مولانا وقار احمد
ناشر : سنگ میل پبلیکیشنز لاہور ، 2008ء
یہ کتاب مولانا مناظر احسن گیلانی ؒ کی تصنیف لطیف ہے، مولانا مناظر احسن گیلانی برصغیر کے ممتاز علماء میں شمار ہوتے ہیں، آپ دار العلوم دیوبند کے خیر القرون کے زمانے کے فاضل ، اور شیخ الہند مولانا محمود حسن کے نمایاں شاگردوں میں سے تھے۔ مولانا گیلانی یکم اکتوبر 1892ء کو موضع استھانواں ضلع نالندہ میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم اپنے چچا مولانا حکیم ابو النصر سے حاصل کی، اس کے بعد مدرسہ خلیلیہ ٹونک میں اپنے زمانے کے مروجہ علوم مولانا حکیم برکات احمد سے حاصل کیے، اور آخر میں تکمیل علوم کے لیے دار العلوم دیوبند تشریف لے گئے، جہاں انہیں شیخ الہند مولانا محمود حسن ، علامہ انور شاہ کاشمیری اور دیگر مشاہیر کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا۔ اس کے بعد کچھ عرصہ دیوبند میں ہی ” القاسم ” اور ” الرشید” کی ادارت کی خدمت سر انجام دی، بعد ازاں “عثمانیہ یونیورسٹی” حیدر آباد چلے گئے، اور 1949ء میں وہاں سے ریٹائر ہوئے۔ مولانا نے بیسیوں کتابیں اور مقالات تحریر کیے ہیں ، چند مشہور کتب درج ذیل ہیں:
- سوانح ِ قاسمی(3جلدیں) ،
- ہزار سال پہلے
- احاطہ دار العلوم میں بیتے ہوئے دن
- اسلامی معاشیات
- ہندوستان میں مسلمانوں کا نظامِ تعلیم و تربیت (2 جلدیں)
- اما م ابو حنیفہؒ کی سیاسی زندگی۔
- تدوین حدیث
- تدوین قرآن۔
- تذکیر سورۃ الکہف
- ادب قرآنی
- تورات کے دس احکام اور قرآن کے دس احکام
- روز اور قرآن
- النبی الخاتم۔
- دربار نبوت کی حاضری۔
- مسلمانوں کی فرقہ بندیوں کا افسانہ
- مقالات احسانی
- الدین القیم
- تدوین فقہ
- تذکرہ شاہ ولی اللہ[1]
مولانا مناظر احسن گیلانی کی یہ کتاب برصغیر کے نظام تعلیم و تربیت پر اپنی نوعیت کی منفرد کتاب ہے، اس جامعیت کے ساتھ نہ تو اس سے پہلے کوئی کتاب لکھی گئی ہے، اور نہ ہی اس کے بعد اب تک کوئی کتاب لکھی گئی ہے۔ مولانا گیلانی نے کتاب میں کوئی ابواب بندی یا عنوانات کا اہتمام نہیں کیا، بلکہ ایک مسلسل عبارت ہے، گویا کہ علوم کا سمندر ہے جو کہ بہتا چلا جا رہا ہے، چنانچہ کتاب کے کئی ایڈیشن بغیر ابواب بندی و عنوانات کے ہی شائع ہوئے، بعد ازاں مفتی عتیق الرحمان عثمانی ناظم دار المصنفین کی ایماء پر مولانا مفتی ظفیر اللہ مفتاحی نے کتاب پر عنوانات لگائے ہیں، جو کہ انتہائی مشکل کام تھا۔ مولانا مفتاحی ان مشکلات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
” حضرت گیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی مسلسل عبارت کا ٹکڑے کر کے عنوان لگانا کوئی آسان کام نہیں تھا، اس لیے غلطیوں کا امکان ہے، اسی طرح ترجمہ میں بھی بعض جگہ بڑی دقتیں پیش آئیں، بہر حال اللہ تعالیٰ میری یہ حقیر خدمت قبول فرمائیں۔”[2]
اس منفرد کتاب کا تعارف کرواتے ہوئے ، ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہاں پوری لکھتے ہیں:
“ہندوستان کو وطن بنانے کے بعد مسلمانوں نے اس ملک میں تعلیم و تربیت کا جو نظام قائم کیا تھا، اس کتاب میں اس کی عجیب و غریب خصوصیات کو صحیح اور معتبر تاریخی شہادتوں کی روشنی میں پیش کیا گیا ہے۔ اساتذہ ، طلبہ طریقہ تعلیم ، نصابی ٹغیرات طلبہ کے قیام و طعام کتابوں کی فراہمی کے انتظامات ان کلی مباحث کے ساتھ کتاب میں مسلمانوں سے پہلے اس ملک میں کاغذ کا فقدان کاغذ سازی کے کارخانے، کاغذ کے اقسام ، سلاطین اور علما کا تعلیم سے تعلق، ہندوستان میں تعلیمی نصاب کی ہر زمانے میں افادے کے لحاظ سے برتری بیرون ہند کے اسلامی ممالک میں ہندوستانی علما کا امتیاز و تفوق ان کے سوا بلامبالغہ بیسیوں نکات و حقائق جن کا مختلف مسائل سے تعلق ہے ، اس کتاب میں پہلی دفعہ پیش کیے گئے ہیں۔”[3]
مولانا عتیق الرحمن عثمانی کتاب کا تعارف کرواتے ہوئے لکھتے ہیں:
” اس کتاب میں مولانا موصوف نے نہایت جامعیت اور تفصیل سے اپنے مخصوص طرز انشا میں یہ بتایا ہے کہ ہندوستان میں شروع سے لے کر اب تک مسلمانوں کا نظام تعلیم و تربیت کیا رہا ہے۔ نصاب تعلیم میں کن کن علوم وفنون کا درس شامل ہوتا تھا؟ طریق تعلیم کیا تھا؟ طلبہ کے قیام و طعام کا کیا بندوبست تھا؟ اساتذہ اور طلبہ کے آپس کے تعلقات کس نوعیت کےہوتے تھے۔ عام لوگ اور امراء و اعیان ملک ان طلباء کو کس نگاہ سے دیکھتے تھے۔ پھر تعلیم کے ساتھ ساتھ اخلاقی تربیت اور تزکیہ نفس کا بھی کتنا اہتمام ہوتا تھا۔ غرض تعلیم و تعلیم سے متعلق بحث کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے ، جو تشنہ رہ گیا ہو۔ اور جس پر فاضل مصنف نے سیر حاصل کلام نہ کیا ہو۔ بے شبہ اردو لٹریچر میں یہ پہلی کتاب ہے جس میں اس جامعیت سے ہمارے گذشتہ نظام تعلیم و تربیت پر بحث کی گئی ہے۔”[4]
کتاب کے اہم خصائص :
مولانا گیلانی نے یہ ضخیم کتاب صرف بیس دنوں میں تیار کی ہے، مولانا لکھتے ہیں:
” – وہ بھی کل بیس دن کی یہ محنت ہے۔ طلبہ امتحان کی تیاریوں میں مصروف ہیں، اسی میں کچھ فرصت ہمدست ہوئی، لکھتا چلا گیا، اور اسی مسودہ کو پریس میں بھیج رہا ہوں۔ عجلت ہی کی وجہ سے فارسی کے اقتباسی و استدلالی فقرات کا ترجمہ بھی نہ کر سکا۔” [5]
اس کتاب میں انتہائی جامعیت اور تفصیل کے ساتھ مسلمانوں کے نظام تعلیم و تربیت کی تاریخ پیش کر دی گئی ہے۔
مسلمانان برصغیر پر تاریخی و دینی حوالے سے ہونے والے اعتراضات کا مدبرانہ و محققانہ جواب دیا گیا ہے۔ خود مولانا گیلانی لکھتے ہیں:
” ان کے سوا تصوف اور صوفیاء کے متعلق جن بدگمانیوں کے ازالہ کی کوشش کی گئی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ وہی لوگ نہیں جو ان بزرگوں سے عقیدت رکھتے ہیں، بلکہ روٹھے ہوؤں سے بھی عرض ہے کہ ٹھنڈے دل سے تخلیٰ بالطبع ہو کر آپ کو واقعات پر غور کرنا چاہیے۔ ان امور کے سوا اصل کتاب میں یا حواشی اور فٹ نوٹس میں جن جزئیات کا موقعہ موقعہ سے ذکر کرتا چلا آیا ہوں، میں سمجھتا ہوں کہ ان شاء اللہ مختلف غلط فہمیوں کا ازالہ ان سے ہو گا۔” [6]
نظریہ وحدت تعلیم
انگریزی عہد میں برصغیر کا نظام و نصاب تعلیم مختلف طبقاتی و نظریاتی بنیادوں پر تقسیم ہو گیا تھا، جس کی وجہ سے آج تک یہاں کا مسلمان مختلف فکری و طبقاتی گروہوں میں تقسیم ہے۔ یہ مسئلہ جس طرح آج موجود ہے، اسی طرح مولانا کے عہد میں بھی اپنی پوری قوت کے ساتھ موجود تھا، چنانچہ اس کتاب میں مولانا نے موجودہ اور قدیم نظام تعلیم کو سامنے رکھتے ہوئے ، برصغیر کے مسلمانوں کے لیے نیا نظام تعلیم پیش کیا، اور اسے ” نظریہ وحدت” تعلیم کا نام دیا۔ مولانا لکھتے ہیں:
“اس وقت جن تجویزوں کو اپنے دماغ میں رکھتا ہوں اور تفصیلی ذکر جن کا اپنی کتاب تعلیم و تربیت میں میں نے کیا ہے ان کا خلاصہ صرف یہ ہے کہ مسلمانوں میں تعلیم کے جو دو مستقل نظام (حکومت مسلطہ)کے قیام کے بعد جاری ہو گئے ہیں اسکی دوئی کو مٹا کر صرف ایک ہی نظام کو قبول کر لیا جائے اسی لئے اپنی تعلیمی تجویز کا نام میں نے”نظریہ وحدت نظام تعلیم”رکھا ہے۔”
اس وقت قوم جس طرح کی طبقاتی تقسیم میں منقسم ہے، اس میں یہ سوال بڑی اہمیت اختیار کر جاتا ہے کہ کس طرح یہ ممکن ہے کہ اس نظام تعلیم کو وحدت کی لڑی میں پرویا جائے اور مختلف نظامہائے تعلیم کو یکجا کیا جائے، خصوصا تعلیم میں قدیم اور جدید کی جو فکری خلیج ہے، اسے کیسے دور کیا جائے، مولانا نے اپنی کتاب میں اس کا تفصیلی جواب دیا ہے، اپنے خیالات کا حاصل بیان کرتے ہوئے مولانا لکھتے ہیں:
“میں نے اپنی کتاب میں بتایا ہےکہ حکومت مسلطہ سے قبل مسلمانان ہند میں تعلیم کا جو نظام قائم تھا۔ عام طور پر “درس نظامیہ”کے نام سے جسے شہرت حاصل ہوگئی ہے اس کے متعلق لوگوں کا یہ خیال صحیح نہیں ہےکہ وہ مسلمانوں کے صرف دینی تعلیم کا نظام تھا’میں نےتفصیل سے دکھایا ہےکہ درحقیقت اس نصاب میں اس عہد کی دفتری زبان فارسی کی نظم ونثروانشاء وغیرہ کی بیسییوں کتابوں کے ساتھ ساتھ حساب خطاطی وغیرہ کی مشق کرانے کے بعد اعلی تعلیم عربی زبان کی کتابوں کےذریعہ دی جاتی تھی ابتدا سے آخر تک اس زمانہ کے تعلیمی نصاب کے ختم کرنے کی مدت پندرہ سولہ سال سے کم نہ تھی۔اور اس پوری مدت تعلیم میں درس نظامیہ سے فارغ ہونے والے علماء صحیح معنوں میں خالص دینیات کی کل تین کتابیں پڑھا کرتے تھے یعنی چند مختصر فقہی متون کے سوا قرآن کے متعلق جلالین (جوعربی زبان میں قرآن کا ترجمہ اور مختصر حل ہے)حدیث کے متعلق مشکوۃ اور فقہ کے سلسلے میں گوبہ ظاہر نام تودوکتابوں کا لیا جاتا تھا یعنی شرح وقایہ اور ہدایہ لیکن ہدایہ کے ان ابواب کو نہیں پڑھایا جاتا تھا جو شرح وقایہ میں پڑھائے جاتے تھے اسی لئے میں کہتا ہوں کہ حکماوعلما یہ ایک ہی کتاب کی تعلیم تھی زیادہ سے زیادہ میرے اس بیان پر یہ اعتراض کیا جا سکتا ہےکہ ڈھائی پارے قرآن کےتفسیر بیضاوی کی مدد سے بھی پڑھائے جاتے تھے اولا یہ ڈھائی پارے ہر جگہ نہیں پڑھائے جاتے تھے خیر آبادی خانوادے میں صرف سوا پارہ بیضاوی کا جزونصاب تھا۔لیکن اگرمان لیا جائے کہ بیضاوی بھی قرآن کے متعلق ایک کتاب درس نظامیہ والوں کو پڑھائی جاتی تھی’ تو مطلب کیا ہوا ؟یہی تو کہ پندرہ سولہ سال کی مدت میں گویا خالص اسلامی دینیات کی چار کتابوں کا پڑھنادینی علوم سے مناسبت پیدا کرانے کے لئے کافی سمجھا جاتا تھا ان چار کتابوں کے سوا تعلیم کی اس طویل مدت میں طلباء جو کچھ پڑھتے تھے’فارسی (یعنی دفتری زبان)کی مذکورہ بالا بیسیوں نظم و نثر کی کتابوں کے سوا منطق ‘ فلسفہ ‘ ہئیت’ اقلیدس ‘ ادب عربی اور بعض ایسے عقلی و ادبی علوم جنہیں خود مسلمانوں نے ایجاد کیا تھا یعنی علم کلام اور علم اصول فقہ معانی وبیان وغیرہ ان ہی علوم وفنون کی اتنی کتابوں کا ختم کرنا ضروری تھا’جن میں صرف منطق وفلسفہ کی کتابوں کی تعداد آخر زمانہ میں چالیس پچاس سے متجاوزتھی۔
میں نے بزرگوں کے اسی طرزعمل کو پیش کرتے ہوئے یہ عرض کیا تھا کہ دینیات کی عمومی تعلیم کے لئے جب تین یا زیادہ سے زیادہ چار کتابوں کا پڑھ لینا کافی خیال کیا گیا تھا اور زیادہ وقت غیر دینی علوم ہی کی تعلیم میں صرف ہوتا تھا تو آج بھی کیا یہ ممکن نہیں ہےکہ غیر دینی علوم کے اس حصہ کو جس کے اکثر نظریات و مسائل مسترد ہو چکے ہیں،کم از کم دنیا میں ان کی مانگ باقی نہیں رہی ہے ان کو نکال کر عصر جدید کے مقبولہ علوم اور عہد حاضر کی دفتری زبان انگریزی کے نصاب کو قبول کر کے مذہب کی تعلیم کو ان ہی تین کتابوں کے معیار کے مطابق باقی رکھتے ہوئے دینی اور دنیاوی تعلیم کے مدارس کی اس تفریق کو ختم کر دیا جائے،”
مولانا کی اس تجویز پر تمام اہل علم کو عموما اور اہل مدارس کو خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ تاکہ وہ اپنے طلباء کو عصری تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے تیار کر سکیں۔
کتاب کے بعض تسامحات :
کتاب میں شمار خوبیوں کے ساتھ ساتھ بعض ایسے امور بھی آ گئے ہیں، جن کی وجہ سے کتاب سے اسفادے میں قدرے مشکل پیش آتی ہے۔ جن میں سے دو بنیادی امور کا ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے۔
کتاب کے مضامین کو بہت پھیلایا گیا ہے، بعض جگہ تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ کچھ چیزیں بغیر ضرورت کے طویل ہو گئی ہیں، خود مولانا کا اس کا احساس تھا، چنانچہ خود مولانا نے اہم مضامین کی تلخیص کرتے ہوئے کہا:
” مسلمانان ہند کے تعلیمی مشکلات ہی کا حل میری کتاب نظام تعلیم و تربیت میں پیش کیا گیا ہے۔جو سالہاسال کےغوروفکراورمختلف تعلیمی نظاموں کے تجربہ کے بعد مجھے معلوم ہواہے۔چونکہ کتاب دوجلدوں میں پھیل گئی ہےاس لئے اس کا خلاصہ پیش کرتا ہوں۔”
کتاب میں اس طوالت اور بات سے بات نکلنے کے وجہ سے مولانا کے انداز سے نامانوس لوگوں کے لیے استفادہ قدرے مشکل ہوتا ہے۔ مگر یہ چیز اس کتاب کی خوبی ہے۔ اور جب آدمی ایک دفعہ مولانا کے اسلوب سے مانوس ہو جائے تو پھر یہ انداز بڑا ہی دلچسپ اور شیریں ہیں۔
مولانا نے اپنی کتاب میں قدیم نظام تعلیم کے ساتھ اپنی گہری عقیدت کا اظہار کیا، جس کے نتیجے میں وہ قدیم نظام تعلیم پر ویسی تنقید نہ کر سکے، جس کی ضرورت تھی، یا جیسی تنقید انہوں نے جدید نظام پر کی ہے۔ اپنی تمام تر خوبیوں کے باوجود بہر حال قدیم نظام تعلیم میں کوئی تو ایسی خامی تھی، جس کی بناء پر وہ زمانے کا ساتھ نہ دے سکا، اور اپنے ہی دیس میں اجنبی ہو گیا۔
الحاصل مسلمانان برصغیر کے ذخیرہ کتب میں یہ ایک ایسی کتاب ہے، جسے ہر سطح کے معلم کو زیر مطالعہ رکھنا چاہیے، اس سے اپنی علمی تاریخ ، نظام تعلیم ، نصاب تعلیم اور زمانے کے ساتھ ساتھ اس میں آنے والی تبدیلیوں کے احوال معلوم ہوں گئے۔ جو کہ ایک بہتر تعلیمی ماحول بنانے اور اپنے نصاب ونظام کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے میں معاون ہوں گئے۔
اس کتاب کی متعدد خوبیوں کی بناء پر ضرورت ہے کہ اس پر پی ایچ ڈی سطح کی تحقیق و تنقید ہو، تاکہ مولانا کی پیش کی گئی تاریخ، و تجاویز زیادہ بہتر انداز میں سامنے آئیں۔ اور کتاب کے مختلف پہلو مزید نکھر سکیں۔
اسی طرح کتاب کی تدوین نو، اور کتاب میں پیش کیے گئے حوالہ جات کی تخریج بھی ضروری ہے۔ دعا ہے کہ اللہ کریم کسی صاحب علم کو اس طرف متوجہ فرما دے۔
[1] ۔ مولانا کے تفصیلی حالات زندگی کے لیے ملاحظہ ہو، “حیات گیلانی ” از مفتی ظفیر الدین مفتاحی
[2] ۔ مسلمانوں کا نظام تعلیم و تربیت ، عرض حال از محمد ظفیر اللہ مفتاحی
[3] ۔ ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہانپوری، مولانا سید مناظر احسن گیلانی شخصیت اور سوانح ، ص 62
[4] ۔ مسلمانوں کا نظام تعلیم و تربیت ص 32
[5] ۔ مسلمانوں کا نظام تعلیم و تربیت ، ص 34
[6] ۔ مسلمانوں کا نظام تعلیم و تربیت، ص 34، 35
It’s a famous quote before reading any must know who’s the author Dr Shb have great writing skills, also have well knowledge on such topics. I say Thanks to for sharing such a valuable stuff. Will love to read more writing s of Prof Waqar Ahmad Shb. Also I would like to say thanks this Madras a discourses platform originators due their efforts we get great reading stuff .
It’s Too tough to write comment, may please make it bit easier
السلام علیکم۔
بہت عمدہ تعارف عنایت کیا ہے۔کتاب کو پڑھنے کا اشتیاق دوچند ہوگیا ہے۔براہ کرم اس کتاب کو پی ڈی ایف میں منتقل کیا جائے۔تاکہ افادہ عام ہوسکے۔جزاک اللہ۔