Home » مولانا جعفر شاہ پھلواری کی کتاب ” مقام سنت” پر ایک نظر
اردو کتب اسلامی فکری روایت شخصیات وافکار مطالعہ کتب

مولانا جعفر شاہ پھلواری کی کتاب ” مقام سنت” پر ایک نظر

راجا قاسم محمود

مولانا جعفر شاہ پھلواری علمی دنیا کا ایک معروف نام اور کئی کتابوں کے مصنف تھے۔ آپ مشہور صوفی بزرگ شاہ سلیمان پھلواری کے فرزند تھے۔ پاکستان بننے کے بعد آپ پاکستان آ گئے۔ آپ کا انتقال 1983 میں ہوا۔ “مقام سنت” مولانا کا لکھا ایک رسالہ ہے جس کو ادارہ ثقافت اسلامیہ نے شائع کیا ہے۔

یہ رسالہ ویسے تو مختصر ہے مگر اپنے موضوع کے لحاظ سے جامع ہے اور پھر مولانا جعفر شاہ پھلواری صاحب کے قلم میں طاقت بھی تھی اور اپنی بات کو بحسن وخوبی بیان کرنے کا ملکہ بھی حاصل تھا۔
جعفر شاہ پھلواری صاحب نے کتاب کے آغاز میں احادیث کی حجیت کے متعلق دو طرح گروہوں کا ذکر کیا ہے۔
ایک وہ جو احادیث کو “مثلہ معہ” کے تحت قرآن مجید جیسی اہمیت دیتے ہیں۔ اس لیے کہ قرآن پاک میں اطاعت رسول کا جو حکم ہے اس سے مراد سنت ہے اور قرآن پاک مجمل ہے جبکہ احادیث و سنت اس کی تفصیل ہے۔ اس لیے قرآن کی طرح یہ بھی واجب الاطاعت ہیں۔
جبکہ دوسرے گروہ کا خیال یہ ہے کہ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن مجید کی طرح ان کو نہیں لکھوایا اور قرآن پاک اپنے آپ کو تبیانا لکل شئی کہتا ہے لہذا یہ مجمل ہرگز نہیں۔ دین فقط وہی ہے جو قرآن کریم میں ہے۔

مولانا جعفر شاہ پھلواری نے اس کتاب میں ان دونوں گروہوں کی فکر کا جائزہ پیش کیا ہے۔
اس حوالے سے سب سے پہلی بحث وحی کے مطلق ہے۔ کہ اس کا لغوی معنیٰ کیا ہے اور قرآن پاک میں اس کا اطلاق کس پر ہے۔
اس بارے میں قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے نبی و غیر نبی دونوں کے لیے یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ لیکن لفظی مماثلت کے باوجود اس کی حقیقت اور مفہوم میں بہت زیادہ فرق پایا جاتا ہے۔ مولانا نے اس پر کافی اختصار مگر جامعیت سے بحث کی ہے اور اس کے نتیجہ میں یہ بات پیش کی ہے کہ نبی پر وحی کا مطلب الفاظ، معانی اور دونوں کا مجموعہ تینوں چیزیں شامل ہیں اس کو مولانا تنزیل کے لفظ سے تعبیر کیا ہے جبکہ غیر نبی کے لیے جو لفظ وحی آیا ہے وہ فقط مفہوم ہے اور اس کے لیے الہام کا لفظ استعمال کیا ہے۔
اس کے بعد مولانا نے تنزیل اور الہام کے مابین پائے جانے والے فرق کو مزید تفصیل سے بیان کیا ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جو لفظی وحی نازل ہوئی اس کو وحی متلو بھی کہا جاتا ہے اس کی شکل قرآن پاک ہے۔
یہاں مولانا نے یہ سوال کھڑا کیا کہ جو طبقہ فقط قرآن پاک کی حجیت کا قائل ہے کہ نزدیک کیا آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام پر قرآن پاک کے علاوہ کچھ نازل نہ ہوا؟ اگر ہاں تو پھر قرآن پاک کی ترتیب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اجتہاد ماننا لازم آتا ہے مگر جب آپ یہ کہیں یہ ترتیب توقیفی ہے تو پھر ماننا پڑے گا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوپر قرآن پاک کے علاوہ بھی نازل ہوا جس کے مطابق آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام نے قرآن مجید کو مرتب کیا۔یوں قرآن پاک کو الہامی و توقیفی ترتیب پر ماننے کے لیے لازم ہے کہ یہ مانا جائے کہ قرآن کریم کے علاوہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کا نزول ہوا۔

احادیث کے بارے میں محدثین اور فقہاء کے طریقے کار پر بھی مولانا نے بحث کی ہے کہ محدث حدیث کو روایت اور درایت کے لحاظ سے دیکھتا ہے جبکہ فقیہ اس کے حکم پر بحث کرتا ہے۔کہ آیا یہ حکم واجب ہے یا مستحب۔
اس بارے میں یہ عین ممکن ہے کہ ایک حدیث کے بارے میں ایک محدث کی رائے دوسرے سے مختلف ہو اور یوں ہی ایک فقیہ کی رائے دوسرے فقیہ سے مختلف ہو سکتی ہے۔

مولانا جعفر شاہ پھلواری نے احادیث کی چار اقسام کا ذکر کیا ہے۔
۱.عقائد
۲.عبادات
۳.اخلاق
۴.معاملات

ان میں سے پہلے تین کے واجب الاتباع ہونے پر کلام نہیں۔ جبکہ چوتھی قسم پر مولانا نے تفصیل سے کلام کیا ہے اور کہا ہے کہ احادیث و روایات واجب الاتباع نہیں ہیں اور احادیث کی یہ قسم الہام کے تحت بھی نہیں آتیں بلکہ یہ بصیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مبنی ہیں۔ ان کا دائرہ کار فقط ایک زمانے تک تھا اور زمانے کے تغیر کے ساتھ مسلمان اپنی فہم سے اس سے مختلف راستہ اختیار کر سکتے ہیں یہ احادیث سے انحراف ہرگز نہیں ہے۔ اس بارے میں غزوہ بدر سے متعلق ایک روایت کا ذکر کیا ہے کہ بدر میں آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت خباب بن منذر رضی اللہ عنہ کے مشورے سے اپنا خیمہ ایک جگہ سے دوسری جگہ لگایا اور حضرت سیدنا خباب بن منذر رضی اللہ عنہ نے پہلے پوچھا کہ یہ نصب وحی کی وجہ سے ہے یا ذاتی فیصلہ ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی پتہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وحی کے علاوہ اپنی بصیرت سے فیصلہ کیا کرتے تھے اور وہ فیصلہ واجب الاتباع بھی نہیں ہوتا تھا اس سے اختلاف کیا جا سکتا تھا۔

مولانا نے اس کتاب میں سنت اور حدیث کے فرق پر بھی کافی تفصیل سے بحث کی ہے اور بتایا ہے کہ واجب الاتباع صرف سنت ہے۔سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی واجب الاتباع ہے اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی بھی کیونکہ وہ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تابع ہے۔
سنت و حدیث کے فرق پر بات کرتے ہوئے مولانا لکھتے ہیں

“حدیث اور سنت دو الگ الگ چیزیں ہیں ۔احادیث تو روایات ہیں جو کتابوں میں پھیلی ہوئی ہیں اور سنت وہ طریقہ زندگی ہے جو ان روایات سے معلوم اور مستنبط ہوتا ہے ۔یعنی سنت وہ روح ہے جو ان روایات میں قدر مشترک کی طرح جاری و ساری ہے ”

ایسے ہی آگے جا کر مولانا کہتے ہیں کہ معاملات میں پیروی حدیثوں کی نہیں ہوتی بلکہ سنت کی ہوتی ہے اور معاملات میں سنت وحی کے مطابق ہوتی ہے خود وحی نہیں ہوتی ورنہ سنت خلفائے راشدین کی پیروی کا حکم نہ دیا جاتا کیونکہ خلفائے راشدین صاحبان وحی نہیں تھے۔

احادیث کے مثلہ معہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ قرآن مجید کی مثل وحی کا نتیجہ ہے ورنہ ان کی حجیت قرآن پاک کی آیت جیسی نہیں۔

احادیث کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ لیا جاتا ہے تب ہی تو ان کو خبر واحد، متواتر ،مشہور اور ضعیف کے تحت تقسیم کیا جاتا ہے جبکہ قرآن مجید کی کسی آیت کے بارے میں یہ کافی ہے وہ بین الدفتین کا حصہ ہے۔

مولانا نے یہ بھی لکھا ہے کہ اگر کوئی صاحب علم قرائن کی روشنی میں کسی روایت کا انکار کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب جعلی سمجھتا ہے اس کے انکار کو منکرین حدیث میں شامل نہیں کیا جاسکتا۔
احادیث کو رد و قبول کرنے کے لیے جو قرائن ہیں ان میں بنیادی چیز یہ ہے کہ وہ قرآن مجید کی آیت کے خلاف نہ ہو، کسی اور متواتر حدیث کے بھی خلاف نہ ہو، عقلی اصولوں کے خلاف نہ ہو وغیرہ کو مختصر طور پر مولانا نے ذکر کیا ہے۔

مولانا کا کہنا ہے کہ زکوٰۃ کی شرح متعین کرنا زمانے کے مسلمانوں کے حل و عقد کی ذمہ داری ہے۔ ایسے طلاق کے معاملات کا بھی فیصلہ اپنے حالات کے مطابق کیا جائے گا۔ مسلمانوں کو سنت کا مزاج سمجھ کر اپنے حالات کے مطابق معاملات کا فیصلہ کرنا چاہیے۔

اس طرح سے مولانا نے جہاں منکرین حدیث کی فکر کو غلط کہا ہے تو دوسری طرف احادیث کے بارے میں غلو کا شکار دوسرے گروہ کی فکر سے بھی اختلاف کیا ہے۔

کئی معاملات پر مولانا کے نتائج فکر سے بھی اختلاف کی گنجائش موجود ہے میں قلت علم کے باعث ان پر بحث نہیں کر سکتا مگر اپنے موضوع پر بیان کے لحاظ سے ایک اہم کتاب ہے۔

 

راجہ قاسم محمود

راجہ قاسم محمود پیشے کے اعتبار سے اکاونٹنٹ ہیں اور مختلف علمی وفکری موضوعات پر اظہار خیال کرتے ہیں۔
rajaqasimmehmood@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں