Home » مسئلہ تشبہ امام ابن تیمیہ کی نظر میں 
اسلامی فکری روایت سماجیات / فنون وثقافت شخصیات وافکار کلام

مسئلہ تشبہ امام ابن تیمیہ کی نظر میں 

 

محمد عمار خان ناصر

غزالی اور ابن تیمیہ علیہما الرحمۃ اسلامی روایت کی وہ دو غیر معمولی شخصیات ہیں جنھیں بعض معاصر حلقوں میں مسلمانوں کی موجودہ فکری صورت حال کے بڑے ذمہ داروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ غزالی کا گناہ یہ گنا جاتا ہے کہ انھوں نے ’’فلسفے’’ سے تنفر پیدا کیا، اور ابن تیمیہ کا جرم یہ ہے کہ وہ اسلامی شدت پسندی کے نقیب ہیں اور یہی دونوں مسئلے، یعنی فلسفہ وعقلیت سے دوری اور مذہبی شدت پسندی، آج مسلمانوں کے سب سے بڑے مسئلے ہیں۔
غزالی کے حوالے سے تاریخی فہم کی تصحیح کی ذمہ داری بہت سے اہل علم نے انجام دی ہے، لیکن ابن تیمیہ کی پوزیشن پر زیادہ کام نہیں ہوا۔ وہ تصوف پسند حلقوں میں بھی زیادہ پسندیدہ نہیں اور شیعہ حضرات کی طرف سے تو باقاعدہ نشانے پر ہیں۔ ان سے انتساب کرنے والے سلفی حضرات چونکہ بہت جزوی اور محدود تناظر میں ابن تیمیہ سے اعتنا کرتے ہیں، اس لیے ان کی طرف سے عموما ان کی مجموعی فکر پر زیادہ بات نہیں کی جاتی۔
ابن تیمیہ اپنے اسلوب اظہار میں یقینا ایک جارحیت رکھتے ہیں اور ان کے بعض مذہبی مواقف میں بھی شدت کا پہلو نمایاں ہے، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ انھوں نے بحیثیت مجموعی اسلامی فکر کی جو ترجمانی کی ہے، وہ بہت متوازن ہے۔ مثال کے طور پر ان کے ہاں ’’اسلامی تشخص’’ کی حفاظت اور ’’تشبہ بالغیر’’ سے اجتناب کا مسئلہ بہت اہمیت رکھتا ہے اور غیر اسلامی نظریات اور بدعات کی تردید ان کا خاص موضوع ہے۔ تشبہ کے مسئلے پر اور خاص طور پر غیر مسلموں کے تہواروں میں شرکت وغیرہ کے سوال پر انھوں نے ’’اقتضاء الصراط المستقیم’’ کے عنوان سے ایک مستقل کتاب لکھی ہے۔ اس میں مسئلے کے مختلف جوانب کا شرعی وتاریخی پہلو سے جائزہ لیا گیا ہے۔ اس حساس مسئلے پر کلام کرتے ہوئے ابن تیمیہ نے بعض ایسی باتیں بھی کہی ہیں جن سے ان کی علمی وفقہی بصیرت اور فکری توازن واضح ہوتا ہے۔
تشبہ کی بحث میں ابن تیمیہ نے ایک اہم نکتہ یہ واضح کیا ہے کہ مسلمانوں کے الگ اور امتیازی تشخص کے مسئلے کا اس سوال کے ساتھ براہ راست تعلق ہے کہ مسلمانوں کی سیاسی صورت حال کیا ہے اور آیا وہ اسلامی اقتدار کے ماحول میں ہیں یا غیر مسلم اقتدار کے تحت رہ رہے ہیں۔ ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ اگر مسلمان دار الحرب میں ہوں یا دار الحرب کے علاوہ کسی غیر مسلم علاقے میں ہوں تو اپنی ظاہری وضع قطع وغیرہ میں غیر مسلموں سے امتیاز قائم کرنے پر مامور نہیں ہیں، بلکہ ایسی صورت حال میں ان کے لیے مستحب بلکہ بسا اوقات واجب ہوگا کہ وہ ظاہری حالات میں غیر مسلموں کے ساتھ اشتراک اختیار کریں تاکہ انھیں دین کی دعوت دینے، ان کے داخلی حالات سے واقف رہنے اور مسلمانوں کو ان کے ضرر سے بچانے جیسے دینی مصالح حاصل کیے جا سکیں۔
ابن تیمیہ اس حوالے سے صدر اسلام کے مختلف ادوار میں اختیار کی گئی پالیسی کا حوالہ دیتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ابتداء میں مشرکین کے مقابلے میں اہل کتاب کے ساتھ مشابہت کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی، کیونکہ مسلمان کمزور تھے۔ بعد میں جب اسلام کو سیاسی غلبہ حاصل ہو گیا تو وضع قطع اور معاشرت میں مسلمانوں کو کفار سے امتیاز اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی۔ ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ یہ امتیاز اور مخالفت، سیاسی اقتدار اور غلبے کے ساتھ ہی بامعنی ہو سکتی ہے، اور آج بھی جب مسلمانوں کو ایسی صورت حال کا سامنا ہو تو انھیں یہی حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے۔
ابن تیمیہ کی اصل عبارت یہ ہے۔
تشبہ پر کلام کرتے ہوئے ابن تیمیہ نے عید میلاد النبی کے مسئلے پر بھی تفصیلی کلام کیا ہے اور ان کا کلام ہمارے ہاں کے متشددین کے لیے بطور خاص قابل توجہ ہے۔
مسئلے کی اصولی حیثیت واضح کرتے ہوئے ابن تیمیہ لکھتے ہیں کہ دینی تہوار یا عید کا تعلق تعبدی امور سے ہے اور شارع کی طرف سے کسی دن کی تعیین کے بغیر ازخود کسی خاص دن کو بطور عید منانا بدعت ہے۔ ابن تیمیہ یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ اس طرح کی رسومات وبدعات سے اشتغال رکھنے والے لوگ عموما دین کی اصل روح یعنی اطاعت اور عبادت گزاری وغیرہ سے خالی ہوتے اور اس طرح کی ظاہری چیزوں کے اہتمام کو ہی کافی سمجھتے ہیں۔ تاہم ایسی رسوم اور ان کو اختیار کرنے والے مسلمانوں کے متعلق کیا موقف اختیار کیا جائے، اس حوالے سے ابن تیمیہ نے بہت اہم نکتوں کی وضاحت کی ہے۔
ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ ایسی رسوم فی نفسہ بدعت اور ناجائز ہیں، لیکن ان کا محرک ایک اچھی نیت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت کا جذبہ ہوتا ہے جو اپنی جگہ قابل قدر ہے اور اس پر انھیں اللہ کے ہاں اجر ملنے کی بھی توقع کی جا سکتی ہے۔ ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ ایک صحیح العمل مسلمان کے لیے جو عمل قبیح ہوتا ہے، وہ بعض دفعہ کچھ دوسرے لوگوں کی نسبت سے اچھا بھی ہو سکتا ہے اور اس کی مثال یہ ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ قرآن مجید کو سونے چاندی سے مزین کرنے کو مکروہ قرار دیتے تھے، لیکن جب ان سے بعض امراء کے متعلق پوچھا گیا کہ اس نے مصحف کی تیاری پر ایک ہزار دینار خرچ کیے ہیں تو امام احمد نے کہا کہ یہ وہ بہترین مصرف ہے جس پر یہ لوگ سونا خرچ کر سکتے ہیں۔ مراد یہ تھی کہ اگر وہ یہ رقم قرآن پر نہیں خرچ کریں گے تو کسی دوسری کتاب پر کریں گے جس میں کئی مفاسد ہو سکتے ہیں۔
ابن تیمیہ اس سے یہ اخذ کرتے ہیں کہ شریعت میں معروف اور منکر کے مختلف مراتب کو سمجھنا بہت ضروری ہے اور ان کے باہمی تصادم کی صورت میں اہم تر مصلحت کو ملحوظ رکھنا اس علم کی اصل حقیقت ہے جو انبیاء ورسل لے کر آئے ہیں۔ ابن تیمیہ مزید لکھتے ہیں کہ اگر لوگ کسی منکر اور بدعت میں مبتلا ہوں تو انھیں سنت اور معروف کی طرف دعوت دیتے ہوئے یہ پیش نظر رکھنا لازم ہے کہ آیا وہ اس منکر کو چھوڑ کر کسی معروف کی طرف آئیں گے یا اس سے بھی برے کسی کام کی طرف مائل ہو جائیں گے۔ اگر اس دوسری بات کا خدشہ ہو تو انھیں ترک منکر کی دعوت نہیں دینی چاہیے، بلکہ بدعت میں اگر کوئی خیر کا پہلو ہو تو (اسے بالکل ترک کرنے کا مطالبہ کرنے کے بجائے) بقدر امکان اس میں خیر کے پہلووں کا اضافہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، کیونکہ نفوس کسی چیز کو کسی دوسری چیز کے عوض میں ہی چھوڑنے پر آمادہ ہوتے ہیں۔
ابن تیمیہ کی اصل عبارت یہ ہے۔
ہمارے ہاں  میلاد منانے کے حوالے سے عموما غلو کی شکایت کی جاتی ہے جو درست ہے، لیکن یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ یہ غلو کہیں  کسی دوسرے غلو کا ردعمل تو نہیں؟ شیخ احمد سرہندی سے لے کر حاجی امداد اللہ مہاجر مکی تک بدعات ورسوم کی اصلاح کی جدوجہد کرنے والے بڑے بڑے بزرگان دین نے مولود وغیرہ کو کسی بہت بڑی بدعت کے طور پر نہیں لیا، اگرچہ ناروا تصورات اور رسوم اس کے ساتھ اس وقت بھی وابستہ تھیں۔ تاہم جب اس کے زوائد ولواحق کو زیادہ اہمیت دیتے ہوئے نفس میلاد کو بدعت قرار دیا گیا تو اس کا رد عمل پیدا ہونا ناگزیر تھا، اور دوسری انتہا یہی بنتی تھی کہ اسے سنی اور عاشق رسول ہونے کا معیار قرار دے دیا جائے۔ فافہموا وتدبروا

محمد عمار خان ناصر

محمد عمار خان ناصر گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ کے شعبہ علوم اسلامیہ میں تدریس کے فرائض انجام دیتے ہیں۔
aknasir2003@yahoo.com

فیصد کمنٹس

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں

  • ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ ایسی رسوم فی نفسہ بدعت اور ناجائز ہیں، لیکن ان کا محرک ایک اچھی نیت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت کا جذبہ ہوتا ہے جو اپنی جگہ قابل قدر ہے اور اس پر انھیں اللہ کے ہاں اجر ملنے کی بھی توقع کی جا سکتی ہے
    محترم ایسی صورت کہ ایک اچھی نیت کی بنیاد پر ناجائز عمل کا ارتکاب ایک ہی وقت میں ثواب و گناہ کا مستحق ہونا کیسا ہے ؟

    • یہاں اصل میں ثواب اس عمل کا نہیں، بلکہ اس نیت کا ہے جو اس عمل کا محرک ہے۔ عمل تو فی نفسہ مستحق ثواب نہیں بلکہ مستحق عقاب ہے، لیکن اچھی نیت کی وجہ سے عمل کی سزا گویا محو کر دی جاتی ہے۔