Home » تنقیحِ حالِ ملت
سماجیات / فنون وثقافت

تنقیحِ حالِ ملت

محمد ابوبکر المشرقی

پاکستانی معاشرت ایک ایسے دوراہے پر کھڑی ہے جہاں ہر شعبۂ حیات کو یا تو مشتبہ ٹھہرایا جا چکا ہے یا بدنیتی کا مرقع بنا دیا گیا ہے۔
فوج کو متہم کیا جاتا ہے، گویا ہر سپاہی کسی سازش کا نمائندہ ہو۔
پولیس کو رشوت اور ظلم کا استعارہ سمجھا جاتا ہے۔
علمائے کرام پر یا تو فرقہ واریت کا الزام ہے یا نفاق و جمود کا۔
تاجروں کو ملاوٹ، ناپ تول کی کمی، اور ذخیرہ اندوزی کا مجرم گردانا جاتا ہے۔
ملازمت پیشہ افراد کو “نوکر” خیال کیا جاتا ہے ۔
سیاہ سجدوں والے، جن کے ماتھے پر عبادت کا عکس ہوتا ہے ان کے بارے میں بدگمانی کی جاتی ہے۔
فری لانسر کو “آن لائن دھوکہ دہندہ” کہہ کر تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
سیاستدانوں کے بچے بچے کو کرپٹ اور اقرباء پرور گردانا جاتا ہے ۔
اہلِ شہر کو بزدل و ڈرپوک سمجھا جاتا ہے جبکہ دوسری طرف گاؤں والوں کو گنوار و جاہل ۔
ہر قوم ، ذات اور برادری سے ایک عدد برائی منسوب ہے ۔
امیر لوگ غریب کو کسی کھاتے کا نہیں سمجھتے ، دوسری جانب غریب لوگوں کا یہ پختہ عقیدہ ہے کہ “زیادہ پیسہ حرام کا پیسہ ہوتا ہے”
یعنی پاکستانی سماج میں کوئی بھی پیشہ، کوئی بھی منصب، کوئی بھی راہِ عمل، تہمت سے محفوظ نہیں۔ ہر ادارے، ہر فرد، اور ہر سرگرمی کو بدعنوانی کی چھاپ میں ملفوف کر دیا گیا ہے۔

ایسے میں جب نیٹ ورک مارکیٹنگ کا ذکر آتا ہے تو کچھ دانش وڑ (اور دلچسپ امر یہ ہے کہ ان میں سے اکثر “دور جاہلیت” میں نیٹ ورک مارکیٹنگ کے فیض سے ہی چند الفاظ بولنے کے قابل ہوئے) اعتراضات نما سوال اٹھاتے ہیں کہ نیٹ ورک مارکیٹنگ تو بدنام شعبہ نہیں کیا ؟ سوال یہ نہیں ہونا چاہیے کہ “یہ بدنام ہے” بلکہ سوال یہ ہونا چاہیے کہ “کون سا شعبہ غیر بدنام ہے؟”

دراصل، معاشرے کی عمومی روش یہ ہے کہ کسی کو اگر گلی میں ایک ہزار روپے بھی مل جائیں تو وہ اُسے سنبھال کر اصل حقدار تک پہنچانے ، مسجد میں اعلان کرنے اور ایک سال تک مالک کے انتظار کرنے کی بجائے چپکے اپنی جیب میں ڈال لیتا ہے۔
یہی ہمارا قومی کردار بن چکا ہےجہاں موقع ہو، وہاں اپنا مفاد پورا کریں گے ۔ جہاں داؤ لگے، وہاں اصول پامال کریں گے ۔
چھوٹا آدمی چھوٹے داؤ لگاتا ہے، بڑا آدمی بڑی سازشیں اور کرپشن ۔
مولانا طارق جمیل صاحب نے ایک موقع پر فرمایا تھا کہ میں کیسے کہوں پولیس والا رشوت لیتا ہے ، لیڈر کرپشن کرتا ہے یا حکمران چور ہے ، میرے ملک کا تو ریڑھی والا بھی چور ہے (کہ دکھاتا کچھ ہے دیتا کچھ ہے)
پس ایسی صورت میں اگر اعلیٰ طبقے کے افراد بڑے پیمانے پر دھوکہ دیتے ہیں تو اُن سے شکوہ کیسا؟ ہم خود بھی اپنی استعداد کے مطابق فریب کے کسی نہ کسی درجے میں ملوث ہیں۔

یہ ایک فرد کا فساد نہیں، ایک اجتماعی ذہنی و اخلاقی دیوالیہ پن ہے جس میں سچ صرف وہی رہ گیا ہے جس سے فائدہ ہو، اور حق وہی جو ہماری مرضی کے مطابق ہو۔
افراد سے ادارے بنتے ہیں ، جب تک ہر ہر فرد ذہنی طور پر خدا خوفی نہیں کرے گا کسی ادارے یا شعبے کو موردِ الزام ٹھہرانے کا فائدہ نہیں ۔

منتظمین

ا کمنٹ

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں