بشکریہ روزنامہ 92
پاکستان ایک ’اسلامی جمہوریہ‘ ہے جس کا آئین ’اللہ تعالیٰ کی حاکمیت‘ کے اقرار سے شروع ہوتا ہے اور یہ تصریح کرتا ہے کہ یہاں اسلامی احکام سے متصادم کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا اور یہ کہ رائج تمام قوانین کو اسلامی احکام سے ہم آہنگ کرنا لازم ہے۔ آئین نے قانون سازی کا کام پارلیمان کے، جبکہ قوانین کی تعبیر و تشریح کا اختیار اعلی عدلیہ کے سپرد کیا ہے۔ رائج قوانین کو اسلامی احکام کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کا کام صرف قوانین میں ترامیم تک محدود نہیں(جو پارلیمان کی آئینی ذمہ داری ہے)، بلکہ ان قوانین کی ایسی تعبیر کرنا بھی اس میں شامل ہے جو اسلامی اصولوں کے مطابق ہو (اور یہ عدلیہ کی آئینی ذمہ داری ہے)۔ درحقیقت، یہ دوسرا پہلو زیادہ اہم ہے کیونکہ قوانین کی تعبیر کے اپنے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے عدالتیں اچھے خاصے اسلامی قانون کو بھی ’سیکولر‘بنا سکتی ہیں۔
مثال کے طور پر 1980ء میں پشاور ہائی کورٹ کے شریعت بنچ نے فیصلہ دیا کہ مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان میں قتل کے جرم کے متعلق دفعات اسلامی احکام سے متصادم ہیں کیونکہ اس قانون میں صلح اور عفو کی گنجائش نہیں ہے جبکہ اسلامی شریعت مقتول کے ورثا کو قاتل کے ساتھ صلح کا حق بھی دیتی ہیں اور معاف کرنے کا بھی (’گل حسن بنام وفاقِ پاکستان‘)۔ اسی سال وفاقی شرعی عدالت نے بھی یہی فیصلہ دیا (’محمد ریاض بنام وفاقِ پاکستان‘)۔ 1989ء میں سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بنچ نے ان دونوں فیصلوں کو برقرار رکھتے ہوئے حکومت کو حکم دیا کہ مذکور قانون تبدیل کرکے ان کی جگہ اسلامی احکام پر مبنی قانون لائے۔ 1990ء میں حکومت مجبوراً ’قصاص و دیت آرڈی نینس‘ لے آئی۔ اگلے7 سال تک حکومت ہر چوتھے مہینے آرڈی نینس لاتی رہی کیونکہ پارلیمان اس موضوع پر قانون سازی کو مؤخر کرتی رہی۔ بالآخر 1997ء میں پارلیمان نے قانون بنایا، تو قصاص و دیت کے متعلق دفعات مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کا مستقل حصہ بن گئیں۔
اس کے بعد جب یہ قانون عدلیہ کی تعبیرات کے رندے پر چڑھا تو اسے بہت چھیلا گیا اور چند ہی برسوں میں یہ قانون اپنی اسلامی روح سے محروم ہو کر اسی سیکولر قانون کی صورت اختیار کرگیا جو پہلے رائج تھا۔ مثلاً بعض معزز ججوں نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ اسلامی احکام کی روشنی میں کسی قانون کی جانچ صرف وفاقی شرعی عدالت کا اختیار ہے (دیکھیے ’زاہد رحمان بنام ریاست 2015ء‘ اور ’ممتاز قادری بنام ریاست، 2016ء‘ میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کے فیصلے) حالانکہ وفاقی شرعی عدالت کا کام یہ ہے کہ وہ اسلامی احکام سے متصادم قوانین کو کالعدم قرار دے، جبکہ قوانین کی ایسی تعبیر جو اسلامی احکام سے ہم آہنگ ہو، تمام عدالتوں (بشمول سپریم کورٹ) کی ذمہ داری ہے۔ اس ذمہ داری کی تصریح آئین کی دفعہ 227 کے علاوہ ’قانونِ نفاذِ شریعت 1991ء‘ کی دفعہ 4 میں بھی ہے جس کا متن یہ کہتا ہے: ”اگر کسی قانونی متن کی تعبیر میں ایک سے زیادہ امکانات ہوں، تو عدالت پر اس تعبیر کا اختیار کرنا لازم ہے جو اسلامی اصولوں اور فقہ کے مطابق ہو؛ اور اگر متعدد تعبیرات مساوی طور پر ممکن ہوں، تو عدالت پر اس تعبیر کا اختیار کرنا لازم ہے جو آئین میں مذکور اسلامی دفعات اور پالیسی کے اصولوں کو فروغ دیتی ہو۔“
عدالتوں کی اس ذمہ داری کا خصوصی ذکر مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 338-ایف میں بھی کیا گیا ہے جس نے طے کیا ہے کہ قصاص و دیت کے باب اور اس سے متعلق تمام امور کی تعبیر اسلامی احکام کے مطابق کرنا لازم ہے۔ اس کے باوجود ’زاہد رحمان مقدمے‘ میں جسٹس کھوسہ نے قرار دیا کہ ”قصاص اور تعزیر دو مختلف اور علیحدہ قانونی نظام ہیں جو ایک دوسرے سے یکسر جدا ہیں“ اور یہ طے کرتے ہوئے جسٹس کھوسہ نے کسی اسلامی اصول کا حوالہ نہیں دیا حالانکہ ’قصاص‘ اور ’تعزیر‘ دونوں اسلامی قانون کی اصطلاحات ہیں۔
رائج قوانین کی اسلامی تعبیر کی عدالتی ذمہ داری کا ذکر بعض دیگر قوانین میں بھی خصوصاً ہوا، جیسے پنجاب قانونِ شفعہ1991ء کی دفعہ 3 اور خیبرپختونخوا نجی قرضوں میں سود پر پابندی کا قانون 2016ء کی دفعہ 17۔ اس کے باوجود ماضیِ قریب تک ان دفعات پر عدالتوں نے بہت کم عمل کیا۔ تاہم 2023ء میں سپریم کورٹ کے فل کورٹ بنچ نے جب سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ پر فیصلہ دیا، تو اکثریتی فیصلہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا اور اس میں تصریح کی کہ اس اصول کی پابندی عدالتوں پر لازم ہے (’راجہ عامر خان بنام وفاقِ پاکستان‘)۔8 دیگر ججوں نے ان کے ساتھ اتفاق کیا۔ اس کے باوجود عدالتیں اس اصول کی تطبیق کی طرف مائل نظر نہیں آتیں، اور افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض وہ جج بھی جو ’راجا عامر مقدمے‘ میں اس اصول کی پابندی لازم قرار دے چکے ہیں، خود اس اصول کی خلاف ورزی کرتے نظر آتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ علم اور تربیت کی کمی ہو سکتی ہے، مگر اصل مسئلہ ججوں کے رویے کا ہے۔
مثال کے طور پر جسٹس سید منصور علی شاہ صاحب کے بعض فیصلوں کا حوالہ دیا جاسکتا ہے جو انھوں نے پچھلے کچھ عرصے میں شخصی امور، جیسے نکاح و طلاق اور بچے کی حضانت جیسے مسئلوں، میں دیے ہیں اور جن میں وہ قوانین کی تعبیر اسلامی اصولوں کی روشنی میں کرنے کے بجائے بین الاقوامی قانون کے اصولوں کو پاکستان کے نظام میں سمونے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں جبکہ بین الاقوامی معاہدات کی دفعات کو پاکستان کی عدالتیں اس وقت تک نافذ نہیں کرسکتیں جب تک ان دفعات کو باقاعدہ قانون سازی کے ذریعے پاکستان کے قانون کا حصہ نہ بنایا جائے۔
یہ روش بعض دیگر ججوں کے ہاں بھی نظر آتی ہے۔ مثلاً ’ممتاز بی بی بنام قاسم ، 2022ء‘ میں، ایک ایسی لڑکی کے اغواء کا معاملہ زیر غور آیا جس نے سولہ سال سے کم عمر میں نکاح کیا تھا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار نے اس نکاح کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ’ریپ‘ کے قانون کا بھی اطلاق کیا، حالانکہ بچوں کی شادی کے امتناع کا قانون 1929ء نکاح کو کالعدم نہیں قرار دیتا۔ تاہم جسٹس ستار، جو لبرل خیالات کے لیے جانے جاتے ہیں، نے اسلامی جمہوریہ میں ایک مسلم جوڑے کے نکاح پر انگریزی قانونِ عقد کے اصولوں کا اطلاق کیا۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ انھوں نے قانونِ نفاذِ شریعت کی دفعہ 4 کا حوالہ بھی دیا، مگر پھر قرار دیا کہ ”اسلامی قانون کے اصول صرف اسی وقت لاگو ہوں گے جب قانون کی ایک سے زیادہ تعبیر ممکن ہو۔“ ایسا لکھتے ہوئے انھوں نے یہ بات نظر انداز کی کہ اس موضوع پر عدالتوں کے مختلف فیصلے اس بات کا ثبوت تھے کہ قانون کی متعدد تعبیرات ممکن تھیں۔ پروفیسر ایہارون باراک Purposive Interpretation in Law میں لکھتے ہیں: ”ہر قانونی متن تعبیر کا محتاج ہوتا ہے۔ کسی متن کا سادہ ہونا تعبیر کی ضرورت کو ختم نہیں کرتا، کیونکہ اسے سادہ ماننا خود تعبیر ہی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ جس متن کے معنی میں کوئی اختلاف نہیں، وہ بھی تعبیر کا متقاضی ہوتا ہے، کیونکہ اختلاف کا نہ ہونا بھی دراصل تعبیر ہی کا نتیجہ ہوتا ہے۔“
کمنت کیجے