مولانا وارث مظہری
دینی اوردنیا وی علوم کے درمیان تقسیم کا رویہ ہماری اسلامی روایت میں اس طرح نہیں پایا جاتا تھا جس طرح آج وہ ذہنوں میں راسخ ہوچکا ہے۔ اس حوالے سے بحث کا ایک رخ وہ ہے جوا بن تیمیہ کے یہاں پایا جاتا ہے۔ ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ یہ سمجھنا کہ جن علوم کی خبرشارع نے دی ہے بس وہی علوم شرعیہ ہیں، غلط ہے۔ بلکہ وہ تمام علوم علوم شرعیہ میں داخل ہیں جن کی طرف شارع نے رہنمائی کی ہے۔ وہ فلاسفہ اور متکلمین کے اس موقف پر اعتراض کرتے ہیں کہ۱۔ علوم شرعیہ صرف خبررسول پرمبنی ہوتے ہیں اور علوم عقلیہ علوم شرعیہ کے دائرے سے خارج ہیں۔ ۲۔دوسرے یہ کہ علوم عقلیہ کے نام پر جوچیزیں علوم شرعیہ سے اخذ کی جاتی ہیں وہ درا صل عقلیات کی فرع ہیں اوراس طرح عقلیات کواصول کی حیثیت حاصل ہوجاتی ہے۔ ابن تیمیہ یہ کہتے ہوئے کہ فلاسفہ ومتکلمین کے یہ دونوں مقدمات جہالت پر مبنی اور باطل ہیں، فرماتے ہیں کہ:
فان الشرعیات ما اخبر الشارع بہا وما دل الشارع علیہا۔ وما دل الشارع علیہ ینتظم جمیع ما یحتاج الی علمہ بالعقل۔’شرعیات وہ ہیں جن کی خبر شارع نے دی ہو یا جس کی طرف شارع نے رہنمائ کی ہو۔ اور جن کی طرف شار ع نے رہنمائی کی ہو وہ ان تمام علوم کو شامل ہیں عقلی اعتبار سے جن کی ضرورت پڑتی ہے۔(مجموع الفتاوی،جلد:۱۹ص،۲۲۸)
احمد عبدالرازق اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن تیمیہ اکثر علوم عقلیہ جیسے طب،ریاضیات، فلکیات، فزکس اور اپنے زمانے میں رائج علم کیمیا کوعلوم شرعیہ کے ضمن میں شمار کرتے ہیں۔( احمد عبد الرازق:الحضارۃ الاسلامیۃ فی العصور الوسطی ص،۱۱)
علوم کی تقسیم کے حوالے سے ، جس پرہماری علمی روایت میں بحث ہوتی رہی ہے، ابن تیمیہ کا یہ موقف نہایت اہم ہے۔ لیکن یہاں یہ واضح رہنا چاہیے کہ ابن تیمیہ کے قول کا یہ مقصود ہر گز نہیں ہے کہ معروف شرعی علوم: حدیث وتفسیر اور فقہ واصول فقہ وغیرہ اور وہ علوم جنہیں علوم عقلیہ یا حکمیہ سے تعبیر کیا جاتا ہے، ان دونوں کی حیثیت یکساں ہے۔ ابن تیمیہ کے نزدیک ان دونوں کی مساوی حیثیت ا س معنی میں ہے کہ دونوں پر شرعی علوم ہونے کا اطلاق کیا جاسکتا ہے۔ کیوں کہ علوم حکمیہ علوم شرعیہ کی ہی فرع ہیں۔ ان پرقول رسول سے اشارتا دلالت قائم ہوتی ہے۔تاہم اصول کی حیثیت رکھنے والے شرعی علوم جوانسان کے مقصد وجود کی طرف رہنمائی کرتے ہیں اور جن پر دنیا وآخرت کی سعادت کلی موقوف ہے، ان کا حصول اولین معنوں میں مطلوب اور ضروری ہے۔
علوم کی شرعی اور غیرشرعی یا دینی اور دنیاوی خانوں میں تقسیم کے حوالے سے جو بحث ہمارے علمی حلقوں میں پائی جاتی ہے، ابن تیمیہ کے اس موقف کی روشنی میں ایک نئے زاویے سے اس بحث کوآگے بڑھایا جاسکتا ہے۔
اب ہم اس حوالے سے غزالی پرنظر ڈالتے ہیں۔ غزالی نے احیا العلوم ،’’کتاب العلم‘‘ میں علم اور اس کے متعلقات پر طویل اور تفصیلی گفتگو کی ہے ۔اس کے بعض پہلووں کی طرف اشارہ کرنا مناسب ہوتا ہے جونہایت دل چسپ ہونے کے ساتھ قابل بحث بھی ہیں۔
غزالی کی نظر میں علم کلام کوتمام علوم پرفوقیت حاصل ہے۔ ’’المستصفی‘‘ میں انہوں نے علم کی دو قسمیں کی ہیں: عقلی اوردینی پھرعقلی اوردینی کی تقسیم کلی اور جزئی سے کی ہے۔ اس کے بعد لکھا ہے کہ: علوم دینیہ میں سے علم کلی علم کلا م ہے ۔اس کے علاوہ دوسرے علوم جیسے فقہ،اصول فقہ اور حدیث وتفسیر علوم جزئیۃ ہیں۔(فالعلم الکلی من العلوم الدینیۃ ہو علم الکلام وسائر من علوم الفقہ واصولہ والحدیث والتفسیر علوم جزئیۃ)
اسکی وجہ ان کی نظر میں یہ ہے کہ : علم کلام علوم تفسیروحدیث کی اساس کی حیثیت رکھتا ہے کہ اس کے ذریعہ تمام علوم دینیہ کے اصول ومبادی کوثابت کیا جاتا ہے۔اس سے ان کی مراد خدا کے وجود،توحیدورسالت اورآخرت جیسے بنیادی عقائد وایمانیات کا اثبات ہے کہ ان کے تسلیم کے بعد ہی انسان شریعت اور احکام شریعت کا مکلف بنتا ہے۔ان سے انکارکرنے والوں کے لیے شریعت کے کوئی معنی نہیں رہ جاتے۔
احیاء علوم الدین میں انہوں نے علوم کی تقسیم شرعی اور غیر شرعی سے کی ہے۔۱۔شرعی: جسے انبیا سے حاصل کیا جائے۔۲۔غیر شرعی: جسے عقل وتجربہ سے حاصل کیا جائے۔ پھر علوم شرعی کی دو قسمیں ہیں: (۱)محمود (۲) مذموم۔فقہ کو انہوں نے علوم شرعیہ میں سے فروعی اور دنیاوی علوم کے خانے میں رکھا ہے کیوںکہ وہ اخلاق وتصوف کے مقابلے میں ظاہری اعمال سے عبارت ہے (تفصیل احیا ء العلوم میں دیکھی جاسکتی ہے)
دل چسپ بات یہ ہے کہ ایک فہرست انہوں نے مذموم شرعی علوم کی بنائی ہے- یہ وہ علوم ہیں جن کی روح ان کے بقول ان کے زمانے میں ختم ہوچکی تھی اور فقہ کوان میں شامل کیا ہے ۔فقہا پر اس حوالے سے ان کی تنقید بہت مشہور ہے۔احیا العلوم میں انہوں نے لکھا ہے کہ: فقہا اوقاف،وصایا، یتیموں کے مال کی تولیت،قضا اورحکومتی مناصب کے لالچ میں فقہ ،خاص طور اختلافیات وجدلیات پر ٹوٹے پڑتے ہیں حالاں کہ شہر کے شہر فقہا سے بھرے ہوئے ہیں۔طب وہ اس لیے نہیں پڑھتے کہ انہیں اس کے ذریعہ دنیا کمانے کا موقع نہیں ملتا۔ پورے پورے شہر میں کوئی مسلم طبیب نہیں ملتا ۔طب کوپڑھنے والے بس غیرمسلم ہیں۔(احیا ء العلوم :کتاب العلم)
غزالی کی فکر کا یہ نکتہ قابل غور ہے کہ ایک خالص شرعی علم کوبھی اگر حصول دنیا کے لیے حاصل کیا جائے تووہ، اپنے حاصل کرنے والے کے لحاظ سے، مذموم بن جاتا ہے۔
کمنت کیجے