد عیسائیت میں وہ تمام خرافات در آئی جن کی وجہ سے کوئی مذہب زوال پذیر ہوتا ہے ۔ حکومت اور کلیسا کے اتحاد اور ان کی طرف سے کی جانے والی بے اعتدالیوں نے سماج کو مذہب سے متنفر کر دیا تھا ،مارٹن لوتھر کا ظہور عیسائیت میں بڑھتی ہوئی خرافات کا رد عمل تھا ۔ پوپ اور کلیسا کی انہی زیادتیوں کی وجہ سے مغربی سماج مذہب بیزاری کی طرف مائل ہوا جس کہ انتہائی شکل سیکولرزم اور لبرلزم کی صورت میں منتج ہوئی ۔ یہی وہ دو راہا تھا جہاں مذہب اور سائنس دو الگ راستوں پر چل نکلے ، تب سے اب تک مغربی جامعات اور سماج میں مذہب (عیسائیت ) اور سائنس کے باہمی تعلق کی بحثیں چلی آ رہی ہیں ۔

وجود کائنات ، تخلیق آدم ، نظریہ ارتقاء ، ھبوط آدم اور ان جیسے دیگر اہم مسائل آج بھی مغربی سماج میں مذہب و سائنس کے حوالے سے قابل بحث ہیں ۔  مذہب (عیسائیت) ان مسائل کے حوالے سے اپنا نکتہ نظر رکھتا ہے جبکہ  سائنس اور سائنسی شواہد ا ن موضوعات پر ایک نئے انداز سے روشنی ڈالتے ہیں ، اس لیے مذہب و سائنس میں تصادم کی یہ متھ ہمیشہ سے چلی آ رہی ہے ۔  مصنف پیٹر ہیریسن نے اس کتاب اور اپنے ان لیکچرز میں انہی موضوعات پر روشنی ڈالی ہے اور سائنس و مذہب کے مابین تصادم کی اس متھ کو ہی غلط قرار دیا ہے ۔

پیٹر ہریسن نے کتاب کی شروعات  Maps and Territories  کے عنوان سے کی ہیں ، ہیریسن کہتا ہے کہ اگرآج کوئی  مورخ یہ دعوی کرتاہے کہ سن 1600 میں مصر اور اسرائیل کے درمیان ایک خوفناک جنگ ہوئی تھی تو اس دعوے کو شک کی نظر سے دیکھا جائے گا ، اس شک کی بنیاد یہ ہوگی کہ سن 1600 میں مصر اور اسرائیل کے نام سے دو الگ  مملکتوں کا سرے سے وجود ہی نہیں تھا تو یہ جنگ کیسے ہو گئی ۔ اگرچہ موجودہ عصر میں دونوں ممالک کے مابین کثیر تنازعات موجود ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم ان تنازعات کو سولہویں صدی کے تناظر میں بھی ہو بہو دیکھیں ۔

ممکن ہے کہ اس وقت اس نام سے یہ مملکتیں وجود ہی نہ رکھتی ہوں ۔اگر یہ مورخین قرون وسطیٰ کے ایسے  نقشے پیش کریں جن میں یروشلم اوراسکندریہ نام کے شہر موجود ہوں ، ان خطوں میں پائے جانے والے قدرتی وسائل مثلا دریا ، صحراء پہاڑ، میدان اورساحلی علاقے  بھی موجود ہوں تو پھر بھی اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ  1600 میں دونوں ملکوں کے درمیان جنگ ہو ئی تھی ۔ ان نقشوں سے یہ تو ضرور ثابت ہو گا کہ 1600 میں مصر اور اسرائیل کے علاقے موجود تھے لیکن ان خطوں کی موجودگی سے جنگ کا اثبات قطعی طور پر غلط ہو گا کیوں کہ محض خطوں کی موجودگی سے  موجودہ عصر کی طرح ان دونوں ممالک کا وجود ، قومی عصبیت اور سرحدوں کا وجود ثابت نہیں ہوتا۔

1600 میں اسرائیل کے وجود کے انکار کا یہ مطلب نہیں کہ یہ خطہ ہی موجود نہیں تھا  بلکہ خطہ تو موجود تھا مگر اس کی حیثیت موجودہ عصر سے یکسر مختلف تھی ۔ اور وہ حیثیت یہ تھی کہ 1600 میں اسرائیل اور مصر سلطنت عثمانیہ کے خطے ہوا کرتے تھے۔اس لیے 1600 میں اسرائیل اور مصر کا وجود ثابت کرنا اور پھر ان دونوں کے مابین جنگ کا دعویٰ کرنا ہماری شعوری غلطی  ہو گی ۔

پیٹر ہیریسن کے مطابق  یہی اصول مذہب اور سائنس کے درمیان تصادم کی متھ پر اپلائی ہوتا ہے ، تصادم کے قائلین  مذہب اور سائنس کے موجودہ تصورات کو ماضی کی انٹلیکچوئل روایت پر قیاس کرتے ہیں اور پھر اس پر تصادم کی متھ کھڑی کر دیتے ہیں ۔حالانکہ ماضی میں مذہب اور سائنس کا تصور وہ نہیں تھا جو موجودہ عصر میں سمجھا جاتا ہے ۔ جس طرح 1600 میں مصر اور اسرائیل کے خطے تو موجود تھے مگر ان میں تصادم ناممکن تھا کہ تب ان خطوں کی حیثیت مختلف تھی ، بعینہٰ صورت حال مذہب اور سائنس کے درمیان تصادم کی متھ کی ہے ۔

مصنف کا بنیادی استدلال یہ ہے کہ  مذہب اور سائنس کے مابین باہمی تعلق کی جس نوعیت کوہم آج دیکھتے ہیں ماضی میں ایسا نہیں تھا ، ہم مذہب اور سائنس کے موجودہ تصورات کو ماضی  کےتناظر میں فٹ کرنے کی کوشش کر تے ہیں جس سے ہمیں دونوں کے مابین تصادم دکھائی دیتا ہے جبکہ حقیقت ایسی نہیں ہے ۔بالکل ایسےجیسے موجودہ مصر اور اسرائیل کے درمیان بیسیوں باہمی تنازعات ہونے کے باوجود سولہویں صدی میں ان تنازعات کا وجود ہر گزنہیں تھا ۔

مذہب اور سائنس کا موجودہ تصور ماضی قریب  کی ذہنی اختراع ہے ، جس طرح موجودہ  قومی ریاستوں/خطوں کا وجود نوآبادیاتی طاقتوں کی خواہشات  ، بحری مہمات ، سیاسی چپقلشوں  اور ملکی مفادات کا آئینہ دار ہے اسی طرح  مذہب او ر سائنس کا موجودہ تصور بھی مغربی کلچر کی ذاتی پیداوار ہے جو غیر جانبدارانہ یا ریشنل بنیادوں پر نہیں  بلکہ وسیع تر تناظر میں سیاسی طاقتوں کی خواہشات اور تاریخ کے حادثاتی مظاہر میں سے ہے ۔

مذہب و سائنس کے باہمی تعلق کی بابت مصنف کا یہ استدلال غیر معقول اور منطقی مغالطوں پر مشتمل ہے ، اسرائیل او ر مصر کے مابین جنگ کو مذہب و سائنس کے مابین تصادم کے تناظر میں پیش کرنا غلط ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ مصر و اسرائیل کی طرح مذہب کو بھی ماضی قریب کی اختراع قرار دینا صحیح نہیں  ۔عیسائیت کی پوری روایت مصنف کے اس بنیادی مقدمے کی نفی کر رہی ہے ،قرون وسطیٰ کی پوری تاریخ  مذہبی جنگوں اور مذہبی تنازعات کے  گرد گھومتی  ہے ، اگر یہ مذہب اور  مذہبی  تصادم نہیں تھا تو مصنف اسے کیا نام دیں گے ۔ جب بنیادی مقدمہ ہی غلط ہے تو اس سے استدلال اور اس سے اخذ کیے گئے  نتائج اخذ کیسے صحیح ہو سکتے ہیں  ۔

یہ بات کہ مذہب نوآبادیاتی طاقتوں اور سیای چپقلشوں کا آئینہ دار ہے اصل مسئلے کی ناقص تفہیم ہے ۔نو آبادیاتی طاقتوں اور استعمار کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ وہ زیر نگین خطوں میں بالادستی قائم رکھنے کے لیے اپنے نظریات اور آئیڈیالوجی کو پروموٹ کریں ،قرون وسطی میں بھی یہی ہوا مگر اس کی درست تفہیم یہ ہے کہ مذہب پہلے سے موجود تھا جسے سیاسی مفادات اور ذاتی اغراض کے لیے استعمال کیا گیا ، ایسا نہیں تھا کہ مذہب بذات خود نو آبادیاتی طاقتوں اور سیاسی چپقلشوں کے نتیجے میں اختراع ہوا۔

پیٹر ہیریسن کا دوسرا بنیادی استدلال یہ ہے کہ ماضی میں دنیا کے  مختلف علاقوں  میں عبادت کی رسمیں موجود رتھیں مگر اس سب کو باقاعدہ منظم مذہب یا عقائد کا  کوئی مجموعہ نہیں سمجھا جاتا تھا ۔اسی طرح قدرتی مظاہر کو سمجھنے کی کوششیں بھی زمانہ قدیم سے چلی آ رہی تھیں، سبب اور مسبب کی بحثیں اور نظام کائنات کو سمجھنے کی کوششیں بھی ہر دور میں ہوتی رہی   مگر مذہب اور سائنس کا قدیم تصور موجودہ عصر  سے یکسر مختلف تھا ۔

پیٹر ہیریسن کا یہ استدلا ل تاریخی شعور سے مطابقت نہیں رکھتا ، پچھلے دو تین ہزار سال سے مغربی مذاہب کی پوری ایک روایت موجود رہی ہے ، یہودیت،  عیسائیت اور اسلام  تینوں مذاہب کی الہامی کتب میں کسی مافو ق الفطرت ہستی کا اقراراور اس پر ایمان ان مذاہب کی بنیادی تعلیمات میں شامل ہے ۔ مغربی مذاہب کی خوبی ہی یہ ہے کہ یہ ہمیشہ سے توحید کے قائل رہے ہیں جبکہ مشرقی مذاہب کی صورت حال معکوس ہے ۔  توحید کا واضح مفہوم کسی ایک خدا پر ایمان ا ور اس کی تعلیمات پر عمل کرنا ہے ، اس لیے یہ کہہ دینا کہ ماضی میں مذہب عقائد وا عمال کا مجموعہ نہیں سمجھا جاتا تھا تاریخی شعور سے ناواقفیت یا دانستہ اس کے انکار کے مترادف ہے ۔

اس کے بعد پیٹر ہیریسن “ہسٹری آف ریلیجن ” کا عنوان قائم کرتا ہے اور اپنے تصور مذہب کی مزید وضاحت کے لیے  تیرھویں صدی کے مشہور عیسائی پیشوا تھامس اکوائنس (Thomas Aquinas,1225-1274)کی تشریحات کو بنیاد بناتا ہے ، اس کے ساتھ شمالی افریقہ کے چرچ فادرسینٹ اگسٹین یا اگسٹین آف ہیپو(Augustine of Hippo, 354-430) کی تشریحات کا بھی سہارا لیتا ۔سینٹ اگسٹین اور تھامس اکوائنس  عیسائیت کی مذہبی روایت کے اہم نام ہیں  ۔ پیٹر ہیریسن کے مطابق تھامس اکوائنس کے نزدیک ماضی میں مذہب ایک اخلاقی سچائی کا نام تھا ۔تھامس اکوائنس مذہب کو فرد کی داخلی کیفیت ، شخصی اعمال و مناجات کا عنوان دیتا ہے  اور یہ داخلی کیفیات خارجی مظاہر  سے زیادہ اہم تھیں ۔اکوائنس اعتراف کرتا ہے کہ مذہب کے کچھ خارجی مظاہر بھی ہیں مگر ان کی حیثیت ثانوی ہے ، مذہب کی اصل روح داخلی سچائی اور شخصی مناجات  ہے ۔

ہیریسن کے بقول مذہب کا یہ تصور ہمارے موجودہ تصور  سے قطعی مختلف ہے ، موجودہ عصر میں  مذہب داخلی نیکی و سچائی  سے عقائد و اعمال کے مجموعے میں ٹرانسفر ہو چکا ہے ، انسانی اعمال و افعال ، عقائد اور  رویوں کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے ، اسی کے ساتھ کچھ مقدسات اور مافوق الفطرت ہستی کے تصورات کو بھی ساتھ لیے ہوئے ہے جبکہ ماضی کا تصور مذہب ایسا نہیں تھا ۔

سترھویں صدی سے قبل مذہب کی اصطلاح بہت کم استعمال ہوتی تھی ، بقول پیٹر ہیریسن قدیم عبرانی بائبل، عہد نامہ جدید اور قرآن میں ہمیں مذہب کی اصطلاح کا وجود نہیں ملتا ، جدیدیت سے قبل جب مذہب کی  اصطلاح وجود میں تو اس کا مطلب فرد کی داخلی پاکیزگی لیا جاتا تھا اور یہ تصور  ارسطو کے تصور مذہب سے قریب ترین تھا جو بے دینی اور توہم پرستی کے درمیان کی ایک شکل تھی۔

ہیریسن کا کہناہے کہ مذہب کا بنیادی ستون ایمان(Belief )ہے لیکن ماضی میں ایمان (Belief )کا معنی وہ نہیں تھا جو موجودہ عصر میں سمجھا جاتا ہے ۔ قرون وسطیٰ تک  I Belief  کام مفہوم کسی مافوق الفطرت ہستی پر ایمان نہیں بلکہ بین الافراد اعتماد اور بھروسہ سمجھا جاتا تھا ۔  Beliefکا یہ مفہوم سولہویں اور سترھویں صدی میں کسی مافوق الفطرت ہستی پر ایمان سے منسوب ہو گیا ۔

پیٹرہیریسن کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کسی مسئلے کی درست تفہیم اور پوری تصویر کی بجائے اپنےمطلب کی عبارات  اور مفاہیم لے کر اس پر اپنا مقدمہ کھڑا کر دیتے ہیں اوریہی انہوں نے مذکورہ استدلال میں کیا ہے۔ مثلا  یہاں انہوں نے اپنے تصور مذہب کی تفہیم کے لیے سینٹ اگسٹین اور تھامس اکوائنس کے موقف کو بطور استدلال پیش کیا ہے حالانکہ یہ ان حضرات کا پورا موقف نہیں ہے ۔ سنیٹ اگسٹین مذہب کو اخلاقی سچائی تک محدود نہیں رکھتے بلکہ وہ عیسائیت کو ایک الوہی راز کے عنوان سے بیان کرتے ہیں ، ایسا الوہی راز جس کا ادراک ہم صرف خدا پر ایمان کے ذریعے ہی کر سکتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں اگر ہم خدا پر ایمان لے آئیں گے تو خدا ہماری روح کو منور کر دے گا تاکہ ہم اس منور روح کے ذریعے مافوق الفطرت خداوند کا ادراک کر سکیں ۔

سینٹ اگسٹین(354-430 )پیدائشی عیسائی نہیں تھے بلکہ عیسائیت قبول کرنے سے قبل انہوں نے مختلف مذاہب اور فلسفو ں کا مطالعہ کیا تھا ، ان  کے بقول انہوں نے محسوس کیا تھا کہ فلسفہ انہیں ایک خاص مقام تک لے جا کر ساتھ چھوڑ دیتا ہے یہ مذہب ہی ہے جو انہیں الوہی راز تک پہنچاتا ہے ۔ انہوں نے لکھا تھا “جب تک ہمارادل آپ(خدا) پر نہیں ٹکتا وہ پر سکون نہیں ہوتا “ان کا نظریہ تھا کہ خدا نے یہ دنیا عدم سے تخلیق کی ہے اور ان کا یہ نظریہ انجیل سے مستعار تھا ۔اگسٹین کا عقیدہ تھا کہ دنیا تخلیق کرنے سے قبل امثال الوہی ذہن میں موجود تھے اس طر ح انہوں نے افلاطون کی تھیوری آف آئیڈیاز کو حتمیت کا درجہ دے دیا ۔

اگسٹین کے ان تمام نظریات میں مذہب بطور ایک صداقت  اور عقائد و اعمال کے مجموعے کی صورت میں موجود ہے ،اگسٹین  نہ صرف خدا پر ایمان رکھتے تھے بلکہ خدا پر ایمان کے بغیر ان کا دل پر سکون نہیں رہتاتھا ۔وہ ھبوط آدم سمیت دیگر تمام مذہبی نظریات کے بھی قائل تھے ،اس کا واضح ثبوت ان کی شہرہ آفاق کتاب City of God ہےاوراس کتاب کے نام میں ہی خدا کا نام شامل ہے ۔پیٹر ہیریسن نے نہ معلوم دانستہ یا نادانستہ سینٹ اگسٹین کے ان نظریات کو کیوں نظر انداز کر دیا ۔ اپنے موقف کے اثبات کے لیے اگر یہ رویہ دانستہ اپنایا گیا تو علمی خیانت اور بدترین جسارت ہے اور اگر نادانستہ اور عدم واقفیت کی بنیاد پر ہے تو بھی کم از کم الفاظ میں اسے  غیر علمی رویہ  کہا جائے گا۔

دوسرا اہم نام  جس کے موقف کو پیٹر ہیریسن نے بطور استدلال پیش کیا ہے تھامس اکوائنس ( 1225-1274)ہے ، تھامس اکوائنس کی مذہبیت پسندی کا عالم یہ تھا کہ جس طرح سینٹ اگسٹین نے چوتھی صدی میں افلاطون کو مشرف باعیسائیت کر لیا تھا قرون وسطیٰ میں تھامس اکوائنس نے ارسطوکو مشرف با عیسائیت کر لیا تھا۔ تھامس اکوائنس کا عقیدہ تھا کہ فلسفہ یا عقل جس بات کا دعویٰ کرتے ہیں اس میں اور عیسائیت میں کوئی فرق نہیں ۔  وہ مذہب کو صرف اخلاقی سچائی نہیں بلکہ  عقائد و اعمال کا پورا یک نظام سمجھتے تھے ، انجیل پر بھی ان کا کامل یقین تھا ، بقول ان کے عقل و فلسفہ بھی ہمیں انہی عقائد تک پہنچاتے ہیں جن کا ذکر ہمیں انجیل میں ملتا ہے ۔ وہ کہتے تھے کہ خدا تک پہنچنے کے دو راستے ہیں  ، ایک راستہ ایمان اور عیسائی  مکاشفے کا ہے جبکہ دوسرا راستہ عقل و حواس کا ہے اور ان میں سے صائب اور بہترین راستہ ایمان اور مکاشفے کا ہے ۔

پیٹر ہیریسن کے  مذکورہ استدلال کی حیثیت  کسی حد تک واضح ہو چکی کہ وہ جن مصنفین اور عیسائیت کے شارحین کے جس موقف کو اپنے مقدمے میں بطور استدلال پیش کر رہے ہیں وہ ادھورا موقف ہے ۔ سینٹ اگسٹین اور تھامس اکوائنس مذہب کو صرف اخلاقی سچائی یا ذہنی نیکی تک محدود نہیں رکھتے تھے بلکہ وہ مذہب کو بطور ایک پیکج لیتے تھے جو عقائد و اعمال اور دیگر مذہبی نظریات کو متضمن تھا ۔ پیٹر ہیریسن کی طرف سے  ایڈنبرگ یونیورسٹی اور گیفرڈ لیکچرز جیسے علمی پلیٹ فارمز پر مذہب   کی اتنی سادہ تشریحات اور عیسائی روایت کا کلی انکار باعث تعجب ہے ، یہ تجاہل عارفانہ ہے یا دانستہ جرائت رندانہ بہر صورت ناقابل فہم ہے ۔

مصنف  دوسرے چیپٹر کا آغاز ہسٹری آف سائنس کے عنوان سے کرتا ہے ، اس چیپٹر میں پیٹر ہیریسن کہتا ہے جدید مغربی سائنس کی شروعات یونان سے ہوئیں ، اہل یونان نے اپنے آبا و اجداد سے منقول اساطیر کو چھوڑ کر کائناتی مظاہر کو عقلی بنیادوں پر سمجھنا شروع کیا ، قرون وسطیٰ میں عیسائیت کی آمد کے بعد یہ  سائنسی سرگرمیاں ماند پڑ گئیں اور پھر سترھویں صدی میں سائنس نے عیسائیت کو پس پشت ڈال کر نئی شروعات کیں اور ترقی کی بنیاد رکھی ۔

اس ورژن میں سائنس کی بنیاد کا سہرا قدیم یونانی سائنسدان تھیلیز کے سر جاتا ہے ، تھیلیز ترکی کے شہر مائلیٹس کا رہنے والا تھا ، یہ پہلا شخص تھا جس نے سائنسی و عقلی بنیادوں پر کائنات کو سمجھنے کی کوشش کی ، اس نے کسی ما فوق الفطرت ہستی کا انکار اور کائنات کی الوہی تشریحات کو ماننے سےا نکار کر دیا ، اس نے کہا کائنات کا جوہر پانی ہے اور ساری کائنات  پانی سے وجود میں آئی ۔ مغربی سائنس کی خشت اول اسی سائنسدان کے افکار پر رکھی گئی ۔بعد میں رومن ایمپائر کے زوال اور عیسائیت کے فروغ سے یہ سائنسی سرگرمیاں زوال پذیر ہو گئیں ۔

سائنس کی تعریف کے لیے ہیریسن دوبارہ تھامس اکوائنس کی تشریحات کا سہارا لیتا ہے ، تھامس اکوائنس کے مطابق سائنس ایک  ذہنی عاد ت /حالت کا نام ہے  ۔1771 میں انسائیکلو پیڈیا رٹانیکا میں سائنس کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ” سائنس جو ایسے بیانیے کی وضاحت کرے جس  کا اظہار خاص اصولوں اور تجربات کی بنیاد پر ہو ۔یہاں بھی پیٹر ہیریسن کا بنیادی استدلال یہ ہےکہ قرون وسطیٰ میں مذہب او ر سائنس دوذہنی حالتوں / کیفیتوں کا نام تھے لیکن سولہویں اور سترھویں صدی میں مذہب او ر سائنس کا یہ تصور مخصوص عقائد و اعمال میں ڈھل گیا ، یہ  مذہبی بیانیے اور سائنسی طریقہ کار میں بدل گیا ۔

ہیریسن کہتا ہے کہ اگر سائنس و مذہب کی مذکورہ تعریفات کو لیا جائے تو دونوں کے درمیان تصادم یا مطابقت کا سوال سرے سے ہی دم توڑ دے گا۔آج ہم نے سائنس اور مذہب کو دو مختلف بیانیوں اورعقائد و اعمال کے مجموعوں میں تقسیم کر دیا ہے اور جب ہم دونوں کے مابین تعلق کی بات کرتے ہیں تو انہی بیانیوں اور عقائد و اعمال کے مجموعے کے تناظر میں کرتے ہیں جس سے ہمیں بظاہر دونوں کے درمیان تصا دم نظر آتا ہے  جبکہ قرون وسطیٰ کے تصور مذہب و سائنس میں یہ دونوں کوئی ایسی چیزیں یا تصورات نہیں تھے جن کے درمیان تعلق کی بات کی جا سکے ۔

یہاں بھی ہیریسن کا استدلا ل تاریخی شعور اور مذہب (عیسائیت ) کی تاریخ  سے مطابق نہیں رکھتا، قرون وسطٰی میں لڑی جانے والی صلیبی جنگیں اگر مذہب کی بنیادپر نہیں تھیں تو اسے اور کیا عنوان دیا جائے گا۔ ان جنگوں میں حصہ لینے والے صلیبی جنگجووں کے نظریات  پیٹر ہیریسن کے استدلال کو غلط ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں ۔ صلیبی جنگوں میں شامل ہونے والے جنگجووں کا عقیدہ تھا کہ اگر دوران جنگ وہ مر جائیں گے تو ا ن کی روح جنت میں جائے گی جہاں انہیں طرح طرح کے اعزاز ات اور انعامات سے نوازا جائے گااور  ابدی راحت نصیب ہو گی ۔

ذرا تصور کریں کہ قرن وسطٰی میں سکینڈے نیویا یا یورپ کے کسی اور ملک سے  روانہ ہونے والا جنگجو جب اپنے گھر اور علاقے سے روانہ ہوتا تھا تو سب اہل محلہ مل کر اسے رخصت کرتے اور اس پر رشک کرتے تھے ۔ اس کے والدین کو ادب و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا ۔اہل علاقہ کا  نظریہ ہوتا تھا کہ یہ بے دین مسلمانوں سے لڑنے اور ان سے یروشلم شہر آزاد کروانے جیسے مقدس مشن پرجا رہا ہے ۔ اس سے یسوع مسیح کی روح خوش ہو گی اور اس سے  دوبارہ دنیا پر عیسائیت کا غلبہ ہوگا۔

اس صلیبی جنگجو کے ایمان و عقائد اور  نظریات کے پیش نظر یہ کیسے کہا  جاسکتا ہے کہ قرون وسطٰی کے تصور مذہب میں عقائد و اعمال شامل نہیں تھے ۔ بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ قرون وسطٰی کا مذہب (عیسائیت ) ایک شدت پسند مذہب تھا جس میں ایمان و عقائد اور نظریات میں شدت پائی جاتی تھی۔ ایک صلیبی جنگجو کے تصور مذہب میں خدا ، یسوع مسیح ، نیک اعمال اورجنت و جہنم کا تصور سب کچھ موجود تھا ، لہذا یہ کہہ دینا کہ قرون وسطٰی کا تصور مذہب محض ایک ذہنی کیفیت کا عنوان تھا حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا ۔

عیسائیت کی تاریخ میں قرون وسطیٰ کا  سب سے معرکۃ الآراء  مسئلہ یہ تھا کہ مذہب (عیسائیت ) کو بلاحیل و حجت تسلیم کر لیا جائے یا عقلی بنیادوں پر اسے قبول کیا جائے ۔ قرون وسطٰی کے اکثر فلسفیوں نے اپنی زندگیاں اس بحث میں کھپا دیں کہ عیسائی مکاشفے پر ایمان بالغیب لے آیا جائے یااسے  عقل کی میزان پر تولا جائے ۔ بائبل جو کچھ کہتی ہے اس پر ایمان لایا جائے یا یونانی فلسفیوں کی بات پر کان دھرا جائے ۔ ایمان اور عقل یا ایمان اور فلسفہ (یونانی) کے مابین تعلق کیا ہے ، ان میں تضاد کیوں ہے ، تضاد کی موجودگی میں حتمی سچائی کہاں ہے  وغیرہ ۔ قرون وسطٰی کا سارا فلسفہ انہی سوالات کے گردگھومتا ہے ۔

اگر ہیریسن کے تصور مذہب کو درست مان لیا جائے تو قرون وسطٰی کے ان تمام مباحث کو کیا عنوان دیا جائے اور ان کا انکار کس بنیاد پر کیا جائے ۔ یہی وجہ ہے کہ قرون وسطیٰ کے عیسائی ذہن نے اپنی تمام صلاحیتیں اور توجہات سائنسی سرگرمیوں کی بجائے تھیالوجی سے منسوب کر دیں تھیں ، اس عہد میں تھیالوجی کے عظیم ماہرین نے جنم لیا اور بڑے اہتمام سے تھیالوجی کی مباحث شروع ہوئیں۔

ہیریسن کے مذکورہ استدلال کی غلطی عہد بیروق سے بھی واضح ہے ، بیروق عہد جو سترھویں اور اٹھارویں صدی پر مشتمل تھا تضادات، طبقاتی اختلافات اور جنگوں کا عہد تھا ۔ ان جنگوں نے یورپ کو تباہ وبرباد کر دیا تھا ، یہ جنگیں کئی کئی سال تک جاری رہیں اور کروڑوں لوگ ان جنگوں کا ایندھن بنے ۔ کیا ہیریسن کو نہیں معلوم کہ یہ جنگیں رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹوں کے درمیان لڑی گئی تھیں ، اگرچہ ان میں کچھ سیاسی مفادات بھی شامل تھے مگر اصلا یہ  مذہبی جنگیں تھیں جو عیسائیوں کے مختلف فرقوں کے درمیان سالہا سا ل جاری رہیں ۔ ہیریسن اس بدیہی حقیقت کا انکار کیسے کر سکتے ہیں ۔

دوسرے باب کے آخری صفحات میں ہیریسن  صنعتی و سائنسی انقلاب پر  روشنی ڈالتا ہے،بقول ہیریسن  رینائساں اور تحریک اصلاح مذہب کے بعد  سائنس نے از سر نو پر پرزے نکالنے شروع کیے ۔سترھویں صدی کے نمایاں سائنسدانوں گلیلیو، بائل اور نیوٹن نے اسی قدیم یونانی سپرٹ کے ساتھ کائناتی مظاہر کو سائنسی وعقلی بنیادوں پر سمجھنے کی کوشش کی ، اگرچہ ان سائنسدانوں کے نظریات اپنے پیشرووں سے قدرے مختلف تھے مگر انہوں نے قدیم مباحث کو از سر نو زندہ کیا ۔ ایک نئے انداز میں سائنسی افکار کی بنیاد رکھی جس پر آگے چل کر سائنس کی عظیم الشان عمارت کھڑی ہوئی اور یہ سفر تاحال جاری و ساری ہے ۔ اس سارے سفر میں سترھویں صدی کا ہنگامہ خیز دور اہم ترین ہے ۔

سائنس کی تاریخ کے بعد پیٹر ہیریسن موضوع سے ہٹ کر کچھ مزید مباحث میں الجھ جاتا ہے ، مثلا نیچرل فلاسفی کیا ہے ، خدا کا وجود ، عیسائیت کیا ہے ، شروعات کہاں سے اور کیسے ہوئیں ، عیسائیت کا عروج و زوال ، عیسائیت کے سائنسی سرگرمیوں پر اثرات ، عیسائیت اور یہود کے باہمی تعلقات ، اہل یونان کی غلط فہمیاں اور اس جیسے دیگر عنوانات جن کا براہ راست موضوع سے کوئی تعلق نہیں ۔

تیسرے باب کی شروعات  Book of nature  اور  Book of scripture کی بحث سے ہوتی ہیں ، قرون وسطیٰ کے مفکرین ورک آف گاڈ اور ورڈ آف گاڈ کو سبب اور مسبب کے تناظر میں دیکھتے تھے ، یہاں ہیریسن بتاتا ہے کہ ورک آف گاڈ اور ورڈ آف گاڈ کو کیسے سمجھا جا سکتا ہے اور کائنات کے مشاہداتی دلائل کسی طرح خدا پر ایمان کو پختہ کرتے ہیں ۔

اگلے صفحات پر مصنف تحریک اصلاح مذہب کی بحث کو مخاطب بناتا ہے ، تحریک اصلاح مذہب نے انسانی عقل اور اس کے ذریعے کائنات کو سمجھنے کی صلاحیت پر بہت سارے سوالات کو جنم دیا  ۔ تجرباتی سائنس جس کا علم فرانسس بیکن جیسے اصحاب علم نے اٹھایا انہوں نے کائنات کی تفہیم ایک نئے انداز سے شروع کی ۔

مشرقی مذاہب کے بارے میں ہیریسن نے دعویٰ کیا ہے کہ 1800 سے قبل ان مذاہب کا وجود نہیں تھا ،سولہویں اور سترھویں صدی میں ان مذاہب نے  استعماریت کے بطن سے جنم لیا ۔  پہلے صرف ایک مذہب (عیسائیت ) تھا مگر نوآبادیات کے بعد کئے نئے مذاہب نے جنم لیا جن میں بدھ مت ، ہندومت ، تاومت  اور کنفیوشس ازم شامل ہیں  ۔ اس استدلال کے ضمن میں ہیریسن نے ایک گراف بھی پیش کیا ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ سن 1800 سے 2000 تک انگریزی کتابوں میں مختلف مذاہب مثلا بدھ مت ، ہندو مت ، تاو مت اور کنفیوشس ازم کا  استعمال کتنے فیصد ہوا ہے ۔

اپنے پہلے استدلالات کی طرح ہیریسن یہاں بھی سطحیت کے ساتھ کھیل رہے ہیں ، ہندو مت اور بدھ مت دنیا کے قدیم ترین مذاہب میں سے ہیں مگر ہیریسن کی سادگی دیکھیں کہ وہ کتنی آسانی سے انہیں استعماریت کے نتائج قرار دے رہے ہیں ۔یہ استدلال کسی طور قابل فہم تھا کہ استعماریت کے نتیجے میں اہل یورپ ان مشرقی مذاہب سے پہلی بار متعارف ہوئے مگر سرے سے یہ کہہ دینا کہ یہ مذاہب بذات خود استعماریت کے نتیجے میں پیدا ہوئے غیر علمی رویہ اور مذاہب اور تاریخ کی ناقص تفہیم ہے ۔

اس کے بعد ہیریسن کہتا ہے کہ ایک سے زائد مذاہب کے وجود نے سچا مذہب (True Religion )کی بحث کو جنم دیا اور ان کے درمیان تقابل کی کشمکش پیدا کر دی ۔ تقابل کے لیے عقلی و روحانی معیارات مقرر کیے گئے اور ان معیارات نے طرز زندگی پر بھی اثر ڈالا ۔لباس ، رہن سہن، طرز زندگی اور دیگر معیارات میں یکسر تبدیلی آ گئی ۔ قدیم تصور مذہب کہ جس میں مذہب ذہنی کیفیت کا عنوان تھا اس سے تقابل ممکن نہیں تھا ، کیونکہ کسی کی ذہنی حالت یا کیفیت کا ادراک کسی انسان کے لیے ممکن نہیں تھا اس لیےاب مذہب داخلی سچائی کی بجائے عقائد کے مجموعے کی شکل میں ظہور پذیر ہوا ۔ اسی مقدمے پر نیچرل فلاسفر جیسے نیوٹن ، بائل اور کپلر نے عیسائیت کو سچا مذہب ثابت کرنے کے لیے سائنسی طریقہ کار کو عبادت کا درجہ دیا ۔

ہیریسن کا یہ استدلال کتنا مضحکہ خیز ہے کہ 1800 کے بعد ایک سے زائد مذاہب نے جنم لیا اور اس کے بعد سچا مذہب کی بحث

شروع ہوئی ۔حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ انسانی تاریخ کے ساتھ ہی مذاہب بھی وجود میں آ گئے تھے ، پوری انسانی تاریخ  میں کوئی دور ایسا نہیں گزرا جس میں ایک سے زائد مذاہب کا وجود نہ رہا ہو ، مغربی مذاہب کی ساری تا ریخ باہمی کشمکش سے لبریز ہے ، اسی کشمکش کی بنیاد پر ان کے مابین  خوفناک جنگیں ہوئیں اور کروڑوں انسان ان جنگوں کا ایندھن بنے ۔ ہیریسن  نے کتنی آسانی سے  اس  حقیقت کا انکار کر دیا ۔

اس سے اگلے باب میں ہیریسن نے یہ بتایا ہے کہ کس طرح سترھویں اور اٹھارویں صدی میں سائنس نے تشکیل علم کے ذرائع پر قابو پا کر مذہب کو پس پشت ڈال دیا اور مذہب اپنی حقانیت کے لیے سائنس کا محتاج ٹھہرا ۔

چھٹے اور آخری باب میں ہیریسن نے اس نکتے کو موضوع بحث بنایا ہے کہ انیسویں صدی میں سائنس بلاشرکت غیرے دنیا کی حکمران ٹھہری اور پروفیشنل سائنسدانوں کا ظہور ہوا ۔

کتاب کے اختتامیے میں ہیریسن وہ تصوراتی منظر پیش کرتا ہے جس میں مذہب کو آج سمجھا جاتا ہے مثلا مختلف مذاہب کے تصوراتی مناظر کچھ یوں ہوں گے ، عیسائیت کا تصوراتی منظر لمبے جبے میں ملبوس اور گردن میں صلیب لٹکائے ایک  پادری ہو گا ، مسلمان کا تصوراتی منظر خود کش بمبار ، روحانیت کا تصوراتی منظر زرعی دور کا موحد ، تھامس اکوائناس خوش پوشاک اور بائبل کا شارح ، یہودی ربی اور مختلف ہندوستانی مذاہب کا تصوراتی منظر ۔ اسی طرح سائنس کا موجودہ تصوراتی منظر کچھ یوں ہو گا کہ سائنس کائنات اور انسان سے متعلقہ تمام علوم کا ماخذو منبع ہے ۔

ہیریسن نے یہاں بھی مختلف مذاہب کا جو تصوراتی منظر پیش کیا ہے یہ بھی ان کی شعوری غلطی اور ذہنی اختراع ہے ورنہ مختلف مذاہب ہمیشہ سے ہی اپنے خاص تہذیبی و مذہبی شعار رکھتے ہیں  جو آج بھی من و عن موجود ہیں ۔ وہ الگ بات ہے کہ ہیریسن کو مختلف مذاہب کے تہذیبی و مذہبی شعار سے  مکمل واقفیت  نہیں ورنہ وہ مذہب اسلام کا تصوراتی منظر خود کش بمبار سے نہ کرتے ۔

محمد عرفان ندیم

محمد عرفان ندیم پنجاب یونیورسٹی لاہور کے شعبہ علوم اسلامیہ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ روزنامہ نئی بات اور روزنامہ اسلام سے بطور کالم نگار وابستہ ہیں اور لاہور گیریژن یونیورسٹی میں جز وقتی تدریسی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔
irfannadeem313@yahoo.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں