فرض کریں سالہاسال تک محبت میں گرفتار ایک فریق پر انکشاف ہوتا ہے کہ اس کا محبوب اس تمام عرصے میں بے وفائی کا مرتکب ہوتا رہا ہے، اس کا کسی دوسرے فرد سے بھی تعلق قائم رہا ہے۔
فرض کریں کہ دو پارٹنرز کئی سال مل کر کاروبار کرتے ہیں اور اس بات پر رشک کرتے ہیں کہ دونوں کے درمیان اعتبار کا ایک گہرا رشتہ قائم ہے۔ پھر اچانک کسی بدقسمت لمحے میں ایک فریق کو علم ہوتا ہے کہ اس کا پارٹنر کاروبار میں مسلسل فراڈ کرتا رہا ہے۔ اسے علم ہوتا ہے کہ دوسرا فریق خاموشی سے ڈھیر سارا نفع اپنے اکاؤنٹ میں منتقل کرتا رہا ہے۔
ایسے واقعات کے بعد انسان کا فوری ردعمل یہ ہوتا ہے کہ جس ماضی پر وہ اب تک یقین کرتا چلا آیا تھا، وہ ایک دم سے تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس کے تخیل میں جو تصاویر اور فوٹیج محفوظ تھیں، وہ سب جھوٹ ثابت ہوتی ہیں۔ وہ ہر بات کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور تشکیک کی اس حدت سے ماضی کی تمام یادیں بھاپ بن کر اڑ جاتی ہیں۔ وہ اپنے تخیل کو نئی تصاویر اور فوٹیج سے بھرنا شروع کر دیتا ہے۔ اس تمام عمل کے دوران وہ اپنا ماضی پھر سے تخلیق کر رہا ہوتا ہے۔
جب یہ صورتحال پیدا ہوتی ہے تو اس شخص کا ماضی اس کے حال اور مستقبل پر بھی اثرانداز ہونے لگتا ہے۔ بدلتا ماضی اس کے ہر رویے، ہر سوچ اور ہر فیصلے کا رخ بدل دیتا ہے۔ ہم تمام عمر تجربات سے گزرتے ہیں تو صرف اپنا حال یا مستقبل نہیں بدل رہے ہوتے بلکہ ماضی بھی مسلسل تبدیلی سے گزر رہا ہوتا ہے۔ فرض کریں کہ کچھ عرصے بعد انکشاف ہوتا ہے کہ محبوب یا پارٹنر دھوکہ نہیں دے رہا تھا بلکہ ایک بڑی غلط فہمی پیدا ہوئی تھی جو حالات کے تحت دور ہو جاتی ہے۔ اس مرحلے پر ماضی کی تبدیلی کا عمل پھر سے شروع ہوتا ہے۔ مگر ایسا بھی نہیں ہوتا کہ پرانا ماضی لوٹ آئے۔
اس دور کی بہت سی تصاویر اور ویڈیوز کا سرمایہ تو جل چکا ہوتا ہے، اب ایک نئے ماضی کی تخلیق شروع ہوتی ہے جس میں کچھ پرانا مال اور کچھ نیا سازوسامان ملا دیا جاتا ہے۔ بھرم ٹوٹنے کے دور میں یادوں کے خزانے میں نئی تصاویر اور ویڈیوز جمع ہو گئی تھیں۔ وہ اب ڈیلیٹ نہیں ہو سکتیں۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ انسان کا حال بھی بدل چکا ہوتا ہے۔
انسانی زندگی انفرادی اور اجتماعی سطح پر بہت پیچیدہ مظہر ہے جسے اگر سادگی سے سمجھنے کی کوشش کی جائے تو انسان بہت ہی غلط نتائج پر پہنچتا ہے۔ قوموں اور تہذیبوں کا معاملہ یہی ہوتا ہے۔ جب انہیں نئے چیلنج درپیش ہوتے ہیں تو وہ بھی ان کا مقابلہ کرتے وقت اپنے ماضی کو بدلتی ہیں تاکہ حال کو اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے قابل بنایا جا سکے۔ اس کے لیے تخلیقی سوچ کی ضرورت ہوتی ہے۔ نہ ہی ماضی کو یکسر مٹایا جا سکتا ہے اور نہ ہی ماضی کو اپنی پرانی حالت میں برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ جو طبقے یہ دو رستے اختیار کرتے ہیں، وہ نئے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔
ان دونوں طبقات کے ترجمان کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ یہ جمود کی قوتیں ثابت ہوتی ہیں جو سماج کو آگے بڑھنے سے روک دیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک قلیل طبقہ ایسا لازمی ہونا چاہیئے جو حال کے پیش نظر ماضی کو بھی تبدیل کرے اور پھر اسی ماضی کی روشنی میں حال اور مستقبل کی راہیں متعین کرے۔ صرف یہی طبقہ اس اہل ہوتا ہے کہ وہ جدید چیلنجز کا مقابلہ کر سکے۔ پاکستان میں دیکھا جائے تو مولانا مودودی اور ان کے بعد جاوید احمد غامدی اس انٹلیکچوئل کلاس میں شامل ہیں جنہوں نے مغربی تہذیب کے چیلنجز کا ادراک کرتے ہوئے ماضی کو بدلنے کی کوشش کی ہے۔
مولانا مودودی کا زیادہ فوکس کمیونسٹ نظریہ تھا جو مسلمانوں کی اجتماعی ذات کو بہا لے جانا چاہتا تھا۔ انہوں نے اس چیلنج کا مقابلہ کرتے ہوئے مسلمانوں کے ماضی کو نئے سرے سے تخلیق کرنے کی کوشش کی۔ جاوید احمد غامدی کی توجہ مغربی تہذیب کے ان ناگزیر پہلوؤں پر مرکوز ہے جو عالمی سطح پر مقبولیت حاصل کر چکی ہیں۔ ابھی تک دونوں ہی سماج کے ایک قلیل حصے کو ہی متاثر کر سکے ہیں۔ یہ بہت ضروری ہے کہ مزید دانشور سامنے آئیں جو جدید دور کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ماضی کو نئے سرے سے تخلیق کریں گے۔
یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ سماج کے رجعت پسند اور جدت پسند طبقات کے مقابلے میں ان تخلیقی لوگوں کو کتنی کامیابی ملتی ہے۔ کیونکہ مسلمانوں کو اس گلوبل ولیج میں اپنا ثقافتی وجود برقرار رکھنے کا جو چیلنج درپیش ہے وہ ایسی ڈھیروں شخصیات کے جنم سے مشروط ہے۔
کمنت کیجے