غلام رسول دہلوی
امر بالمعروف و نہی عن المنکر (لوگوں کو نیکی کا حکم دینا اور بدی سے روکنا) ایک اسلامی اصول ہے جس کا کا مصدر و ماخذ مندرجہ ذیل قرآنی آیات ہیں:
“(مومنو!) جتنی امتیں (یعنی قومیں) لوگوں میں پیدا ہوئیں تم ان سب سے بہتر ہو کہ نیک کام کرنے کو کہتے ہو اور برے کاموں سے منع کرتے ہو اور خدا پر ایمان رکھتے ہو اور اگر اہلِ کتاب بھی ایمان لے آتے تو ان کے لیے بہت اچھا ہوتا ان میں ایمان لانے والے بھی ہیں (لیکن تھوڑے) اور اکثر نافرمان ہیں”۔ (سورہ آل عمران : آیت 110)
“اور تم میں ایک جماعت ایسی ہونی چاہیئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائے اور اچھے کام کرنے کا حکم دے اور برے کاموں سے منع کرے یہی لوگ ہیں جو نجات پانے والے ہیں”۔( سورہ آل عمران : آیت : 104)
یہی حکم قرآن کی دوسری متعد آیا ت میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ جیسےالاعراف ۔ آیت 157 اورتوبہ ۔ آیت 71 وغیرہ۔
امر بالمعروف و نہی عن المنکر سے متعلق قرآنی حکم پرایک نظر
سورہ آل عمران کی مندرجہ بالا آیت (104)میں عربی کا لفظ’’يدعون “استعمال ہوا ہے جس کا مصدر لفظ ’ دعا‘ ہے ۔اس کے معنی ہیں: دعوت دینا ، بلانا، حکم دینا ، طلب کرنا ، منشا ظاہر کرنا، وکالت کرنا ،متوجہ کرنا ، راغب کرنا وغیرہ۔ مذکورہ الفاظ میں سے کسی سے بھی اکراہ یا جبر کا معنی ظاہر نہیں ہوتا۔ لہذا، لوگوں کو نیکی کی دعوت دیتے ہوئے طاقت ، جبر ، تشدد، جارحیت، تبدیلیء مذہب (بزور طاقت) یا انسانی حقوق کی کوئی بھی خلاف ورزی واضح طور پر غیر اسلامی فعل ہے ۔ اس کے علاوہ قرآن نے کئی مواقع پر اس بات کی مکمل وضاحت کی ہے کہ اسلام کی دعوت وتبلیغ کا طریقہ منصفانہ، پرامن، متوازن ، معتدل، خوش گوار اور عدم تشدد پر مبنی ہونا چاہئے ۔:
“(اے پیغمبر) لوگوں کو دانش اور نیک نصیحت سے اپنے پروردگار کے رستے کی طرف بلاؤ۔ اور بہت ہی اچھے طریقے سے ان سے بحث کرو۔ جو اس کے رستے سے بھٹک گیا تمہارا پروردگار اسے بھی خوب جانتا ہے اور جو رستے پر چلنے والے ہیں ان سے بھی خوب واقف ہے‘‘ (سورۃ النحل 25 )
مندرجہ بالا آیت ہمیں بتاتی ہے کہ لوگوں کو نیکی کی دعوت دیتے ہوئے حکمت، نرمی اور رواداری کا لحاظ ازحد ضروری ہے۔ اس آیت سے اس پہلو پربھی روشنی پڑتی ہےکہ اللہ کو ہی اس بات کا بہتر علم ہے کہ کون راہ ہدایت پر گامزن ہے اور کسے شقاوت وبدبختی نصیب ہوئی ہے ۔ لہذا، کسی بھی انسان کو دوسروں کے بارے میں یہ کہنے کا کوئی حق حاصل نہیں کہ وہ خدا کی راہ سے منحرف ہے ، اور اس طرح خود کو راہ ہدایت پر گامزن سمجھتے ہوئے وہ لوگوں کو اپنے خود ساختہ مذہب یا عقیدہ کو قبول کرنے پر بزورطاقت مجبور کرنے کی کوشش کرے ۔
چونکہ قرآنی آیات کو سمجھنے اور سمجھانے کا سب سے بہترین طریقہ ” تفسیر القرآن بالقرآن ” ہے، لہٰذا ہم یہاں ایسی کچھ متعلقہ قرآنی آیات پیش کر رہے ہیں جو مندرجہ بالا آیت کی وضاحت کرتی ہیں اور یہ ثابت کرتی ہیں کہ الأمر بالمعروف کا خدائی حکم حکمت و موعظت اور محبت سے بھرپور تبلیغ ، اخلاق حسنہ ، مہربانی ، شرافت اور خوشگوار وعظ و نصیحت کا تقاضا کرتا ہے ۔
اللہ نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرمایا کہ وہ لوگوں کو حکمت کے ساتھ اللہ کی طرف بلائیں:
–’’اور اس سے نرمی سے بات کرنا شاید وہ غور کرے یا ڈر جائے۔‘‘طہ:144) ۔
-’’ (اے محمد) تم جس کو دوست رکھتے ہو اُسے ہدایت نہیں کرسکت‘‘ا۔القصص:56)
-’’(اے محمد) تم ان لوگوں کی ہدایت کے ذمہ دار نہیں ہو بلکہ خدا ہی جس کو چاہتا ہے ہدایت بخشتا ہے۔)‘‘البقرہ:172
-(اور اہلِ کتاب سے جھگڑا نہ کرو مگر ایسے طریق سے کہ نہایت اچھا ہو۔) العنکبوت:46
عام طور پر لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ یہ لفظ صرف حکم کے نفاذ کےلئے ہی آتا ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ أمر ہدایت دینے ، طلب کرنے ، تاکید کرنے ،حکم دینے، نصیحت کرنے اور مشورہ کرنے وغیرہ سمیت بہت سے معانی کا احاطہ کرتا ہے ۔اس تناظر میں أمر کے سب سے مناسب معانی ہیں: ہدایت دینا ، بلانااورحکم دینا وغیرہ ۔اس لئے کہ ان الفاظ میں جبرکا کوئی بھی معنی شامل نہیں ہے۔ اس مفہوم کٓی قرانی آیات کی تشریح وتوضیح ان احادیث سے ہوتی ہے جن میں سہولت اور نرمی کی تلقین کی گئی ہے:
ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا کہ “دین آسان ہے ۔۔۔” [بخاری] “تمہارا سب سے بہترین مذہب ، سب سے آسان ہے۔” [احمد] “اللہ نے مجھے سخت ہونے یا ضرر پہنچانے کے لئے نہیں بھیجا ہےبلکہ مجھے سکھانے اور چیزوں کو آسان بنانے کے لئے بھیجا ہے” [مسلم] ۔”اللہ اس قوم کے لئے آسانی پسند فرماتا ہے اور اس کے لئے مشقت اور مصیبت کو نا پسند کرتا ہے۔” [طبرانی] ۔
خود رسول اللہ کا طرز عمل یہ تھا کہ وہ ہر معاملے میں نرمی کوپسند فرماتے تھے چنا ں چہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں: “جب کبھی بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دو راستوں میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کی ضرورت پیش آئی تو انہوں نے ہمیشہ مشکل کے بجائےآسان راستہ منتخب کیا”۔ ( بخاری )
چونکہ زبردستی دوسروں کونیکی کا حکم دینا یا برائی سے روکنا نہ تو آسان طرز عمل ہے اور نہ ہی پر امن اور مہذہب طریقہ کار، اس لیےبہترہوگا کہ ہم قرآن میں اس سیاق میں مذکور لفظ “أمر” سے طاقت یا ہاتھ کا استعمال کرکے کسی حکم کا نفاذ مراد لینے کی بجائے تجویز ، ہدایات یا مشورہ کا معنیٰ اخذ کریں۔ لئے کہ تبلیغ کے یہ تمام طریقے بالکل آسان ہیں۔
رہی صحیح مسلم کی وہ مشہور حدیث جو حضرت ابوسعید خدریؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا کہ :”تم میں سے جو کوئی منکر کو دیکھے تو اسے چاہیے کہ وہ اسے ہاتھ سے، اگر اس کی قدرت نہ رکھتا ہو تو زبان سے اور اس کی بھی قدرت نہ رکھتا ہو تودل سے اس کا ازالہ کرے۔اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے”۔ تو اس کی تشریح امام قرطبی نےیہ کی ہے کہ:
’’علما کا قول ہے کہ معروف کا حکم (یا منکر کا انکار) قوت کے ذریعے حکام کی ذمہ داری ہے، زبان کے ذریعہ علما کی ذمہ داری ہے اور دل کے ذریعے عوام الناس کی ذمہ داری ہے‘‘(الجامع لاحکام القرآن :ج،4 ص23)
لیکن اس کے برعکس علما کا دوسرا طبقہ شدت پسندی کو ایک اسلامی اصول کے طور پر پیش کرتا ہے۔چناں چہ شیخ ابن تیمیہ اپنی کتاب ‘‘امر بالمعروف و نہی عن المنکر’’ (ص 6) میں لکھتے ہیں:
“چونکہ جہاد امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے کمال کا ایک حصہ ہے، لہٰذا یہ بھی ایک اجتماعی ذمہ داری ہے ۔ کسی بھی اجتماعی ذمہ داری کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ لوگ جو اس کام کے قابل ہیں اگر پیش قدمی نہیں کرتے تو اس زمانے میں ہر شخص اپنی صلاحیت کی حد تک گنہگار ہو گا ۔ ایسا اس وجہ سے ہے کہ جب کبھی اس کی ضرورت پڑے تو ہر مسلمان مرد اور عورت پر ان کی صلاحیت کی حد تک اس میں تعاون کرنا فرض ہے ۔ ”
لفظ ‘منکر’ کی تشریح کرتے ہو ئے شیخ ابن تیمیہ لکھتے ہیں:
” جہاں تک منکر کی بات ہے جسے اللہ اور ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ممنوع قرار دیا ہے ، اس کی آخری اور بدترین شکل اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا ہے۔ شریک کا مطلب اللہ کے ساتھ کسی فرد یا کسی اور چیز کی عبادت کرنا ہے۔ اور شریک سورج، چاند، ستارے یا سیارے، فرشتہ، نبی، نیک اورصالح بندہ یا صوفی شیخ، جنات، تصاویر یا ان میں سے کسی کی قبر یا ہر وہ ایسی چیز جسے ماسواء اللہ (عزوجل) کہا جاتا ہے۔ شرک کا مطلب ان میں سے کسی سے مدد مانگنا یا مصیبت میں دستگیری کی التجاء کرنا یا ان میں سے کسی کو سجدہ کرنا بھی ہے۔ وہ تمام اور ان جیسی کوئی بھی چیز شرک ہے اور اس کے تمام نبیوں کی زبان کے ذریعے اللہ نے انہیں ممنوع قرار دیا ہے۔” ( ابن تیمیہ ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر)
در اصل، موجودہ دور سامنے آنے والے متشدد نظریات کی جڑیں ایسی ہی عبارات سے پیوست ہیں-
آج کے انتہا پسند گروہ جب عام امن پسند شہریوں کو مارتے ہیں، معصوم لوگوں کو قتل کرتے ہیں، تشدد کا ارتکاب کرتے ہیں، فرقہ وارانہ فساد کی وجہ بنتے ہیں اور اپنے سوا دوسرے تمام مسلمانوں کو کافر قرار دینے اور انہیں قتل کا مستحق قرار دینے کی حد تک چلے جاتے ہیں، تو اس وقت یہ گروپ بزعم خویش نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں ۔ وہ یہ یقین کرتے ہیں کہ ایسا کرکے مکمل طور پر وہ اللہ کی اطاعت کر رہے ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ اللہ کے قائم کردہ حدود سے انتہائی حد تک تجاوز کرچکے ہیں ۔
اسلامی تاریخ میں ایسی بہت سی منحرف اور گمراہ مسلم جماتیں گزری ہیں جو خود کو نیکی کا حکم دینے اور بدی سے روکنے والا مانتی تھیں ۔ ان میں سب سے زیادہ متشدد خوارج تھے جن کی جدید اور مختلف شکلیں ہیں ۔ وہ اس بات کو سمجھنے میں ناکام ہیں کہ اللہ نے ” امر بالمعروف و نہی عن المنکر ” کی اصول کی روشنی میں کس چیز کا حکم دیا ہے۔وہ حقیقت میں ‘تغییر منکر’ کی جگہ ‘تغییر معروف’ میں مبتلا ہیں۔ مذہبی تشدد پسند جماعتوں کے نزدیک اس کا مطلب اس وقت تک ایک عالمی جہاد لڑنا ہے جب تک کہ پوری زمین پر ان کا قبضہ نہ ہو جاۓ اور وہ اسلام کے نام پر اپنی مکمل ریاست قائم نہ کر لیں ۔
اس ضمن میں مولانا وارث مظہری کا یہ تبصرہ قابل مطالعہ ہے:
“ہماری مذہبی سیاسی جماعتوں اور ان سے وابستہ افراد کا پہلا فریضہ یہ ہے کہ وہ انکارمنکر کے تعلق سے شریعت کا صحیح فہم حاصل کرنے اور اس کے مزاج کو سمجھنے کی کوشش کریں۔شریعت مسائل پیدا کرنے کے لیے نہیں مسائل کو رفع کرنے کے لیے آئی ہے۔شریعت کے اجتماعی احکام کی تنفیذ میں خاص طورپر شریعت کے مصالح ومقاصد کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے او ر متفقہ طو ر پر ان مقاصد ومصالح کا تعین اور لحاظ موجود حالات و واقعات اور تجربات کی روشنی میں کیا جاتا ہے نہ کہ محض اصول ونظریات کی روشنی میں۔ اس کے بغیر اسلام کی حمایت و سر بلندی کے لیے کیا جانے والا عمل ،خواہ وہ کتنا ہی مخلصانہ کیوں نہ ہو،اسلام کے ساتھ محض نادان دوستی اور اس کو ڈھادینے والا عمل ہے‘‘۔
کمنت کیجے