غیرمسلم تہواروں میں شرکت کا مسئلہ
فقہاء نے نصوص کی روشنی میں غیر مسلم تہواروں اور سماجی تقریبات میں مسلمانوں کی شرکت کے حدود و ضوابط طے کرنے کی کوشش کی ہے۔ فقہ کی کتابوں میں اہل ذمہ کے ساتھ تعلقات ومعاملات کی نوعیت کے ضمن میں یہ بحث ملتی ہے ۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ فقہا کی اکثریت کی نظر میں غیر مسلم تہواروں میں مسلمانوں کی شرکت کا جواز نہیں ہے۔ کیوں کہ یہ تہوار مذہبی نوعیت کے ہوتے ہیں ۔ان میں غیر اسلامی اور شرک پرمبنی امور انجام دیئے جاتے ہیں۔ فقہاء و محدثین نے قرآن کی آیت: ’’والذین لا یشہدون الزور رحمان کے بندے ’’زُور‘‘(جھوٹ یا باطل چیز)کا مشاہدہ نہیں کرتے۔(الفرقان:72) رسول اللہ ﷺ کی مختلف احادیث سے مسلمانوں کی غیر مسلم تہواروں میں شرکت کے حرام و ممنوع ہونے پر استدلال کیا ہے۔حضرت عمرؓ سے مروی ہے :’’اجتنبوا اعداء اللّٰہ فی عیدہم۔’’ اللہ کے دشمنوں سے ان کے تہوار میں دور رہو۔ اس طرح کی دیگر آثار و روایات پر تفصیلی بحث علامہ ابن تیمیہؒ نے اپنی مشہور کتاب: اقتضاء الصراط المستقیم میں کی ہے۔ اس موضوع پر اسلاف میں سب سے زیادہ تفصیل سے انہوں نے ہی لکھا ہے، اور سختی کے ساتھ مسلمانوں کو اس عمل سے روکا ہے کہ وہ شریعت کی نظر میں حرام و ممنوع اور غضب الٰہی کا ذریعہ ہے۔
یہی موقف کم و بیش اکثر جدید و قدیم علماء کا ہے۔ 2004 میں اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا نے ’’غیر مسلم ممالک میں آباد مسلمانوں کے کچھ اہم مسائل‘‘ پر ایک سمینار منعقد کیا تھا، اس میں بحث کا ایک موضوع یہ بھی تھا۔ اس موقع پر پیش کردہ اکثر آراء میں اسی موقف کو اختیار کیاگیا ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس موضوع پر فقہی نقطہ نظر میں شدت پائی جاتی ہے اور اس شدت کی ایک بڑی بنیاد غیر مسلموں کے حوالے سے وہی ذمہ کا تصور ہے جس کا حوالہ اوپر آیاجو اسلام کے سیاسی وثقافتی غلبے کے ماحول سے مربوط ہے جس کے تناظر میں یہ فقہی احکامات مرتب ہوئے۔پھر اسی کی پیروی فتاوی عالم گیری اور ہندوستان میں مرتب ہونے والی دوسری فقہ وفتاوی کی کتابوں میں کی گئی۔حالاں کہ یہاں کی صورت حال بالکل مختلف تھی۔ یہاں مسلمان عددی طور پراقلیت میں تھے۔اور اس وجہ سے یہاں سیاسی غلبے کی صورت حال متوقع طورپربہت کمزورتھی۔
بہرحال غیرمسلم تہواروں میں شرکت کے حوالے سے یہاں صرف چندقابل ملاحظہ نکات پراکتفا کیا جاتا ہے۔ضرورت اس موضوع پرتفصیلی تحریروں کی ہے
غیر مسلموں کی تمام تر تقریبات مذہبی نوعیت کی نہیں ہیں ۔بہت سی تقریبات اور تہوار وہ ہیں جن کی حقیقت سماجی یا نیم مذہبی ہے۔ شادی، غم ، بچے کی پیدائش، سال گرہ، افتتاح دکان و مکان، مختلف مواقع پر کئے جانے والے رسوم و رواج جو اجتماعی شکل میں انجام دیئے جاتے ہیں۔ ان میں غیر اسلامی امور سے اجتناب کرتے ہوئے شرکت میں بظاہر کوئی حرج نظر نہیں آتا۔ایسی رسوم و تقریبات کا مسلمانوں میں بھی شیوع ہوچکا ہے، جو لہو و لعب کے ہم معنی ہیں لیکن ان میں شرکت شرکیہ تہواروں میں شرکت کے مترادف نہیں ہے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ غیر مسلم مذہبی تہواروں میں شرکت کے اطلاق کی صورتوں کی تعیین ضروری ہے ۔ ہولی یا دیوالی کے موقعوں پر اگر ایک مسلمان غیر مسلم کے گھر دعوت قبول کرتا ہے۔ ان کے مذہبی رسوم میں شریک ہو کر ان کی خوشیاں بانٹتا، ان کو تحفے دیتا اور قبول کرتا ہے تو کیا یہ شکل شرعا حرام و ناجائز ہوگی؟ ایک مشترکہ سماج میں علاحدگی کی یہ شکل ممکن نہیں ہے کہ آپ غیر مسلموں کے اصرار پر بھی ایسے مواقع میں ان کے گھر جانے اور ان کی دعوت قبول کرنے سے احتراز کریں۔ ہندوستان سمیت ایسے ملکوں میں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں،بین ثقافتی روابط کی جو اہمیت ہے وہ کسی پر مخفی نہیں۔ ان کی بعض ایسی شکلوں سے دوری کی بنا پر،جن میں غور و فکر کر کے گنجائش نکالی جا سکتی ہے، مسلمان سماج کے حاشیے پر آجائیں گے جو ان کی سماجی، معاشی اور خود دینی زندگی کے لیے بھی مشکلات آفریں ہوگی۔
فقہاء نے غیر مسلموں کے تہواروں اور تقریبات میں دکان یا سبیلیں وغیرہ لگانے اور تجارتی سطح پر منافع حاصل کرنے کی اجازت دی ہے، جو ایک طرح سے ان میں شرکت اور وسیع طور پر تعاون علی الاثم کی شکل نظرآتی ہے۔ اس کے پیش نظر ایک سوال یہ ہے کہ غیر مسلموں کے میلو ں ٹھیلوں میں ،جو بنیادی طور پر تو کسی مذہبی تہوار کاہی ضمیمہ ہوتے ہیں لیکن ان کا مقصد عوامی سطح پر سماجی تفریحات مہیاکرنا ہوتا ہے، ایسے میلوں ٹھیلوں میں مسلم عوام کی شرکت غیر مسلم تہواروں میں شرکت کے ہم معنی ہوگی؟ مسلم عوام کی بڑی تعداد ایسے میلوں اور پروگراموں میں شریک ہوتی ہے۔ ان میں ہونے والے کھیل تماشوں سے لطف اٹھاتی ہے۔ ان کھیل تماشوں میں بعض کا پس منظر مذہبی ہوتا ہے، جیسے ’’رام لیلا‘ ‘ کا پروگرام جو رام کی راون پر فتح کی یاد میں منایاجاتا ہے۔ایسے ہی عیسائی حضرات عیسی علیہ السلام کی یوم پیدائش کے موقع پر مبنی ڈرامے(plays)پیش کرتے ہیں ۔کیا ان کا دیکھنا غیر مسلم تہواروں میں شرکت کے مترادف ہوگا اور ’’شہادت زور‘‘کہلائے گا،جیسا کہ بعض علما کی رایے سے مترشح ہوتاہے؟ میرے خیال میں ایسا نہیں ہے۔ یہ اور اس طرح کے متعدد امور ہیں جن کو اصحاب علم وافتا کے غوروفکر کا موضوع بننا چاہیے۔جیسے غیرمسلموں کوان کے تہواروں پرمبارک باد دینا اور تحائف کا تبادلہ وغیرہ۔
اس تعلق سے یوروپین افتا کونسل اور بعض دوسرے فقہ وفتاوی کے اداروں کوبھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے جنہوں نے مصالح شریعت اور آج کے مشترکہ سماج کے تقاضوں کوپیش نظررکھتے ہوئے اس حوالے سے اپنا فقہی موقف طےکرنے کی کوشش کی ہے۔
ثقافتی شناخت کا مسئلہ
غیرمسلم ممالک میں اقامت پذیرمسلمانوں کودرپیش ایک اہم مسئلہ وہ ہے جس کا تعلق مسلمانوں کی تہذیب وثقافت سے ہے۔ان میں سے اکثر ممالک میں بعض استثنا کے ساتھ مسلم اقلیتوں کو اپنی ثقافتی شناخت اور تہذیبی تشخص کے ساتھ دستوری سطح پرجینے کی آزادی حاصل ہے۔تاہم عملی صورت حال یہ ہے کہ وہاں کی بڑی اکثریت خواہ وہ کتنی ہی سیکولر اور غیر جانب دار کیوں نہ ہو مسلمانوں کے انفرادی تشخص پر اصر ار کو صحیح نگاہ سے نہیں دیکھتی۔چناںچہ اس کا ایک بڑا طبقہ مسلمانوں کے تہذیبی انضمام پرزور دیتا ہے۔اور اس کے برعکس رویے کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔خود مسلمانوں کی صورت حال یہ ہے کہ ان کےاندر غالبا تین طرح کے طبقات پائے جاتے ہیں:
ایک طبقہ تووہی ہے جو مکمل انضمام کا قائل ہے۔چناں چہ اس نے پوری طرح مغربی بودوباش اورتہذیبی اقدار کو اختیار کرلیا ہے جب کہ اس کے مقابلے میں دوسرا طبقہ تحفظ پسندوں پر مشتمل ہے۔وہ اپنی ثقافتی زندگی کے توسیعی پہلؤں کے حوالے سے بھی ان کے ساتھ مصالحت کے لیے تیار نہیں ہے۔ان کے علاوہ جو متوسط طبقہ ہے ،اس کے سامنے واضح خطوط نہیں ہیں کہ جن کی بنیاد پر وہ اس ماحول میں ایک مکمل اسلامی زندگی گزارنے کا یقین اپنے ذہن میں پیدا کرسکے۔اس تعلق سے ضروری ہے کہ ثقافت اورتہذیب کے روایتی تصورات کو خالص شرعی اصولوں کی روشنی میں معرض بحث میں لانے کی کوشش کی جائے۔
ہمیں معلوم ہے کہ حالیہ عرصے تک عورت ومرد کے لباس اوربودوباش کے مختلف طرز واسلوب پر فقہی تناظر میں بحث کی جاتی رہی ہے۔اس حوالے سے غیر مسلموں کے ساتھ مشابہت اختیار کرنے کی اصولی بحثیں ہمارے علمی حلقوں میں ہوتی رہی ہیں۔راقم الحروف کی نگاہ میں اس مسئلے میں کافی غلوپایا جاتا ہے جس سے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔یہ رائے زیادہ قومی معلوم ہوتی رہی ہے کہ دراصل تشبہ کسی قوم کے مذہبی شعارات کی تقلید اور ان کو اختیار کرنے کا نام ہے۔ اس میں اصولی طور پروہ چیزیں داخل نہیں ہیں جو جغرافیائی صورت حال ، تاریخی وراثت اور مقامی روایات کی بنیاد پرکسی قوم کی ثقافت کا حصہ بن جاتی ہیں۔
اسی حوالے سے اس اہم سوال پرغورکرنا ضروری ہے کہ ثقافت یااسلامی ثقافت کا تصور علاقائی ہے یا عالمی۔دوسرے لفظوں میں اسلام کے تہذیبی تصور کے مطابق جغرافیائی امتیازات سے قطع نظر کیا پوری دنیا کی اسلامی ثقافت میں ہمہ رنگی اور وحدت ویکسانیت مطلوب ہے؟ میرے خیال میں ایسا ہرگز نہیں ہے۔ کیوں کہ یہ سرے سے ممکن نہیں ہے۔ثقافت کے تصور میں پائے جانے والی افراط و تفریط کے حوالے سے بھی مشترکہ سماج خصوصا یورپ اور امریکا کے ممالک میں مسلمانوں کو مسائل درپیش ہیں۔ ایسے بہت سے امور ہیں جودراصل ثقافت سے تعلق رکھتے ہیں اور جن کے مظاہر میں ایک حد تک تغیر کا پیدا ہوتا رہنا فطرت کا تقاضا ہے؛ ان کوبعض حلقوں میں دین کادرجہ دے دیا گیا ہے۔اور اس سے متعدد مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ اس مسئلے کو فقہ پرہونے والی نئی بحثوں میں شامل کیا جانا چاہیے تاکہ ایک واضح نقطہ نظر سامنے آسکے۔
ثقافتی شناخت اور اس سے پیدا ہونے والے تشبہ کے مسئلےپر مختلف زاویوں سے غورکیا جاسکتا ہے۔غوروفکر کا ایک زاویہ وہ ہے جو علامہ ابن تیمیہ کی اس عبارت کوپیش نظررکھ کرطے کیاجاسکتا ہے۔وہ ’’اقتضا الصراط المستقیم’’ میں لکھتے ہیں:
’’غیر مسلموں کی مشابہت سے بچنے اوران سے امتیاز کا حکم صرف دین کے ظہور و غلبے کے بعدکی حالت میں ہے۔جب مسلمان شروع میں کمزور تھے۔ اس وقت اس کا حکم نہیں دیا گیا۔پھر جب دین کو غلبہ اور قوت حاصل ہوگئی تو اس کا حکم دیا گیا۔اسی طرح آج دارالحرب اور دارالکفر کے مسلمان غیر مسلموں سے ظاہری امتیاز برتنے کے حکم کے پابند نہیں ہیں۔ اس لیے کہ اس صورت میں ضرر کا اندیشہ ہے۔بلکہ بسا اوقات مسلمان کے لیے مناسب یا ضروری ہوگا کہ وہ ان کے ظاہری طور طریقوں میں شریک ہو اگرایسا کرنا دین کی مصالح یا صالح مقاصد کے تحت ہو۔’’
( مختصراقتضا ء الصراط المستقیم ص، 171)
کمنت کیجے